ڈراموں میں مقصدیت اور معیار کا فقدان ہے محمد ناظم

’’ساتھ نبھانا ساتھیا‘‘ کے ’’آہیم مودی‘‘ کی باتیں

مجھے ذاتی طور پر ’فیئر فیکٹر‘ بہت پسند ہے اور میں مہم جوئی پر مبنی ہر ریالٹی شو کے لیے تیار ہوں۔، محمد ناظم فوٹو: فائل

COLOMBO:
ٹیلی وڈ کے ناظرین کا ''آہیم مودی'' سے تعارف ''ساتھ نبھانا ساتھیا'' کے ذریعے ہوا، جو اسٹار پلس کا مقبول ترین ڈراموں میں شمار ہوتا ہے۔

یہ کردار چھوٹی اسکرین کے اداکار محمد ناظم نے ادا کیا، جسے بے حد پزیرائی ملی۔ ان کا کیریکٹر شو کی ہیروئن ''گوپی'' کے شوہر کا ہے اور ان کی آن اسکرین جوڑی ناظرین کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس اداکار کا انٹرویو آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

٭ اب تک کتنے ڈراموں میں اداکاری کی اور اپنا کون سا کیریکٹر زیادہ جان دار محسوس ہوتا ہے؟

میں نے ابتدا میں سی آئی ڈی، آہٹ اور شوریا اورسہانی میں کام کیا۔ اگرچہ ان شوز میں میرے کیریکٹرز بے جان تھے، لیکن میں انھیں اپنے لیے ایک اچھا تجربہ قرار دیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہی کیریکٹرز کی بدولت آج میں ایک مضبوط رول ادا کر رہا ہوں۔ یہ آہیم مودی کا کیریکٹر ہے اور یہی میرے کیریر کا جان دار رول ثابت ہوا۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ شو مقبولیت کے اعتبار سے انڈسٹری کے چند ڈراموں کی فہرست میں نمایاں ہے اور میرا کردار دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

٭ اپنی ساتھی اداکارہ اور اس شو کی 'گوپی' یعنی جیا مانک کے کاسٹ سے الگ ہونے پر کچھ کہیے۔

ابتدائی دنوں میں نئی 'گوپی' کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہو سکا تھا، جب کہ نئی اداکارہ کے لیے جیا کی جگہ خود کو منوانا خاصا دشوار معلوم ہو رہا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ وہ اپنے رول کو سمجھ چکی ہے اور اس کی پرفارمینس دن نہ دن بہتر ہو رہی ہے۔ میں بھی اس سے بہتر ورکنگ ریلیشن قائم کر چکا ہوں۔ میرا چوں کہ اداکارہ جیا مانک کے ساتھ دو سال پرانا تعلق تھا اور اپنے کرداروں کے لیے ہماری اچھی ذہنی ہم آہنگی تھی، جس کا ہماری پرفارمینس پر مثبت اثر پڑتا تھا، اس لیے ابتدا میں عجیب کیفیت تھی۔ تاہم اب میں اس سے باہر نکل چکا ہوں۔

اب ڈیولینا بھٹا چاریہ میرے ساتھ ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کریں اور ناظرین کی توجہ برقرار رہے۔

٭ نئی اداکارہ کو اس کے کردار سے متعلق آپ کی کتنی مدد حاصل رہی؟

بہ طور ساتھی فن کار میں نے اسے ہر طرح سہولت دی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک فیملی ممبر کی طرح ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے سے ہر طرح تعاون کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ گوپی کا کردار مجھ سے جڑا ہوا ہے، اور اس کی اچھی یا بری پرفارمینس میرے یعنی آہیم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے ڈیولینا کو اس کا کیریکٹر سمجھانے پر خصوصی توجہ دی اور ہر موقعے پر اس کی مدد کی ہے۔ ابتدا میں وہ خاصی نروس معلوم ہوتی تھی، لیکن اب بہت اعتماد کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

٭ آہیم کے کردار کے لیے حامی بھرتے ہوئے آپ کو امید تھی کہ یہ اس قدر مقبول ہو گا؟

جی نہیں۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کیریکٹر کو اتنی پزیرائی حاصل ہو گی۔ میرے نزدیک یہ محض ایک پروجیکٹ تھا جس کا حصہ بننا میرے معاش اور کیریر کے لیے ضروری تھا۔ تاہم میں نے اسے اتنا غیر اہم بھی نہیں جانا تھا۔ میں نے اس کے لیے بہت محنت کی اور کوشش کی کہ اپنی پرفارمینس مزید بہتر بنائوں۔ مجھے اپنی محنت کا صلہ اس کیریکٹر کے ناظرین میں پاپولر ہونے کی صورت میں ملا ہے۔


٭ اس سے قبل ڈراموں میں آپ نے جو کیریکٹر نبھائے، یہ ان سے کس طرح مختلف ہے؟

آہیم ہر لحاظ سے مختلف کردار ہے۔ یہ خاصی گنجائش رکھنے والا اور جان دار کیریکٹر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا پچھلے کرداروں سے موازنہ کرنا بے سود ہو گا۔ وہ ثانوی کردار تھے، اور ان میں کوئی جان نہیں تھی۔ یہ بات میں ان آفرز پر ہاں کہتے ہوئے بھی جانتا تھا، لیکن اس وقت مجبوری یہ تھی کہ میں خالی ہاتھ تھا۔ اب میں کوئی بھی رول بہت سوچ سمجھ کر قبول کروں گا۔

٭ ان دنوں ریالٹی شوز کا شور بہت زیادہ ہے۔ آپ کو کوئی آفر نہیں ہے؟

مجھے فی الحال کسی ریالٹی مقابلے کی آفر نہیں ہوئی ہے۔ اگر کسی نے رابطہ کیا تو میں فوراً ہاں کر دوں گا۔ یہ ایک اچھا تجربہ ثابت ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے مقابلے فن کاروں کو اپنی صلاحیتوں کے بہترین اظہار کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں۔

٭ کس قسم کے مقابلوں میں شریک ہونا پسند کریں گے؟

مجھے ذاتی طور پر 'فیئر فیکٹر' بہت پسند ہے اور میں مہم جوئی پر مبنی ہر ریالٹی شو کے لیے تیار ہوں۔ یہاں میں 'خطروں کے کھلاڑی کا بھی ذکر کروں گا۔ اس کے علاوہ ڈانس کے شوز بھی میری توجہ حاصل کرتے ہیں۔

٭ انڈسٹری کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آپ کا شو معاشرے کی عورت کی ترجمانی میں عدم توازن کا شکار ہو گیا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

اس وقت ٹی وی چینلوں پر ہر طرف ایسی ہی کہانیاں نشر ہو رہی ہیں، جن میں عورت کو مظلوم بتا کر اس کی مشکلات اور مسائل کی عکاسی کی جارہی ہے۔ زیادہ تر کہانیاں عورتوں کی ترجمانی کرتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس ڈرامے میں ہندوستانی عورت کی مظلومیت کا بہت زیادہ رونا پیٹنا کیا گیا، لیکن اسے مکمل طور پر غلط نہیں کہہ سکتے۔ آپ دیکھ لیں کہ ہمارے سماج میں عورت کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اسے تو دوسرے درجے کا انسان بھی نہیں مانا جاتا۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں کہوں گا کہ کہانی میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے آگے چل کر ناظرین کو اس سے مختلف بات نظر آئے۔

٭ چند سال کے دوران آپ نے ٹیلی وڈ میں کیا تبدیلیاں محسوس کی ہیں؟

اپنے کیریر کے پچھلے پانچ برسوں کے دوران میں نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ انڈسٹری میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ کام کرنے کا طریقہ، خیالات میں بدلاؤ نے اسے کافی حد تک بدل دیا ہے۔ پھر ریالٹی شوز کا طوفان بھی آیا جس نے روایتی تفریحی پروگراموں سے نجات دلائی اور نئے پن کا احساس ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقابلے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ ہر شعبے میں آرٹسٹ کے لیے چیلنجز موجود ہیں اور ان کا جواب دینے کے لیے اسے محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ ان برسوں میں یہ بھی ہوا کہ زیادہ سے زیادہ پروگرامز دینے کے چکر میں ہم نے معیار کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ساتھ ہی ڈراموں میں مقصدیت کا فقدان نظر آتا ہے۔

٭ مستقبل میں بہ طور اداکار خود کو کس مقام پر دیکھتے ہیں؟

میرا سفر ابھی جاری ہے اور مزید کام کرنا ہے۔ ٹیلی ویژن سے وابستگی کے دوران میں نے بہت کچھ سیکھا اور موجودہ کردار کی بدولت نام کمایا ہے۔ اپنے تجربات کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں مجھے مزید شان دار آفرز ہوں گی اور میں اس شعبے میں کام یابی حاصل کروں گا۔
Load Next Story