کراچی کا المیہ
مختلف سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیات کی جانب سے ردعمل کوئی غیر متوقع تو نہیں تھا
ڈی جی رینجرز کی جانب سے کراچی کے مسئلے پر دی جانے والی معلومات اس ہفتے ایک اہم موضوع کے طور پر سامنے آئی اور پھر اس سے متعلق مختلف شخصیات کے بیانات بھی ذرایع ابلاغ پہ چھائے رہے، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار ہی نہیں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اعتزاز احسن نے بھی اعتراض کر ڈالا کہ ڈی جی رینجرز نے 230 ارب روپے کے حتمی اعداد و شمار کس طرح نکال لیے؟ ایرانی تیل سندھ کیسے آتا ہے؟ کیا ایران بلوچستان سرحد پر سندھ کی انتظامیہ ہے؟
مختلف سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیات کی جانب سے ردعمل کوئی غیر متوقع تو نہیں تھا، ایسا تو ہونا ہی تھا البتہ اہم ترین بات یہ ہے کہ شہریوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے مسائل کو بڑھانے والے کون لوگ ہیں، وہ کس جماعت یا زبان وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اہم بات تو یہ ہے کہ کیا عملاً بھی بااثر شخصیات یعنی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ یا اگر ماضی کی مثالوں کی طرح یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم آیندہ کے لیے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے یہ تمام راستے بند کر کے ان کے دکھوں یعنی مسائل کا کچھ حصہ نکالا جائے گا؟آیئے اس تناظر میں ڈی جی رینجرز کے چند اہم انکشافات کا جائزہ لیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے کہا کہ کروڑوں روپے ماہانہ گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، جرائم کی فنڈنگ میں غیر قانونی شادی ہالز و پارکنگ، سیاسی سرپرستی میں منشیات کا کاروبار، میچ فکسنگ، منی لانڈرنگ، فقیر مافیا اور سائبر کرائم شامل ہیں۔ غیر قانونی رقم لیاری گینگ وار اور مختلف دھڑوں، سندھ کی کچھ اعلیٰ و با اثر شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہے، لینڈ گریبنگ مافیا میں سیاسی جماعتیں، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن، کنسٹریکشن کمپنیاں، اسٹیٹ ایجنٹس اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، یہ تمام افراد ایک مربوط نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔
زمینی حقائق کے تحت تجزیہ کیا جائے تو یہ بات غلط نہ ہو گی کہ اس شہر یا صوبے ہی میں کیا پورے ملک میں با اثر شخصیات کے خلاف کارروائی کرنا ناقابل فہم تصور بن چکا ہے، لہٰذا اب اس رپورٹ کے بعد عملی اقدامات کے طور پر اگر بااثر شخصیات پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا تو کوئی حیرت کی بات نہ ہو گی لیکن دیگر معاملات یعنی بیان کردہ نیٹ ورک کو اگر توڑا نہیں جاتا تو نہ صرف کراچی آپریشن کا سارا مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ رینجرز جیسے اہم ادارے کی بھی جگ ہنسائی ہو گی اور یہ تاثر بھی قائم ہو گا کہ آپریشن کا مقصد درحقیقت وہ نہیں جو ذرایع ابلاغ میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس نیٹ ورک کے خاتمے سے ہی کراچی کے شہریوں کو بے شمار مسائل سے خود بخود نجات مل سکتی ہے مثلاً ایک چھوٹی بات پارکنگ کے حوالے سے لے لیجیے۔ کراچی شہر میں قدم قدم پر پارکنگ قائم کر کے زبردستی کی فیس شہریوں سے لی جا رہی ہے، فٹ پاتھ جو شہریوں کے پیدل چلنے کا حق ہے اس پر بھی ایک رسی باندھ کر فیس وصول کی جا رہی ہے۔ کوئی شہری دن میں اسپتال، بازار یا کہیں بھی جائے صبح و شام سو پچاس روپے وہ پارکنگ کے نام پر دیتا ہے۔
اس ظلم پر کوئی آواز ذرایع ابلاغ میں نہ آئے اس کے لیے صحافیوں کو فیس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ شہر کے گلی کوچوں اور تفریحی مقامات پر بھی ٹکٹ سسٹم قائم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز راقم کا کلفٹن بیچ پارک جانا ہوا۔ معلوم ہوا کہ 20 روپے فی شخص انٹری فیس ہے۔ ٹکٹ جو لیا تو اس پر ''کلفٹن انٹری فیس'' لکھا تھا یہ نہیں کہ فیس کی رقم کتنی ہے، ٹکٹ کس اتھارٹی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، ٹکٹ لینے والے افراد مین گیٹ پر کرسی رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں یہ سرکاری تھے یا کسی مافیا کے کارندے، اس قسم کا سلسلہ تقریباً پورے شہر میں ہے اب شہری سستی تفریح سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
ڈی جی رینجرز کے بیان کے بعد اب شہر کی تمام پارکنگ و پارکس وغیرہ کی جانچ پڑتال ہونا چاہیے اور محلوں کے پارکس سے ٹکٹ سسٹم اور ٹکٹ والے جھولے ختم کرنا چاہیے کہ یہ شہریوں کا مفت حق ہے۔ایک اور اہم انکشاف، لینڈ گریبنگ مافیا کے نام سے کیا گیا ہے جس میں سیاسی جماعتوں، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے مختلف اداروں، کنسٹریکشن کمپنیوں سمیت اسٹیٹ ایجنٹس کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔ راقم نے کئی مرتبہ اس اہم مسئلے پر کالم بھی لکھے اور تجاویز بھی دی تھیں۔
کراچی آپریشن کرنے والوں اور حکومت وقت پر یہ سخت ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اس کھیل کو (یعنی اس کے نیٹ ورک کو) مکمل طور پر ختم کروائیں کیوں کہ کراچی شہر میں اس عمل سے ایک دو نہیں بے شمار مسائل نے جنم لیا ہے۔ مثلاً ایک جانب تو زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ہیں دوسری جانب بغیر پلاننگ کے آبادی، بے ہنگم انداز میں بڑھی ہے یہی وجہ ہے کہ اب ایمرجنسی کی صورت میں امدادی گاڑیاں تک جائے وقوع پر نہیں پہنچ پاتیں، عوام کی صحت الگ خراب ہے، ماحول کی آلودگی الگ بڑھ رہی ہے۔ آبادی میں اضافہ اس طرح ہونا چاہیے کہ وہ زمین پر دور تک پھیلتی جائے لیکن زیادہ کمانے کے چکر میں ٹھیکیداروں اور بلڈرز نے بھی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی ہے اور اب اس میں حیرت انگیز طور پر تیزی آ گئی ہے۔
کراچی شہر کے مضافاتی علاقوں سے لے کر ناظم آباد، گلشن اقبال اور دیگر پوش علاقوں میں بھی کثیر المنزلہ عمارتیں بنائی جا رہی ہیں حتیٰ کہ ہزار ہزار گز کے پلاٹس پر دس سے پندرہ منزلہ رہائشی عمارتیں (فلیٹس کی شکل میں) تعمیر کی جا رہی ہیں، حد تو یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے لینڈ مافیا نے لیاری ندی کے کناروں کو بھی نہیں چھوڑا۔ اصولاً تو اس عمل سے شہر میں رہائشی یونٹس کی قیمت کم ہونا چاہیے تھی مگر عملاً اس کے برعکس ہو رہا ہے، اب شہر کے کسی بھی کونے میں دو کمروں کا چھوٹے سے چھوٹا فلیٹ بھی 20 لاکھ سے کم کا نظر نہیں آتا۔
آخر کیوں؟ یہ سب عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہے، عوام کی مشکلات بڑھاتی جاتی رہیں۔ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا رہے اور قانون نافذ کرنے والے صرف یہ اطلاع فراہم کریں کہ اس طرح سے عوام کا پیسہ حاصل کر کے اس شہر کے عوام کا سکون تباہ کرنے کے لیے دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور بس! جی نہیں اب صرف اعلان کافی نہیں اس مافیا کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے اور ایسی کارروائی کہ پھر عوام کو بغیر پارکنگ فیس و ٹکٹ کے سستی تفریح بھی ملے اور رہائش کے لیے یونٹس بھی۔
بلند و بالا عمارتوں میں تیزی کے ساتھ اضافے پر تحقیقات کی فوری ضرورت ہے، مثلاً یہ کہ کیا قانونی طریقے سے نقشے کی منظوری ہوتی ہے یا محض رشوت سے؟ پھر خدانخواستہ کسی ایمرجنسی صورتحال میں دس سے پندرہ منزلہ فلیٹس کے مکین کس طرح اور کتنے وقت میں فلیٹ سے باہر آ سکیںگے؟ اور اگر خدانخواستہ کوئی بلڈنگ حادثے کا شکار ہوتی ہے تو کیا شہری انتظامیہ کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے مناسب آلات و گاڑیاں بھی ہیں یا نہیں؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر کیسے اتنی بلند و بالا عمارتوں کو پورے شہر میں قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے؟ سٹی گورنمنٹ کے مختلف اداروں اور اسٹیٹس ایجنٹس کے بارے میں ڈی جی رینجرز کے انکشافات پر بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے، کیوں کہ ان کی طرف سے آنکھیں بند کرنے سے آج شہر کراچی آج ایک بے ہنگم شہر بن چکا ہے کہ جہاں شہریوں کو نہ پینے کا پانی میسر ہے نہ بجلی اور نہ ہی ضرورت کے مطابق گیس۔
واضح رہے کہ ڈی جی رینجرز کی تفصیلات کے مطابق کراچی کے شہری دو طرح سے متاثر ہو رہے ہیں اور بیان کردہ جرائم میں بھی دو بڑی اقسام ہیں ایک امن و امان سے متعلق اور دوسری شہریوں کے حقوق سے متعلق، یہاں راقم نے شہریوں کے حقوق سے متعلق مسائل کو بیان کیا ہے اب یہ حکمرانوں کی بھاری ذمے داری ہے کہ وہ کم از کم شہریوں کے حقوق کے حوالے سے ہی سہی، کچھ تو عملی اقدامات کریں۔ اگر ہم اس شہر پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ اس شہر کو ''اون'' بھی کرنا چاہیے، صرف اعلانات نہیں ہونے چاہئیں، کراچی کے شہریوں کے لیے کچھ کریں بھی۔ کراچی کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اس پر اپنا حق تو ہر کوئی جتاتا ہے مگر اس کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
مختلف سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیات کی جانب سے ردعمل کوئی غیر متوقع تو نہیں تھا، ایسا تو ہونا ہی تھا البتہ اہم ترین بات یہ ہے کہ شہریوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے مسائل کو بڑھانے والے کون لوگ ہیں، وہ کس جماعت یا زبان وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اہم بات تو یہ ہے کہ کیا عملاً بھی بااثر شخصیات یعنی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ یا اگر ماضی کی مثالوں کی طرح یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم آیندہ کے لیے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے یہ تمام راستے بند کر کے ان کے دکھوں یعنی مسائل کا کچھ حصہ نکالا جائے گا؟آیئے اس تناظر میں ڈی جی رینجرز کے چند اہم انکشافات کا جائزہ لیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے کہا کہ کروڑوں روپے ماہانہ گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، جرائم کی فنڈنگ میں غیر قانونی شادی ہالز و پارکنگ، سیاسی سرپرستی میں منشیات کا کاروبار، میچ فکسنگ، منی لانڈرنگ، فقیر مافیا اور سائبر کرائم شامل ہیں۔ غیر قانونی رقم لیاری گینگ وار اور مختلف دھڑوں، سندھ کی کچھ اعلیٰ و با اثر شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہے، لینڈ گریبنگ مافیا میں سیاسی جماعتیں، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن، کنسٹریکشن کمپنیاں، اسٹیٹ ایجنٹس اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، یہ تمام افراد ایک مربوط نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔
زمینی حقائق کے تحت تجزیہ کیا جائے تو یہ بات غلط نہ ہو گی کہ اس شہر یا صوبے ہی میں کیا پورے ملک میں با اثر شخصیات کے خلاف کارروائی کرنا ناقابل فہم تصور بن چکا ہے، لہٰذا اب اس رپورٹ کے بعد عملی اقدامات کے طور پر اگر بااثر شخصیات پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا تو کوئی حیرت کی بات نہ ہو گی لیکن دیگر معاملات یعنی بیان کردہ نیٹ ورک کو اگر توڑا نہیں جاتا تو نہ صرف کراچی آپریشن کا سارا مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ رینجرز جیسے اہم ادارے کی بھی جگ ہنسائی ہو گی اور یہ تاثر بھی قائم ہو گا کہ آپریشن کا مقصد درحقیقت وہ نہیں جو ذرایع ابلاغ میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس نیٹ ورک کے خاتمے سے ہی کراچی کے شہریوں کو بے شمار مسائل سے خود بخود نجات مل سکتی ہے مثلاً ایک چھوٹی بات پارکنگ کے حوالے سے لے لیجیے۔ کراچی شہر میں قدم قدم پر پارکنگ قائم کر کے زبردستی کی فیس شہریوں سے لی جا رہی ہے، فٹ پاتھ جو شہریوں کے پیدل چلنے کا حق ہے اس پر بھی ایک رسی باندھ کر فیس وصول کی جا رہی ہے۔ کوئی شہری دن میں اسپتال، بازار یا کہیں بھی جائے صبح و شام سو پچاس روپے وہ پارکنگ کے نام پر دیتا ہے۔
اس ظلم پر کوئی آواز ذرایع ابلاغ میں نہ آئے اس کے لیے صحافیوں کو فیس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ شہر کے گلی کوچوں اور تفریحی مقامات پر بھی ٹکٹ سسٹم قائم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز راقم کا کلفٹن بیچ پارک جانا ہوا۔ معلوم ہوا کہ 20 روپے فی شخص انٹری فیس ہے۔ ٹکٹ جو لیا تو اس پر ''کلفٹن انٹری فیس'' لکھا تھا یہ نہیں کہ فیس کی رقم کتنی ہے، ٹکٹ کس اتھارٹی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، ٹکٹ لینے والے افراد مین گیٹ پر کرسی رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں یہ سرکاری تھے یا کسی مافیا کے کارندے، اس قسم کا سلسلہ تقریباً پورے شہر میں ہے اب شہری سستی تفریح سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
ڈی جی رینجرز کے بیان کے بعد اب شہر کی تمام پارکنگ و پارکس وغیرہ کی جانچ پڑتال ہونا چاہیے اور محلوں کے پارکس سے ٹکٹ سسٹم اور ٹکٹ والے جھولے ختم کرنا چاہیے کہ یہ شہریوں کا مفت حق ہے۔ایک اور اہم انکشاف، لینڈ گریبنگ مافیا کے نام سے کیا گیا ہے جس میں سیاسی جماعتوں، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے مختلف اداروں، کنسٹریکشن کمپنیوں سمیت اسٹیٹ ایجنٹس کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔ راقم نے کئی مرتبہ اس اہم مسئلے پر کالم بھی لکھے اور تجاویز بھی دی تھیں۔
کراچی آپریشن کرنے والوں اور حکومت وقت پر یہ سخت ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اس کھیل کو (یعنی اس کے نیٹ ورک کو) مکمل طور پر ختم کروائیں کیوں کہ کراچی شہر میں اس عمل سے ایک دو نہیں بے شمار مسائل نے جنم لیا ہے۔ مثلاً ایک جانب تو زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ہیں دوسری جانب بغیر پلاننگ کے آبادی، بے ہنگم انداز میں بڑھی ہے یہی وجہ ہے کہ اب ایمرجنسی کی صورت میں امدادی گاڑیاں تک جائے وقوع پر نہیں پہنچ پاتیں، عوام کی صحت الگ خراب ہے، ماحول کی آلودگی الگ بڑھ رہی ہے۔ آبادی میں اضافہ اس طرح ہونا چاہیے کہ وہ زمین پر دور تک پھیلتی جائے لیکن زیادہ کمانے کے چکر میں ٹھیکیداروں اور بلڈرز نے بھی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی ہے اور اب اس میں حیرت انگیز طور پر تیزی آ گئی ہے۔
کراچی شہر کے مضافاتی علاقوں سے لے کر ناظم آباد، گلشن اقبال اور دیگر پوش علاقوں میں بھی کثیر المنزلہ عمارتیں بنائی جا رہی ہیں حتیٰ کہ ہزار ہزار گز کے پلاٹس پر دس سے پندرہ منزلہ رہائشی عمارتیں (فلیٹس کی شکل میں) تعمیر کی جا رہی ہیں، حد تو یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے لینڈ مافیا نے لیاری ندی کے کناروں کو بھی نہیں چھوڑا۔ اصولاً تو اس عمل سے شہر میں رہائشی یونٹس کی قیمت کم ہونا چاہیے تھی مگر عملاً اس کے برعکس ہو رہا ہے، اب شہر کے کسی بھی کونے میں دو کمروں کا چھوٹے سے چھوٹا فلیٹ بھی 20 لاکھ سے کم کا نظر نہیں آتا۔
آخر کیوں؟ یہ سب عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہے، عوام کی مشکلات بڑھاتی جاتی رہیں۔ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا رہے اور قانون نافذ کرنے والے صرف یہ اطلاع فراہم کریں کہ اس طرح سے عوام کا پیسہ حاصل کر کے اس شہر کے عوام کا سکون تباہ کرنے کے لیے دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور بس! جی نہیں اب صرف اعلان کافی نہیں اس مافیا کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے اور ایسی کارروائی کہ پھر عوام کو بغیر پارکنگ فیس و ٹکٹ کے سستی تفریح بھی ملے اور رہائش کے لیے یونٹس بھی۔
بلند و بالا عمارتوں میں تیزی کے ساتھ اضافے پر تحقیقات کی فوری ضرورت ہے، مثلاً یہ کہ کیا قانونی طریقے سے نقشے کی منظوری ہوتی ہے یا محض رشوت سے؟ پھر خدانخواستہ کسی ایمرجنسی صورتحال میں دس سے پندرہ منزلہ فلیٹس کے مکین کس طرح اور کتنے وقت میں فلیٹ سے باہر آ سکیںگے؟ اور اگر خدانخواستہ کوئی بلڈنگ حادثے کا شکار ہوتی ہے تو کیا شہری انتظامیہ کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے مناسب آلات و گاڑیاں بھی ہیں یا نہیں؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر کیسے اتنی بلند و بالا عمارتوں کو پورے شہر میں قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے؟ سٹی گورنمنٹ کے مختلف اداروں اور اسٹیٹس ایجنٹس کے بارے میں ڈی جی رینجرز کے انکشافات پر بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے، کیوں کہ ان کی طرف سے آنکھیں بند کرنے سے آج شہر کراچی آج ایک بے ہنگم شہر بن چکا ہے کہ جہاں شہریوں کو نہ پینے کا پانی میسر ہے نہ بجلی اور نہ ہی ضرورت کے مطابق گیس۔
واضح رہے کہ ڈی جی رینجرز کی تفصیلات کے مطابق کراچی کے شہری دو طرح سے متاثر ہو رہے ہیں اور بیان کردہ جرائم میں بھی دو بڑی اقسام ہیں ایک امن و امان سے متعلق اور دوسری شہریوں کے حقوق سے متعلق، یہاں راقم نے شہریوں کے حقوق سے متعلق مسائل کو بیان کیا ہے اب یہ حکمرانوں کی بھاری ذمے داری ہے کہ وہ کم از کم شہریوں کے حقوق کے حوالے سے ہی سہی، کچھ تو عملی اقدامات کریں۔ اگر ہم اس شہر پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ اس شہر کو ''اون'' بھی کرنا چاہیے، صرف اعلانات نہیں ہونے چاہئیں، کراچی کے شہریوں کے لیے کچھ کریں بھی۔ کراچی کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اس پر اپنا حق تو ہر کوئی جتاتا ہے مگر اس کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔