حکم حاکم

تازہ حکم کے مطابق موٹر سائیکل چلانے والوں کو ہیلمٹ استعمال کرنا ہوگا۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

تازہ حکم کے مطابق موٹر سائیکل چلانے والوں کو ہیلمٹ استعمال کرنا ہوگا۔ یہ حکم عوام کی حفاظت اور بھلائی کے لیے جاری کیا گیا ہے لہٰذا اس کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن اس حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھ کر سفر کرنے والے بھی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بیوی ہو، بہن یا بیٹی ہیلمٹ استعمال کریں گی۔(شدید عوامی احتجاج پر خواتین کو ہیلمٹ پہننے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ) خلاف ورزی پر 150 سے 300 روپے تک جرمانہ ہوگا۔

جہاں تک موٹر بائیک چلانے والوں کی بات ہے ہیلمٹ کا استعمال ناقابل اعتراض ہے لیکن خواتین پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی فائدہ مند ہونے کے باوجود قابل غور بھی ہے اور ہمارے معاشرتی کلچر میں مضحکہ خیز بھی ہے خاص طور پر رائج الوقت ہیلمٹ کا استعمال خواتین کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خواتین کو ہیلمٹ مفت فراہم کیے جائیں گے۔ لیکن ہیلمٹ خواتین کو مفت کب فراہم کیے جائیں گے؟ یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ ہیلمٹ کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور موٹر سائیکل چلانے والے اور اس پر سفر کرنے والے طبقات معاشی طور پر اس قدر کمزور ہیں کہ ہیلمٹ کی خریداری ان کے محدود بجٹ سے باہر ہوتی ہے اس پر یک نہ شد دو شد والا معاملہ درپیش ہو تو ظاہر ہے یہ مسئلہ اس طبقے کے لیے مشکلات کا باعث بھی بنے گا۔

ہماری ایک اجتماعی خرابی یہ ہے کہ ہم کام پہلے کرتے ہیں اور اس پر غور بعد میں کرتے ہیں ہمارے حاکمین نے یہ محسوس کرکے ہی یہ آفر دی ہوگی کہ خواتین کو ہیلمٹ مفت فراہم کیے جائیں گے لیکن اس ''جائیں گے'' کا عرصہ کتنا دراز ہوگا اس کی وضاحت نہیں کی گئی، اس کی وضاحت اور جلد ازجلد فراہمی اس لیے ضروری ہے کہ موٹر سائیکل چلانے والے طبقات دو ہیلمٹ خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اور قانون کا اطلاق شروع ہوچکا ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے خواتین کو ہیلمٹ فراہم کرنے کا انتظام کیا جاتا پھر ان پر یہ قانون لاگو کیا جاتا اور اگر خواتین کو ہیلمٹ فراہم کرنے میں وقت درکار ہے تو پھر انھیں ہیلمٹ کی مفت فراہمی تک چھوٹ دے دی جاتی یعنی اس قانون سے استثنیٰ دیا جاتا اس حوالے سے دوسرا سوال یہ ہے کہ رائج الوقت ہیلمٹ خواتین کے لیے تکلیف دہ بھی ہیں اور الجھنوں کا باعث بھی ہیں ہماری خواتین کے لیے ایسے ہیلمٹ بنوانے کی ضرورت ہے جسے وہ بغیر الجھن اور پریشانی کے استعمال کرسکیں۔

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے 68 سال ہو رہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہیلمٹ کی پابندی بہت پہلے لگا دی جاتی اگرچہ ماضی میں کئی بار محکمہ ٹریفک کی جانب سے ہیلمٹ استعمال کرنے کے حکم صادر ہوتے رہے لیکن ان احکامات کے بارے میں یہ تاثر رہا ہے کہ ان کا قصد موٹرسائیکل سواروں کا تحفظ نہیں بلکہ ہیلمٹ بنانے اور فروخت کرنے والوں کو کروڑوں کا فائدہ پہنچانا اور اس میں سے اپنا حصہ وصول کرنا رہا ہے۔


یہ تاثر اس لیے غلط نہیں کہ ماضی میں چلائی جانے والی یہ تمام مہمیں کچھ ہی عرصے بعد فلاپ ہوتی رہیں اگر ان مہموں کا مقصد عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا تو پھر یہ سلسلہ مرگی کے دوروں کی طرح نہ ہوتا بلکہ اس میں تسلسل ہوتا اور موٹرسائیکل سوار اب تک ذہنی اور نفسیاتی طور پر ہیلمٹ کے لازمی استعمال کے لیے تیار ہوجاتے۔

ٹریفک خطرات کے حوالے سے ہیلمٹ استعمال نہ کرنا ہی ایک خطرہ نہیں بلکہ ہمارا ٹریفک کا نظام اس قدر بگڑا ہوا اور انارکی زدہ ہے کہ اس پر ہر پہلو سے قوانین کی پابندی ضروری ہے، ٹریفک قوانین میں ریس لگانا، اوور ٹیکنگ کرنا، ون وے کو توڑنا، سرخ بتی کو نظر انداز کرنا، زیبرا کراسنگ پر چلنے کی پابندی نہ کرنا سمیت بے شمار قوانین ایسے ہیں جن کی خلاف ورزی دھڑلے سے جاری ہے اور اس خلاف ورزی کے نتیجے میں حادثات بھی ہو رہے ہیں اور جانی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ کیا صرف ہیلمٹ کے لازمی استعمال سے وہ نقصان ختم ہوجائیں گے جو دوسرے اہم ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے پیش آتے ہیں؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری انتظامیہ میں ایسے لوگ موجود ہی نہیں جو مسائل کا مجموعی طور پر جائزہ لے کر انھیں ایک مکمل پیکیج اور جامعہ منصوبہ بندی کے ساتھ حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اس قسم کے اقدامات کا مقصد اب تک نیم دلی سے مسائل حل کرنے کی نفسیات ہے۔ اور یہ وبا نیچے سے اوپر تک اس طرح سرائیت کرگئی ہے کہ پورا ملک ہی نیم دلانا ایڈہاک ازم اور کمپنی کی مشہوری اور اوپر سے واہ واہ کے حصول کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔

ترقی یافتہ ملکوں کو تو چھوڑیے کہ وہاں کی زندگی میں ٹریفک کے قوانین کی پابندی فرض مانی جاتی ہے ہمارے پڑوسی عرب ملکوں میں ٹریفک کا نظام اس قدر مربوط اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد اس قدر لازمی ہوتا ہے کہ کوئی شہری ان کی خلاف ورزی کی ہمت نہیں کرتا بلکہ ان ملکوں میں ایسا خودکار نظام موجود ہے جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کا ازخود احتساب کرتا ہے کسی سپاہی کو نہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے نہ کسی خلاف ورزی کرنے والے پر دہشت گرد ہونے کے شبے میں یا طاقت کے نشے میں گولی چلانے کا رواج ہے۔

پھر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد میں قطعی امتیاز نہیں برتا جاتا ملک کا ایک غریب شہری ہو یا کوئی سیٹھ ساہوکار یا سرمایہ دار حتیٰ کہ صدر، وزیر اعظم اور وزرا کو بھی ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی پڑتی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں قانونی ماہرین یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے قوانین عوامی نفسیات سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ قوانین پر عملدرآمد کرنے میں مشکلات تو پیش نہیں آئیں گی ان ساری احتیاطی تدابیر کے ساتھ جب قانون نافذ کیے جاتے ہیں تو ان پر عملدرآمد بھی آسان ہوتا ہے عوام کو شکایت بھی نہیں ہوتی۔

بدقسمتی سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ قانون پر عملدرآمد کرنے والی ساری مشینری کرپٹ ہے۔ ہر روز ہر سپاہی اور حوالدار کو ایک مقررہ رقم اوپر بھی پہنچانی ہوتی ہے۔ جب صورت حال یہ ہو تو پھر ٹریفک کے عملے کی اولین ترجیح اپنے اور اوپر کے حصے کی رقم اکٹھا کرنا ہوتا ہے جس نظام میں قانون نافذ کرنے والی مشینری کی ترجیحات یہ ہوں وہاں قانون کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اس نظام کی ایک سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہاں امتیاز برتا جاتا ہے ایک مشیر وزیر کھلے بندوں ٹریفک کی خلاف ورزی کرتا ہے اعلیٰ پولیس اہلکاروں اور عہدیداروں کی اولاد اپنے آپ کو ہر قانون سے آزاد سمجھتی ہے اور ہمارے وردی پوش اہلکار اور افسر قانون توڑنے والی ایلیٹ کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انھیں سلیوٹ کرتے ہیں۔
Load Next Story