راہداری کا ستون بلوچستان
تقسیم برصغیر کے وقت جو لوگ بھی برصغیر کے رہنما تھے وہ نفاق پرور نہ تھے ورنہ اس قدر جمہوری انداز میں تقسیم نہ ہوتی
ISLAMABAD:
گزشتہ جمعے کو جب میرا راہداری پر پہلا کالم آیا تو بھارت نے گوکہ ایسا منہ نہ کھولا تھا کہ بو آئے، مگر اس وقت بھی ایسا لگا کہ اندازگفتگو 71/72 جیسا ہے۔ بالآخر اب کھلم کھلا بھارت نے 1971-72 والی زبان اختیار کرلی بنگلہ دیش بن چکا، کچھ ہماری بھی سیاسی غلطیاں تھیں، ہم نے معافی بھی مانگ لی، بنگلہ دیش کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم بھی کرلیا، مگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم کو پاک چین راہداری کے معاہدے کے بعد فاؤل پلے (Fowl Play) کا آغاز کردیا اور بنگلہ دیش کو بڑی چابک دستی سے استعمال کرنا شروع کردیا کہ ہندو مسلم دو قومیں نہیں بلکہ دو مفادات ہی دو قومیتوں کو جنم دیتے ہیں۔
یہی نظریہ استعمال کر کے سادہ لوح بنگالیوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا، لہٰذا قوموں کے راستے بدلنے کے لیے نریندر مودی نے کشمیر کارڈ کا توڑ کرنے والا کارڈ نکالا اور حسینہ واجد کے سپرد کیا۔ ایک سادہ لوح چڑیا کے طور پر بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے صیاد کا پھینکا ہوا دانہ چُگ لیا اور ان کے جال میں آگئیں۔ نریندر مودی جو شروع سے فرقہ پرستی میں اول رہے ہیں ،حسینہ واجد کو اپنا قوم پرستانہ رول دکھا رہے ہیں جب کہ ان کی نظر میں قومیت کی بنیاد وطنیت نہیں بلکہ مذہب ہے۔ مگر یہاں وہ قومیت کو وطنیت کا نام دے رہے ہیں۔ جب کہ نریندر مودی نے فکری طور پر ان کا ساتھ دیا جو بھارت کے عظیم رہنما گاندھی کے قاتل کے ہمنوا ہیں، اور اسی محاذ سے وابستہ رہے ہیں۔
تقسیم برصغیر کے وقت جو لوگ بھی برصغیر کے رہنما تھے وہ نفاق پرور نہ تھے ورنہ اس قدر جمہوری انداز میں تقسیم نہ ہوتی اور نہ گاندھی جی پاکستان کو اس کا حصہ دلانے میں مرن برتھ رکھتے اور نہ سینے پہ گول کھاتے ۔اس وقت کے تمام بلند پایہ ہندو مسلم لیڈر یہ سمجھتے تھے کہ تقسیم سے ہندو مسلم نفرت کم ہوجائے گی اور برصغیر میں شانتی کا دور دورہ ہوگا۔
مگر انگریز کے سامراجی ہتھکنڈوں کی وجہ سے حیدر آباد دکن، موناباؤ،کشمیر، جیسے کئی معاملات وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے اور الجھتے گئے خصوصاً کمزور لیڈروں نے اپنی سیاست کے عروج کے لیے معاملات بالآخر دونوں ملکوں یعنی بھارت اور پاکستان کی کئی جنگیں ہوئیں اور غیر ممالک کے سامنے اس معاملے کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بھارت کے آنے والے لیڈروں نے اس سے پہلو تہی برتی اور اب یہ معاملہ ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے۔
نریندر مودی جس راہ پر چل رہے ہیں اور جس طرح وہ گڑھے مردے اکھاڑ رہے ہیں، محض تلخیوں میں اضافہ نہیں کر رہے بلکہ ایک بار پھر جنگی جنون پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک منطقی فعل تھا جو ازخود سرزد ہونا تھا کہ دونوں ملکوں کو آزادی کے ثمرات ایک ساتھ ملے۔ بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے اور آزاد کرنے والے اور تسلیم کرنے والے برطانیہ عظمیٰ تھے۔
نچلی سطح پر تو کشت وخون ہوا مگر ہندو مسلم سکھ اور کرسچن جو بھی افواج میں تھے کشت وخون سے گریزاں رہے جب کہ دنیا کی نظروں میں یہ تھا کہ برصغیر پرامن ہوجائے گا مگر تقسیم کے بعدکی لیڈر شپ نے وہ آدرش نہ اپنائے جو جدوجہد آزادی کے وقت تھے۔ اس بات سے کیا انکارکیا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف مسلم لیگ کے لیڈر تھے بلکہ وہ کانگریس کے بھی رہنما رہ چکے تھے ، تقسیم برصغیر کے اتفاقات نے سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔ وہ لوگ جو انتہا پسند تھے اور تقسیم ہند پر یقین نہ رکھتے تھے قیادت ان کے ہاتھ آگئی۔ نتیجتاً تلخیوں میں اضافہ ہوتا گیا پہلے گاندھی جی رخصت ہوئے۔
جس نے بھارت کی سیاست میں جن سنگھ، راشٹریہ سیوک سنگھ اور ان کے ہمنواؤں کو مضبوط کیا کیونکہ برصغیر کی تقسیم کی تمام تر ذمے داریاں گاندھی جی پر ڈال دی گئیں۔ بھارت کے موجودہ حکمراں اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور اندرا گاندھی بھی آخری دنوں میں انتہا پسندوں کے کارڈ کھیلنے لگی تھیں بالکل اسی طرح جیسے شہید ذوالفقار علی بھٹو 9 ستاروں کی فہرست مطالبات پر عمل پیرا تھے مثلاً جمعے کی چھٹی، قادیانیوں کے مسئلے پر، شراب کی بندش پر اور اسی قسم کے دیگر مطالبات ، غرض تلخیاں بڑھتی گئیں اور سیاسی بدعقلی اور غیر مقبول جنگ میں پاکستان کو ہزیمت اٹھانی پڑی آج بھی صورتحال پاکستان کے حق میں نہیں کیونکہ اندرونی خلفشار، کے پی کے میں جنگ جیسی صورتحال، شورش اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش، جس کو ماضی کی حکومتوں نے نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ ایک وقت ایسا آیا کہ پاک فوج کو ضرب عضب کا اعلان کرنا پڑا۔ ورنہ سیاسی حکومت نے دہشت گردوں کے آگے سپر ڈالنے کا اعلان کردیا تھا۔
بلوچستان کی بڑھتی ہوئی شورش پرکوئی سیاسی قدم نہ اٹھایا گیا پاکستان کی سیاسی قیادت نے چین سے سہارا لینے کے لیے معاشی معاہدے کیے مگر یورپی یونین اور ان کے اتحادیوں کو ہمنوا نہ بنایا کیونکہ پاکستان میں کوئی سیاسی تھنک ٹینک موجود نہیں۔ اگر ہے تو وہ ماضی کے ریٹائرڈ سفارت کار جو امریکی خارجہ پالیسی کے دلدادہ ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا سیاسی سفر اس منزل پر فائز نہ تھا کہ جو ہونا تھا بلکہ یہاں جو بھی سفارت کار موجود ہیں وہ تائید کار ہیں یعنی اقتدار کی تنقید اور تفصیل کے بجائے ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تدابیر سوچنا۔ جب کہ بھارتی پروپیگنڈہ کی حکمت عملی کا توڑ سوچنا چاہیے تھا۔
پرویز مشرف نے اکبر بگٹی کو قتل کرکے قوم پرستوں تک جانے کا واحد مضبوط پل توڑ دیا یہی وہ پل تھا جس کو 1974 کی مضبوط بلوچ بغاوت میں استعمال کیا گیا تھا، لہٰذا ایسی صورت میں متبادل صورت حال استعمال کرنی تھی چھوٹے چھوٹے پلوں کو استعمال کیا جانا تھا جو ہنوز غیر استعمال شدہ ہیں ۔ سیاست میں چار سمتیں معاملات کو سلجھانے کی نہیں ہوتیں بالکل صفر سے لے کر 180 ڈگری تک کے جھکاؤ موجود ہیں اور کون سا ہمارے حق میں جاتا ہے۔
نریندر مودی نے سیدھا بھونڈا 90 ڈگری کے زاویے پر بنگلہ دیش کو استعمال کیا جو محض ایک کاغذی پروپیگنڈہ ہے کہ بھارت قوموں کی آزادی کی جنگ میں قربانیاں دیتا ہے مگر یہ بھی بی جے پی کی ناکام کوشش ہے یہ نریندر مودی کے کرتوتوں سے ملاپ نہیں کھاتی البتہ ایک بار پھر بلوچستان کے مسئلے پر کچھ دو اور کچھ لو کی گیند گراؤنڈ میں پھینکنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ راہداری کے استعمال کے لیے گوادر، پنجگور، جیونی، تربت، مکران، جھالاوان کے علاقوں کا پرسکون ہونا ضروری ہے۔ گوادر کی زمینیں کئی بار ہاؤسنگ کے لیے فروخت ہوچکی ہیں مگر وہاں کے زمینی حقائق کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک گوکہ نواب اور سردار نہیں ان کو مزید مراعات دی جانی چاہئیں تاکہ قوم پرست بلوچوں کا ایک بڑا اجلاس طلب کریں اور تمام خیالات کے لوگوں کو بحفاظت آنے جانے کا موقع اور اظہار خیال کا موقع دیا جائے کہ مزید برف پگھلے اور گاڑی آگے چلے۔ ڈاکٹر عبدالمالک زیرک، ٹھنڈے مزاج کے مالک اور بہادر شخص ہیں۔
نسل پرستی سے بالاتر ہوکر یہ سمجھیے کہ پرانی نسل کا نیا چراغ ہیں ان کے ہاتھوں کو مضبوط کرکے نریندر مودی جیسے ہزاروں فتنوں کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔ اور رہ گیا حسینہ واجد کا معاملہ ، وہ سیاست کی پیداوار نہیں بلکہ حادثات کی پیداوار ہیں ان کو ٹھنڈا کرنا آسان ہے نریندر مودی حسینہ واجد کو انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر استعمال کرنے اور بلوچستان میں مداخلت کے لیے کھلم کھلا جواز پیدا کر رہے ہیں اور دنیا کو یہ بنا رہے ہیں کہ پاکستان نے ماضی میں نسل کشی کی ہے اور وہ آج بھی نسل کشی میں مصروف تھے۔
آنے والا وقت کٹھن ہے اس کی سفارتی سطح پر اور آزاد خیال فورم پر ترجمانی ضروری ہے۔ تاکہ یہ محسوس نہ ہو کہ یہ حکومتی پروپیگنڈہ ہے بلکہ حقیقت ہے۔ نریندر مودی ایک منفی سوچ کا مالک ہے۔ لہٰذا الفاظ کے ترکش چلانے اور تاریخ کے نئے زاویوں سے تشریح کی ضرورت ہے۔ کیونکہ راہداری کوئی امپورٹڈ گڈز نہیں بلکہ ہزاروں میل کا سفر ہے اور دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں ایسے موقعے پر ڈاکٹر عبدالمالک کا گزشتہ دنوں کا چشم کشا بیان زیب داستان کے لیے ضروری ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ راہداری ایک حقیقت ہے مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوچ محض چوکیداری کے فرائض ادا کرتے رہیں ۔ لہٰذا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو مکمل اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ راہداری کا اصل ستون اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم رہے۔
گزشتہ جمعے کو جب میرا راہداری پر پہلا کالم آیا تو بھارت نے گوکہ ایسا منہ نہ کھولا تھا کہ بو آئے، مگر اس وقت بھی ایسا لگا کہ اندازگفتگو 71/72 جیسا ہے۔ بالآخر اب کھلم کھلا بھارت نے 1971-72 والی زبان اختیار کرلی بنگلہ دیش بن چکا، کچھ ہماری بھی سیاسی غلطیاں تھیں، ہم نے معافی بھی مانگ لی، بنگلہ دیش کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم بھی کرلیا، مگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم کو پاک چین راہداری کے معاہدے کے بعد فاؤل پلے (Fowl Play) کا آغاز کردیا اور بنگلہ دیش کو بڑی چابک دستی سے استعمال کرنا شروع کردیا کہ ہندو مسلم دو قومیں نہیں بلکہ دو مفادات ہی دو قومیتوں کو جنم دیتے ہیں۔
یہی نظریہ استعمال کر کے سادہ لوح بنگالیوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا، لہٰذا قوموں کے راستے بدلنے کے لیے نریندر مودی نے کشمیر کارڈ کا توڑ کرنے والا کارڈ نکالا اور حسینہ واجد کے سپرد کیا۔ ایک سادہ لوح چڑیا کے طور پر بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے صیاد کا پھینکا ہوا دانہ چُگ لیا اور ان کے جال میں آگئیں۔ نریندر مودی جو شروع سے فرقہ پرستی میں اول رہے ہیں ،حسینہ واجد کو اپنا قوم پرستانہ رول دکھا رہے ہیں جب کہ ان کی نظر میں قومیت کی بنیاد وطنیت نہیں بلکہ مذہب ہے۔ مگر یہاں وہ قومیت کو وطنیت کا نام دے رہے ہیں۔ جب کہ نریندر مودی نے فکری طور پر ان کا ساتھ دیا جو بھارت کے عظیم رہنما گاندھی کے قاتل کے ہمنوا ہیں، اور اسی محاذ سے وابستہ رہے ہیں۔
تقسیم برصغیر کے وقت جو لوگ بھی برصغیر کے رہنما تھے وہ نفاق پرور نہ تھے ورنہ اس قدر جمہوری انداز میں تقسیم نہ ہوتی اور نہ گاندھی جی پاکستان کو اس کا حصہ دلانے میں مرن برتھ رکھتے اور نہ سینے پہ گول کھاتے ۔اس وقت کے تمام بلند پایہ ہندو مسلم لیڈر یہ سمجھتے تھے کہ تقسیم سے ہندو مسلم نفرت کم ہوجائے گی اور برصغیر میں شانتی کا دور دورہ ہوگا۔
مگر انگریز کے سامراجی ہتھکنڈوں کی وجہ سے حیدر آباد دکن، موناباؤ،کشمیر، جیسے کئی معاملات وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے اور الجھتے گئے خصوصاً کمزور لیڈروں نے اپنی سیاست کے عروج کے لیے معاملات بالآخر دونوں ملکوں یعنی بھارت اور پاکستان کی کئی جنگیں ہوئیں اور غیر ممالک کے سامنے اس معاملے کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بھارت کے آنے والے لیڈروں نے اس سے پہلو تہی برتی اور اب یہ معاملہ ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے۔
نریندر مودی جس راہ پر چل رہے ہیں اور جس طرح وہ گڑھے مردے اکھاڑ رہے ہیں، محض تلخیوں میں اضافہ نہیں کر رہے بلکہ ایک بار پھر جنگی جنون پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک منطقی فعل تھا جو ازخود سرزد ہونا تھا کہ دونوں ملکوں کو آزادی کے ثمرات ایک ساتھ ملے۔ بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے اور آزاد کرنے والے اور تسلیم کرنے والے برطانیہ عظمیٰ تھے۔
نچلی سطح پر تو کشت وخون ہوا مگر ہندو مسلم سکھ اور کرسچن جو بھی افواج میں تھے کشت وخون سے گریزاں رہے جب کہ دنیا کی نظروں میں یہ تھا کہ برصغیر پرامن ہوجائے گا مگر تقسیم کے بعدکی لیڈر شپ نے وہ آدرش نہ اپنائے جو جدوجہد آزادی کے وقت تھے۔ اس بات سے کیا انکارکیا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف مسلم لیگ کے لیڈر تھے بلکہ وہ کانگریس کے بھی رہنما رہ چکے تھے ، تقسیم برصغیر کے اتفاقات نے سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔ وہ لوگ جو انتہا پسند تھے اور تقسیم ہند پر یقین نہ رکھتے تھے قیادت ان کے ہاتھ آگئی۔ نتیجتاً تلخیوں میں اضافہ ہوتا گیا پہلے گاندھی جی رخصت ہوئے۔
جس نے بھارت کی سیاست میں جن سنگھ، راشٹریہ سیوک سنگھ اور ان کے ہمنواؤں کو مضبوط کیا کیونکہ برصغیر کی تقسیم کی تمام تر ذمے داریاں گاندھی جی پر ڈال دی گئیں۔ بھارت کے موجودہ حکمراں اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور اندرا گاندھی بھی آخری دنوں میں انتہا پسندوں کے کارڈ کھیلنے لگی تھیں بالکل اسی طرح جیسے شہید ذوالفقار علی بھٹو 9 ستاروں کی فہرست مطالبات پر عمل پیرا تھے مثلاً جمعے کی چھٹی، قادیانیوں کے مسئلے پر، شراب کی بندش پر اور اسی قسم کے دیگر مطالبات ، غرض تلخیاں بڑھتی گئیں اور سیاسی بدعقلی اور غیر مقبول جنگ میں پاکستان کو ہزیمت اٹھانی پڑی آج بھی صورتحال پاکستان کے حق میں نہیں کیونکہ اندرونی خلفشار، کے پی کے میں جنگ جیسی صورتحال، شورش اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش، جس کو ماضی کی حکومتوں نے نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ ایک وقت ایسا آیا کہ پاک فوج کو ضرب عضب کا اعلان کرنا پڑا۔ ورنہ سیاسی حکومت نے دہشت گردوں کے آگے سپر ڈالنے کا اعلان کردیا تھا۔
بلوچستان کی بڑھتی ہوئی شورش پرکوئی سیاسی قدم نہ اٹھایا گیا پاکستان کی سیاسی قیادت نے چین سے سہارا لینے کے لیے معاشی معاہدے کیے مگر یورپی یونین اور ان کے اتحادیوں کو ہمنوا نہ بنایا کیونکہ پاکستان میں کوئی سیاسی تھنک ٹینک موجود نہیں۔ اگر ہے تو وہ ماضی کے ریٹائرڈ سفارت کار جو امریکی خارجہ پالیسی کے دلدادہ ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا سیاسی سفر اس منزل پر فائز نہ تھا کہ جو ہونا تھا بلکہ یہاں جو بھی سفارت کار موجود ہیں وہ تائید کار ہیں یعنی اقتدار کی تنقید اور تفصیل کے بجائے ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تدابیر سوچنا۔ جب کہ بھارتی پروپیگنڈہ کی حکمت عملی کا توڑ سوچنا چاہیے تھا۔
پرویز مشرف نے اکبر بگٹی کو قتل کرکے قوم پرستوں تک جانے کا واحد مضبوط پل توڑ دیا یہی وہ پل تھا جس کو 1974 کی مضبوط بلوچ بغاوت میں استعمال کیا گیا تھا، لہٰذا ایسی صورت میں متبادل صورت حال استعمال کرنی تھی چھوٹے چھوٹے پلوں کو استعمال کیا جانا تھا جو ہنوز غیر استعمال شدہ ہیں ۔ سیاست میں چار سمتیں معاملات کو سلجھانے کی نہیں ہوتیں بالکل صفر سے لے کر 180 ڈگری تک کے جھکاؤ موجود ہیں اور کون سا ہمارے حق میں جاتا ہے۔
نریندر مودی نے سیدھا بھونڈا 90 ڈگری کے زاویے پر بنگلہ دیش کو استعمال کیا جو محض ایک کاغذی پروپیگنڈہ ہے کہ بھارت قوموں کی آزادی کی جنگ میں قربانیاں دیتا ہے مگر یہ بھی بی جے پی کی ناکام کوشش ہے یہ نریندر مودی کے کرتوتوں سے ملاپ نہیں کھاتی البتہ ایک بار پھر بلوچستان کے مسئلے پر کچھ دو اور کچھ لو کی گیند گراؤنڈ میں پھینکنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ راہداری کے استعمال کے لیے گوادر، پنجگور، جیونی، تربت، مکران، جھالاوان کے علاقوں کا پرسکون ہونا ضروری ہے۔ گوادر کی زمینیں کئی بار ہاؤسنگ کے لیے فروخت ہوچکی ہیں مگر وہاں کے زمینی حقائق کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک گوکہ نواب اور سردار نہیں ان کو مزید مراعات دی جانی چاہئیں تاکہ قوم پرست بلوچوں کا ایک بڑا اجلاس طلب کریں اور تمام خیالات کے لوگوں کو بحفاظت آنے جانے کا موقع اور اظہار خیال کا موقع دیا جائے کہ مزید برف پگھلے اور گاڑی آگے چلے۔ ڈاکٹر عبدالمالک زیرک، ٹھنڈے مزاج کے مالک اور بہادر شخص ہیں۔
نسل پرستی سے بالاتر ہوکر یہ سمجھیے کہ پرانی نسل کا نیا چراغ ہیں ان کے ہاتھوں کو مضبوط کرکے نریندر مودی جیسے ہزاروں فتنوں کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔ اور رہ گیا حسینہ واجد کا معاملہ ، وہ سیاست کی پیداوار نہیں بلکہ حادثات کی پیداوار ہیں ان کو ٹھنڈا کرنا آسان ہے نریندر مودی حسینہ واجد کو انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر استعمال کرنے اور بلوچستان میں مداخلت کے لیے کھلم کھلا جواز پیدا کر رہے ہیں اور دنیا کو یہ بنا رہے ہیں کہ پاکستان نے ماضی میں نسل کشی کی ہے اور وہ آج بھی نسل کشی میں مصروف تھے۔
آنے والا وقت کٹھن ہے اس کی سفارتی سطح پر اور آزاد خیال فورم پر ترجمانی ضروری ہے۔ تاکہ یہ محسوس نہ ہو کہ یہ حکومتی پروپیگنڈہ ہے بلکہ حقیقت ہے۔ نریندر مودی ایک منفی سوچ کا مالک ہے۔ لہٰذا الفاظ کے ترکش چلانے اور تاریخ کے نئے زاویوں سے تشریح کی ضرورت ہے۔ کیونکہ راہداری کوئی امپورٹڈ گڈز نہیں بلکہ ہزاروں میل کا سفر ہے اور دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں ایسے موقعے پر ڈاکٹر عبدالمالک کا گزشتہ دنوں کا چشم کشا بیان زیب داستان کے لیے ضروری ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ راہداری ایک حقیقت ہے مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوچ محض چوکیداری کے فرائض ادا کرتے رہیں ۔ لہٰذا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو مکمل اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ راہداری کا اصل ستون اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم رہے۔