بجٹ کا مخمصہ
4.3 کھرب روپے کے بجٹ میں سے پی ایس ڈی بی کے لیے 700 ارب روپے (جو کہ مجموعی وفاقی بجٹ کا صرف 16 فیصد ہے)
QUETTA:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بااعتماد وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے 5 جون کو قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ اس دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ ''غریب دوست'' بجٹ ہے جب کہ اپوزیشن نے اسے ''امیر نواز'' بجٹ قرار دیا۔ وزارت خزانہ میں جو ''بیوروکریٹک کلچر'' ہے اس میں لکیر کی فقیری سے ہٹ کر کچھ سوچنے کی گنجائش ہی نہیں۔ بنیادی سوچ صرف آئی ایم ایف کی ہدایات پر حرف بہ حرف عمل کرنے کی ہوتی ہے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بجٹ خسارے کو کم سے کم دکھایا جائے۔
اس مقصد کے لیے غیر حقیقی مفروضوں کا سہارا لیا جاتا ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ سال کے سالانہ بجٹ کے بعد یکے بعد دیگرے منی بجٹوں کا ایک سلسلہ جاری رہا تھا۔ اس کا مقصد بھی آئی ایم ایف کے سہ ماہی تخمینوں کو پورا کرنا تھا۔ گویا بجٹ کے غریب دوست ہونے کے جو دعوے کیے جاتے ہیں وہ صرف خوش خیالی تک ہی محدود رہتے ہیں جس میں عام لوگوں کے بہکاوے کے لیے اعداد و شمار کی بازی گری دکھائی جاتی ہے۔ پاکستان کا کاروباری سہولتوں کے انڈیکس میں 2013ء میں 107 واں نمبر تھا جو 2014ء میں مزید گر کر 127 ویں درجے پر پہنچ گیا۔ یہ ورلڈ بینک کی رینکنگ ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس یو این ڈی پی کے تحت پاکستان کی رینکنگ 146 نمبر پر ہے اس کے مقابلے میں بھارت کا درجہ 135 اور بنگلہ دیش کا درجہ 142 ہے یعنی یہ دونوں پاکستان سے بہتر پوزیشن پر ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کے تقابلی انڈیکس میں پاکستان 129 ویں نمبر پر ہے اس کے مقابلے میں بھارت کا نمبر61 جب کہ بنگلہ دیش کا 109 ہے۔ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) میں لندن اکانومسٹ کی رینکنگ میں بھی پاکستان کا درجہ قابل رشک نہیں ہے۔
کوئی بھی حکومت جو اپنے وسائل سے اپنے اخراجات پورے نہ کر سکے وہ مقامی یا بیرونی قرض خواہوں سے یہ فرق پورا کرنے کی خاطر ادھار طلب کرتی ہے جس کے نتیجے میں سرکاری قرضے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان پر اس وقت 1.596 ٹریلین (کھرب) روپے کا قرضہ ہے جس کا پانچواں حصہ 39.03 فیصد 2015-16 کے بجٹ کے لیے حاصل کیا گیا ہے جس کے بعد مجموعی قرضے کی مقدار 4.089 ٹریلین (کھرب) روپے ہو جائے گی لہذا موجودہ مالی سال میں اس بھاری قرضے کی اصل رقم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے سود کی بھاری قسطوں کی ادائیگی بھی کرنا پڑے گی۔
غیر ملکی قرضے کی اقساط کی ادائیگی میں 111.219 ارب (بلین) روپے دینا پڑیں گے جب کہ اصل رقم 316.37 ارب روپے جو صرف ملکی قرضے کی ہے جس کی ادائیگی کے لیے 1.168 ارب روپے دینا پڑیں گے۔ موجودہ مالی سال میں وفاقی اور صوبائی ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 1.514 کھرب (ٹریلین) روپے ہے جو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے رکھا گیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ٹیکسوں میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے اور مزید کتنا اضافہ ہو گا۔ ٹیکس ریفارم کمیشن (ٹی آر سی) نے ٹیکسوں میں اصلاحات کی جو تجاویز دی تھیں ان کو نافذ ہی نہیں کیا جا سکا۔ ان میں وی آئی پیز کی خصوصی ٹیکس سہولیات کو واپس لینا شامل تھا نیز مقامی افراد کی غیر ملکی آمدنی کے حوالے سے تجویز پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ان میں بعض ایسی تجاویز بھی ہیں جن سے غریب آدمی پر بوجھ میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے مگر اس کے بجائے توانائی کے شعبہ میں دی جانے والی سبسڈی میں 15 سے 20 فیصد کمی کے بعد بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
کاروباری طبقے کو بھی بجٹ پر بہت سے تحفظات ہیں جن کے مطابق نجی سرمایہ ٹریڈنگ' رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تو داخل ہو گا مگر صنعت میں داخل نہیں ہو گا۔ بینک اپنی زیادہ رقوم نجی سیکٹر کو قرض دینے کے بجائے پی آئی بیز میں رکھتے ہیں جس سے نمو میں اضافہ کے بجائے الٹا کمی واقع ہوتی ہے۔ ملک کے 9 سب سے بڑے کمرشل بینکوں میں سے صرف دو یعنی الائیڈ بینک اور بینک الحبیب دوسروں کی نسبت ایڈوانس رقم زیادہ جاری کرتے ہیں۔
اگر بینک قرضے کے جاری کرنے میں بالکل ہی خطرہ مول لینے پر تیار نہ ہوں اور صرف حکومت کو ہی قرضہ دیتے رہیں یا ان مالدار لوگوں کو دیں جن کو قرضے کی ضرورت ہی نہ ہو تو پھر شرح نمو یا روز گار میں اضافے کی توقع محض خام خیالی ہی ہو گی اور جی ڈی پی کی نسبت سے ٹیکس بھی بہت کم رہے گا۔ پی پی پی کے ممتاز لیڈر اعتزاز احسن نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ 2012ء کے مقابلے میں 2013ء میں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں 100000 سے زیادہ افراد کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ 18 کروڑ سے زائد آبادی میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے بھی کم ہے۔ ہیلتھ انشورنس اسکیم اور وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کے لیے فنڈز ہی نہیں ہیں اس حوالے سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) ایک خوش آیند چیز ہے۔
4.3 کھرب روپے کے بجٹ میں سے پی ایس ڈی بی کے لیے 700 ارب روپے (جو کہ مجموعی وفاقی بجٹ کا صرف 16 فیصد ہے) ہماری اقتصادی ضروریات کی کفالت سے بے حد کم ہے۔ انفراسٹرکچر اور سماجی ضروریات کی کمی کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں انتہائی سست رفتار ہو کر رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے عوام کو سخت مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ شرح نمو میں کم از کم 7 فیصد اضافے کے لیے ہماری معیشت کو تقریباً 1000 ارب روپے کی اضافی ضرورت ہے جب کہ پی ڈی ایس پی صرف 580 ارب ہے آئی ڈی پیز کی دوبارہ بحالی کی خاطر 100 ارب روپے درکار ہیں جب کہ وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کے لیے جو 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں ان کو بھی سرمایہ کاری نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ترقیاتی اخراجات ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیا ہے لہذا توقع کی جا سکتی ہے کہ کوئی مثبت تبدیلی نظر آ سکے۔ پانی کی قلت تشویش کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن وفاقی بجٹ میں اس مد میں اضافے کے بجائے الٹا 24 فیصد کی کمی کر دی گئی ہے جو 46 ارب سے 30 ارب روپے کی رقم بنتی ہے۔ ہماری ملکی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے جس کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ اس مد میں کمی نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ انتہائی مایوس کن ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی اچھی نہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے لیے کتنی رقم رکھی گئی ہے؟ آخر نیکٹا کے لیے علیحدہ طور پر فنڈ کیوں نہیں رکھے گئے؟ بھارت نے جس بھاری مقدار میں اسلحہ کے لیے رقم مختص کی ہے کیا اس کے مقابلے میں ہماری دفاعی تخصیص مناسب ہے؟
دریں اثناء وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نئے بجٹ کے نتیجے میں 2.5 ملین ملازمتیں پیدا ہونگی اور چائنہ پاک اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) گیم چینجر ثابت ہو گی تاہم اس کا کریڈٹ وزارت خزانہ کے بجائے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جاتا ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بااعتماد وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے 5 جون کو قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ اس دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ ''غریب دوست'' بجٹ ہے جب کہ اپوزیشن نے اسے ''امیر نواز'' بجٹ قرار دیا۔ وزارت خزانہ میں جو ''بیوروکریٹک کلچر'' ہے اس میں لکیر کی فقیری سے ہٹ کر کچھ سوچنے کی گنجائش ہی نہیں۔ بنیادی سوچ صرف آئی ایم ایف کی ہدایات پر حرف بہ حرف عمل کرنے کی ہوتی ہے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بجٹ خسارے کو کم سے کم دکھایا جائے۔
اس مقصد کے لیے غیر حقیقی مفروضوں کا سہارا لیا جاتا ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ سال کے سالانہ بجٹ کے بعد یکے بعد دیگرے منی بجٹوں کا ایک سلسلہ جاری رہا تھا۔ اس کا مقصد بھی آئی ایم ایف کے سہ ماہی تخمینوں کو پورا کرنا تھا۔ گویا بجٹ کے غریب دوست ہونے کے جو دعوے کیے جاتے ہیں وہ صرف خوش خیالی تک ہی محدود رہتے ہیں جس میں عام لوگوں کے بہکاوے کے لیے اعداد و شمار کی بازی گری دکھائی جاتی ہے۔ پاکستان کا کاروباری سہولتوں کے انڈیکس میں 2013ء میں 107 واں نمبر تھا جو 2014ء میں مزید گر کر 127 ویں درجے پر پہنچ گیا۔ یہ ورلڈ بینک کی رینکنگ ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس یو این ڈی پی کے تحت پاکستان کی رینکنگ 146 نمبر پر ہے اس کے مقابلے میں بھارت کا درجہ 135 اور بنگلہ دیش کا درجہ 142 ہے یعنی یہ دونوں پاکستان سے بہتر پوزیشن پر ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کے تقابلی انڈیکس میں پاکستان 129 ویں نمبر پر ہے اس کے مقابلے میں بھارت کا نمبر61 جب کہ بنگلہ دیش کا 109 ہے۔ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) میں لندن اکانومسٹ کی رینکنگ میں بھی پاکستان کا درجہ قابل رشک نہیں ہے۔
کوئی بھی حکومت جو اپنے وسائل سے اپنے اخراجات پورے نہ کر سکے وہ مقامی یا بیرونی قرض خواہوں سے یہ فرق پورا کرنے کی خاطر ادھار طلب کرتی ہے جس کے نتیجے میں سرکاری قرضے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان پر اس وقت 1.596 ٹریلین (کھرب) روپے کا قرضہ ہے جس کا پانچواں حصہ 39.03 فیصد 2015-16 کے بجٹ کے لیے حاصل کیا گیا ہے جس کے بعد مجموعی قرضے کی مقدار 4.089 ٹریلین (کھرب) روپے ہو جائے گی لہذا موجودہ مالی سال میں اس بھاری قرضے کی اصل رقم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے سود کی بھاری قسطوں کی ادائیگی بھی کرنا پڑے گی۔
غیر ملکی قرضے کی اقساط کی ادائیگی میں 111.219 ارب (بلین) روپے دینا پڑیں گے جب کہ اصل رقم 316.37 ارب روپے جو صرف ملکی قرضے کی ہے جس کی ادائیگی کے لیے 1.168 ارب روپے دینا پڑیں گے۔ موجودہ مالی سال میں وفاقی اور صوبائی ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 1.514 کھرب (ٹریلین) روپے ہے جو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے رکھا گیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ٹیکسوں میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے اور مزید کتنا اضافہ ہو گا۔ ٹیکس ریفارم کمیشن (ٹی آر سی) نے ٹیکسوں میں اصلاحات کی جو تجاویز دی تھیں ان کو نافذ ہی نہیں کیا جا سکا۔ ان میں وی آئی پیز کی خصوصی ٹیکس سہولیات کو واپس لینا شامل تھا نیز مقامی افراد کی غیر ملکی آمدنی کے حوالے سے تجویز پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ان میں بعض ایسی تجاویز بھی ہیں جن سے غریب آدمی پر بوجھ میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے مگر اس کے بجائے توانائی کے شعبہ میں دی جانے والی سبسڈی میں 15 سے 20 فیصد کمی کے بعد بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
کاروباری طبقے کو بھی بجٹ پر بہت سے تحفظات ہیں جن کے مطابق نجی سرمایہ ٹریڈنگ' رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تو داخل ہو گا مگر صنعت میں داخل نہیں ہو گا۔ بینک اپنی زیادہ رقوم نجی سیکٹر کو قرض دینے کے بجائے پی آئی بیز میں رکھتے ہیں جس سے نمو میں اضافہ کے بجائے الٹا کمی واقع ہوتی ہے۔ ملک کے 9 سب سے بڑے کمرشل بینکوں میں سے صرف دو یعنی الائیڈ بینک اور بینک الحبیب دوسروں کی نسبت ایڈوانس رقم زیادہ جاری کرتے ہیں۔
اگر بینک قرضے کے جاری کرنے میں بالکل ہی خطرہ مول لینے پر تیار نہ ہوں اور صرف حکومت کو ہی قرضہ دیتے رہیں یا ان مالدار لوگوں کو دیں جن کو قرضے کی ضرورت ہی نہ ہو تو پھر شرح نمو یا روز گار میں اضافے کی توقع محض خام خیالی ہی ہو گی اور جی ڈی پی کی نسبت سے ٹیکس بھی بہت کم رہے گا۔ پی پی پی کے ممتاز لیڈر اعتزاز احسن نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ 2012ء کے مقابلے میں 2013ء میں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں 100000 سے زیادہ افراد کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ 18 کروڑ سے زائد آبادی میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے بھی کم ہے۔ ہیلتھ انشورنس اسکیم اور وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کے لیے فنڈز ہی نہیں ہیں اس حوالے سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) ایک خوش آیند چیز ہے۔
4.3 کھرب روپے کے بجٹ میں سے پی ایس ڈی بی کے لیے 700 ارب روپے (جو کہ مجموعی وفاقی بجٹ کا صرف 16 فیصد ہے) ہماری اقتصادی ضروریات کی کفالت سے بے حد کم ہے۔ انفراسٹرکچر اور سماجی ضروریات کی کمی کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں انتہائی سست رفتار ہو کر رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے عوام کو سخت مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ شرح نمو میں کم از کم 7 فیصد اضافے کے لیے ہماری معیشت کو تقریباً 1000 ارب روپے کی اضافی ضرورت ہے جب کہ پی ڈی ایس پی صرف 580 ارب ہے آئی ڈی پیز کی دوبارہ بحالی کی خاطر 100 ارب روپے درکار ہیں جب کہ وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کے لیے جو 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں ان کو بھی سرمایہ کاری نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ترقیاتی اخراجات ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیا ہے لہذا توقع کی جا سکتی ہے کہ کوئی مثبت تبدیلی نظر آ سکے۔ پانی کی قلت تشویش کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن وفاقی بجٹ میں اس مد میں اضافے کے بجائے الٹا 24 فیصد کی کمی کر دی گئی ہے جو 46 ارب سے 30 ارب روپے کی رقم بنتی ہے۔ ہماری ملکی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے جس کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ اس مد میں کمی نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ انتہائی مایوس کن ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی اچھی نہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے لیے کتنی رقم رکھی گئی ہے؟ آخر نیکٹا کے لیے علیحدہ طور پر فنڈ کیوں نہیں رکھے گئے؟ بھارت نے جس بھاری مقدار میں اسلحہ کے لیے رقم مختص کی ہے کیا اس کے مقابلے میں ہماری دفاعی تخصیص مناسب ہے؟
دریں اثناء وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نئے بجٹ کے نتیجے میں 2.5 ملین ملازمتیں پیدا ہونگی اور چائنہ پاک اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) گیم چینجر ثابت ہو گی تاہم اس کا کریڈٹ وزارت خزانہ کے بجائے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جاتا ہے۔