مسئلہ چنگ چی رکشے یا پھر اِس کو چلانے والے
ڈرائیوروں کی نااہلیت اور سرکاری بدانتظامی نے اس چلتی پھرتی چاند گاڑی کو وائرس بنا دیا ہے۔
PESHAWAR/DI KHAN:
کمپیوٹر میں وائرس گھس جائے تو اسپیڈ سلو ہوجاتی ہے لیکن اگر ٹریفک کی روانی میں چنگ چی رکشے بغیر کسی مناسب انتٕظام کے چھوڑ دیے جائیں تو یہ بھی کسی وائرس کی طرح ٹریفک کی فراوانی کو دھیما کردیتے ہیں۔ بیماری سمجھ آجائے تو علاج بھی آسان ہوجاتا ہے، وائرس سمجھ آجائے تو اینٹی وائرس بھی بن سکتا ہے اور دماغ میں ٹریفک کی روانی کی نئی ''ونڈو'' بھی انسٹال ہوسکتی ہے، لیکن چونکہ چنگ چی رکشے بذات خود وائرس نہیں بلکہ اصل نااہلی تو اِن کو چلانے والوں کی ہے اور سرکاری بدانتظامی نے اس چلتی پھرتی چاند گاڑی کو وائرس بنا دیا ہے، جو سڑکوں پر آتے ہی ایکٹو ہوجاتا ہے۔
چنگ چی رکشے کا آغاز پنجاب کے بورے والا سے ہوا ۔۔ کسی ''انجینئر'' نے ضرورت کو ایجاد کی ماں سمجھتے ہوئے ایک عدد باڈی بنا لی اور اس کے آگے موٹر سائیکل کو ایسے جتا جیسے گدھے گھوڑے کا سسٹم لگایا جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ چارہ کھانے کے بجائے یہ سواری پٹرول پر آ گئی۔ چنگ چی رکشوں نے پہلی بجلی تانگوں پر گرائی اور چنگ چی کے آنے پر تانگے ایسے ختم ہوگئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ چنگ چی کے اس وائرس کا سلسلہ پھر چنگیز خان کی فتوحات کی طرح جاری رہا اور آج وہ دن ہے جب پورے پنجاب کی سڑکوں پر چنگ چی کا راج ہے اور آہستہ آہستہ چنگ چی پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔
چنگ چی رکشے وائرس کیوں؟
زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو پتہ چل جائے گا کہ چنگ چی عوام کی چیخیں کیسے اور کیوں نکلواتے ہیں۔ سارا مسئلہ قانون کی عملداری نہ ہونے اور ٹرانسپورٹ میں جدت نہ لانے کا ہے۔ چنگ چی رکشے وائرس کیسے بنے آئیے دیکھتے ہیں۔۔
لاہور میں کتنی چاند گاڑیاں ہیں؟
آل پاکستان رکشہ ٹیکسی یونین فیڈریشن کے اندازے کے مطابق صرف لاہور میں چنگ چی رکشوں کی تعداد ایک لاکھ ہے اور تقریباً دو لاکھ لوگوں کا روزگار اس سواری سے وابستہ ہیں۔ پنجاب حکومت نے چنگ چی رکشوں کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لئے چاند گاڑیوں کی رجسٹریشن شروع کی تاکہ وائرس کا علاج ہو سکے، لیکن ابھی تک پنجاب حکومت سے کوئی اینٹی وائرس نہ بن سکا۔۔
پہلے چنگ چی کا معاملہ صرف پنجاب تک محدود تھا لیکن اب تو معاشی حب یعنی کراچی بھی اِس کے شر سے نہ بچ سکا ہے۔ بس اِس کی آمد نے شہر کے ٹریفک پر کس قدر کاری ضرب لگائی ہے اِس کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے کیونکہ چنگ چی کے فضائل مہذب زبان میں بتانا تو اب ناممکن ہی رہا ہے لیکن بہتری کی اُمید کے ساتھ خاموشی کو فوقیت دی جائے گی۔
چنگ چی رکشے، ٹریفک کا وائرس صرف اسی وجہ سے بنے ہیں کہ ان کو چلانے والوں کے دماغ میں قانون کی پابندی نہ کرنے کا وائرس گھس آیا ہے۔ چنگ چی رکشہ بذات خود اسی طرح بے ضرر ہے جس طرح وائرس۔ لیکن اصل علاج چنگ چی ڈرائیوروں کو قانون کا پابند بنانا ہے۔ چنگ چی رکشے چلانا لاکھوں لوگوں کا روزگار ہے، عوام کی سواری ہے اور لوگ باآسانی اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔۔ایک بڑی سہولت ہے، لیکن زحمت اس وقت بنتی ہے جب چنگ چی ڈرائیوروٕں کے دماغ میں ہٹ دھرمی کا وائرس سرایت کرجائے۔۔۔ چنگ چی رکشوں کی اذیت سالہا سال سے برداشت کرنے کے بعد میں حکومت کو اس کا ایک ایسا حل بتاتا ہوں جسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آوے چوکھا۔۔
چندتجاویز
[poll id="468"]
کمپیوٹر میں وائرس گھس جائے تو اسپیڈ سلو ہوجاتی ہے لیکن اگر ٹریفک کی روانی میں چنگ چی رکشے بغیر کسی مناسب انتٕظام کے چھوڑ دیے جائیں تو یہ بھی کسی وائرس کی طرح ٹریفک کی فراوانی کو دھیما کردیتے ہیں۔ بیماری سمجھ آجائے تو علاج بھی آسان ہوجاتا ہے، وائرس سمجھ آجائے تو اینٹی وائرس بھی بن سکتا ہے اور دماغ میں ٹریفک کی روانی کی نئی ''ونڈو'' بھی انسٹال ہوسکتی ہے، لیکن چونکہ چنگ چی رکشے بذات خود وائرس نہیں بلکہ اصل نااہلی تو اِن کو چلانے والوں کی ہے اور سرکاری بدانتظامی نے اس چلتی پھرتی چاند گاڑی کو وائرس بنا دیا ہے، جو سڑکوں پر آتے ہی ایکٹو ہوجاتا ہے۔
چنگ چی رکشے کا آغاز پنجاب کے بورے والا سے ہوا ۔۔ کسی ''انجینئر'' نے ضرورت کو ایجاد کی ماں سمجھتے ہوئے ایک عدد باڈی بنا لی اور اس کے آگے موٹر سائیکل کو ایسے جتا جیسے گدھے گھوڑے کا سسٹم لگایا جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ چارہ کھانے کے بجائے یہ سواری پٹرول پر آ گئی۔ چنگ چی رکشوں نے پہلی بجلی تانگوں پر گرائی اور چنگ چی کے آنے پر تانگے ایسے ختم ہوگئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ چنگ چی کے اس وائرس کا سلسلہ پھر چنگیز خان کی فتوحات کی طرح جاری رہا اور آج وہ دن ہے جب پورے پنجاب کی سڑکوں پر چنگ چی کا راج ہے اور آہستہ آہستہ چنگ چی پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔
چنگ چی رکشے وائرس کیوں؟
زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو پتہ چل جائے گا کہ چنگ چی عوام کی چیخیں کیسے اور کیوں نکلواتے ہیں۔ سارا مسئلہ قانون کی عملداری نہ ہونے اور ٹرانسپورٹ میں جدت نہ لانے کا ہے۔ چنگ چی رکشے وائرس کیسے بنے آئیے دیکھتے ہیں۔۔
- چنگ چی رکشے جگہ تو گاڑی کی لیتے ہیں لیکن موڑ موٹر سائیکل کی طرح کاٹتے ہیں اور پیچھے آنے والی گاڑی خوش قسمتی سے کبھی کبھار نقصان سے بچ جاتی ہے وگرنہ نقصان ہی نصیب کا حصہ ٹھہرتا ہے۔
- رکشہ چلانے والے غیر تربیت یافتہ ڈرائیور سواری کو اچانک بریک لگاتے ہیں تو پیچھے آنے والے شہری کی برداشت کی بریکیں فیل ہوجاتی ہے ۔۔ کوئی صلوات سناکر اور بدلے میں کچھ سن کر گزر جاتا ہے، تو کوئی نیچے اتر کر گریبان پکڑ لیتا ہے اور اس وقت تک لڑائی نہیں چھوٹتی جب تک تماشا دیکھنے والے شہریوں کا جی نہ بھر جائے۔
- شور کی آلودگی کو کان کے راستے دماغ تک پہنچانے کا سہرا بھی اسی سواری کے سر ہے۔ ایک طرف تو سائلنسر نکالے ہوتے ہیں تو دوسری طرف اونچی آواز میں پنجابی گانوں کا کان پھاڑ شور نقار خانے میں بولنے والے ساری طوطیوں کا گلا ہی دبا دیتا ہے۔ رات کی خاموشی میں خاموش اور اندھیری سڑکوں پر اگر آپ کے پاس سے کوئی تیز رفتار چنگ چی گزر جائے تو لگتا ہے آپ کو سپر سونک طیارے نے سلامی دی ہو۔۔
- یہ سستی سواری سڑک بلاک کرنے میں کوئی سُستی نہیں دکھاتی۔ چنگ چی رکشوں کی لائن سڑک کے طول و عرض پر ایسے چھائی ہوتی ہے کہ موٹر سائیکل والے کا گزرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔
- دوران ڈرائیونگ لوگ دو طرح کے کام کررہے ہوتے ہیں۔ ایک گاڑی ڈرائیو کرنا تو دوسرا ان چنگ چیوں سے دامن بچا کر نکلنا کیونکہ ان موٹر سائیکل کے پیچھے جو چھوٹا سا ''کنٹینر'' بندھا ہوتا ہے اس کی باڈی ہمالیہ سے بھی زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔۔ ہر کوئی بچ کر گزرتا ہے کیونکہ اگر ٹکرا جائے تو چنگ چی کا کچھ نہیں بگڑتا ہاں البتہ دوسری گاڑی کا حلیہ ضرور بگڑ جاتا ہے اور اسی لئے چنگ چی والے جان بوجھ کر دوسری گاڑیوں سے ٹکر لینے کے چکر میں آزاد ڈرائیونگ کرتے ہیں اور دوسروں کے خوف کو انجوائے کرتے ہیں۔
- رات کے اندھیرے میں دور سے آتا ہوا چنگ چی، موٹر سائیکل جیسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ میرے ایک جاننے والے کے ساتھ بھی ایک خوفناک حادثہ ایسے ہی ہوا۔ وہ خود موٹر سائیکل پر تھا اور اُسے مخالف سمت سے آنے والا رکشہ بھی موٹرسائیکل ہی لگا، بس پھر کیا تھا اندھیرے میں چنگ چی کا ''کنٹینر'' نظر ہی نہیں آیا، نتیجہ تصادم اور کئی ماہ بیڈ پر آرام کی صورت میں نکلا۔
لاہور میں کتنی چاند گاڑیاں ہیں؟
آل پاکستان رکشہ ٹیکسی یونین فیڈریشن کے اندازے کے مطابق صرف لاہور میں چنگ چی رکشوں کی تعداد ایک لاکھ ہے اور تقریباً دو لاکھ لوگوں کا روزگار اس سواری سے وابستہ ہیں۔ پنجاب حکومت نے چنگ چی رکشوں کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لئے چاند گاڑیوں کی رجسٹریشن شروع کی تاکہ وائرس کا علاج ہو سکے، لیکن ابھی تک پنجاب حکومت سے کوئی اینٹی وائرس نہ بن سکا۔۔
پہلے چنگ چی کا معاملہ صرف پنجاب تک محدود تھا لیکن اب تو معاشی حب یعنی کراچی بھی اِس کے شر سے نہ بچ سکا ہے۔ بس اِس کی آمد نے شہر کے ٹریفک پر کس قدر کاری ضرب لگائی ہے اِس کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے کیونکہ چنگ چی کے فضائل مہذب زبان میں بتانا تو اب ناممکن ہی رہا ہے لیکن بہتری کی اُمید کے ساتھ خاموشی کو فوقیت دی جائے گی۔
چنگ چی رکشے، ٹریفک کا وائرس صرف اسی وجہ سے بنے ہیں کہ ان کو چلانے والوں کے دماغ میں قانون کی پابندی نہ کرنے کا وائرس گھس آیا ہے۔ چنگ چی رکشہ بذات خود اسی طرح بے ضرر ہے جس طرح وائرس۔ لیکن اصل علاج چنگ چی ڈرائیوروں کو قانون کا پابند بنانا ہے۔ چنگ چی رکشے چلانا لاکھوں لوگوں کا روزگار ہے، عوام کی سواری ہے اور لوگ باآسانی اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔۔ایک بڑی سہولت ہے، لیکن زحمت اس وقت بنتی ہے جب چنگ چی ڈرائیوروٕں کے دماغ میں ہٹ دھرمی کا وائرس سرایت کرجائے۔۔۔ چنگ چی رکشوں کی اذیت سالہا سال سے برداشت کرنے کے بعد میں حکومت کو اس کا ایک ایسا حل بتاتا ہوں جسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آوے چوکھا۔۔
چندتجاویز
- چنگ چی رکشوں کے اسٹاپ اور روٹ مقرر کئے جائیں اور ہر ڈرائیور کو پابند کیا جائے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح روٹ کی پابندی کرے۔
- ٹریفک قوانین کی پابندی لازم کی جائے ۔۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر چنگ چی کی باڈی پر یہ لکھنا پابند کیا جائے کہ ''میری ڈرائیونگ سے متعلق شکایت اس ٹال فری نمبر پر کریں''۔ ٹریفک پولیس ٹال فری نمبر پر شکایت درج کرے اور چنگ چی والوں کو ٹریس کرکے اپنی زبان میں سمجھائے، چالان کرے، وارننگ دے یا انڈر آبزرویشن رکھے۔
- لائسنس کے بغیر رکشہ چلانے پر مکمل پابندی لگادی جائے۔ اگر کوئی کم عمر لڑکا ڈرائیونگ کرتا نظر آئے تو اس کی ڈرائیونگ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے عارضی پرمٹ جاری کیا جائے۔۔
- ہر موٹر سائیکل رکشے کو اپنی باڈی کے دونوں سروں پر بھی بلب لگانے کا پابند کیا جائے تاکہ رات کو سامنےسے آنے والوں کو پتہ چل سکے کہ یہ موٹر سائیکل نہیں بلکہ چاند گاڑی آ رہی ہے۔۔
- خاموش چنگ چی رکشے اگر خاموشی اور تہذیب کے ساتھ ڈرائیونگ کرنا شروع کردیں تو ٹریفک کا یہ وائرس تریاق میں بدل سکتا ہے، عوام کو سستی سواری مل سکتی ہے اور مسافروں کو خواری سے نجات۔۔۔
[poll id="468"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس