چھوٹی دہشت گردی
ہمارے ملک کے تاجر آمد رمضان سے قبل ہی نفع کے حصول کے لیے تیاریاں شروع کردیتے ہیں
LONDON:
ہمارے ملک کے تاجر آمد رمضان سے قبل ہی نفع کے حصول کے لیے تیاریاں شروع کردیتے ہیں، ادھر ماہ شعبان شروع ہوا اور ادھر ان لوگوں نے اشیا خورونوش کی ذخیرہ اندوزی کرکے نرخ بڑھادیے اور منافعے کی شروعات ہوگئیں۔ سبزی، گوشت، پھل اورکھجوریں خریدنے والے دہری مشکل سے دوچار ہوتے ہیں کہ روزے دار سنتؐ کے مطابق کھجور سے ہی روزہ کھولنا چاہتا ہے۔
اسی لیے سب سے زیادہ مہنگی کھجوریں ہی فروخت ہوتی ہیں اس کے بعد پھل خریدنے والوں پر گرانی کی آفت ٹوٹتی ہے اور وہ ہی پھل جو مناسب داموں میں بیچا جارہا تھا اس کے ہی دم اس قدر بڑھادیے جاتے ہیں گویا وہ پاکستان میں نہیں پیرس، لندن و نیو یارک کی مارکیٹوں میں رکھا ہو۔
یہ جانتے ہوئے بھی یہاں پر روپیہ چلتا ہے، ڈالر اور پائونڈ نہیں، جو بہت مہنگا ہے یہاں تو غربت کا یہ حال ہے کہ بے چارے مزدور اور محنت کش طبقے نے باہر کی کرنسی کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوگی، باہر کی بات تو دورکی ہے اپنے ملک کے بڑے نوٹوں کی گڈی بھی ہاتھوں میں کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اب ان حالات میں اچھی غذا اور رمضان میں کھجور سے روزہ کھولنے کا سوال بھلا کہاں پیدا ہوتا ہے؟
پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی نمک اور پانی سے روزہ کھولتی ہے۔ ان بے چاروں کو پیٹ بھر روٹی میسر نہیں آتی ہے، روزے رکھنا فرض عبادت ہے، اسی وجہ سے اسے چھوڑا بھی نہیں جاسکتا ہے، ویسے بھی رمضان کے روزے صحت کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں، ایک طرف سکون قلب میسر آتا ہے تو دوسری طرف ڈائٹنگ بھی ہوجاتی ہے، اس بات میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ عبادت الٰہی روحانی تسکین کا باعث ہوتی ہے، اسی لیے لوگ شعبان کے مہینے ہی سے روزے رکھنے، تلاوت قرآن پاک اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔
یہ وہ ہی لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں اور جنھوں نے دنیا کو خس و خاشاک سے بد تر جانا ہے، انھیں دولت سے نہیں بلکہ مخلوق خدا کے کام آنے سے اطمینان حاصل ہوتا ہے، کسی کے کام آنا عبادت سے کم نہیں۔ اﷲ رب العزت نے حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیا ہے، کسی کی دل شکنی کفر کے برابر ہے لیکن ہم سب نام کے مسلمان، نہ کہ اپنی باتوں سے دل توڑتے ہیں بلکہ جبڑا بھی توڑنے کے ماہر ہیں اور اب تو حالات یہ ہیں کہ توڑ، جوڑ کے کام ختم ہوگئے ہیں، پورا کا پورا ہی بندہ ماردیتے ہیں۔
قسطوں والی کہانی ختم ہوچکی ہے۔ ایک لمحے میں نیچے سے اوپر پہنچادیا جاتا ہے۔ یہ ہوئی بڑی دہشت گردی لیکن خاص اور مبارک ایام میں چیزوں کے دام بڑھانا اور گرانی کو آسمان پر پہنچانا چھوٹی دہشت گردی سے کم نہیں، چند روز ہی گزرے ہیں جب 14 شعبان گزرا ہے، 14 شعبان کی رات بڑی برکتوں اور رحمتوں والی ہوتی ہے اس رات حساب کتاب کا دن ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں مقدس و شب روز کی حرمت کا احساس ختم ہوگیا ہے۔
بہت کم لوگ ہیں جو عمل صالح کرتے ہیں اور زندگی کے گزارنے کے آداب سے واقف ہیں لیکن اکثریت ان کی ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل ہیں۔ وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان کی بلا سے، ماہ شعبان میں پچھلے سالوں کی طرح اس بار بھی خوب پٹاخے پھوڑے گئے۔ یہ پٹاخے لوگوں کے سروں اور گاڑیوں کے شیشوں پر آکر پھٹے، جس سے معصوم و بے قصور لوگ زخمی ہوئے اور گاڑیوں کا اچھا خاصا نقصان ہوا، اوپر سے بچوں کی آپس کی لڑائیوں نے بڑوں کو بھی مارنے مرنے پر آمادہ کردیا، ایسے ایک نہیں بے شمار واقعات سامنے آئے۔
بظاہر تو پٹاخوں پر پابندی ہے، ہونی بھی چاہیے کہ بڑے پٹاخے جو پھوڑے جارہے ہیں اور خون کی ندیاں جاری ہیں، ایسے ماحول میں چھوٹے پٹاخوں پر حقیقتاً پابندی عائد ہونی ہی چاہیے لیکن نہیں ہوتی، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، لوگوں کا باہر نکلنا مشکل، بعض اوقات پٹاخوں اور پھلجڑیوں سے جھونپڑیوں اور دکانوں میں آگ بھی لگ جاتی ہے، لوگ زخمی ہونے کی بجائے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن حکومت اس چھوٹی دہشت گردی پر آنکھیں موندے خواب خرگوش کے مزے لیتی ہے۔
ویسے سچی بات یہ ہے کہ حکومت کو عوام کے دکھوں اور مسائل سے بالکل دلچسپی نہیں، اس کا نظریہ یہ ہے کہ آزاد ملک میں سب آزاد ہیں اور وہ خود بھی آزاد ہے۔ مادر پدر، کسی کا خوف اور ڈر نہیں اور جس سے ڈرنا چاہیے اس کا تو خوف دلوں سے جاتا ہی رہا اس لیے دل سیاہ ہوگئے اور شیطان قابض ہوگیا، اس نے اﷲ سے کہہ دیا تھا وہ حضرت آدمؑ کو سجدہ نہیں کرے گا۔
اﷲ تعالیٰ نے اسے سزا وار لعنت کیا اور جب حق تعالیٰ نے اس سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے تکبر کیا اور کہاکہ میں اس سے بہتر ہوں تونے آدمؑ کو خاک سے اور مجھ کو نار سے بنایا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ سے مردود کیا اور شیطان نے کہاکہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو بہکائوں گا، سو اﷲ نے اس کو اختیار دیا، وہ اپنے اختیارات کا استعمال کررہاہے، شیطان بہکاتا ہے، غلط کام کرنے کی تلقین کرتا ہے، کہتا ہے غریب کے منہ سے نوالہ کھینچ لو اور بیماروں میں جعلی دوائیں بانٹو اور خوب پیسہ بنائو، حج جیسے مقدس فریضہ ادا کرنے والوں کی رقوم ہڑپ کرلو، دولت سے محبت کرنے اور کمزور ایمان والے ایسا ہی کرتے ہیں۔
ہر لمحہ عیش و طرب کے مزے لوٹنے والے دولت کے پرستار اگر چاہیں (مشورہ ہے) تو سونے کے تاروں سے بنا ہوا کفن اور سونے کی قبر تیار رکھیں تاکہ وقت ضرورت کام آجائے اور قبر بھی سونے کی اینٹوں سے دہک جائے لیکن شیطان ہے کہ قبر کی طرف تو خیال جانے ہی نہیں دیتا ہے بس دنیا کی چمک دمک میں گم کردیتا ہے اور یہ دنیا سمیٹنے والے حقیقتاً سونے چاندی، ہیرے جواہرات پاکر اپنے اس رب کو بھلا بیٹھتے ہیں جس نے گنہگاروں و کفار کے لیے دوزخ بنائی، یہ لاکھ منتیں کریں کہ انھیں چھوڑ دیا جائے لیکن آگ انھیں پکڑ کر ہی رہے گی اور یہ وقت بتائے گا، ماہ رمضان رحمتوں و برکتوں کا مہینہ ہے اس ماہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچانا چاہیے نہ کہ نقصان۔
ہمارے ملک کے تاجر آمد رمضان سے قبل ہی نفع کے حصول کے لیے تیاریاں شروع کردیتے ہیں، ادھر ماہ شعبان شروع ہوا اور ادھر ان لوگوں نے اشیا خورونوش کی ذخیرہ اندوزی کرکے نرخ بڑھادیے اور منافعے کی شروعات ہوگئیں۔ سبزی، گوشت، پھل اورکھجوریں خریدنے والے دہری مشکل سے دوچار ہوتے ہیں کہ روزے دار سنتؐ کے مطابق کھجور سے ہی روزہ کھولنا چاہتا ہے۔
اسی لیے سب سے زیادہ مہنگی کھجوریں ہی فروخت ہوتی ہیں اس کے بعد پھل خریدنے والوں پر گرانی کی آفت ٹوٹتی ہے اور وہ ہی پھل جو مناسب داموں میں بیچا جارہا تھا اس کے ہی دم اس قدر بڑھادیے جاتے ہیں گویا وہ پاکستان میں نہیں پیرس، لندن و نیو یارک کی مارکیٹوں میں رکھا ہو۔
یہ جانتے ہوئے بھی یہاں پر روپیہ چلتا ہے، ڈالر اور پائونڈ نہیں، جو بہت مہنگا ہے یہاں تو غربت کا یہ حال ہے کہ بے چارے مزدور اور محنت کش طبقے نے باہر کی کرنسی کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوگی، باہر کی بات تو دورکی ہے اپنے ملک کے بڑے نوٹوں کی گڈی بھی ہاتھوں میں کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اب ان حالات میں اچھی غذا اور رمضان میں کھجور سے روزہ کھولنے کا سوال بھلا کہاں پیدا ہوتا ہے؟
پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی نمک اور پانی سے روزہ کھولتی ہے۔ ان بے چاروں کو پیٹ بھر روٹی میسر نہیں آتی ہے، روزے رکھنا فرض عبادت ہے، اسی وجہ سے اسے چھوڑا بھی نہیں جاسکتا ہے، ویسے بھی رمضان کے روزے صحت کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں، ایک طرف سکون قلب میسر آتا ہے تو دوسری طرف ڈائٹنگ بھی ہوجاتی ہے، اس بات میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ عبادت الٰہی روحانی تسکین کا باعث ہوتی ہے، اسی لیے لوگ شعبان کے مہینے ہی سے روزے رکھنے، تلاوت قرآن پاک اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔
یہ وہ ہی لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں اور جنھوں نے دنیا کو خس و خاشاک سے بد تر جانا ہے، انھیں دولت سے نہیں بلکہ مخلوق خدا کے کام آنے سے اطمینان حاصل ہوتا ہے، کسی کے کام آنا عبادت سے کم نہیں۔ اﷲ رب العزت نے حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیا ہے، کسی کی دل شکنی کفر کے برابر ہے لیکن ہم سب نام کے مسلمان، نہ کہ اپنی باتوں سے دل توڑتے ہیں بلکہ جبڑا بھی توڑنے کے ماہر ہیں اور اب تو حالات یہ ہیں کہ توڑ، جوڑ کے کام ختم ہوگئے ہیں، پورا کا پورا ہی بندہ ماردیتے ہیں۔
قسطوں والی کہانی ختم ہوچکی ہے۔ ایک لمحے میں نیچے سے اوپر پہنچادیا جاتا ہے۔ یہ ہوئی بڑی دہشت گردی لیکن خاص اور مبارک ایام میں چیزوں کے دام بڑھانا اور گرانی کو آسمان پر پہنچانا چھوٹی دہشت گردی سے کم نہیں، چند روز ہی گزرے ہیں جب 14 شعبان گزرا ہے، 14 شعبان کی رات بڑی برکتوں اور رحمتوں والی ہوتی ہے اس رات حساب کتاب کا دن ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں مقدس و شب روز کی حرمت کا احساس ختم ہوگیا ہے۔
بہت کم لوگ ہیں جو عمل صالح کرتے ہیں اور زندگی کے گزارنے کے آداب سے واقف ہیں لیکن اکثریت ان کی ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل ہیں۔ وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان کی بلا سے، ماہ شعبان میں پچھلے سالوں کی طرح اس بار بھی خوب پٹاخے پھوڑے گئے۔ یہ پٹاخے لوگوں کے سروں اور گاڑیوں کے شیشوں پر آکر پھٹے، جس سے معصوم و بے قصور لوگ زخمی ہوئے اور گاڑیوں کا اچھا خاصا نقصان ہوا، اوپر سے بچوں کی آپس کی لڑائیوں نے بڑوں کو بھی مارنے مرنے پر آمادہ کردیا، ایسے ایک نہیں بے شمار واقعات سامنے آئے۔
بظاہر تو پٹاخوں پر پابندی ہے، ہونی بھی چاہیے کہ بڑے پٹاخے جو پھوڑے جارہے ہیں اور خون کی ندیاں جاری ہیں، ایسے ماحول میں چھوٹے پٹاخوں پر حقیقتاً پابندی عائد ہونی ہی چاہیے لیکن نہیں ہوتی، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، لوگوں کا باہر نکلنا مشکل، بعض اوقات پٹاخوں اور پھلجڑیوں سے جھونپڑیوں اور دکانوں میں آگ بھی لگ جاتی ہے، لوگ زخمی ہونے کی بجائے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن حکومت اس چھوٹی دہشت گردی پر آنکھیں موندے خواب خرگوش کے مزے لیتی ہے۔
ویسے سچی بات یہ ہے کہ حکومت کو عوام کے دکھوں اور مسائل سے بالکل دلچسپی نہیں، اس کا نظریہ یہ ہے کہ آزاد ملک میں سب آزاد ہیں اور وہ خود بھی آزاد ہے۔ مادر پدر، کسی کا خوف اور ڈر نہیں اور جس سے ڈرنا چاہیے اس کا تو خوف دلوں سے جاتا ہی رہا اس لیے دل سیاہ ہوگئے اور شیطان قابض ہوگیا، اس نے اﷲ سے کہہ دیا تھا وہ حضرت آدمؑ کو سجدہ نہیں کرے گا۔
اﷲ تعالیٰ نے اسے سزا وار لعنت کیا اور جب حق تعالیٰ نے اس سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے تکبر کیا اور کہاکہ میں اس سے بہتر ہوں تونے آدمؑ کو خاک سے اور مجھ کو نار سے بنایا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ سے مردود کیا اور شیطان نے کہاکہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو بہکائوں گا، سو اﷲ نے اس کو اختیار دیا، وہ اپنے اختیارات کا استعمال کررہاہے، شیطان بہکاتا ہے، غلط کام کرنے کی تلقین کرتا ہے، کہتا ہے غریب کے منہ سے نوالہ کھینچ لو اور بیماروں میں جعلی دوائیں بانٹو اور خوب پیسہ بنائو، حج جیسے مقدس فریضہ ادا کرنے والوں کی رقوم ہڑپ کرلو، دولت سے محبت کرنے اور کمزور ایمان والے ایسا ہی کرتے ہیں۔
ہر لمحہ عیش و طرب کے مزے لوٹنے والے دولت کے پرستار اگر چاہیں (مشورہ ہے) تو سونے کے تاروں سے بنا ہوا کفن اور سونے کی قبر تیار رکھیں تاکہ وقت ضرورت کام آجائے اور قبر بھی سونے کی اینٹوں سے دہک جائے لیکن شیطان ہے کہ قبر کی طرف تو خیال جانے ہی نہیں دیتا ہے بس دنیا کی چمک دمک میں گم کردیتا ہے اور یہ دنیا سمیٹنے والے حقیقتاً سونے چاندی، ہیرے جواہرات پاکر اپنے اس رب کو بھلا بیٹھتے ہیں جس نے گنہگاروں و کفار کے لیے دوزخ بنائی، یہ لاکھ منتیں کریں کہ انھیں چھوڑ دیا جائے لیکن آگ انھیں پکڑ کر ہی رہے گی اور یہ وقت بتائے گا، ماہ رمضان رحمتوں و برکتوں کا مہینہ ہے اس ماہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچانا چاہیے نہ کہ نقصان۔