دین میں جبر نہیں
برما، ساؤتھ افریقہ اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کی ایک وجہ تو ان کا آپسی نفاق اور متحد نہ ہونا ہے
لاہور:
برما، ساؤتھ افریقہ اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کی ایک وجہ تو ان کا آپسی نفاق اور متحد نہ ہونا ہے۔ دوسری چند بڑی وجوہات میں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کہیں پر بھی آباد ہوں۔ کسی ملک کے شہری ہوں وہ ایک کلمے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ رشتہ دین و ایمان کی مضبوطی اور عقیدے کے راسخ ہونے پر کہیں گہرا کہیں ہلکا ہے لیکن ہر حالت میں ہے ضرور۔ اور یہی وجہ ان کے ہلاک کیے جانے کا سبب ہے۔ ان پر ظلم و بربریت کا باعث ہے۔
دیگر مذاہب یا بین المذاہب مخاصمت تو ہے۔ لاکھ کوئی کہے کہ انسانیت بذات خود ایک مذہب ہے۔ یا ایک نقطہ نظر ہو کہ مذاہب کو انسانوں کے لیے خلق کیا گیا۔ لیکن مخالفت تھی، ہے اور رہے گی۔ ہر مذہب کا پیروکار اپنے تئیں خدا کے زیادہ نزدیک ہے بہ نسبت دوسروں کے۔ وہ اپنے فہم میں کامل ہے یہ اس کا ماننا ہے۔ اور وہ دوسرے کو غلط مقام پر دیکھتے ہوئے اسے جاہل، کافر کہہ کر پکارتا ہے۔
جب کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ہر مذہب کا مقلد اس امر کو جزو دین سمجھتا ہے کہ اسے جملہ انسانوں کو اس سوچ، فکر اور عقیدے کا پابند بنانا ہے جس کا اسے خدا نے اس کے مذہب میں حکم دیا ہے۔ وہ اسے جہاد قرار دے کر یا فرض اولین سمجھتے ہوئے بندوق اٹھا لیتا ہے۔ پہلے تلوار، تیر و تفنگ تھے۔ قارئین کرام! جیسا کہ ہم جانتے ہیں ماضی قریب ہو یا بعید اس نقطے پر بڑی ہولناک جنگیں لڑی گئیں۔ بربریت اور سفاکی کے ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے کہ خدائے بزرگ و برتر (جو جملہ ادیان میں ایک ہی ہے) نے بھی انسان کو جھگڑالو، عجلت پسند اور احسان فراموش قرار دیا۔ لیکن حضرت انسان نہ مانا اور وہ آج تک اسی موضوع کو لے کر آپس میں برسر پیکار ہے۔
اور اگر کھلے ذہن سے معاملے کا جائزہ لیں تو آج ہم ان پر تنقید کرتے ہیں جو موجودہ حاکم ہیں یا جن کا معاشرہ ترقی یافتہ معاشرہ مانا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ کہہ کر جان چھڑائی نہیں جا سکے گی کہ مسلمانان عالم کو متحد ہو کر برما یا ساؤتھ افریقہ میں مسلمز کے خلاف ہونے والی بربریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ یا اعلان جنگ کر دینا چاہیے۔ اول تو عملاً مسلمانوں کا ایسا اتحاد ہوتا نظر نہیں آتا دوئم اگر مان لیا جائے اور مسلمان متحد بھی ہو جائیں تو بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
البتہ جنگ ہو جائے گی۔ جسے ہم ''اسلام بمقابلہ صیہونیت و یہودیت'' کہیں گے لیکن اس جنگ میں پلڑا دوسرے فریق کا بھاری رہے گا۔ کیونکہ وہ علم و سائنس میں اس وقت مسلمانوں سے کہیں آگے ہیں۔ ان کے ہتھیار جدید ترین ہیں اور کسی بھی جنگ میں سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ جب کہ قتل عام نہ صرف یہ کہ رکے گا نہیں بلکہ شاید قدرت کو قیامت کا اہتمام قبل از وقت کرنا پڑے۔ اس قدر انسانی ہلاکتیں متوقع ہیں۔
تب۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ آخر دنیا کو یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور نہ اسلام نے اپنی تعلیمات میں دہشت گردی کا درس دیا ہے۔ اور اہل اسلام کے ایسے عزائم نہیں ہیں کہ باقی دنیا کو جبراً کلمہ توحید پڑھوا دیا جائے۔ وہ تو محض اپنے دین کی تبلیغ چاہتے ہیں جس کا حق آپ کو بھی ہے۔ لیکن اہل یورپ و امریکا کو بھی اس نقطے پر غور کرنا ہو گا کہ ماضی کی ایسی جنگیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مذہب کو بنیاد بنا کر لڑی گئیں اور جن میں اکثر و بیشتر فاتح مسلمان رہے۔ وہ ماضی بعید کا قصہ ہیں جب انسان اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھا۔
بلکہ کمیونیکیشن کی یہ تمام تر ترقی تو صرف 100 سالوں کی مرہون منت ہے۔ اس دور میں جنگ تلواروں سے گھوڑوں پر بیٹھ کر لڑی جاتی تھی اور لوگ امن کی سچائی اور فوائد سے اس قدر آگاہ نہ تھے۔ جس قدر آج یہ حقیقت اس پر آشکار ہے۔
لہٰذا ماضی کو بنیاد بنا کر آپ نے جس طرح عراق پر حملہ کر دیا، اسے تہہ تیغ کر دیا، افغانستان کو برباد کر دیا۔ یہ طرز عمل مناسب نہیں۔ اب برما اور ساؤتھ افریقہ سمیت آپ کے تمام ممالک اسی جنگی جنون کا شکار ہیں کہ ختم کر دو Muslims کو۔ نکال دو اپنے ملکوں سے حوالے کر دو ہزاروں لوگوں کو سمندر کی بے رحم موجوں کے۔ غلط ہے۔
اگر میں نہ بھی کہوں تو آپ کا اعلانیہ دعویٰ ہے کہ آپ مہذب اقوام ہیں۔ آپ کی ثقافت آپ کی تہذیب آپ کا انصاف کامل ہے۔ عظیم تر ہے۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ انسان تو چھوڑیے پرندوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ بہترین شجرکار ہیں۔ لیکن یہ سارے دعوے فضا کا حصہ بن جاتے ہیں جب ہم مسلمانان عالم سے آپ کا رویہ دیکھتے ہیں اور زمین آپ کے تمام دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔ جب آپ کے ٹینک، ڈرون طیارے گولے اور میزائل برساتے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ آپ نے تو ابھی تک غاروں سے ہجرت ہی نہیں کی۔ دیکھیے اگر آپ محض اپنی فلاح چاہتے ہیں، اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تو انسانوں کی اس خطے پر یہ ارزاں ترین خواہش ہے۔
ایک ایسا مقصد ہے جس سے انسانی ترقی ممکن نہیں۔ اگر آپ دنیا کو ایک Global Village کہتے ہیں تو آپ کو فی الفور اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ اپنی حکمت عملی میں یہ بنیادی تبدیلی لانا ہو گی کہ ہم ماضی کا بدلہ بلکہ ہزاروں سال پرانا بدلا آج کی دنیا میں نہیں لیں گے۔ تبھی دنیا Global Village بن سکتی ہے۔ اور یوں بھی جملہ مذاہب کے ماننے والوں کو ایک موقع امن کو بھی دینا چاہیے۔ بھائی چارہ قائم کر کے بھی دیکھنا چاہیے۔ جب کہ وہ ان گنت مواقعے جنگ و جدل کو دے چکے ہیں۔
جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کوئی دوسرا فریق ختم نہیں ہوا۔ بلکہ اگر کسی نے از خود کسی فکر کو دین قرار دے دیا تو وہ بھی موجود ہے۔ ممکن یہی تھا اور یہی ہے کہ دین میں جو نقطہ نظر آپ کا ہے اس کی پر امن تبلیغ کریں۔ میں مسلمانوں سے بھی یہی درخواست کروں گا کہ اگر آپ مذاہب عالم میں اپنے نقطہ نظر کو صحیح مانتے ہیں۔ تو سب سے پہلے اپنی کتاب مقدس قرآن کریم کا مطالعہ ترجمے کے ساتھ کریں۔ آپ کو اللہ پاک کا بہت صاف اور واضح حکم ملے گا ''لَااِکراہٰ فی الدین۔'' (دین میں جبر نہیں)۔ اور بہت سے مقامات پر بھی اسی حکم کو زیادہ واضح طور پر پیش کیا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ قرآن کریم کا موضوع ''انسان'' ہے۔ تب کیا فطرت انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغیب دیتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ عزیزان گرامی! آج مجھے بھی دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے جبر و تشدد پر دکھ ہے۔ بہت افسوس ہے، لیکن میں اک ذرا سا اختلاف کرتے ہوئے جنگ و جدل کو اس کا حل نہیں سمجھتا بلکہ Dialogue کو معاملے کا مستقل اور پائیدار ذریعہ مانتا ہوں۔ جو حقیقت ہوتے ہوئے فطرت سے قریب تر ہے۔
برما، ساؤتھ افریقہ اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کی ایک وجہ تو ان کا آپسی نفاق اور متحد نہ ہونا ہے۔ دوسری چند بڑی وجوہات میں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کہیں پر بھی آباد ہوں۔ کسی ملک کے شہری ہوں وہ ایک کلمے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ رشتہ دین و ایمان کی مضبوطی اور عقیدے کے راسخ ہونے پر کہیں گہرا کہیں ہلکا ہے لیکن ہر حالت میں ہے ضرور۔ اور یہی وجہ ان کے ہلاک کیے جانے کا سبب ہے۔ ان پر ظلم و بربریت کا باعث ہے۔
دیگر مذاہب یا بین المذاہب مخاصمت تو ہے۔ لاکھ کوئی کہے کہ انسانیت بذات خود ایک مذہب ہے۔ یا ایک نقطہ نظر ہو کہ مذاہب کو انسانوں کے لیے خلق کیا گیا۔ لیکن مخالفت تھی، ہے اور رہے گی۔ ہر مذہب کا پیروکار اپنے تئیں خدا کے زیادہ نزدیک ہے بہ نسبت دوسروں کے۔ وہ اپنے فہم میں کامل ہے یہ اس کا ماننا ہے۔ اور وہ دوسرے کو غلط مقام پر دیکھتے ہوئے اسے جاہل، کافر کہہ کر پکارتا ہے۔
جب کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ہر مذہب کا مقلد اس امر کو جزو دین سمجھتا ہے کہ اسے جملہ انسانوں کو اس سوچ، فکر اور عقیدے کا پابند بنانا ہے جس کا اسے خدا نے اس کے مذہب میں حکم دیا ہے۔ وہ اسے جہاد قرار دے کر یا فرض اولین سمجھتے ہوئے بندوق اٹھا لیتا ہے۔ پہلے تلوار، تیر و تفنگ تھے۔ قارئین کرام! جیسا کہ ہم جانتے ہیں ماضی قریب ہو یا بعید اس نقطے پر بڑی ہولناک جنگیں لڑی گئیں۔ بربریت اور سفاکی کے ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے کہ خدائے بزرگ و برتر (جو جملہ ادیان میں ایک ہی ہے) نے بھی انسان کو جھگڑالو، عجلت پسند اور احسان فراموش قرار دیا۔ لیکن حضرت انسان نہ مانا اور وہ آج تک اسی موضوع کو لے کر آپس میں برسر پیکار ہے۔
اور اگر کھلے ذہن سے معاملے کا جائزہ لیں تو آج ہم ان پر تنقید کرتے ہیں جو موجودہ حاکم ہیں یا جن کا معاشرہ ترقی یافتہ معاشرہ مانا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ کہہ کر جان چھڑائی نہیں جا سکے گی کہ مسلمانان عالم کو متحد ہو کر برما یا ساؤتھ افریقہ میں مسلمز کے خلاف ہونے والی بربریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ یا اعلان جنگ کر دینا چاہیے۔ اول تو عملاً مسلمانوں کا ایسا اتحاد ہوتا نظر نہیں آتا دوئم اگر مان لیا جائے اور مسلمان متحد بھی ہو جائیں تو بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
البتہ جنگ ہو جائے گی۔ جسے ہم ''اسلام بمقابلہ صیہونیت و یہودیت'' کہیں گے لیکن اس جنگ میں پلڑا دوسرے فریق کا بھاری رہے گا۔ کیونکہ وہ علم و سائنس میں اس وقت مسلمانوں سے کہیں آگے ہیں۔ ان کے ہتھیار جدید ترین ہیں اور کسی بھی جنگ میں سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ جب کہ قتل عام نہ صرف یہ کہ رکے گا نہیں بلکہ شاید قدرت کو قیامت کا اہتمام قبل از وقت کرنا پڑے۔ اس قدر انسانی ہلاکتیں متوقع ہیں۔
تب۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ آخر دنیا کو یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور نہ اسلام نے اپنی تعلیمات میں دہشت گردی کا درس دیا ہے۔ اور اہل اسلام کے ایسے عزائم نہیں ہیں کہ باقی دنیا کو جبراً کلمہ توحید پڑھوا دیا جائے۔ وہ تو محض اپنے دین کی تبلیغ چاہتے ہیں جس کا حق آپ کو بھی ہے۔ لیکن اہل یورپ و امریکا کو بھی اس نقطے پر غور کرنا ہو گا کہ ماضی کی ایسی جنگیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مذہب کو بنیاد بنا کر لڑی گئیں اور جن میں اکثر و بیشتر فاتح مسلمان رہے۔ وہ ماضی بعید کا قصہ ہیں جب انسان اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھا۔
بلکہ کمیونیکیشن کی یہ تمام تر ترقی تو صرف 100 سالوں کی مرہون منت ہے۔ اس دور میں جنگ تلواروں سے گھوڑوں پر بیٹھ کر لڑی جاتی تھی اور لوگ امن کی سچائی اور فوائد سے اس قدر آگاہ نہ تھے۔ جس قدر آج یہ حقیقت اس پر آشکار ہے۔
لہٰذا ماضی کو بنیاد بنا کر آپ نے جس طرح عراق پر حملہ کر دیا، اسے تہہ تیغ کر دیا، افغانستان کو برباد کر دیا۔ یہ طرز عمل مناسب نہیں۔ اب برما اور ساؤتھ افریقہ سمیت آپ کے تمام ممالک اسی جنگی جنون کا شکار ہیں کہ ختم کر دو Muslims کو۔ نکال دو اپنے ملکوں سے حوالے کر دو ہزاروں لوگوں کو سمندر کی بے رحم موجوں کے۔ غلط ہے۔
اگر میں نہ بھی کہوں تو آپ کا اعلانیہ دعویٰ ہے کہ آپ مہذب اقوام ہیں۔ آپ کی ثقافت آپ کی تہذیب آپ کا انصاف کامل ہے۔ عظیم تر ہے۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ انسان تو چھوڑیے پرندوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ بہترین شجرکار ہیں۔ لیکن یہ سارے دعوے فضا کا حصہ بن جاتے ہیں جب ہم مسلمانان عالم سے آپ کا رویہ دیکھتے ہیں اور زمین آپ کے تمام دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔ جب آپ کے ٹینک، ڈرون طیارے گولے اور میزائل برساتے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ آپ نے تو ابھی تک غاروں سے ہجرت ہی نہیں کی۔ دیکھیے اگر آپ محض اپنی فلاح چاہتے ہیں، اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تو انسانوں کی اس خطے پر یہ ارزاں ترین خواہش ہے۔
ایک ایسا مقصد ہے جس سے انسانی ترقی ممکن نہیں۔ اگر آپ دنیا کو ایک Global Village کہتے ہیں تو آپ کو فی الفور اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ اپنی حکمت عملی میں یہ بنیادی تبدیلی لانا ہو گی کہ ہم ماضی کا بدلہ بلکہ ہزاروں سال پرانا بدلا آج کی دنیا میں نہیں لیں گے۔ تبھی دنیا Global Village بن سکتی ہے۔ اور یوں بھی جملہ مذاہب کے ماننے والوں کو ایک موقع امن کو بھی دینا چاہیے۔ بھائی چارہ قائم کر کے بھی دیکھنا چاہیے۔ جب کہ وہ ان گنت مواقعے جنگ و جدل کو دے چکے ہیں۔
جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کوئی دوسرا فریق ختم نہیں ہوا۔ بلکہ اگر کسی نے از خود کسی فکر کو دین قرار دے دیا تو وہ بھی موجود ہے۔ ممکن یہی تھا اور یہی ہے کہ دین میں جو نقطہ نظر آپ کا ہے اس کی پر امن تبلیغ کریں۔ میں مسلمانوں سے بھی یہی درخواست کروں گا کہ اگر آپ مذاہب عالم میں اپنے نقطہ نظر کو صحیح مانتے ہیں۔ تو سب سے پہلے اپنی کتاب مقدس قرآن کریم کا مطالعہ ترجمے کے ساتھ کریں۔ آپ کو اللہ پاک کا بہت صاف اور واضح حکم ملے گا ''لَااِکراہٰ فی الدین۔'' (دین میں جبر نہیں)۔ اور بہت سے مقامات پر بھی اسی حکم کو زیادہ واضح طور پر پیش کیا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ قرآن کریم کا موضوع ''انسان'' ہے۔ تب کیا فطرت انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغیب دیتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ عزیزان گرامی! آج مجھے بھی دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے جبر و تشدد پر دکھ ہے۔ بہت افسوس ہے، لیکن میں اک ذرا سا اختلاف کرتے ہوئے جنگ و جدل کو اس کا حل نہیں سمجھتا بلکہ Dialogue کو معاملے کا مستقل اور پائیدار ذریعہ مانتا ہوں۔ جو حقیقت ہوتے ہوئے فطرت سے قریب تر ہے۔