شرمندگی ہوتی ہےامتحانی نتائج عام نہ کیے جائیں
ہرطالب علم کو اس کا نتیجہ ای میل بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نتائج یونی ورسٹی کی مطبوعات میں بھی شامل کیے جاتے ہیں
امتحان میں فیل ہونے والے طالب علموں کو اس وقت بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ان کے رزلٹ سے ساتھی طلبا واقف ہوجاتے ہیں۔ شرمندگی سے بچنے کے لیے کیمبرج یونی ورسٹی کے طالب علم انتظامیہ پر زور دے رہے ہیں کہ امتحانات کے نتائج عام نہ کیے جائیں۔ دنیا بھر کی یونی ورسٹیوں کی طرح کیمبرج میں بھی امتحانات کے نتائج نوٹس بورڈ پر لگا دیے جاتے ہیں، جہاں ہر طالب علم جان سکتا ہے کہ کس نے کتنے نمبر حاصل کیے ہیں، کون پاس ہوا ہے اور کون فیل۔
یونیورسٹی کی نتائج عام کرنے کی روایت کے خلاف طلبا نے ایک درخواست پر دستخط کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ تین روز کے دوران عرضداشت پر دستخط کرنے والے طلبا کی تعداد سات سو سے تجاوز کرگئی ہے۔ دستخطی مہم طلبا کےOur Grade, Our Choice نامی گروپ نے شروع کی ہے۔ عرضداشت پر دستخط کرنے والے طلبا کا کہنا ہے کہ نتائج عام کرنے سے ان کا پرائیویسی کا حق مجروح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اقدام ذہنی امراض میں مبتلا طالب علموں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ طلبا بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں جو اپنا پورا نام ظاہر نہ کیے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
اکیس سالہ نادیہ آئد کیمبرج یونی ورسٹی میں نفسیات کی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ نادیہ کا کہنا ہے کئی طالب علموں پر ان کا خراب رزلٹ دوسروں کے علم میں آجانے کی وجہ سے منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور وہ عدم اعتماد، مایوسی اور ذہنی اضطراب کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ نتائج عام ہونے سے طلبا کے درمیان مسابقت سازی کی فضا پروان چڑھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نوٹس دینے سے کتراتے ہیں اور امتحانات کی تیاری میں بھی ساتھیوں کی مدد نہیں کرتے۔ نادیہ خود بھی اس دستخطی مہم میں شامل ہیں۔
تئیس سالہ لوئس رینالڈز عمرانیات میں ایم فل کررہا ہے۔ پچھلے سال لوئس کو اپنا امتحانی نتیجہ عام ہونے پر خاصی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی کیوں کہ اس کے نمبراچھے نہیں آئے تھے۔ پھر یہ کہ لوئس کے مخالف طلبا نے نتیجہ سوشل میڈیا پر شائع کرکے اس کی شرمندگی کو فزوں تر کردیا تھا۔ لوئس کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال اس کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوئی تھی۔
2009ء میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی نے بھی امتحانی نتائج عام کرنے کی روایت ختم کردی تھی۔ یونی ورسٹی کو اس اقدام پر مجبور کرنے کے لیے طلبا نے ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ کا سہارا لیا تھا۔ طلبا کے گروپ کا کہنا ہے کہ دستخطی مہم کے نتیجے میں اگر کیمبرج کی انتظامیہ نے اوکسفرڈ کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے امتحانی نتائج عام کرنے کی روایت ترک نہ کی تو پھر قانون کا سہارا لیا جائے گا۔
یونیورسٹی کی نتائج عام کرنے کی روایت کے خلاف طلبا نے ایک درخواست پر دستخط کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ تین روز کے دوران عرضداشت پر دستخط کرنے والے طلبا کی تعداد سات سو سے تجاوز کرگئی ہے۔ دستخطی مہم طلبا کےOur Grade, Our Choice نامی گروپ نے شروع کی ہے۔ عرضداشت پر دستخط کرنے والے طلبا کا کہنا ہے کہ نتائج عام کرنے سے ان کا پرائیویسی کا حق مجروح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اقدام ذہنی امراض میں مبتلا طالب علموں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ طلبا بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں جو اپنا پورا نام ظاہر نہ کیے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
اکیس سالہ نادیہ آئد کیمبرج یونی ورسٹی میں نفسیات کی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ نادیہ کا کہنا ہے کئی طالب علموں پر ان کا خراب رزلٹ دوسروں کے علم میں آجانے کی وجہ سے منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور وہ عدم اعتماد، مایوسی اور ذہنی اضطراب کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ نتائج عام ہونے سے طلبا کے درمیان مسابقت سازی کی فضا پروان چڑھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نوٹس دینے سے کتراتے ہیں اور امتحانات کی تیاری میں بھی ساتھیوں کی مدد نہیں کرتے۔ نادیہ خود بھی اس دستخطی مہم میں شامل ہیں۔
تئیس سالہ لوئس رینالڈز عمرانیات میں ایم فل کررہا ہے۔ پچھلے سال لوئس کو اپنا امتحانی نتیجہ عام ہونے پر خاصی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی کیوں کہ اس کے نمبراچھے نہیں آئے تھے۔ پھر یہ کہ لوئس کے مخالف طلبا نے نتیجہ سوشل میڈیا پر شائع کرکے اس کی شرمندگی کو فزوں تر کردیا تھا۔ لوئس کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال اس کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوئی تھی۔
2009ء میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی نے بھی امتحانی نتائج عام کرنے کی روایت ختم کردی تھی۔ یونی ورسٹی کو اس اقدام پر مجبور کرنے کے لیے طلبا نے ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ کا سہارا لیا تھا۔ طلبا کے گروپ کا کہنا ہے کہ دستخطی مہم کے نتیجے میں اگر کیمبرج کی انتظامیہ نے اوکسفرڈ کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے امتحانی نتائج عام کرنے کی روایت ترک نہ کی تو پھر قانون کا سہارا لیا جائے گا۔