سرقہ چوری اور سینہ زوری۔۔۔۔چند اور مثالیں
کیا کسی لکھاری یا تجزیہ نگار نے آج تک بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے نام بتانے کی حماقت کی ہو؟
KARACHI:
7 جون اتوار کے کالم میں کچھ ادبی و علمی سرقوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جسے بہت سے قارئین نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنی اپنی ای میل میں اس بات کی شکایت بھی کی کہ ہم نے ان سرقہ نویسوں کے نام کیوں نہیں لکھے، جنھوں نے ببانگ دہل دوسروں کے مال پر ہاتھ صاف کیا۔ ساتھ ہی جاسوسی دنیا کے اس عظیم مصنف اور اس کے بے مثال کردار کا نام کیوں نہیں بتایا؟ تو سب سے پہلے تو ہم خود قارئین سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ان میں سے کوئی ایسا ہے جس نے اسمگلنگ کے کاروبار سے شہرت پانے والی ماڈل کے سرپرستوں کے نام کسی ٹی وی چینل یا پرنٹ میڈیا میں دیکھے ہیں؟
کیا کسی لکھاری یا تجزیہ نگار نے آج تک بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے نام بتانے کی حماقت کی ہو؟ مہرے مات کھا گئے، پیادے قبروں میں جا سوئے۔ لیکن پی پی کی حکومت اپنے ہی پانچ سالہ سنہری دور حکومت میں انھیں پکڑنا تو درکنار، ان کے نام بھی سامنے نہ لاسکی، تو پھر ہماری کیا مجال جو ان بڑے بڑے لکھاریوں کے نام کالم میں دے سکتے جو اصل میں سرقہ نویس تھے۔ کچھ اور موجود بھی ہیں۔ اور اگر ہم لکھ بھی دیتے تو کیا انھیں قارئین ہمارے کالم میں دیکھ بھی پاتے؟ پورے پاکستانی معاشرے نے منافقت کی چادر میں منہ چھپایا ہوا ہے کہ یہی منافقت زندگی اور روزگارکی ضمانت ہے۔ ورنہ تو:
یہ پبلک ہے' سب کچھ جانتی ہے
عوام تو یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ''ایگزیکٹ'' گزشتہ پندرہ سال سے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن کر کام کر رہا تھا؟ اتنی بڑی عالی شان عمارت جس کے اندر بے شمار ''محلات شاہی کے اسرار'' موجود تھے، کس آرام سے بیٹھی گول گپے کھا رہی تھی؟ کس کا سرمایہ یہاں لگا تھا؟ اور پھر کس کس کے مفاد پہ ضرب پڑی، اچانک اتنی چابک دستی سے سب کچھ ہوا، خاص کر ایجنسیوں نے جو پھرتی یہاں چھاپہ مارنے میں دکھائی وہ تو الٰہ دین کے چراغ کے جن کی یاد دلا رہی تھی۔ زمین کس کی تھی، شیئر ہولڈر کون تھے؟ وغیرہ وغیرہ؟ تو جب یہ سب باتیں جو اب ایک کھلا راز ہیں۔ ان پر سے کسی نے پردہ نہیں اٹھایا تو ہم بھلا ان ادیبوں کے نام کیونکر لکھتے جو بزعم خود ''منفرد اور معزز'' تھے۔
چلیں اس قضیے کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ پہلے تو یہ بتا دیں کہ جاسوسی کہانیوں اور ناولوں سے شہرت پانے والے صاحب طرز ادیب کو میرے والد بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ ہمارے گھر بھی آتے تھے۔ انھوں نے سر آرتھر کانن ڈائل کے لافانی اور ناقابل فراموش کردار شرلاک ہومز سے متاثر ہوکر جاسوسی ادب کو اپنایا تھا۔ لیکن انھوں نے نہ صرف شرلاک ہومز اور (غالباً) اس کے ساتھی ڈاکٹر واٹسن کے کرداروں کو اردو میں اس طرح متعارف کروایا کہ وہ خود ان کی تخلیق لگنے لگے۔
سر آرتھرکانن ڈائل ایک ہمہ جہت شخص تھا۔ وہ بیک وقت، فزیشن، صحافی، شاعر اور ناولسٹ تھا۔ وہ 22 مئی 1859 میں پیدا ہوا اور 7 جولائی 1930 میں وفات پائی۔ اس کا تخلیق کردہ کردار شرلاک ہومز اتنا مقبول ہوا کہ بیشتر اسے شیکسپیئر کی طرح کا انسان سمجھتے تھے۔ اس کردار سے متاثر ہوکر بہت سے لوگوں نے ٹیلی ویژن کے لیے سیریل لکھے، مگر شرلاک ہومز آج بھی منفرد اور یکتا ہے۔
''کشف المحجوب'' حضرت داتا گنج بخشؒ کی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ حضرت سید غلام معین الدین نعیمی نے کیا ہے۔ تدوین محمد رضاء الدین صدیقی نے کی ہے اور صوفی سیف الرحمن نقشبندی کے زیر اہتمام ''زاویہ فاؤنڈیشن'' نے اسے شایع کیا ہے۔ میرے سامنے 2008 کا نسخہ ہے۔ اس میں صفحہ 32 پر ''اپنا نام تحریرکرنے کی وجہ'' کے عنوان سے ذرا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
''شروع میں جو اپنا نام تحریرکیا ہے، اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ خاص حضرات کے لیے ہے اور دوسری وجہ عام لوگوں کے لیے ہے کہ جب اس علم سے بے بہرہ ناواقف کوئی ایسی کتاب دیکھتے ہیں اور اس میں مصنف کا نام کہیں نظر نہیں آتا تو وہ کتاب کو اپنی طرف منسوب کرلیتے ہیں۔ (یعنی یہ کتاب میری تصنیف ہے) ایسا حادثہ میرے ساتھ دو مرتبہ پیش آچکا ہے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ایک صاحب میرے اشعارکا دیوان مستعار لے گئے، پھر انھوں نے واپس نہیں کیا۔ میرے پاس اس نسخے کے سوا اور کوئی نسخہ نہیں تھا۔
ان صاحب نے میرے نام کو حذف کرکے اپنے نام سے اس دیوان کو مشہورکردیا، اس طرح میری محنت انھوں نے ضایع کردی۔ دوسرا حادثہ یوں پیش آیا کہ میں نے علم تصوف پہ ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ''منہاج الدین'' رکھا تھا۔ ایک چرب زبان شخص۔ اس نے شروع سے میرا نام چھیل کر اور اپنا نام درج کرکے عام لوگوں میں کہنا شروع کردیا کہ یہ میری تصنیف ہے حالانکہ اس کی علمیت اور قابلیت سے آگاہ حضرات اس پر ہنستے تھے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس پر بے برکتی مسلط کردی۔''
کبھی پہلے جب لوگوں میں ظرف اور اخلاقیات موجود تھیں تب سرقہ کرنے والے جب کسی کی غزل یا شعر پہ ہاتھ صاف کرتے تھے تو چوری پکڑی جانے پر اسے ''توارد'' کے کھاتے میں ڈال کر اپنی شرمندگی چھپا لیتے تھے۔ لیکن آج جب لوگوں نے کتابیں پڑھنا کم کردی ہیں کہ ایک بڑی وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ کتابوں کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ سارا منافع سول ایجنٹ لے جاتے ہیں۔ مصنف بے چارہ تو ہمیشہ سے خسارے میں رہتا ہے۔ حکومت کو بھلا کتاب اور ادیب سے کیا لینا دینا؟ یہ کوئی ترقیاتی منصوبے تھوڑی ہیں جن کا ٹینڈر خوش نصیبوں کے نام نکلے اور سب کو مالا مال کرجائے۔
نہ ہی یہ کوئی جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرنے والی کمپنی ہے جو کاغذ کا ایک ٹکڑا جس پر کسی جعلی یونیورسٹی یا کالج کا مونو گرام چھپا ہو اسے ڈالروں میں بیچے۔ پہلے بھی کئی بار توجہ دلائی کہ ادبی رسائل اور کتب کی ڈاک کی شرح میں کمی کی جائے تاکہ بیرون ملک سے کتابیں منگوانے اور بھیجنے کی سہولت تو ایک ادیب کو حاصل ہو۔
پی پی کے آخری دنوں میں اسلام آباد میں ایک وفاقی وزیر صاحب کی توجہ بھی اس جانب دلائی تھی اور انھوں نے فرمایا تھا کہ ''یہ تو معمولی بات ہے وہ اس معاملے کو ضرور اٹھائیں گے۔'' لیکن سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے صرف وعدے کرتی ہیں اور بعد میں ان وعدوں پہ قہقہے لگاتی ہیں جن کی بنیاد پر انھوں نے ووٹ لیے تھے۔ یہ تو کتابوں اور اہل علم کی باتیں ہیں ان کا سیاسی لوگوں سے کیا کام؟
7 جون اتوار کے کالم میں کچھ ادبی و علمی سرقوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جسے بہت سے قارئین نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنی اپنی ای میل میں اس بات کی شکایت بھی کی کہ ہم نے ان سرقہ نویسوں کے نام کیوں نہیں لکھے، جنھوں نے ببانگ دہل دوسروں کے مال پر ہاتھ صاف کیا۔ ساتھ ہی جاسوسی دنیا کے اس عظیم مصنف اور اس کے بے مثال کردار کا نام کیوں نہیں بتایا؟ تو سب سے پہلے تو ہم خود قارئین سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ان میں سے کوئی ایسا ہے جس نے اسمگلنگ کے کاروبار سے شہرت پانے والی ماڈل کے سرپرستوں کے نام کسی ٹی وی چینل یا پرنٹ میڈیا میں دیکھے ہیں؟
کیا کسی لکھاری یا تجزیہ نگار نے آج تک بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے نام بتانے کی حماقت کی ہو؟ مہرے مات کھا گئے، پیادے قبروں میں جا سوئے۔ لیکن پی پی کی حکومت اپنے ہی پانچ سالہ سنہری دور حکومت میں انھیں پکڑنا تو درکنار، ان کے نام بھی سامنے نہ لاسکی، تو پھر ہماری کیا مجال جو ان بڑے بڑے لکھاریوں کے نام کالم میں دے سکتے جو اصل میں سرقہ نویس تھے۔ کچھ اور موجود بھی ہیں۔ اور اگر ہم لکھ بھی دیتے تو کیا انھیں قارئین ہمارے کالم میں دیکھ بھی پاتے؟ پورے پاکستانی معاشرے نے منافقت کی چادر میں منہ چھپایا ہوا ہے کہ یہی منافقت زندگی اور روزگارکی ضمانت ہے۔ ورنہ تو:
یہ پبلک ہے' سب کچھ جانتی ہے
عوام تو یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ''ایگزیکٹ'' گزشتہ پندرہ سال سے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن کر کام کر رہا تھا؟ اتنی بڑی عالی شان عمارت جس کے اندر بے شمار ''محلات شاہی کے اسرار'' موجود تھے، کس آرام سے بیٹھی گول گپے کھا رہی تھی؟ کس کا سرمایہ یہاں لگا تھا؟ اور پھر کس کس کے مفاد پہ ضرب پڑی، اچانک اتنی چابک دستی سے سب کچھ ہوا، خاص کر ایجنسیوں نے جو پھرتی یہاں چھاپہ مارنے میں دکھائی وہ تو الٰہ دین کے چراغ کے جن کی یاد دلا رہی تھی۔ زمین کس کی تھی، شیئر ہولڈر کون تھے؟ وغیرہ وغیرہ؟ تو جب یہ سب باتیں جو اب ایک کھلا راز ہیں۔ ان پر سے کسی نے پردہ نہیں اٹھایا تو ہم بھلا ان ادیبوں کے نام کیونکر لکھتے جو بزعم خود ''منفرد اور معزز'' تھے۔
چلیں اس قضیے کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ پہلے تو یہ بتا دیں کہ جاسوسی کہانیوں اور ناولوں سے شہرت پانے والے صاحب طرز ادیب کو میرے والد بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ ہمارے گھر بھی آتے تھے۔ انھوں نے سر آرتھر کانن ڈائل کے لافانی اور ناقابل فراموش کردار شرلاک ہومز سے متاثر ہوکر جاسوسی ادب کو اپنایا تھا۔ لیکن انھوں نے نہ صرف شرلاک ہومز اور (غالباً) اس کے ساتھی ڈاکٹر واٹسن کے کرداروں کو اردو میں اس طرح متعارف کروایا کہ وہ خود ان کی تخلیق لگنے لگے۔
سر آرتھرکانن ڈائل ایک ہمہ جہت شخص تھا۔ وہ بیک وقت، فزیشن، صحافی، شاعر اور ناولسٹ تھا۔ وہ 22 مئی 1859 میں پیدا ہوا اور 7 جولائی 1930 میں وفات پائی۔ اس کا تخلیق کردہ کردار شرلاک ہومز اتنا مقبول ہوا کہ بیشتر اسے شیکسپیئر کی طرح کا انسان سمجھتے تھے۔ اس کردار سے متاثر ہوکر بہت سے لوگوں نے ٹیلی ویژن کے لیے سیریل لکھے، مگر شرلاک ہومز آج بھی منفرد اور یکتا ہے۔
''کشف المحجوب'' حضرت داتا گنج بخشؒ کی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ حضرت سید غلام معین الدین نعیمی نے کیا ہے۔ تدوین محمد رضاء الدین صدیقی نے کی ہے اور صوفی سیف الرحمن نقشبندی کے زیر اہتمام ''زاویہ فاؤنڈیشن'' نے اسے شایع کیا ہے۔ میرے سامنے 2008 کا نسخہ ہے۔ اس میں صفحہ 32 پر ''اپنا نام تحریرکرنے کی وجہ'' کے عنوان سے ذرا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
''شروع میں جو اپنا نام تحریرکیا ہے، اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ خاص حضرات کے لیے ہے اور دوسری وجہ عام لوگوں کے لیے ہے کہ جب اس علم سے بے بہرہ ناواقف کوئی ایسی کتاب دیکھتے ہیں اور اس میں مصنف کا نام کہیں نظر نہیں آتا تو وہ کتاب کو اپنی طرف منسوب کرلیتے ہیں۔ (یعنی یہ کتاب میری تصنیف ہے) ایسا حادثہ میرے ساتھ دو مرتبہ پیش آچکا ہے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ایک صاحب میرے اشعارکا دیوان مستعار لے گئے، پھر انھوں نے واپس نہیں کیا۔ میرے پاس اس نسخے کے سوا اور کوئی نسخہ نہیں تھا۔
ان صاحب نے میرے نام کو حذف کرکے اپنے نام سے اس دیوان کو مشہورکردیا، اس طرح میری محنت انھوں نے ضایع کردی۔ دوسرا حادثہ یوں پیش آیا کہ میں نے علم تصوف پہ ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ''منہاج الدین'' رکھا تھا۔ ایک چرب زبان شخص۔ اس نے شروع سے میرا نام چھیل کر اور اپنا نام درج کرکے عام لوگوں میں کہنا شروع کردیا کہ یہ میری تصنیف ہے حالانکہ اس کی علمیت اور قابلیت سے آگاہ حضرات اس پر ہنستے تھے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس پر بے برکتی مسلط کردی۔''
کبھی پہلے جب لوگوں میں ظرف اور اخلاقیات موجود تھیں تب سرقہ کرنے والے جب کسی کی غزل یا شعر پہ ہاتھ صاف کرتے تھے تو چوری پکڑی جانے پر اسے ''توارد'' کے کھاتے میں ڈال کر اپنی شرمندگی چھپا لیتے تھے۔ لیکن آج جب لوگوں نے کتابیں پڑھنا کم کردی ہیں کہ ایک بڑی وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ کتابوں کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ سارا منافع سول ایجنٹ لے جاتے ہیں۔ مصنف بے چارہ تو ہمیشہ سے خسارے میں رہتا ہے۔ حکومت کو بھلا کتاب اور ادیب سے کیا لینا دینا؟ یہ کوئی ترقیاتی منصوبے تھوڑی ہیں جن کا ٹینڈر خوش نصیبوں کے نام نکلے اور سب کو مالا مال کرجائے۔
نہ ہی یہ کوئی جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرنے والی کمپنی ہے جو کاغذ کا ایک ٹکڑا جس پر کسی جعلی یونیورسٹی یا کالج کا مونو گرام چھپا ہو اسے ڈالروں میں بیچے۔ پہلے بھی کئی بار توجہ دلائی کہ ادبی رسائل اور کتب کی ڈاک کی شرح میں کمی کی جائے تاکہ بیرون ملک سے کتابیں منگوانے اور بھیجنے کی سہولت تو ایک ادیب کو حاصل ہو۔
پی پی کے آخری دنوں میں اسلام آباد میں ایک وفاقی وزیر صاحب کی توجہ بھی اس جانب دلائی تھی اور انھوں نے فرمایا تھا کہ ''یہ تو معمولی بات ہے وہ اس معاملے کو ضرور اٹھائیں گے۔'' لیکن سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے صرف وعدے کرتی ہیں اور بعد میں ان وعدوں پہ قہقہے لگاتی ہیں جن کی بنیاد پر انھوں نے ووٹ لیے تھے۔ یہ تو کتابوں اور اہل علم کی باتیں ہیں ان کا سیاسی لوگوں سے کیا کام؟