شکستِ فاتحانہ
حقیقت یہ ہے کہ وہ مطلق اقتدار کے حصول میں بہت سی غلطیوں کے بار بار مرتکب ہوتے چلے گئے
7 جون 2015ء کو ترکی میں ہونے والے قومی انتخابات میں طاقتور ترک صدر رجب طیب اردوان کی مقتدر پارٹی AKP پچاس فیصد سیٹیں جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ترک صدر کے لیے یہ بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی 550 سیٹوں کا دو تہائی جیت کر صدارتی نظام نافذ کر نا چاہتے تھے۔ قدرت اور ترک عوام نے مگر ان کا یہ خواب توڑ ڈالا ہے۔ اب انھیں مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ مطلق اقتدار کے حصول میں بہت سی غلطیوں کے بار بار مرتکب ہوتے چلے گئے ۔ ترک وزیر اعظم احمد داؤد نے مایوس ہو کر استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ جناب اردوان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے غیر جانبدار میڈیا پر جبروتشدد کیا 'اپوزیشن کے حامی میڈیا آؤٹ لیٹس کو خریدنے کی ترغیب بھی دی۔ اس وقت ترکی دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ اخبار نویسوں کو جیلوں میں رکھا گیا ہے۔
ٹوئٹر اور یوٹیوب پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔جس پر یورپی یونین نے بھی سخت ردِعمل ظاہر کیا۔ ''الجزیرہ'' کی رپورٹر حلیمہ کاظم نے انکشاف کیا کہ طیب اردوان کے حکم سے اپوزیشن کے اخبار ''جمہوریت'' کو خصوصی ٹارچر کا ہدف بنایا گیا۔ دسمبر 2014ء میں روزنامہ ''زمن'' کے ایڈیٹر انچیف(ایکرم دومانلی)سمیت سولہ صحافیوں کو بغیر کسی وارننگ کے حراست میں لے لیا گیا۔ ترکی میں کوئی فوجی آمر بھی میڈیا پر قہر بن کر کبھی نہیں ٹوٹا جس انداز میں طیب صاحب کی حکومت ترک میڈیا کو ایذائیں دیتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ''نیویارک ٹائمز'' نے بھی اس سلسلے میں Dark Clouds Over Turkey کے زیرِ عنوان اداریہ قلمبند کیا۔ بادشاہ بننے کے متمنی صدرِ جمہوریہ ترکیہ اور ان کی پارٹی کی حالیہ ناکامی کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ جناب اردوان نے اپنی آل اولاد اور قریبی رشتہ داروں کو بھی حکومت میں شامل کرنے اور حکمرانی کے عیش سے لُطف اندوز ہونے کی بدعت کا آغاز کیا۔ اپنی صاحبزادی (اسرا) اور اپنے داماد (بیرت البیراک) کو عملی طور پر شامل کیا تو اس اقدام کو ترک عوام نے سخت ناپسند کیا۔ طیب صاحب کے ان داماد صاحب نے حکمران جماعت (AKP) کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا ہے۔
جناب اردوان کی تیسری بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے گزشتہ برسوں میں اپنے ملک میں خالص جمہوریت کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو جبریہ دبانے اور ختم کرنے کی انتہائی کوششیں کیں۔ مثال کے طور پر مئی 2013ء کو ''تقسیم اسکوائر'' کا سانحہ۔ یہ چوک استنبول میں واقع ایک پارک کا نام ہے جہاں تقریباً تین درجن قدیم درخت کھڑے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں وہاں آتے، سیر کرتے اور کافی پینے کے ساتھ گپ شپ لگاتے تھے۔
1939ء سے یہ تقسیم چوک اسی حالت میں چلا آ رہا تھا۔ اردوان حکومت نے اسے ختم کر کے وہاں پلازے بنانا چاہے تو ترک نوجوان مزاحمت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ ترک صدر کے حکم سے اس مزاحمت کو کچلنے کا کہا گیا تو احتجاج کرنے والے نوجوانوں پر تشدد کیا گیا اور سیکڑوں حراست میں لے لیے گئے۔ ساری دنیا میں یہ خونی تماشہ دیکھا گیا۔ ان متاثرہ نوجوانوں اور ان کے خاندانوں نے اب حالیہ ترک انتخابات میں رولنگ پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر اسی تشدد کا جواب دیا ہے۔ پچھلے دو سال سے ترک نوجوان لڑکے لڑکیاں مئی کے پہلے ہفتے تقسیم اسکوائر میں حکومتی تشدد کی یاد مناتے آ رہے ہیں۔
حکومتی جبر کے ذریعے ترکی کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی تعلیمات کو فروغ دینا ترک صدر جناب رجب طیب اردوان کی چوتھی غلطی تھی۔ اس سلسلے میں وہ انتہا پسندی کے مرتکب ہوئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے سے قبل ترک حکمران اس حوالے سے انتہا پسند تھے کہ مذہب کو کارسرکار میں دخیل ہونے کی اجازت دیتے تھے نہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کی زیادہ آزادی تھی۔
حجاب پہننے اور اسکارف اوڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ طیب صاحب اور ان کی پارٹی اقتدار کے ایوانوں میں آئے تو انھوں نے مذہب کو ہر شعبۂ حیات میں فروغ دینے اور بڑھانے کے لیے بھی انتہا پسندی ہی کا مظاہرہ کیا۔ مثال کے طور پر فروری 2015ء میں ترک صدر کے حکم سے تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی تعلیمات پڑھنے کا نیا کورس لاگو کر دیا گیا۔ جنھیں اس فیصلے کی تنفیذ پسند نہ تھی، انھوں نے ترکی بھر میں صدر اور ان کی حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے کیے۔ ہزاروں اساتذہ کرام، لاکھوں طلباء و طالبات اور درجنوں اساتذہ تنظیموں نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تو حکومت نے ان کا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا۔
کرپشن نہ روکنا اور بدعنوان اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو عبرت کا نشان نہ بنانا طیب اردوان اور ان کی حکومت کی پانچویں بڑی غلطی تھی۔ ان کے ایک قریبی وزیر کے بارے میں ایک بڑا مالی اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب اس کے گھر سے کئی ملین ڈالر کے کیش نوٹ برآمد ہوئے۔ مبینہ رشوت میں لیے گئے یہ ڈالر وزیر کے گھر میں جوتوں کے ڈبوں میں چھپائے گئے تھے لیکن صدرِ ترکیہ نے اس وزیر کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھایا۔
بدعنوانیوں کی ان کہانیوں میں ترک صدر کے اپنے صاحبزادے، بلال، کا نام بھی لیا گیا۔ اور جب بعض ترک اخبارات اور نجی ٹی وی چینلوں پر ان اسکینڈلز کے بارے میں رپورٹیں شایع ہوئیں اور ٹاک شوز ہونے لگے تو AKP حکومت کا قہر ان سب پر ٹوٹنے لگا۔ تقریباً 59 صحافیوں کو جبراً ملازمتوں سے نکال دیا گیا اور 32 صحافی جیلوں میں پہنچا دیے گئے۔
صدر طیب اردوان کا نئی عظیم الشان صدارتی رہائشگاہ منتقل ہونا بھی انھیں ترک عوام کی نظروں میں ناپسندیدہ بنا گیا۔ یہ نئی رہائشگاہ انھوں نے انقرہ کے مضافات میں ایک وسیع و عریض جنگل کٹوا کر بنوائی ہے۔ ان کے اپنے وزیر خزانہ محمت سمسک کا بیان ہے کہ اس صدارتی محل کی تعمیر پر چھ سو ملین ڈالر (پاکستان کے تقریباً ساٹھ ارب روپے) کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے۔ اس میں ایک ہزار سے زائد کمرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترک صدر اردوان کی یہ نئی رہائشگاہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر کی رہائشگاہ (وہائٹ ہاؤس) سے تیس گنا بڑی ہے۔ ترک عوام نے ان صدارتی تعیشات اور اسراف پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں اکثریتی ووٹوں سے مالا مال کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ مطلق اقتدار کے حصول میں بہت سی غلطیوں کے بار بار مرتکب ہوتے چلے گئے ۔ ترک وزیر اعظم احمد داؤد نے مایوس ہو کر استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ جناب اردوان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے غیر جانبدار میڈیا پر جبروتشدد کیا 'اپوزیشن کے حامی میڈیا آؤٹ لیٹس کو خریدنے کی ترغیب بھی دی۔ اس وقت ترکی دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ اخبار نویسوں کو جیلوں میں رکھا گیا ہے۔
ٹوئٹر اور یوٹیوب پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔جس پر یورپی یونین نے بھی سخت ردِعمل ظاہر کیا۔ ''الجزیرہ'' کی رپورٹر حلیمہ کاظم نے انکشاف کیا کہ طیب اردوان کے حکم سے اپوزیشن کے اخبار ''جمہوریت'' کو خصوصی ٹارچر کا ہدف بنایا گیا۔ دسمبر 2014ء میں روزنامہ ''زمن'' کے ایڈیٹر انچیف(ایکرم دومانلی)سمیت سولہ صحافیوں کو بغیر کسی وارننگ کے حراست میں لے لیا گیا۔ ترکی میں کوئی فوجی آمر بھی میڈیا پر قہر بن کر کبھی نہیں ٹوٹا جس انداز میں طیب صاحب کی حکومت ترک میڈیا کو ایذائیں دیتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ''نیویارک ٹائمز'' نے بھی اس سلسلے میں Dark Clouds Over Turkey کے زیرِ عنوان اداریہ قلمبند کیا۔ بادشاہ بننے کے متمنی صدرِ جمہوریہ ترکیہ اور ان کی پارٹی کی حالیہ ناکامی کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ جناب اردوان نے اپنی آل اولاد اور قریبی رشتہ داروں کو بھی حکومت میں شامل کرنے اور حکمرانی کے عیش سے لُطف اندوز ہونے کی بدعت کا آغاز کیا۔ اپنی صاحبزادی (اسرا) اور اپنے داماد (بیرت البیراک) کو عملی طور پر شامل کیا تو اس اقدام کو ترک عوام نے سخت ناپسند کیا۔ طیب صاحب کے ان داماد صاحب نے حکمران جماعت (AKP) کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا ہے۔
جناب اردوان کی تیسری بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے گزشتہ برسوں میں اپنے ملک میں خالص جمہوریت کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو جبریہ دبانے اور ختم کرنے کی انتہائی کوششیں کیں۔ مثال کے طور پر مئی 2013ء کو ''تقسیم اسکوائر'' کا سانحہ۔ یہ چوک استنبول میں واقع ایک پارک کا نام ہے جہاں تقریباً تین درجن قدیم درخت کھڑے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں وہاں آتے، سیر کرتے اور کافی پینے کے ساتھ گپ شپ لگاتے تھے۔
1939ء سے یہ تقسیم چوک اسی حالت میں چلا آ رہا تھا۔ اردوان حکومت نے اسے ختم کر کے وہاں پلازے بنانا چاہے تو ترک نوجوان مزاحمت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ ترک صدر کے حکم سے اس مزاحمت کو کچلنے کا کہا گیا تو احتجاج کرنے والے نوجوانوں پر تشدد کیا گیا اور سیکڑوں حراست میں لے لیے گئے۔ ساری دنیا میں یہ خونی تماشہ دیکھا گیا۔ ان متاثرہ نوجوانوں اور ان کے خاندانوں نے اب حالیہ ترک انتخابات میں رولنگ پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر اسی تشدد کا جواب دیا ہے۔ پچھلے دو سال سے ترک نوجوان لڑکے لڑکیاں مئی کے پہلے ہفتے تقسیم اسکوائر میں حکومتی تشدد کی یاد مناتے آ رہے ہیں۔
حکومتی جبر کے ذریعے ترکی کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی تعلیمات کو فروغ دینا ترک صدر جناب رجب طیب اردوان کی چوتھی غلطی تھی۔ اس سلسلے میں وہ انتہا پسندی کے مرتکب ہوئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے سے قبل ترک حکمران اس حوالے سے انتہا پسند تھے کہ مذہب کو کارسرکار میں دخیل ہونے کی اجازت دیتے تھے نہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کی زیادہ آزادی تھی۔
حجاب پہننے اور اسکارف اوڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ طیب صاحب اور ان کی پارٹی اقتدار کے ایوانوں میں آئے تو انھوں نے مذہب کو ہر شعبۂ حیات میں فروغ دینے اور بڑھانے کے لیے بھی انتہا پسندی ہی کا مظاہرہ کیا۔ مثال کے طور پر فروری 2015ء میں ترک صدر کے حکم سے تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی تعلیمات پڑھنے کا نیا کورس لاگو کر دیا گیا۔ جنھیں اس فیصلے کی تنفیذ پسند نہ تھی، انھوں نے ترکی بھر میں صدر اور ان کی حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے کیے۔ ہزاروں اساتذہ کرام، لاکھوں طلباء و طالبات اور درجنوں اساتذہ تنظیموں نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تو حکومت نے ان کا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا۔
کرپشن نہ روکنا اور بدعنوان اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو عبرت کا نشان نہ بنانا طیب اردوان اور ان کی حکومت کی پانچویں بڑی غلطی تھی۔ ان کے ایک قریبی وزیر کے بارے میں ایک بڑا مالی اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب اس کے گھر سے کئی ملین ڈالر کے کیش نوٹ برآمد ہوئے۔ مبینہ رشوت میں لیے گئے یہ ڈالر وزیر کے گھر میں جوتوں کے ڈبوں میں چھپائے گئے تھے لیکن صدرِ ترکیہ نے اس وزیر کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھایا۔
بدعنوانیوں کی ان کہانیوں میں ترک صدر کے اپنے صاحبزادے، بلال، کا نام بھی لیا گیا۔ اور جب بعض ترک اخبارات اور نجی ٹی وی چینلوں پر ان اسکینڈلز کے بارے میں رپورٹیں شایع ہوئیں اور ٹاک شوز ہونے لگے تو AKP حکومت کا قہر ان سب پر ٹوٹنے لگا۔ تقریباً 59 صحافیوں کو جبراً ملازمتوں سے نکال دیا گیا اور 32 صحافی جیلوں میں پہنچا دیے گئے۔
صدر طیب اردوان کا نئی عظیم الشان صدارتی رہائشگاہ منتقل ہونا بھی انھیں ترک عوام کی نظروں میں ناپسندیدہ بنا گیا۔ یہ نئی رہائشگاہ انھوں نے انقرہ کے مضافات میں ایک وسیع و عریض جنگل کٹوا کر بنوائی ہے۔ ان کے اپنے وزیر خزانہ محمت سمسک کا بیان ہے کہ اس صدارتی محل کی تعمیر پر چھ سو ملین ڈالر (پاکستان کے تقریباً ساٹھ ارب روپے) کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے۔ اس میں ایک ہزار سے زائد کمرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترک صدر اردوان کی یہ نئی رہائشگاہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر کی رہائشگاہ (وہائٹ ہاؤس) سے تیس گنا بڑی ہے۔ ترک عوام نے ان صدارتی تعیشات اور اسراف پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں اکثریتی ووٹوں سے مالا مال کرنے سے انکار کر دیا ہے۔