آخر میں وہی کچھ ہوتا ہے
آج ہمارے لیے بھی یہ وقت سوچنے کا ہے کیا ہماری زندگی جیے جانے کے لائق ہے،
تقریباً سو سال پہلے ایک شخص نے صبح کے وقت اخبار دیکھا وہ یہ پڑھ کر حیران اور خوفزدہ ہوگیا کہ اس کا نام فوت ہو جانیوالوں کے کالم میں درج تھا۔ اخبار میں غلطی سے اس کی وفات کی اطلاع شایع ہوگئی تھی یہ خبر پڑھنے سے اسے سخت صدمہ ہوا اس نے سوچا کیا میں زندہ ہوں یا مر چکا ہوں تھوڑی دیر بعد جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے سوچا کہ لوگوں نے اس کے حوالے سے کن تاثرات کا اظہار کیا ہے وفات کی خبر کی سرخی تھی۔
'' ڈائنا مائٹ کنگ فوت ہوگیا '' خبر میں لکھا تھا وہ موت کا تاجر تھا وہ شخص ڈائنا مائٹ کا موجد تھا جب اس نے پڑھا کہ اس کے لیے موت کا تاجر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں تو اس نے خود سے پوچھا کیا لوگ مجھے ان الفاظ میں یاد رکھیں گے اس نے سوچا کہ وہ تو اس طرح یاد رکھا جانا نہیں چاہتا لہٰذا اس نے اس دن سے امن کے لیے کام کرنا شروع کردیا وہ یعنی ''ڈائنا مائٹ کنگ '' ایلفریڈ نوبیل تھا اور آج وہ دنیا بھر میں عظیم ترین نوبل پرائز کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے ۔
ایک بچہ دریا میں ڈوب رہا تھا وہ مدد کے لیے چیخ رہا تھا ایک راہگیر نے دریا میں چھلا نگ لگائی اور لڑکے کو باہر نکال کر اس کی جان بچائی لڑکے نے کہا شکریہ ۔ راہگیر نے کہا شکریہ کس بات کا ۔ لڑکے نے کہا میری زندگی بچانے کا ۔ راہگیر نے کہا بڑے ہوکر سوچنا کہ تمہاری زندگی بچائے جانے کے قابل تھی۔
آج ہمارے لیے بھی یہ وقت سوچنے کا ہے کیا ہماری زندگی جیے جانے کے لائق ہے، کیا ہماری زندگی سے دوسروں کو فائدہ ہو رہا ہے یا صرف ہمیں ہی فائدہ ہو رہا ہے یا ہماری وجہ سے سب کے سب کو نقصان ہورہا ہے اور لوگ ہمار ے متعلق وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جنھیں ہم اپنے متعلق سننا نہیں چاہتے لیکن کیا کریں کسی کے پاس یہ سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔
سب کے سب بغیر سوچے سمجھے بس دوڑے جا رہے ہیں اور ہر دوڑنے والا یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کی طرف بڑھ رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یہاں ہر آدمی صرف ایک ایسی منزل کی طرف دوڑا جا رہا ہے جہاں موت کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں جو اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود ہو۔ 1923 میں دنیا کے 8امیر ترین افراد کی ملاقات ہوئی ان کی مجموعی دولت اس وقت کی امریکی حکومت کے اس زمانے کے خزانے سے زیادہ تھی وہ لوگ دولت کمانا اور اسے جمع کرنا جانتے تھے تاہم اگلے 25 سال میں ان کے ساتھ کیا ہوا ۔
(1) سب سے بڑی اسٹیل کمپنی کا صدر چارلس شواب دیوالیہ ہوکر مر گیا وہ اپنی موت سے پانچ سال پہلے سے قرض پر جی رہا تھا۔ (2) سب سے بڑی گیس کمپنی کا صدر ہوور ڈپسن پا گل ہوگیا۔(3 ) سب سے بڑا تاجر آرتھرکٹن مفلس ہوکر فوت ہوگیا۔(4) نیو یارک اسٹاک ایکس چینج کے صدر رچرڈ ونٹی کو جیل بھیج دیا گیا۔ (5) صدر کی کابینہ کے رکن ایلبرٹ فال کو جیل بھیجا گیا پھر معافی دے کر گھر بھیج دیا گیا وہاں وہ فوت ہوگیا۔
(6) ایک بہت بڑے تاجر جیسی لیور مور نے خود کشی کر لی۔ (7) دنیا کی سب سے بڑی اجارہ داری کے صدر آئیورکروگر نے بھی خودکشی کرلی۔ (8) بینک آف انٹرنیشنل سٹیملنٹ کے صدر لیون فریزر نے بھی خودکشی کرلی، کیونکہ انھوں نے بھلا دیا تھا کہ زندگی کیسے کمائی جاتی ہے اور انھوں نے دو لت کے حصول کے جنون میں زندگی کے باقی پانچ سپوکس (Spokes) کو بالکل نظر انداز کردیا تھا ۔ اصل میں ہم سب کی زندگی چھ سپوکس والا پہیہ ہے۔
(1) خاندان ۔ ہم جن سے محبت کرتے ہیں ان ہی کے لیے جیتے اور کماتے ہیں (2) مالیات۔ ہمارا پیشہ ، کاروبار، ملازمت اور وہ چیزیں جنھیں ہم روپے پیسے سے خرید سکتے ہیں (3) صحت۔ صحت کے بغیر ہر چیز بے کار ہے (4) ذہن ۔ علم و دانش (5) سماج ۔ ہر فرد اور ادارے کی سماجی ذمے داریاں ہوتی ہیں جن کے بغیر معاشرے مرنے لگتا ہے ۔ (6) روحانیت ۔ جو اقدار، اخلاقیات اورکردار کی عکاسی کرتا ہے ۔
اگر کوئی ایک بھی سپوک درست کام نہ کررہا ہو تو زندگی غیر متوازن ہوجاتی ہے اور آدمی گر پڑتا ہے ۔ سقراط اور افلاطو ن کے نظریات اور قدیم تر یونانی فلسفے کا تقابل ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ دو چشمے ہمیشہ ہی سے علم و دانش کے چمن کی آبیاری کرتے آئے ہیں ایک طرف وہ جہاں دیدگی اور زمانہ شناسی ہے جس کا سبق تاریخ سے حوادث روزگار سے اور کشاکش ہائے ہستی سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسری طرف وہ نظر ہے جسے پانے کے لیے آدمی خود اپنی آگ میں جلتا ہے اور خود اپنا تماشائی بنتا ہے خوشی اور مسرت کی تلاش میں انسان انھیں دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا چلا آیا ہے ہم میں سے ہر شخص ان ہی دو سوچ میں سے ایک کا حامل ہوتا ہے ہم میں سے اکثریت ہمیشہ سے اپنے لیے دوسرے راستے کا انتخاب کرتی چلی آئی ہے یعنی اپنے لیے جینا ، خود پرستی کی آگ میں جلنا اور مال و دولت کے ذخیرے اکٹھا کرنے کی کوشش کرنا جو دولت کو ہی مسرت سمجھتے رہتے ہیں آخر میں نہ تو انھیں دولت نصیب رہتی ہے اور نہ ہی مسرت ہاتھ لگتی ہے ۔
اور وہ دونوں کے لیے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کے دیگر پانچ سپوکس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور انھیں دیوانے کا خواب خیال کرتے ہیں لیکن جب ترقی، کامیابی اور دولت کی اپنی متعین کردہ منزل پر پہنچتے ہیں تو حیران و پریشان ہوجاتے ہیں کہ مسرت کہاں ہے خوشی کہاں ہے، اطمینان کہاں ہے۔
جس کو پانے کے لیے میں نے ساری زندگی جدوجہد کی جس کے لیے میں نے دوسروں کو کچلا روندا اور جن کے سروں پر پیر رکھ کر میں نے کامیابی کی سیڑھی چڑھی آج میرا خاندان ، میری صحت ، میرا ذہن ، میری روحانیت میرا سماج یہ سب کے سب مجھ سے نالاں کیوں ہیں یہ سب مجھ سے روٹھے روٹھے کیوں ہیں یہ سب مجھے وہ اہمیت کیوں نہیں دے رہے جس کا میں حقدار ہوں ۔ اور آخر میں وہ ہی کچھ ہوتا ہے جو امریکا کے 8 دولت مند لوگوں کے ساتھ ہوا تھا ۔
یاد رکھیں ہرشخص ایلفریڈ نوبیل کی طرح خوش نصیب اور سمجھدار نہیں ہوتا ہے ۔ یہ خود آپ پر منحصر ہے کہ لوگ آپ کوکن حوالوں سے یاد رکھیں اورآپ کا تذکرہ کن الفاظ کے ساتھ کریں ۔
'' ڈائنا مائٹ کنگ فوت ہوگیا '' خبر میں لکھا تھا وہ موت کا تاجر تھا وہ شخص ڈائنا مائٹ کا موجد تھا جب اس نے پڑھا کہ اس کے لیے موت کا تاجر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں تو اس نے خود سے پوچھا کیا لوگ مجھے ان الفاظ میں یاد رکھیں گے اس نے سوچا کہ وہ تو اس طرح یاد رکھا جانا نہیں چاہتا لہٰذا اس نے اس دن سے امن کے لیے کام کرنا شروع کردیا وہ یعنی ''ڈائنا مائٹ کنگ '' ایلفریڈ نوبیل تھا اور آج وہ دنیا بھر میں عظیم ترین نوبل پرائز کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے ۔
ایک بچہ دریا میں ڈوب رہا تھا وہ مدد کے لیے چیخ رہا تھا ایک راہگیر نے دریا میں چھلا نگ لگائی اور لڑکے کو باہر نکال کر اس کی جان بچائی لڑکے نے کہا شکریہ ۔ راہگیر نے کہا شکریہ کس بات کا ۔ لڑکے نے کہا میری زندگی بچانے کا ۔ راہگیر نے کہا بڑے ہوکر سوچنا کہ تمہاری زندگی بچائے جانے کے قابل تھی۔
آج ہمارے لیے بھی یہ وقت سوچنے کا ہے کیا ہماری زندگی جیے جانے کے لائق ہے، کیا ہماری زندگی سے دوسروں کو فائدہ ہو رہا ہے یا صرف ہمیں ہی فائدہ ہو رہا ہے یا ہماری وجہ سے سب کے سب کو نقصان ہورہا ہے اور لوگ ہمار ے متعلق وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جنھیں ہم اپنے متعلق سننا نہیں چاہتے لیکن کیا کریں کسی کے پاس یہ سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔
سب کے سب بغیر سوچے سمجھے بس دوڑے جا رہے ہیں اور ہر دوڑنے والا یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کی طرف بڑھ رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یہاں ہر آدمی صرف ایک ایسی منزل کی طرف دوڑا جا رہا ہے جہاں موت کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں جو اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود ہو۔ 1923 میں دنیا کے 8امیر ترین افراد کی ملاقات ہوئی ان کی مجموعی دولت اس وقت کی امریکی حکومت کے اس زمانے کے خزانے سے زیادہ تھی وہ لوگ دولت کمانا اور اسے جمع کرنا جانتے تھے تاہم اگلے 25 سال میں ان کے ساتھ کیا ہوا ۔
(1) سب سے بڑی اسٹیل کمپنی کا صدر چارلس شواب دیوالیہ ہوکر مر گیا وہ اپنی موت سے پانچ سال پہلے سے قرض پر جی رہا تھا۔ (2) سب سے بڑی گیس کمپنی کا صدر ہوور ڈپسن پا گل ہوگیا۔(3 ) سب سے بڑا تاجر آرتھرکٹن مفلس ہوکر فوت ہوگیا۔(4) نیو یارک اسٹاک ایکس چینج کے صدر رچرڈ ونٹی کو جیل بھیج دیا گیا۔ (5) صدر کی کابینہ کے رکن ایلبرٹ فال کو جیل بھیجا گیا پھر معافی دے کر گھر بھیج دیا گیا وہاں وہ فوت ہوگیا۔
(6) ایک بہت بڑے تاجر جیسی لیور مور نے خود کشی کر لی۔ (7) دنیا کی سب سے بڑی اجارہ داری کے صدر آئیورکروگر نے بھی خودکشی کرلی۔ (8) بینک آف انٹرنیشنل سٹیملنٹ کے صدر لیون فریزر نے بھی خودکشی کرلی، کیونکہ انھوں نے بھلا دیا تھا کہ زندگی کیسے کمائی جاتی ہے اور انھوں نے دو لت کے حصول کے جنون میں زندگی کے باقی پانچ سپوکس (Spokes) کو بالکل نظر انداز کردیا تھا ۔ اصل میں ہم سب کی زندگی چھ سپوکس والا پہیہ ہے۔
(1) خاندان ۔ ہم جن سے محبت کرتے ہیں ان ہی کے لیے جیتے اور کماتے ہیں (2) مالیات۔ ہمارا پیشہ ، کاروبار، ملازمت اور وہ چیزیں جنھیں ہم روپے پیسے سے خرید سکتے ہیں (3) صحت۔ صحت کے بغیر ہر چیز بے کار ہے (4) ذہن ۔ علم و دانش (5) سماج ۔ ہر فرد اور ادارے کی سماجی ذمے داریاں ہوتی ہیں جن کے بغیر معاشرے مرنے لگتا ہے ۔ (6) روحانیت ۔ جو اقدار، اخلاقیات اورکردار کی عکاسی کرتا ہے ۔
اگر کوئی ایک بھی سپوک درست کام نہ کررہا ہو تو زندگی غیر متوازن ہوجاتی ہے اور آدمی گر پڑتا ہے ۔ سقراط اور افلاطو ن کے نظریات اور قدیم تر یونانی فلسفے کا تقابل ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ دو چشمے ہمیشہ ہی سے علم و دانش کے چمن کی آبیاری کرتے آئے ہیں ایک طرف وہ جہاں دیدگی اور زمانہ شناسی ہے جس کا سبق تاریخ سے حوادث روزگار سے اور کشاکش ہائے ہستی سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسری طرف وہ نظر ہے جسے پانے کے لیے آدمی خود اپنی آگ میں جلتا ہے اور خود اپنا تماشائی بنتا ہے خوشی اور مسرت کی تلاش میں انسان انھیں دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا چلا آیا ہے ہم میں سے ہر شخص ان ہی دو سوچ میں سے ایک کا حامل ہوتا ہے ہم میں سے اکثریت ہمیشہ سے اپنے لیے دوسرے راستے کا انتخاب کرتی چلی آئی ہے یعنی اپنے لیے جینا ، خود پرستی کی آگ میں جلنا اور مال و دولت کے ذخیرے اکٹھا کرنے کی کوشش کرنا جو دولت کو ہی مسرت سمجھتے رہتے ہیں آخر میں نہ تو انھیں دولت نصیب رہتی ہے اور نہ ہی مسرت ہاتھ لگتی ہے ۔
اور وہ دونوں کے لیے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کے دیگر پانچ سپوکس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور انھیں دیوانے کا خواب خیال کرتے ہیں لیکن جب ترقی، کامیابی اور دولت کی اپنی متعین کردہ منزل پر پہنچتے ہیں تو حیران و پریشان ہوجاتے ہیں کہ مسرت کہاں ہے خوشی کہاں ہے، اطمینان کہاں ہے۔
جس کو پانے کے لیے میں نے ساری زندگی جدوجہد کی جس کے لیے میں نے دوسروں کو کچلا روندا اور جن کے سروں پر پیر رکھ کر میں نے کامیابی کی سیڑھی چڑھی آج میرا خاندان ، میری صحت ، میرا ذہن ، میری روحانیت میرا سماج یہ سب کے سب مجھ سے نالاں کیوں ہیں یہ سب مجھ سے روٹھے روٹھے کیوں ہیں یہ سب مجھے وہ اہمیت کیوں نہیں دے رہے جس کا میں حقدار ہوں ۔ اور آخر میں وہ ہی کچھ ہوتا ہے جو امریکا کے 8 دولت مند لوگوں کے ساتھ ہوا تھا ۔
یاد رکھیں ہرشخص ایلفریڈ نوبیل کی طرح خوش نصیب اور سمجھدار نہیں ہوتا ہے ۔ یہ خود آپ پر منحصر ہے کہ لوگ آپ کوکن حوالوں سے یاد رکھیں اورآپ کا تذکرہ کن الفاظ کے ساتھ کریں ۔