راہداری منصوبہ اور ممکنہ بے راہ رویاں

دنیا کی تاریخ میں جہاں بھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کامیاب ہوئی ہے، وہ آسان رہی نہ اس میں کوئی شارٹ کٹ آیا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

لاہور:
جو لوگ ہمارے نظام معیشت اور نظام سیاست کی خرابیوں کو سمجھتے ہیں، وہ 68 سال سے اس نظام میں تبدیلی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ایسے لوگ اس وقت تک جدوجہد کرتے رہیں گے جب تک یہ استحصالی نظام تبدیل نہ ہوجائے، بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں نظام کی تبدیلی کے لیے سنجیدہ مخلص اور نظریاتی جماعتوں کا فقدان ہے۔لہٰذانظام کی تبدیلی کی باتیں اندھیرے میں کالی بلی تلاش کرنے کے مترادف ہیں۔ یہ اعتراض یا تنقید غلط نہیں لیکن جو لوگ نظام بدلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ان کے پیش نظر عوام کی خواہشیں اور ضرورتیں ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں جہاں بھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کامیاب ہوئی ہے، وہ آسان رہی نہ اس میں کوئی شارٹ کٹ آیا ہے۔ لہٰذا یہ جدوجہد بہت طویل اور صبر آزما ہوتی ہے، عوام طویل المدتی جدوجہد سے کتراتے ہیں۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران طبقات عوام کو چھوٹی چھوٹی مراعات دے کر یا بڑے بڑے دعوے کرکے اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظام کی تبدیلی کی اس لامتناہی جدوجہد میں عوام کو ان ممکنہ مراعات سے محروم کردینا چاہیے جو حکمران طبقات اپنی بقا کے جواز کے طور پر عوام کو مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

یہ سوال ہمارے ذہن میں اس لیے آیا کہ پچھلے دنوں چین سے جو اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا ہے اگر اس معاہدے پر ایمانداری سے عمل کیا جائے اور اس میں کرپشن نہ ہونے دی جائے تو بلاشبہ عوام کو کچھ قیمتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں کیونکہ فوائد کا بڑا اور اصل حصہ تو معاہدے کے فریقوں اور ان کے طبقاتی ساتھیوں کو ہوتا ہے عوام کے حصے میں جو کچھ آتا ہے وہ ہے روزگار کے مواقعے۔ اگرچہ بے روزگاروں کی بھرمار کی وجہ سے روزگار بھی مقابلے کا شکار رہتا ہے اور بے روزگار کم اجرتوں پر کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن کسی نہ کسی صورت بے روزگاری میں کمی ہوتی ہے ہمارے محترم حکمران فرماتے ہیں کہ اس قسم کے بڑے منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب کہ ہر قدم پر ڈاکو لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ چین نے اپنی انقلابی روایات اور معاشی فلسفوں کو ترک کرکے 'سرمایہ دارانہ راہداری' اختیار کرلی ہے اور اس راہداری میں قدم قدم پر قزاقی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو بڑے منصوبوں میں ہونے والی اربوں کھربوں کی کرپشن کو روکے اور ایسے قومی اہمیت کے منصوبوں کو مانیٹر کرے ۔

ہماری عدلیہ نے کوشش کی لیکن کرپشن کے بڑے بڑے کیسوں میں عدلیہ فعال ہونے کے باوجود کرپشن کا خاتمہ نہ ہوسکا۔کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک طاقتور ادارہ ہے اگر وہ چاہے تو کرپشن کی ناک میں نکیل ڈال سکتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ادارہ ہمارے یکطرفہ طریقہ انتخاب کی وجہ سے عوام کے نمایندوں پر مشتمل نہیں رہا بلکہ اس کی ہیئت ترکیبی اشرافیائی مفادات کی ترجمان ہے اور عوام کے منتخب نمایندے قانون ساز اداروں میں پہنچ کر خواص کے نمایندے بن جاتے ہیں اور عوام اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔


اقتصادی راہداری کا یہ 46 ارب ڈالر کا منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو سبوتاژکرنے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں سرگرم ہیں یہ الزام یا خدشات اس لیے غلط نہیں ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی مفادات جہاں باپ کو بیٹے، بیٹے کو باپ، بھائی کو بھائی، بیوی کو شوہر کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں وہاں پڑوسیوں کو مخالف بنا دیتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن چونکہ اس معاہدے کے ایک بڑے اور بااثر ترین فریق (چین) کے مفادات اس سے وابستہ ہیں لہٰذا بیرونی مداخلت کی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔

ہاں اندر سے اگر اس کی مخالفت کالا باغ ڈیم طرز کی مخالفت بن جائے تو یہ معاہدہ واقعی مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے اس کی مخالفت کر رہی ہیں کہ اس کا روٹ تبدیل کرکے صرف ایک صوبے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ شکایت ویسی ہی ہے جیسے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے ۔ اس کا حل زبانی تردید نہیں ہے بلکہ روٹ کے حوالے سے تمام حقائق میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ عوام اس کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے جائز فیصلہ کرسکیں ورنہ یہ مسئلہ وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتا جائے گا۔

چونکہ منصوبہ اپنے حجم اور افادیت کے حوالے سے بہت بڑا ہے لہٰذا اس میں ہر حوالے سے شفافیت اور انصاف کو اولیت دی جانی چاہیے۔ ہماری سیاست پر چونکہ ایلیٹ اور اس کے چیلوں کا قبضہ ہے لہٰذا ان کی پوری کوشش ہوگی کہ اس منصوبے کے ثمرات سے وہ بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ہماری سیاسی روایات کے مطابق جب تک ''تمام پارٹنرز کو منصفانہ حصہ'' نہیں مل جاتا پھڈا اور پنگا جاری رہے گا اور یہ سب کچھ صوبوں اور عوام کے حقوق کے نام پر ہوگا۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا منطقی طور پر اس منصوبے سے بلوچستان کے غریب عوام کو سب سے زیادہ فائدہ ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے اس صوبے پر ہمیشہ سرداروں کا غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے غریب عوام ہمیشہ معاشی اور سیاسی طور پر بھی خانہ بدوش رہے ہیں اور دوسرے صوبوں کی طرح اس صوبے میں بھی عوام کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم رہا ہے۔ بلوچستان کی نوجوان نسل جو ہمیشہ سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کی شکار رہی ہے اور مایوسی کے عالم میں بغاوت تک پہنچی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ تاریک راہوں میں بھٹکنے کے بجائے اس موقعے سے فائدہ اٹھاکر اپنی محرومیاں دور یا کم کرنے کی کوشش کرے۔

یہ منصوبہ چاروں صوبوں کی یکساں افادیت کا حامل ہے اور طویل مدتی مفادات کا حامل ہے لہٰذا ہمارے ملک کی مخلص سنجیدہ اور عوام دوست طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس منصوبے کے ثمرات سے چاروں صوبوں کے عوام کو فائدہ حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کریں۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس منصوبے کی مخالفت برائے مخالفت سے دست بردار ہوں اور کھل کر عوام کو بتائیں کہ اس منصوبے کا روٹ کیسے اور کہاں تبدیل کیا گیا ہے یا جا رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو واضح طور پر یہ بتایا جائے کہ روٹ کی مبینہ تبدیلی سے عوام کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

چونکہ بے چارے عوام اپنی سیاسی اوقات کی وجہ سے کسی بھی منصوبے میں نہ فریق بن سکتے ہیں نہ اعتراض اٹھاسکتے ہیں اور ہمیشہ خواص عوام کے نام پر ہر منصوبے کے فریق بھی بن جاتے ہیں اور اپنے طبقاتی مفادات کے لیے اعتراض بھی اٹھاتے ہیں اور یہ منصوبہ طویل مدتی مفادات کا ہے لہٰذا وہ سارے عوام دوست حلقے خواہ ان کا تعلق کسی طبقہ فکر سے ہو اس منصوبے کو عوام کے مفادات کے مطابق بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں خاص طور پر میڈیا اس مسئلے پر عوام کے مفادات کی ترجمانی کرے۔
Load Next Story