بجٹ اقدامات سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا آئی پی آر

پاورسیکٹر کی کارکردگی تسلی بخش نہیں،سماجی اشاریے تشویشناک ہیں، ہمایوںاختر

پاورسیکٹر کی کارکردگی تسلی بخش نہیں،سماجی اشاریے تشویشناک ہیں، ہمایوںاختر۔ فوٹو: فائل

وفاقی بجٹ برائے سال 2015-16 میں اہم درآمدات بشمول کھاد، تیل اور پٹرولیم مصنوعات پر کم ازکم درآمدی ڈیوٹی عائد ہونے جبکہ بنیادی اشیائے خوردونوش کی درآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔

یہ بات سابق وزیرتجارت اورانسٹی ٹیوٹ فارپالیسی ریفارمزکے سربراہ ہمایوں اخترخان نے پیر کوکراچی چیمبرآف کامرس اورانسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کے اشتراک سے منعقدہ بجٹ جائزہ سیمینار سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے کے باوجودرواں مالی سال کے نظرثانی شدہ 2691 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کے حصول میں ایک بار پھر ناکام رہے گا اور ریونیو شارٹ فال کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنی پڑے گی، 22 مئی2015 تک حکومت نے ترقیاتی بجٹ کا60 فیصد سے بھی کم جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاورسیکٹر کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے اور اس خراب کارکردگی کی ذمے دارشعبہ توانائی کی مینجمنٹ ہے، مالی سال2014-15 میں توانائی کی پیداواری صلاحیت میں معتدل اضافہ ہوا لیکن اسکے باوجود بجلی کی حقیقی ترسیل میں2.3 فیصد کی کمی آئی اور حکومت اس شعبے کی بقا کو لاحق امور سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمایوں اخترخان نے کہا کہ سماجی شعبے کے خراب ہوتے ہوئے اشاریے خصوصی طور پر تشویشناک ہیں اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے، خواندگی کی شرح2 فیصد کمی کے نتیجے میں60 فیصد سے گھٹ کر58 فیصد رہ گئی ہے، حفاظتی IMMONIZATION کی شرح6 فیصد کی کمی سے 76 فیصد اورصاف پانی کے حامل گھرانوں کی شرح4 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد رہ گئی ہے جبکہ پرائمری اسکولوں میں داخلے اپنی پرانی شرح پر برقرار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ2015-16 پیشگوئی کے مطابق ہے اوربجٹ خسارے میں کمی اس کا بنیادی مقصد ہے لیکن معاشی نمو کی شرح میں اضافے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ بجٹ غیرحقیقی مفروضات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے، بجٹ میں خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 4.3 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ پی ایس ڈی پی میں29 فیصد اضافہ اورنان ٹیکس ریونیومیں14 فیصد کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جو ناقابل یقین حد تک امید افزا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر ریونیو3.1 ٹریلین روپے بہت زیادہ امیدافزا ہے۔


جس کے لیے وصولیوں میں اس شرح سے اضافہ درکارہوگا جو کبھی پہلے حاصل نہیں کیا گیا، بجٹ میں جاری اخراجات میں10 فیصد کمی کی پیشگوئی کی گئی ہے یہاں بھی ڈیٹ سروسنگ لاگت میں بچت کا مفروضہ حقیقت نہیں بن سکتا ہے جس کی وجہ آئوٹ اسٹینڈنگ ڈیٹ کے اثرات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبسڈیزاور صوبائی سرپلس میں کمی کے مفروضات بھی کمزور ہیں، حکومت نے ڈسکوز کے لائن لاسز میں کمی کے لیے کچھ نہیں کیا اور صوبوں کی جانب سے اخراجات میں اضافے کی امید ہے جبکہ نیپرا میں سبسڈی میں کمی کے بجٹ میں ٹیکسیشن تجاویز کے تحت 253 ارب روپے کے اضافی ٹیکس ریونیو کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ ہمایوں اخترخان نے کہا کہ مالی سال 2014-15 میں معاشی کارکردگی ملی جلی رہی جبکہ گزشتہ 7 سال میں ملکی معیشت مسلسل کم شرح سے ترقی کررہی ہے، شدید انفرااسٹرکچر وسماجی خسارہ بھی اقتصادی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

ٹیکسوں کا بوجھ غیرمتوازن طور پرعوام پرہے، ٹیکس دہندگان پر بالواسطہ لیویز اور مالی ذمے داریوں میں اضافہ اس بوجھ کو مزید بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کی پوری توجہ مالیاتی استحکام پرمرکوز ہے جو آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے تاہم حکومت کو توجہ مالیاتی استحکام سے گروتھ ریٹ میں اضافے پر مرکوز کرنی چاہیے، بعض عوامل مثبت بھی ہیں، خام تیل کی عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی کی وجہ سے افراط زر کی شرح اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوا ہے لیکن دوسرے شعبوں میں معیشت کی کارکردگی انتہائی خراب ہے، بڑے پیمانے کے پیداواری شعبے کی شرح نمو2.5 فیصد رہی جبکہ زراعت نے معتدل شرح سے ترقی کی البتہ گندم، مکئی اور گنے کی پیدوار کم ہوئی، روئی کی پیداوار میں اضافہ اور خدمات کے شعبے نے بہترکارکردگی ظاہر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش2 بڑے خدشات سیکیورٹی اورلوڈشیڈنگ اقتصادی سرگرمیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں اس کے ساتھ نجی قرضوں میں کمی نے ان وجوہ کو جنم دیا جس کی وجہ سے نجی سرمایہ کاری کم ہوکرجی ڈی پی کا9.7 فیصد رہ گئی ہے، محسوس ہوتا ہے کہ معیشت کم شرح نمو کی جال میں پھنس چکی ہے، معیشت کی ملازمتوں کے نئے مواقع کی فراہمی میں ناکامی خاص طور پر پریشان کن ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرحفیظ پاشا نے کہا کہ حکومت کو اپنی توجہ استحکام سے معاشی ترقی کی جانب منتقل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی میں بہت سے اہم ایشوز ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں18 ویں ترمیم کے تحت کاموں کی منتقلی کی تکمیل اور قابل تقسیم پول سے صوبائی حصے سے متعلق مضمرات، نومنتخب مقامی حکومتوں کے فارمولے پر مبنی فنڈنگ، صوبائی حکومتوں کے قرض لینے کے اختیارات خصوصاً شعبہ توانائی میں تجارتی بنیادوں پر قابل عمل منصوبوں کے حوالے سے قرض لینے کے اختیارات، خدمات کی فراہمی میں بہتری کے لیے ترغیبات کی شمولیت، اخراجات کے معیارات کا قیام اور صوبائی ٹیکس بنیادوں پر وفاقی حکومت کی مداخلت کا خاتمہ شامل ہے۔

ڈاکٹرحفیظ پاشا نے صوبائی حکومتوں کی ہچکچاہٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس اور شہری علاقوں میںغیرمنقولہ جائیداد پر ٹیکس سے ریونیو کے وسیع وسائل ثابت ہوسکتے ہیں تاہم انہوں نے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کی جانب سے خدمات پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کی منظم کوششوں کو تسلیم کیا۔صوبائی ٹیکسوں کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ قومی مجموعی ٹیکس ریونیو میں صوبائی ٹیکس ریونیو کا حصہ بڑھانے کی ضرورت ہے جو فی الوقت7فیصد ہے تاہم آئندہ 5برس میں اسے 15 فیصد کی سطح پر لایا جائے۔ سیمینار سے کراچی چیمبر کے صدر اور بی ایم جی کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے بھی خطاب کیا۔
Load Next Story