کراچی اور لاہورحقائق کے آئینے میں
لاہور کے مقابلے میں کراچی تاریخی شہر تو نہیں مگر ملکی بندرگاہوں کے سبب سب سے زیادہ کما کر ملک کو چلانے والا شہر بھی ہے
لاہور:
ملک کے دو بڑی آبادیوں والے شہر کراچی اور لاہور ہیں، کراچی نہ صرف ملک کا سب سے بڑا اور شہر قائد کہلانے والا اور لاہور ملک کا دوسرا اور لاہور لاہور ہے، کہلانے والا تاریخی شہر ہے۔
لاہور کے مقابلے میں کراچی تاریخی شہر تو نہیں مگر ملکی بندرگاہوں کے سبب سب سے زیادہ کما کر ملک کو چلانے والا شہر بھی ہے جس کی سابقہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے عوامی دور میں دنیا کا تیرہواں میگا سٹی قرار دیا گیا تھا۔ اسلام آباد سے قبل کراچی ملک کا دارالحکومت تھا جسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ اعزاز دیا تھا جب کہ لاہور ہمیشہ پنجاب کا دارالحکومت رہا، جہاں تاریخی عمارتوں کے علاوہ بادشاہی مسجد کے قریب مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا مزار بھی ہے جب کہ بابائے قوم کراچی میں آسودہ خاک ہیں۔
کراچی سندھ کا اور لاہور پنجاب کا دارالخلافہ ہے۔ کراچی پسماندگی کی طرف اور لاہور ترقی کی طرف گامزن اور ہرا بھرا شہر بھی ہے۔ ملک کے موجودہ وزیر اعظم اور تیسری بار منتخب اور طویل اقتدار کے حامل وزیر اعلیٰ پنجاب کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔ پنجاب کے متعدد حکمرانوں کا تعلق لاہور سے رہا ہے۔ تیسری بار منتخب وزیر اعظم کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔
پنجاب کے برعکس تین سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور دو بار منتخب ہونے والی بے نظیر بھٹو اور دو سابق صدور جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری جیسے بااختیار صدر بھی سندھ سے تعلق رکھتے تھے جب کہ موجودہ صدر پاکستان مگر بے اختیار ممنون حسین کا تعلق سندھ اور خصوصاً کراچی سے ہے۔
بے نظیر بھٹو پیدا تو کراچی میں ہوئی تھیں مگر وہ لاڑکانہ کی کہلائیں اور اپنے والد کی طرح وہیں دفن ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویز کا تعلق کراچی سے ہے اور آصف علی زرداری اندرون سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی شادی بے نظیر بھٹو سے کراچی میں ہوئی تھی مگر ان دونوں اور سابق وزیر اعظم بھٹو اور جونیجو نے اپنے دور میں بانی پاکستان کے شہر کراچی کو وہ اہمیت نہیں دی جو کراچی کا حق تھا۔
ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ قائد اعظم کو زندگی نے صرف ایک سال کی مہلت دی اور شہید ملت لیاقت علی خان کو جو وقت ملا وہ انھوں نے ملک کے استحکام پر دیا۔ نئے ملک کے پہلے وزیر اعظم پورے ملک کو ہی اپنا شہر گردانتے تھے اور کراچی کی ترقی ترجیح نہیں تھی۔ صوبے جنرل یحییٰ نے بحال کیے۔ ان سے قبل کے صدر، گورنر جنرل اور وزرائے اعظم مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے کہلاتے تھے اور لاہور ایک طویل عرصے تک مغربی پاکستان کا دارالحکومت تھا، جس کے اکثر حکمران لاہور کے نہیں تھے مگر انھوں نے سندھ کے حکمرانوں کی طرح اپنے دارالحکومت لاہور کو نظرانداز نہیں کیا۔
کراچی کا کوئی شخص سندھ کا وزیر اعلیٰ نہیں رہا اور وہ تمام اندرون سندھ اپنے آبائی حلقوں سے منتخب ہوتے تھے۔ کراچی میں ان کے کاروبار، جائیدادیں اور بنگلے تھے۔ متعدد کے بچے کراچی میں پڑھے اور جوان ہوئے اور یہ خوبصورت شہر سابق اور موجودہ حکمرانوں کی اولادوں کا آبائی شہر نہیں ہے مگر انھیں پسند ضرور ہے کیونکہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے بڑے ہوئے۔ یہیں تعلیم حاصل کی اور سابق حکمرانوں نے کراچی سے اپنے آپ کو مالی طور پر مضبوط اور محفوظ ضرور بنایا۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ضرور ہے مگر یہاں اندرون سندھ کے لوگوں کی اکثریت نہیں۔ کراچی منی پاکستان ہے جہاں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ہی نہیں دنیا بھر کے لوگ آباد ہیں۔
کراچی میں سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بنگالی، کے پی کے اور بلوچستان کے لاکھوں پختون، بلوچی، سندھی اور پنجابی عارضی اور مستقل طور پر آباد ہیں۔ ملازمتوں اور کاروبار کے باعث ملک بھر کے لوگ کراچی میں رہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے لاکھوں کی تعداد میں اردو بولنے والے پورے سندھ میں آباد ہوئے، جن کی اکثریت سندھ میں کراچی میں تھی اور بعد میں بعض وجوہات کے باعث اندرون سندھ آباد اردو بولنے والے مستقل کراچی منتقل ہو کر اکثریت میں آ گئے اور سب بھائیوں کی طرح مل جل کر رہتے تھے مگر 1970ء کے بعد سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کر کے حکمرانوں نے کراچی اور اندرون سندھ کی خلیج پیدا کی جس سے لسانیت بڑھی اور کراچی متنازعہ ہوتا چلا گیا۔ لاہور میں بھی ملک بھر سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں۔ کاروبار اور ملازمتیں کر رہے ہیں۔
اندرون پنجاب کے لوگوں نے بھی ملازمتوں اور کاروبار کے لیے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ پنجاب میں کوٹہ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے لسانیت پیدا نہیں ہوئی مگر غیر اہم تعصب ضرور موجود ہے۔ لاہور کی تعمیر و ترقی سے پنجاب کے سیاستدانوں کو کوئی اعتراض نہیں وہ سب لاہور کو پسند کرتے ہیں مگر اب جنوبی پنجاب کو صرف لاہور کی ترقی گراں گزرنے لگی ہے اور اسی لیے اب لاہور پر اعتراضات بڑھا رہے ہیں۔ اعتراضات کے باوجود لاہور کے حکمران لاہور کو دنیا کا خوبصورت اور میگا سٹی بنانے کے لیے اب وہاں پلوں، انڈرپاسز، خوبصورت سڑکوں، موٹروے، میٹرو بس کے بعد اب میٹرو ٹرین کی طرف گامزن ہیں۔
کراچی سے تو سندھ کا کوئی وزیر اعلیٰ ہے نہیں۔ صدر اور گورنر کراچی کے ہوتے ہوئے محض آئینی سربراہ ہیں جو چاہتے ہوئے بھی مجبور ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کراچی کو اپنا سمجھ کر فنڈز فراہم کیے تھے جب کہ سابق صدر آصف زرداری کے نزدیک صرف لیاری ہی کراچی ہے۔ کراچی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کہتے تھے کہ کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا مگر متحدہ کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں صدر مشرف نے کراچی کو اون کیا تھا۔ انھوں نے نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کو 28 ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج دلایا اور مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی کو دو سو ارب روپے کا پیکیج دیا جس سے کراچی کی ترقی دنیا بھر میں تسلیم کی گئی تھی۔
لاہور تو باغوں اور میلوں کا شہر مشہور ہی تھا۔ پی ایچ اے وہاں ہر سال ہارس اینڈ کیٹل شو کا انعقاد کرتی ہے اور لاہور میلہ، کینال میلہ، سپر فلاور فیسٹیول اور ایکسکلوزر شو اور پاکستان پریڈ کا انعقاد ہوتا ہے۔ بسنت میلہ پابندی کی نظر ہو گیا ہے جو چوہدریوں کے دور تک جاری تھا۔ گزشتہ دنوں ریس کورس جیلانی پارک میں موسم بہار کا میلہ منعقد ہوا۔ یوں تو لاہور کی شاہراہوں کے اطراف پھولوں کی بہار نظر آتی ہے اور آمد بہار تو لاہور کو اور نکھار دیتی ہے۔ چورنگیوں کو پھولوں سے سجایا جاتا ہے۔ لاہور میں پہلی عزم پاکستان پریڈ میں دو لاکھ شہریوں نے شرکت کی۔
گلابوں کے پھولوں کی نمائش سے بھی زندہ دلان لاہور محظوظ ہوئے اور انھیں اچھی تفریح حاصل ہوئی۔کراچی میں صرف دو تین ڈی ایم سیز اور ڈی ایچ اے پھولوں کی نمائش منعقد کر لیتی ہیں یا مختلف ادارے ایکسپو سینٹر میں نمائشیں لگا لیتے ہیں جب کہ ڈیفنس کے علاوہ سڑکوں پر کہیں پھول نظر نہیں آتے البتہ سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر، صفائی کا فقدان، شاہراہوں کے اطراف مٹی، سڑکیں اور بازار کئی کئی دنوں تک زیر آب، ہر طرف بدبو، شہریوں کا مقدر ہے۔ پھول اور خوشبو اعلیٰ سرکاری دفاتر تک محدود ہے۔ شہریوں کی تفریح خواب بن چکی ہے۔ شہر کو خوبصورت بنانے والے بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے پا رہے اور رہی حکومت اسے پانی کے پیاسوں کا احتجاج نظر آتا ہے نہ کراچی کے مسائل۔ ان کے لیے کراچی کمائی کا شہر ہے اور کمائی ہی جاری ہے۔
ملک کے دو بڑی آبادیوں والے شہر کراچی اور لاہور ہیں، کراچی نہ صرف ملک کا سب سے بڑا اور شہر قائد کہلانے والا اور لاہور ملک کا دوسرا اور لاہور لاہور ہے، کہلانے والا تاریخی شہر ہے۔
لاہور کے مقابلے میں کراچی تاریخی شہر تو نہیں مگر ملکی بندرگاہوں کے سبب سب سے زیادہ کما کر ملک کو چلانے والا شہر بھی ہے جس کی سابقہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے عوامی دور میں دنیا کا تیرہواں میگا سٹی قرار دیا گیا تھا۔ اسلام آباد سے قبل کراچی ملک کا دارالحکومت تھا جسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ اعزاز دیا تھا جب کہ لاہور ہمیشہ پنجاب کا دارالحکومت رہا، جہاں تاریخی عمارتوں کے علاوہ بادشاہی مسجد کے قریب مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا مزار بھی ہے جب کہ بابائے قوم کراچی میں آسودہ خاک ہیں۔
کراچی سندھ کا اور لاہور پنجاب کا دارالخلافہ ہے۔ کراچی پسماندگی کی طرف اور لاہور ترقی کی طرف گامزن اور ہرا بھرا شہر بھی ہے۔ ملک کے موجودہ وزیر اعظم اور تیسری بار منتخب اور طویل اقتدار کے حامل وزیر اعلیٰ پنجاب کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔ پنجاب کے متعدد حکمرانوں کا تعلق لاہور سے رہا ہے۔ تیسری بار منتخب وزیر اعظم کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔
پنجاب کے برعکس تین سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور دو بار منتخب ہونے والی بے نظیر بھٹو اور دو سابق صدور جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری جیسے بااختیار صدر بھی سندھ سے تعلق رکھتے تھے جب کہ موجودہ صدر پاکستان مگر بے اختیار ممنون حسین کا تعلق سندھ اور خصوصاً کراچی سے ہے۔
بے نظیر بھٹو پیدا تو کراچی میں ہوئی تھیں مگر وہ لاڑکانہ کی کہلائیں اور اپنے والد کی طرح وہیں دفن ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویز کا تعلق کراچی سے ہے اور آصف علی زرداری اندرون سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی شادی بے نظیر بھٹو سے کراچی میں ہوئی تھی مگر ان دونوں اور سابق وزیر اعظم بھٹو اور جونیجو نے اپنے دور میں بانی پاکستان کے شہر کراچی کو وہ اہمیت نہیں دی جو کراچی کا حق تھا۔
ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ قائد اعظم کو زندگی نے صرف ایک سال کی مہلت دی اور شہید ملت لیاقت علی خان کو جو وقت ملا وہ انھوں نے ملک کے استحکام پر دیا۔ نئے ملک کے پہلے وزیر اعظم پورے ملک کو ہی اپنا شہر گردانتے تھے اور کراچی کی ترقی ترجیح نہیں تھی۔ صوبے جنرل یحییٰ نے بحال کیے۔ ان سے قبل کے صدر، گورنر جنرل اور وزرائے اعظم مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے کہلاتے تھے اور لاہور ایک طویل عرصے تک مغربی پاکستان کا دارالحکومت تھا، جس کے اکثر حکمران لاہور کے نہیں تھے مگر انھوں نے سندھ کے حکمرانوں کی طرح اپنے دارالحکومت لاہور کو نظرانداز نہیں کیا۔
کراچی کا کوئی شخص سندھ کا وزیر اعلیٰ نہیں رہا اور وہ تمام اندرون سندھ اپنے آبائی حلقوں سے منتخب ہوتے تھے۔ کراچی میں ان کے کاروبار، جائیدادیں اور بنگلے تھے۔ متعدد کے بچے کراچی میں پڑھے اور جوان ہوئے اور یہ خوبصورت شہر سابق اور موجودہ حکمرانوں کی اولادوں کا آبائی شہر نہیں ہے مگر انھیں پسند ضرور ہے کیونکہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے بڑے ہوئے۔ یہیں تعلیم حاصل کی اور سابق حکمرانوں نے کراچی سے اپنے آپ کو مالی طور پر مضبوط اور محفوظ ضرور بنایا۔
کراچی سندھ کا دارالحکومت ضرور ہے مگر یہاں اندرون سندھ کے لوگوں کی اکثریت نہیں۔ کراچی منی پاکستان ہے جہاں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ہی نہیں دنیا بھر کے لوگ آباد ہیں۔
کراچی میں سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بنگالی، کے پی کے اور بلوچستان کے لاکھوں پختون، بلوچی، سندھی اور پنجابی عارضی اور مستقل طور پر آباد ہیں۔ ملازمتوں اور کاروبار کے باعث ملک بھر کے لوگ کراچی میں رہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے لاکھوں کی تعداد میں اردو بولنے والے پورے سندھ میں آباد ہوئے، جن کی اکثریت سندھ میں کراچی میں تھی اور بعد میں بعض وجوہات کے باعث اندرون سندھ آباد اردو بولنے والے مستقل کراچی منتقل ہو کر اکثریت میں آ گئے اور سب بھائیوں کی طرح مل جل کر رہتے تھے مگر 1970ء کے بعد سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کر کے حکمرانوں نے کراچی اور اندرون سندھ کی خلیج پیدا کی جس سے لسانیت بڑھی اور کراچی متنازعہ ہوتا چلا گیا۔ لاہور میں بھی ملک بھر سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں۔ کاروبار اور ملازمتیں کر رہے ہیں۔
اندرون پنجاب کے لوگوں نے بھی ملازمتوں اور کاروبار کے لیے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ پنجاب میں کوٹہ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے لسانیت پیدا نہیں ہوئی مگر غیر اہم تعصب ضرور موجود ہے۔ لاہور کی تعمیر و ترقی سے پنجاب کے سیاستدانوں کو کوئی اعتراض نہیں وہ سب لاہور کو پسند کرتے ہیں مگر اب جنوبی پنجاب کو صرف لاہور کی ترقی گراں گزرنے لگی ہے اور اسی لیے اب لاہور پر اعتراضات بڑھا رہے ہیں۔ اعتراضات کے باوجود لاہور کے حکمران لاہور کو دنیا کا خوبصورت اور میگا سٹی بنانے کے لیے اب وہاں پلوں، انڈرپاسز، خوبصورت سڑکوں، موٹروے، میٹرو بس کے بعد اب میٹرو ٹرین کی طرف گامزن ہیں۔
کراچی سے تو سندھ کا کوئی وزیر اعلیٰ ہے نہیں۔ صدر اور گورنر کراچی کے ہوتے ہوئے محض آئینی سربراہ ہیں جو چاہتے ہوئے بھی مجبور ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کراچی کو اپنا سمجھ کر فنڈز فراہم کیے تھے جب کہ سابق صدر آصف زرداری کے نزدیک صرف لیاری ہی کراچی ہے۔ کراچی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کہتے تھے کہ کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا مگر متحدہ کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں صدر مشرف نے کراچی کو اون کیا تھا۔ انھوں نے نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کو 28 ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج دلایا اور مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی کو دو سو ارب روپے کا پیکیج دیا جس سے کراچی کی ترقی دنیا بھر میں تسلیم کی گئی تھی۔
لاہور تو باغوں اور میلوں کا شہر مشہور ہی تھا۔ پی ایچ اے وہاں ہر سال ہارس اینڈ کیٹل شو کا انعقاد کرتی ہے اور لاہور میلہ، کینال میلہ، سپر فلاور فیسٹیول اور ایکسکلوزر شو اور پاکستان پریڈ کا انعقاد ہوتا ہے۔ بسنت میلہ پابندی کی نظر ہو گیا ہے جو چوہدریوں کے دور تک جاری تھا۔ گزشتہ دنوں ریس کورس جیلانی پارک میں موسم بہار کا میلہ منعقد ہوا۔ یوں تو لاہور کی شاہراہوں کے اطراف پھولوں کی بہار نظر آتی ہے اور آمد بہار تو لاہور کو اور نکھار دیتی ہے۔ چورنگیوں کو پھولوں سے سجایا جاتا ہے۔ لاہور میں پہلی عزم پاکستان پریڈ میں دو لاکھ شہریوں نے شرکت کی۔
گلابوں کے پھولوں کی نمائش سے بھی زندہ دلان لاہور محظوظ ہوئے اور انھیں اچھی تفریح حاصل ہوئی۔کراچی میں صرف دو تین ڈی ایم سیز اور ڈی ایچ اے پھولوں کی نمائش منعقد کر لیتی ہیں یا مختلف ادارے ایکسپو سینٹر میں نمائشیں لگا لیتے ہیں جب کہ ڈیفنس کے علاوہ سڑکوں پر کہیں پھول نظر نہیں آتے البتہ سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر، صفائی کا فقدان، شاہراہوں کے اطراف مٹی، سڑکیں اور بازار کئی کئی دنوں تک زیر آب، ہر طرف بدبو، شہریوں کا مقدر ہے۔ پھول اور خوشبو اعلیٰ سرکاری دفاتر تک محدود ہے۔ شہریوں کی تفریح خواب بن چکی ہے۔ شہر کو خوبصورت بنانے والے بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے پا رہے اور رہی حکومت اسے پانی کے پیاسوں کا احتجاج نظر آتا ہے نہ کراچی کے مسائل۔ ان کے لیے کراچی کمائی کا شہر ہے اور کمائی ہی جاری ہے۔