جاپان میں جوڑے نے کچھوے کو اولاد بنالیا
انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ننھا سا کچھوا اتنا بڑا ہوجائے گا
پالتو کتے کی زنجیر ہاتھ میں پکڑ کر مٹرگشت کرتے ہوئے لوگ تو آپ نے دیکھے ہوں گے، مگر کیا کبھی کسی کو کچھوے کی ہمراہی میں چہل قدمی کے لیے نکلتے ہوئے دیکھا ہے؟ جاپانی دارالحکومت، ٹوکیو کے رہائشی کئی برس سے یہ حیران کُن نظارہ دیکھ رہے ہیں۔
انھیں ہر روز ایک ادھیڑ شخص اپنے پالتو کچھوے کے ساتھ سڑکوں پرچہل قدمی کرتا نظر آتا ہے۔ اس شخص کا نام متانی ہساؤ ہے۔ وہ معاوضہ لے کر مُردوں کی آخری رسومات انجام دیتا ہے۔ متانی کے مطابق خشکی پر رہنے والا یہ قوی الجثہ کچھوا ( tortoise) انیس برس سے اس کے ساتھ ہے۔ متانی اور اس کی بیوی نے یہ کچھوا ایک دکان سے خریدا تھا۔ اس وقت یہ بچہ تھا اور اس کی لمبائی محض پانچ سینٹی میٹر تھی۔ متانی اور اس کی بیوی اولاد سے محروم تھے رفتہ رفتہ انھیں کچھوے سے اتنی اُنسیت ہوگئی کہ وہ اسے اپنی اولاد سمجھنے لگے۔ انھوں نے اس کا نام بون چان رکھ دیا۔ یہ نام انھوں نے اپنے بچے کے لیے سوچ رکھا تھا مگر قدرت نے انھیں موقع نہیں دیا کہ وہ اپنی اولاد کو اس نام سے پُکارتے۔
متانی اور اس کی بیوی دل بہلانے کے لیے کوئی جانور خریدنے اُس دکان میں داخل ہوئے تھے جب یہ چھوٹا سا کچھوا ان کے دل کو بھا گیا۔ لیکن انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ننھا سا کچھوا اتنا بڑا ہوجائے گا۔ بون چان کے جسم کا پھیلاؤ 75 سینٹی میٹر اور وزن 70 کلوگرام ہے!
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہساؤ اور اس کے پالتو کچھوے کے درمیان تعلق مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اور اب، ہساؤ کے بقول، ان کے درمیان بہت اچھی ذہنی ہم آہنگی قائم ہوچکی ہے۔ دونوں باقاعدگی سے ' چہل قدمی' کے لیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ہساؤ اسے رنگین ' لباس' پہناکر بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ ہساؤ کا کہنا ہے کہ گھر میں صرف بون ہی اس کی بات سنتا اور سمجھتا ہے۔ ہساؤ جیسے ہی بون کا نام لیتا ہے، وہ چلتا ہوا اس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ متانی مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ کچھوا اس کے بہت سے رازوں سے بھی واقف ہے۔ اور اگر یہ بول سکتا تو وہ ( متانی) مشکل میں پڑجاتا۔
متانی پالتو کچھوے کو ہفتے میں دو سے تین بار چہل قدمی کے لیے لے جاتا ہے۔ کچھوے کو باہر کی سیر بہت پسند ہے۔ ان کا راستہ طے شدہ ہے۔ مقررہ روٹ پر چلتے ہوئے وہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے میں واپس گھر پہنچتے ہیں۔ کچھوے کی سست رفتاری مشہور ہے، مگر متانی کا کہنا ہے کہ بون اتنا سست رفتار نہیں ہے۔ پھر یہ کہ وہ خود بھی جلدباز نہیں۔ یوں دونوں ساتھی چہل قدمی سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
علاقے میں ان کی جوڑی بہت مقبول ہوچکی ہے۔ چہل قدمی کرتے ہوئے متانی کے ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا بھی ہوتا ہے۔ اس میں بون کے لیے چند گاجریں اور بندگوبھی ہوتی ہے۔ کبھی کبھار متانی، بون کو اپنی جائے کار پر بھی لے جاتا ہے۔ بون کو دیکھ کر مُردے کے اُداس لواحقین کے چہروں پر بھی مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے۔
انھیں ہر روز ایک ادھیڑ شخص اپنے پالتو کچھوے کے ساتھ سڑکوں پرچہل قدمی کرتا نظر آتا ہے۔ اس شخص کا نام متانی ہساؤ ہے۔ وہ معاوضہ لے کر مُردوں کی آخری رسومات انجام دیتا ہے۔ متانی کے مطابق خشکی پر رہنے والا یہ قوی الجثہ کچھوا ( tortoise) انیس برس سے اس کے ساتھ ہے۔ متانی اور اس کی بیوی نے یہ کچھوا ایک دکان سے خریدا تھا۔ اس وقت یہ بچہ تھا اور اس کی لمبائی محض پانچ سینٹی میٹر تھی۔ متانی اور اس کی بیوی اولاد سے محروم تھے رفتہ رفتہ انھیں کچھوے سے اتنی اُنسیت ہوگئی کہ وہ اسے اپنی اولاد سمجھنے لگے۔ انھوں نے اس کا نام بون چان رکھ دیا۔ یہ نام انھوں نے اپنے بچے کے لیے سوچ رکھا تھا مگر قدرت نے انھیں موقع نہیں دیا کہ وہ اپنی اولاد کو اس نام سے پُکارتے۔
متانی اور اس کی بیوی دل بہلانے کے لیے کوئی جانور خریدنے اُس دکان میں داخل ہوئے تھے جب یہ چھوٹا سا کچھوا ان کے دل کو بھا گیا۔ لیکن انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ننھا سا کچھوا اتنا بڑا ہوجائے گا۔ بون چان کے جسم کا پھیلاؤ 75 سینٹی میٹر اور وزن 70 کلوگرام ہے!
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہساؤ اور اس کے پالتو کچھوے کے درمیان تعلق مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اور اب، ہساؤ کے بقول، ان کے درمیان بہت اچھی ذہنی ہم آہنگی قائم ہوچکی ہے۔ دونوں باقاعدگی سے ' چہل قدمی' کے لیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ہساؤ اسے رنگین ' لباس' پہناکر بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ ہساؤ کا کہنا ہے کہ گھر میں صرف بون ہی اس کی بات سنتا اور سمجھتا ہے۔ ہساؤ جیسے ہی بون کا نام لیتا ہے، وہ چلتا ہوا اس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ متانی مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ کچھوا اس کے بہت سے رازوں سے بھی واقف ہے۔ اور اگر یہ بول سکتا تو وہ ( متانی) مشکل میں پڑجاتا۔
متانی پالتو کچھوے کو ہفتے میں دو سے تین بار چہل قدمی کے لیے لے جاتا ہے۔ کچھوے کو باہر کی سیر بہت پسند ہے۔ ان کا راستہ طے شدہ ہے۔ مقررہ روٹ پر چلتے ہوئے وہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے میں واپس گھر پہنچتے ہیں۔ کچھوے کی سست رفتاری مشہور ہے، مگر متانی کا کہنا ہے کہ بون اتنا سست رفتار نہیں ہے۔ پھر یہ کہ وہ خود بھی جلدباز نہیں۔ یوں دونوں ساتھی چہل قدمی سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
علاقے میں ان کی جوڑی بہت مقبول ہوچکی ہے۔ چہل قدمی کرتے ہوئے متانی کے ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا بھی ہوتا ہے۔ اس میں بون کے لیے چند گاجریں اور بندگوبھی ہوتی ہے۔ کبھی کبھار متانی، بون کو اپنی جائے کار پر بھی لے جاتا ہے۔ بون کو دیکھ کر مُردے کے اُداس لواحقین کے چہروں پر بھی مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے۔