وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
اسمبلیوں کے ایئرکنڈیشنڈ بند کرکے گزارا کرو تو پتا چلے کہ بغیر بجلی کے عوام کیسے رہ رہے ہیں، یہ سوٹ ٹائی بھول جاؤ گے۔
''غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا'' 25،26 سال پہلے جالب صاحب نے یہ لکھا تھا اور میں ہر سال یہ منظوم تجزیہ پیش کرتا ہوں۔ پچھلے تیس سال میں دوبار پیپلزپارٹی اور اب تیسری بار مسلم لیگ درمیان میں ضیا الحق اور پرویز مشرف بھی ''میرے عزیز ہم وطنو!'' کہتے ہوئے آئے۔ مگر ''نہ بدلا پھر بھی قسمت کا ستارا، وہی ہے، وقت کا بے نور دھارا'' سونے پر سہاگہ یہ ہوا ہے کہ ایک ہفتے بعد رمضان شریف آرہا ہے۔ ''مرحبا ماہ رمضان'' کی صدائیں ہر طرف گونج رہی ہیں۔ سبزیاں، مرغی کا گوشت رمضان سے پہلے ہی مہنگا ہوگیا ہے، غریب آدمی کے روز مرہ کے استعمال کی یہی چیزیں ہیں۔ بکرے کا گوشت تو متوسط درجے کے لوگ بھی بقرعید ہی پر کھاتے ہیں اور ہمارے گھر میں بھی گوشت کی صورت حال یہی ہے۔
اوپر کے لوگوں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں، وہ سرکاری افسران جنھوں نے ڈاکٹری پاس کر رکھی ہے دس ہزار روپے ماہانہ کے حق دار ٹھہرے ہیں، اﷲ ہی جانے غریبوں کے بھوکوں مرتے بچوں کے ہوتے، ایسی کون سی ''ڈاکٹری'' نکل آئی جس کے لیے دس ہزار روپے ماہانہ کا اضافی وظیفہ ضروری تھا۔
اسمبلیوں کے ایئرکنڈیشنڈ بند کرکے گزارا کرو تو پتا چلے کہ بغیر بجلی کے عوام کیسے رہ رہے ہیں، یہ سوٹ ٹائی بھول جاؤ گے۔ بیبیوں کے میک اپ بہہ جائیںگے، زلفیں بکھر جائیںگی، سروں پر ٹکے ہوئے چشمے اتر جائیںگے، ہاتھوں میں پنکھیاں پکڑلو اور پھر دیکھو، کیا اقتدار یا حزب اختلاف، بجٹ پر تقریریں کرنا سب بھول جائیںگے۔
ہم نے مانا بالکل تسلیم کیا، سر خم کیا کہ معیشت بہت خراب ہے، قرضے ہیں، ملک کا نظام چلانا ہے، فوج ہے، خارجی حالات چیلنج ہیں، اندرونی خلفشار بھی ہے وغیرہ وغیرہ اور بھئی! تو کیا ان سب برے حالات اور ذمے داریوں کا نزلہ عوام پر ہی گرے گا، کیا یہ ملبہ عوام ہی اٹھاتے رہیںگے، عوام کی تو گردن کا ''منکا'' ٹوٹ چکا ہے، دولت مند بھی تو آسمانوں میں رہتے ہیں، انھیں کیا فکر، کیسی فکر، یہ فکر کس شے کا نام ہے، کس چڑیا کا نام ہے، دولت والے کیا جانے، ان کی بلا سے، چینی، آٹا، گھی، دالیں، سبزیاں، گوشت وغیرہ ان کے ڈیپ فریزر میں تو پورے پورے بکرے ذبح ہوکر قیام پذیر ہوجاتے ہیں۔ یہ تو غریب بے چارے مسکین کا مسئلہ ہے کہ وہ تھوڑی سی تنخواہ، مزدور کاریگر معمولی آمدنی میں کیا کرے، کدھر جائے، یہ تو غریب ہی ہے جس کے چہرے ویران ہیں، آنکھیں پریشان ہیں، دل سنسان ہیں، سامنے دور دور تک منظر پشیمان ہیں۔
پھر خودکشیاں شروع ہوجاتی ہیں، ماں بھوک سے بلکتے بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگادیتی ہے، ریل کی پٹڑیاں سرخ ہونے لگتی ہیں اور ہمارے ''مہربان'' بس ایئرکنڈیشنڈ اسمبلی ہالوں میں تقریریں کرے جا رہے ہیں، کل تک جو مہربان یہی حرکتیں کر رہے تھے اب وہ ان حرکتوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو کیا ''رات کے بعد اک رات نئی آتی رہے گی'' کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ایک بہت بڑا سا گھر بناؤں اور باہر بورڈ لگادوں'' اپنے بچوں کو ہمارے گھر میں چھوڑدیں، خودکشیاں نہ کریں'' اس بڑے گھر میں بچوں کے لیے آیائیں ہوں، انھیں پڑھانے کے لیے ٹیچر ہوں، کھانے پکانے والے ہوں، بس یہ سوچ کر رہ جاتا ہوں، کچھ کر نہیں پاتا۔
ایک بار کا ذکر ہے حبیب جالب صاحب یوم مئی کے جلسے کی صدارت کررہے تھے، ایک زبردست عوام دوست مرکزی ورکر بطور مہمان خصوصی بھی جلسے میں شریک تھے، وزیر موصوف آئے اور وہی پرانی روایتی تقریر شروع کردی۔ ''ہم نے مزدور کے لیے یہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، ہم مزدور کے لیے یہ اصلاحات لارہے ہیں، یہ کررہے ہیں، وہ کررہے ہیں، آخر میں صدارتی خطاب کے لیے جالب صاحب آئے اور بولے ''یہ جو وزیر موصوف ابھی تقریر فرمارہے تھے یہ مجھے بہت برے لگ رہے تھے، بھئی ان وزیروں کو تو شرم کے مارے سر جھکا کر نظریں نیچی کرکے کھڑے ہوجانا چاہیے اور جھکی نظریں جھکے سر کے ساتھ اظہار شرمندگی کرتے ہوئے کہنا چاہیے کہ ''ہم شرمندہ ہیں کہ مزدوروں کے لیے سال بھر کچھ نہیں کرسکے، یہ آتے ہیں اور نہ شرمندگی احساس ناکامی، اور ڈھٹائی کے ساتھ لمبی لمبی تقریریں شروع کردیتے ہیں، وزیر موصوف درویش کی باتیں سن رہے تھے اور بس سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے جیسے کہہ رہوں یہ درویش کیا جانے، سیاست کیا ہوتی ہے۔ اب تو عوام خوب سمجھ چکے ہیں کہ یہ سیاست دان ان کے نہیں ہوسکتے۔ اب عوام کو کوئی نیا راستہ نکالنا پڑے گا۔ سنا ہے ایک نئی مسلم لیگ بنائی جارہی ہے وہ جنھیں حصہ بقدر جثہ نہیں ملا۔ کیا جو اقتدار سے باہر رہ گئے اکٹھے ہورہے ہیں، سیاست تو ایک کھیل تماشا بن کر رہ گئی ہے، خصوصاً ہمارے ملک میں تو سیاست کاروبار بن گئی ہے۔ ایک بہت پرانے غیر معروف شاعر کا کمال شعر ہے:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
بات بجٹ سے شروع ہوئی تھی، سو بجٹ آگیا ہے، اعداد کا گورکھ دھندہ، لفظوں کا ہیر پھیر، غریب کی حالت بدستور خراب، پتا نہیں اس بجٹ سے اگلے بجٹ تک کتنی مائیں بچوں سمیت دریا میں کود جائیںگی۔ کتنی ریل کی پٹڑیاں انسانی خون سے سرخ ہوجائیں اور کتنے نئے محل، فارم ہاؤسز مزید بن جائیںگے، جالب صاحب نے بجٹ پر لکھا ہے، لگتا ہے تازہ لکھا ہے۔
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا
وہ ایوانوں میں سرمست و غزل خواں
وطن قرضے کی سولی پر ہے لٹکا
مقدر ہے ہمارا تشنہ کالی
بھرا رہتا ہے کم ظرفوں کا مٹکا
غمِ دنیا میں کچھ کھوئے ہم ایسے
خیال آتا نہیں اب اس کی لت کا
ہم اپنی منزلیں خود ڈھونڈ لیںگے
ہمیں اب اور اے رہبر نہ بھٹکا
جو وہ محسوس کرتا ہے لکھے گا
کہ جالب بھی ہے پکا اپنی ہٹ کا
اوپر کے لوگوں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں، وہ سرکاری افسران جنھوں نے ڈاکٹری پاس کر رکھی ہے دس ہزار روپے ماہانہ کے حق دار ٹھہرے ہیں، اﷲ ہی جانے غریبوں کے بھوکوں مرتے بچوں کے ہوتے، ایسی کون سی ''ڈاکٹری'' نکل آئی جس کے لیے دس ہزار روپے ماہانہ کا اضافی وظیفہ ضروری تھا۔
اسمبلیوں کے ایئرکنڈیشنڈ بند کرکے گزارا کرو تو پتا چلے کہ بغیر بجلی کے عوام کیسے رہ رہے ہیں، یہ سوٹ ٹائی بھول جاؤ گے۔ بیبیوں کے میک اپ بہہ جائیںگے، زلفیں بکھر جائیںگی، سروں پر ٹکے ہوئے چشمے اتر جائیںگے، ہاتھوں میں پنکھیاں پکڑلو اور پھر دیکھو، کیا اقتدار یا حزب اختلاف، بجٹ پر تقریریں کرنا سب بھول جائیںگے۔
ہم نے مانا بالکل تسلیم کیا، سر خم کیا کہ معیشت بہت خراب ہے، قرضے ہیں، ملک کا نظام چلانا ہے، فوج ہے، خارجی حالات چیلنج ہیں، اندرونی خلفشار بھی ہے وغیرہ وغیرہ اور بھئی! تو کیا ان سب برے حالات اور ذمے داریوں کا نزلہ عوام پر ہی گرے گا، کیا یہ ملبہ عوام ہی اٹھاتے رہیںگے، عوام کی تو گردن کا ''منکا'' ٹوٹ چکا ہے، دولت مند بھی تو آسمانوں میں رہتے ہیں، انھیں کیا فکر، کیسی فکر، یہ فکر کس شے کا نام ہے، کس چڑیا کا نام ہے، دولت والے کیا جانے، ان کی بلا سے، چینی، آٹا، گھی، دالیں، سبزیاں، گوشت وغیرہ ان کے ڈیپ فریزر میں تو پورے پورے بکرے ذبح ہوکر قیام پذیر ہوجاتے ہیں۔ یہ تو غریب بے چارے مسکین کا مسئلہ ہے کہ وہ تھوڑی سی تنخواہ، مزدور کاریگر معمولی آمدنی میں کیا کرے، کدھر جائے، یہ تو غریب ہی ہے جس کے چہرے ویران ہیں، آنکھیں پریشان ہیں، دل سنسان ہیں، سامنے دور دور تک منظر پشیمان ہیں۔
پھر خودکشیاں شروع ہوجاتی ہیں، ماں بھوک سے بلکتے بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگادیتی ہے، ریل کی پٹڑیاں سرخ ہونے لگتی ہیں اور ہمارے ''مہربان'' بس ایئرکنڈیشنڈ اسمبلی ہالوں میں تقریریں کرے جا رہے ہیں، کل تک جو مہربان یہی حرکتیں کر رہے تھے اب وہ ان حرکتوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو کیا ''رات کے بعد اک رات نئی آتی رہے گی'' کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ایک بہت بڑا سا گھر بناؤں اور باہر بورڈ لگادوں'' اپنے بچوں کو ہمارے گھر میں چھوڑدیں، خودکشیاں نہ کریں'' اس بڑے گھر میں بچوں کے لیے آیائیں ہوں، انھیں پڑھانے کے لیے ٹیچر ہوں، کھانے پکانے والے ہوں، بس یہ سوچ کر رہ جاتا ہوں، کچھ کر نہیں پاتا۔
ایک بار کا ذکر ہے حبیب جالب صاحب یوم مئی کے جلسے کی صدارت کررہے تھے، ایک زبردست عوام دوست مرکزی ورکر بطور مہمان خصوصی بھی جلسے میں شریک تھے، وزیر موصوف آئے اور وہی پرانی روایتی تقریر شروع کردی۔ ''ہم نے مزدور کے لیے یہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، ہم مزدور کے لیے یہ اصلاحات لارہے ہیں، یہ کررہے ہیں، وہ کررہے ہیں، آخر میں صدارتی خطاب کے لیے جالب صاحب آئے اور بولے ''یہ جو وزیر موصوف ابھی تقریر فرمارہے تھے یہ مجھے بہت برے لگ رہے تھے، بھئی ان وزیروں کو تو شرم کے مارے سر جھکا کر نظریں نیچی کرکے کھڑے ہوجانا چاہیے اور جھکی نظریں جھکے سر کے ساتھ اظہار شرمندگی کرتے ہوئے کہنا چاہیے کہ ''ہم شرمندہ ہیں کہ مزدوروں کے لیے سال بھر کچھ نہیں کرسکے، یہ آتے ہیں اور نہ شرمندگی احساس ناکامی، اور ڈھٹائی کے ساتھ لمبی لمبی تقریریں شروع کردیتے ہیں، وزیر موصوف درویش کی باتیں سن رہے تھے اور بس سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے جیسے کہہ رہوں یہ درویش کیا جانے، سیاست کیا ہوتی ہے۔ اب تو عوام خوب سمجھ چکے ہیں کہ یہ سیاست دان ان کے نہیں ہوسکتے۔ اب عوام کو کوئی نیا راستہ نکالنا پڑے گا۔ سنا ہے ایک نئی مسلم لیگ بنائی جارہی ہے وہ جنھیں حصہ بقدر جثہ نہیں ملا۔ کیا جو اقتدار سے باہر رہ گئے اکٹھے ہورہے ہیں، سیاست تو ایک کھیل تماشا بن کر رہ گئی ہے، خصوصاً ہمارے ملک میں تو سیاست کاروبار بن گئی ہے۔ ایک بہت پرانے غیر معروف شاعر کا کمال شعر ہے:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
بات بجٹ سے شروع ہوئی تھی، سو بجٹ آگیا ہے، اعداد کا گورکھ دھندہ، لفظوں کا ہیر پھیر، غریب کی حالت بدستور خراب، پتا نہیں اس بجٹ سے اگلے بجٹ تک کتنی مائیں بچوں سمیت دریا میں کود جائیںگی۔ کتنی ریل کی پٹڑیاں انسانی خون سے سرخ ہوجائیں اور کتنے نئے محل، فارم ہاؤسز مزید بن جائیںگے، جالب صاحب نے بجٹ پر لکھا ہے، لگتا ہے تازہ لکھا ہے۔
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا
وہ ایوانوں میں سرمست و غزل خواں
وطن قرضے کی سولی پر ہے لٹکا
مقدر ہے ہمارا تشنہ کالی
بھرا رہتا ہے کم ظرفوں کا مٹکا
غمِ دنیا میں کچھ کھوئے ہم ایسے
خیال آتا نہیں اب اس کی لت کا
ہم اپنی منزلیں خود ڈھونڈ لیںگے
ہمیں اب اور اے رہبر نہ بھٹکا
جو وہ محسوس کرتا ہے لکھے گا
کہ جالب بھی ہے پکا اپنی ہٹ کا