بجٹ عوام دوست
تین جون کی شام ہم اسلام آباد پہنچے تو یکم جون 2013ء کی نسبت موسم بے حد خوشگوار تھا۔
تین جون کی شام ہم اسلام آباد پہنچے تو یکم جون 2013ء کی نسبت موسم بے حد خوشگوار تھا۔ کراچی میں اے سی چل رہے تھے اور یہاں سب سے کم رفتار پر پنکھے میں بھی ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی چار جون کو ایوان بالا و زیریں کا مشترکہ اجلاس تھا، جس سے صدر مملکت کو خطاب فرمانا تھا۔ پانچ جون کی شام ساڑھے چار بجے بجٹ اجلاس ہونا تھا، ہم وقت مقررہ سے کچھ پہلے ہی اسمبلی ہال میں مہمانوں کی مخصوص نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے تا کہ اجلاس کی کارروائی ابتدا سے آخر تک دیکھ سکیں، خیال تھا کہ پانچ دس منٹ بعد یعنی وقت مقررہ پر اجلاس کا آغاز ہو جائے گا۔
مگر ساڑھے چار بجے تو ارکان اسمبلی حتیٰ کہ حکومتی ایم این ایز تک ہال میں مکمل طور پر موجود نہ تھے۔ اسمبلی کے اہلکار اپنے سفید بے داغ لباس اور جناح کیپ میں البتہ اپنے کام میں وقت سے پہلے سے ہی مصروف تھے۔ تمام ارکان اسمبلی کی نشستوں پر بجٹ تقریر اور دیگر معلوماتی مواد کی کاپیاں رکھی جا چکی تھیں۔ تقریباً پونے پانچ بجے ارکان اسمبلی خاصی تعداد میں آ چکے تھے مگر اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے بجائے ایک دوسرے کی پرسش احوال میں مصروف رہے۔
اللہ اللہ کر کے پانچ بجنے میں سات آٹھ منٹ پر اسپیکر صاحب نے اپنی نشست سنبھالی اور فوراً ہی تلاوت کلام پاک سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کا آغاز پانچ بجنے میں پانچ منٹ پر ہوا، ہم سمجھے کہ ایک سوا گھنٹے کا اجلاس ہو گا مگر بجٹ تقریر (اذان کے وقفے سمیت) دو گھنٹے دس منٹ جاری رہی، اس دوران اپنے من پسند نکات پر (ن) لیگ کے ایم این ایز ڈیسک بجا کر وزیر خزانہ کو داد دیتے رہے۔
باقی جماعتوں کے ارکان کچھ تو انہماک سے بجٹ تقریر کی کاپیاں سامنے رکھے بغور تقریر سن کر اہم نکات کو نشان زد کرتے رہے اور کچھ آپس میں گفتگو اور تبصروں میں مصروف رہے۔ بجٹ کا بغور مطالعہ کرنے والوں میں (ہماری حد نگاہ تک) پی ٹی آئی کے اسد عمر، ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی اور رشید گوڈیل کے علاوہ چند خواتین جن کے جماعتی تعلق سے ہم واقف نہ تھے کسی حد تک شیریں مزاری اور سمن جعفری بھی شامل تھیں۔
ہمارے پاس کیونکہ بجٹ تقریر کی کاپی موجود نہ تھی لہٰذا ہم نے اپنی نوٹ بک میں ضروری نکات تقریر سن کر نوٹ کیے۔ بجٹ خوبصورت الفاظ اور اعداد و شمار کا ایسا گورکھ دھندا تھی کہ فوراً کچھ سمجھ میں آنا ذرا مشکل تھا۔ البتہ بعد میں اپنے نوٹس اور اخباری بیان (وزیر خزانہ کا) سے کچھ سمجھ میں آیا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ پاکستانی حکومت کی ترجیحات ہمیشہ وہ رہی ہیں جن میں ان کا اپنا مفاد ہو۔ بقول منیر نیازی:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اب ایسے میں چاہے کوئی بھی جماعت برسر اقتدار آئے خیر سے وہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے ہر سال بجٹ کا تماشا بھی ضرور لگائے گی۔ عوام جن کو امور حکومت سے یوں بھی دور ہی رکھا جاتا ہے ان میں علم و آگہی کہاں؟ بھلا جب علم و آگہی، عقل و دانش پاس نہ پھٹک سکے تو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا یعنی بجٹ بے چارے عوام کی سمجھ میں کیسے آ سکتا ہے۔
ہمارے قلمکار، تجزیہ کار، کالم نگار، جو درحقیقت حالات حاضرہ، ملکی ضروریات اور معاشی و معاشرتی ترجیحات سے واقعی آگاہ ہوتے ہیں جب اس بجٹ کا بہ نظر غائر پوسٹ مارٹم کر کے عوام کو آسان الفاظ میں بتاتے ہیں کہ دراصل یہ جو عوام دوست بجٹ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ درحقیقت عوام دشمن بجٹ ہے اور اس لفظی و اعداد و شمار کی پٹاری سے چن چن کر وہ نکات سامنے لانے کی جرأت کرتے ہیں جو الفاظ کے خوبصورت پردوں میں چھپا کر عوام کے خلاف بنائے جاتے ہیں تو حکومتی ارکان بلکہ خود وزیر خزانہ اپنے پیش کردہ بجٹ کو پھر مختلف چینلز اور پریس کانفرنسز یا اخباری بیانات میں لفظی ہیرپھیر سے عوام کو سبز باغ دکھانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔
تنخواہیں بڑھائی گئیں ہیں تو کیا مہنگائی کا جن بوتل میں بند کر دیا گیا ہے؟ جس رفتار سے مہنگائی بڑھی ہے (سال بھر میں) اتنا ہی اضافہ عام آدمی کی ماہانہ آمدنی میں بھی کیا گیا ہے؟ مہنگائی تو تقریباً دو سو فیصد تک بڑھی ہے جب کہ تنخواہوں میں اضافہ 7½ فیصد ہوا ہے۔ تو عوام کو فائدہ کہاں سے حاصل ہوا؟
وزیر خزانہ نے جن معمولی ٹیکسوں کا بار بار اور زور دے کر ذکر کیا ہے ان کو خود ہی یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ یہ ٹیکس عوام پر نہیں بلکہ خواص پر لگے ہیں یعنی معمولی ٹیکس بڑی آمدنی والوں پر جب کہ بڑے ٹیکس عام آدمی پر مثلاً ڈیوڈنڈ کے منافعے پر 25 فیصد ٹیکس لگا ہے جو کسی غریب پر نہیں بلکہ امیروں پر لگا ہے۔
گویا امیروں پر ٹیکس لگا بھی تو معمولی سا اور اس معمولی کا ذکر اس طرح کیا گیا جیسے یہ عام آدمی کی بھلائی کے لیے ہو۔ یہ ہے وہ لفظی ہیر پھیر جس میں عوام کو مبتلا کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور ''معمولی ٹیکس'' مرکنٹائل ایکسچینجز پر لگا ہے جوکہ 0.1 فیصد ہے اور وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی معمولی ٹیکس ہے کیونکہ اس ذریعے سے کوئی بھی غریب آدمی رقوم کا تبادلہ نہیں کرتا، باالفاظ دیگر یہ ذریعہ تبادلہ زر بڑے لوگوں کا ہے اسی لیے ان سے کروڑوں کے کاروبار پر صرف 0.1 فیصد ٹیکس لیا جائے گا، معمولی ٹیکسوں کا ذکر کر کے سیدھے سادھے عوام کو خوش کیا گیا مگر بغور دیکھنے پر اور عقل و دانش کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو سارا فائدہ امیروں کو پہنچایا گیا ہے جو واقعی ان کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس صورتحال میں یہ بجٹ عوام دوست ہو یا خواص دوست؟ اس بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ بجلی مہنگی نہیں کی گئی وجہ اس کی یہ ہے کہ مہنگی وہ چیز ہوتی ہے جس کا وجود ہو۔ پھر بجلی کی موجودگی کی یقین دہانی کرانا بجٹ کا کام نہیں جب بجلی ہو گی ہی نہیں تو سستی مہنگی سے کیا فرق پڑتا ہے۔
بقول وزیر خزانہ کے پی کے کو خصوصی مراعات اس کے خراب حالات کے باعث دی گئی ہیں، ملک میں جہاں کہیں بھی ایسی صورتحال ہوتی ہے ایسے ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس بیان کے تناظر میں حکومت کے حفاظتی اقدام سے تو لگتا ہے کہ کراچی کے حالات پورے ملک میں سب سے زیادہ خراب ہیں یہاں کے شہریوں کو ہر وقت شناختی کارڈ ساتھ رکھنے کے علاوہ پولیس مقابلے، چھاپے، راہ چلتے نوجوانوں کو فائرنگ سے ہلاک کرنے، گھروں سے لوگوں کو اٹھا کر لے جانے کے علاوہ دہشت گردی کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے جو پولیس اور رینجرز کی مختلف کارروائیوں کو جواز بھی بنایا جاتا ہے ملک کے تمام بڑے شہروں سے زیادہ ریونیو دینے والا اور ہر وقت غیر یقینی صورتحال سے دوچار شہر بھی کراچی ہے اس کے لیے تو کسی خصوصی مراعات کا اعلان نہیں کیا گیا۔
وزیر صاحب کا فرمان ہے کہ کے پی کے کو دی گئی مراعات کو سیاسی اقدام نہ سمجھا جائے، مگر کراچی کے لیے سوائے گرین لائن منصوبے کے کچھ نہ کرنے کو کیا سمجھا جائے؟ اور یہ منصوبہ بھی صوبائی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو گزشتہ دو سال سے کراچی تو کیا سندھ بھر کا کوئی مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
آخری بات یہ کہ تمام سیاسی جماعتوں کی پاکستان کی بہتری کے لیے تجاویز پر عمل کرنے کا ارادہ موصوف نے ظاہر کیا ہے ساتھ ہی انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ''کاش پی ٹی آئی اپنا شیڈو بجٹ دس دن پہلے جاری کرتی'' گویا وزیر موصوف اس بجٹ سے ضرور مستفیض ہوتے۔ مگر انھوں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں فرمایا کہ ایم کیو ایم نے جو تقریباً 25 روز قبل اپنا شیڈو بجٹ پیش کیا تھا اس سے بھی کچھ استفادہ کیا؟ اس کا تو ذکر کرنا بھی انھوں نے ضروری خیال نہ کیا۔ اس صورتحال کو سیاسی کہا جائے یا محض معصومیت؟
مگر ساڑھے چار بجے تو ارکان اسمبلی حتیٰ کہ حکومتی ایم این ایز تک ہال میں مکمل طور پر موجود نہ تھے۔ اسمبلی کے اہلکار اپنے سفید بے داغ لباس اور جناح کیپ میں البتہ اپنے کام میں وقت سے پہلے سے ہی مصروف تھے۔ تمام ارکان اسمبلی کی نشستوں پر بجٹ تقریر اور دیگر معلوماتی مواد کی کاپیاں رکھی جا چکی تھیں۔ تقریباً پونے پانچ بجے ارکان اسمبلی خاصی تعداد میں آ چکے تھے مگر اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے بجائے ایک دوسرے کی پرسش احوال میں مصروف رہے۔
اللہ اللہ کر کے پانچ بجنے میں سات آٹھ منٹ پر اسپیکر صاحب نے اپنی نشست سنبھالی اور فوراً ہی تلاوت کلام پاک سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کا آغاز پانچ بجنے میں پانچ منٹ پر ہوا، ہم سمجھے کہ ایک سوا گھنٹے کا اجلاس ہو گا مگر بجٹ تقریر (اذان کے وقفے سمیت) دو گھنٹے دس منٹ جاری رہی، اس دوران اپنے من پسند نکات پر (ن) لیگ کے ایم این ایز ڈیسک بجا کر وزیر خزانہ کو داد دیتے رہے۔
باقی جماعتوں کے ارکان کچھ تو انہماک سے بجٹ تقریر کی کاپیاں سامنے رکھے بغور تقریر سن کر اہم نکات کو نشان زد کرتے رہے اور کچھ آپس میں گفتگو اور تبصروں میں مصروف رہے۔ بجٹ کا بغور مطالعہ کرنے والوں میں (ہماری حد نگاہ تک) پی ٹی آئی کے اسد عمر، ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی اور رشید گوڈیل کے علاوہ چند خواتین جن کے جماعتی تعلق سے ہم واقف نہ تھے کسی حد تک شیریں مزاری اور سمن جعفری بھی شامل تھیں۔
ہمارے پاس کیونکہ بجٹ تقریر کی کاپی موجود نہ تھی لہٰذا ہم نے اپنی نوٹ بک میں ضروری نکات تقریر سن کر نوٹ کیے۔ بجٹ خوبصورت الفاظ اور اعداد و شمار کا ایسا گورکھ دھندا تھی کہ فوراً کچھ سمجھ میں آنا ذرا مشکل تھا۔ البتہ بعد میں اپنے نوٹس اور اخباری بیان (وزیر خزانہ کا) سے کچھ سمجھ میں آیا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ پاکستانی حکومت کی ترجیحات ہمیشہ وہ رہی ہیں جن میں ان کا اپنا مفاد ہو۔ بقول منیر نیازی:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اب ایسے میں چاہے کوئی بھی جماعت برسر اقتدار آئے خیر سے وہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے ہر سال بجٹ کا تماشا بھی ضرور لگائے گی۔ عوام جن کو امور حکومت سے یوں بھی دور ہی رکھا جاتا ہے ان میں علم و آگہی کہاں؟ بھلا جب علم و آگہی، عقل و دانش پاس نہ پھٹک سکے تو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا یعنی بجٹ بے چارے عوام کی سمجھ میں کیسے آ سکتا ہے۔
ہمارے قلمکار، تجزیہ کار، کالم نگار، جو درحقیقت حالات حاضرہ، ملکی ضروریات اور معاشی و معاشرتی ترجیحات سے واقعی آگاہ ہوتے ہیں جب اس بجٹ کا بہ نظر غائر پوسٹ مارٹم کر کے عوام کو آسان الفاظ میں بتاتے ہیں کہ دراصل یہ جو عوام دوست بجٹ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ درحقیقت عوام دشمن بجٹ ہے اور اس لفظی و اعداد و شمار کی پٹاری سے چن چن کر وہ نکات سامنے لانے کی جرأت کرتے ہیں جو الفاظ کے خوبصورت پردوں میں چھپا کر عوام کے خلاف بنائے جاتے ہیں تو حکومتی ارکان بلکہ خود وزیر خزانہ اپنے پیش کردہ بجٹ کو پھر مختلف چینلز اور پریس کانفرنسز یا اخباری بیانات میں لفظی ہیرپھیر سے عوام کو سبز باغ دکھانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔
تنخواہیں بڑھائی گئیں ہیں تو کیا مہنگائی کا جن بوتل میں بند کر دیا گیا ہے؟ جس رفتار سے مہنگائی بڑھی ہے (سال بھر میں) اتنا ہی اضافہ عام آدمی کی ماہانہ آمدنی میں بھی کیا گیا ہے؟ مہنگائی تو تقریباً دو سو فیصد تک بڑھی ہے جب کہ تنخواہوں میں اضافہ 7½ فیصد ہوا ہے۔ تو عوام کو فائدہ کہاں سے حاصل ہوا؟
وزیر خزانہ نے جن معمولی ٹیکسوں کا بار بار اور زور دے کر ذکر کیا ہے ان کو خود ہی یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ یہ ٹیکس عوام پر نہیں بلکہ خواص پر لگے ہیں یعنی معمولی ٹیکس بڑی آمدنی والوں پر جب کہ بڑے ٹیکس عام آدمی پر مثلاً ڈیوڈنڈ کے منافعے پر 25 فیصد ٹیکس لگا ہے جو کسی غریب پر نہیں بلکہ امیروں پر لگا ہے۔
گویا امیروں پر ٹیکس لگا بھی تو معمولی سا اور اس معمولی کا ذکر اس طرح کیا گیا جیسے یہ عام آدمی کی بھلائی کے لیے ہو۔ یہ ہے وہ لفظی ہیر پھیر جس میں عوام کو مبتلا کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور ''معمولی ٹیکس'' مرکنٹائل ایکسچینجز پر لگا ہے جوکہ 0.1 فیصد ہے اور وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی معمولی ٹیکس ہے کیونکہ اس ذریعے سے کوئی بھی غریب آدمی رقوم کا تبادلہ نہیں کرتا، باالفاظ دیگر یہ ذریعہ تبادلہ زر بڑے لوگوں کا ہے اسی لیے ان سے کروڑوں کے کاروبار پر صرف 0.1 فیصد ٹیکس لیا جائے گا، معمولی ٹیکسوں کا ذکر کر کے سیدھے سادھے عوام کو خوش کیا گیا مگر بغور دیکھنے پر اور عقل و دانش کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو سارا فائدہ امیروں کو پہنچایا گیا ہے جو واقعی ان کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس صورتحال میں یہ بجٹ عوام دوست ہو یا خواص دوست؟ اس بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ بجلی مہنگی نہیں کی گئی وجہ اس کی یہ ہے کہ مہنگی وہ چیز ہوتی ہے جس کا وجود ہو۔ پھر بجلی کی موجودگی کی یقین دہانی کرانا بجٹ کا کام نہیں جب بجلی ہو گی ہی نہیں تو سستی مہنگی سے کیا فرق پڑتا ہے۔
بقول وزیر خزانہ کے پی کے کو خصوصی مراعات اس کے خراب حالات کے باعث دی گئی ہیں، ملک میں جہاں کہیں بھی ایسی صورتحال ہوتی ہے ایسے ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس بیان کے تناظر میں حکومت کے حفاظتی اقدام سے تو لگتا ہے کہ کراچی کے حالات پورے ملک میں سب سے زیادہ خراب ہیں یہاں کے شہریوں کو ہر وقت شناختی کارڈ ساتھ رکھنے کے علاوہ پولیس مقابلے، چھاپے، راہ چلتے نوجوانوں کو فائرنگ سے ہلاک کرنے، گھروں سے لوگوں کو اٹھا کر لے جانے کے علاوہ دہشت گردی کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے جو پولیس اور رینجرز کی مختلف کارروائیوں کو جواز بھی بنایا جاتا ہے ملک کے تمام بڑے شہروں سے زیادہ ریونیو دینے والا اور ہر وقت غیر یقینی صورتحال سے دوچار شہر بھی کراچی ہے اس کے لیے تو کسی خصوصی مراعات کا اعلان نہیں کیا گیا۔
وزیر صاحب کا فرمان ہے کہ کے پی کے کو دی گئی مراعات کو سیاسی اقدام نہ سمجھا جائے، مگر کراچی کے لیے سوائے گرین لائن منصوبے کے کچھ نہ کرنے کو کیا سمجھا جائے؟ اور یہ منصوبہ بھی صوبائی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو گزشتہ دو سال سے کراچی تو کیا سندھ بھر کا کوئی مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
آخری بات یہ کہ تمام سیاسی جماعتوں کی پاکستان کی بہتری کے لیے تجاویز پر عمل کرنے کا ارادہ موصوف نے ظاہر کیا ہے ساتھ ہی انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ''کاش پی ٹی آئی اپنا شیڈو بجٹ دس دن پہلے جاری کرتی'' گویا وزیر موصوف اس بجٹ سے ضرور مستفیض ہوتے۔ مگر انھوں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں فرمایا کہ ایم کیو ایم نے جو تقریباً 25 روز قبل اپنا شیڈو بجٹ پیش کیا تھا اس سے بھی کچھ استفادہ کیا؟ اس کا تو ذکر کرنا بھی انھوں نے ضروری خیال نہ کیا۔ اس صورتحال کو سیاسی کہا جائے یا محض معصومیت؟