اب بھلا ثقافت کا بھارت دشمنی سے کیا لینا دینا
بھارت ہمارے دلوں میں اپنی ثقافت کو ہوادے رہا ہے اور ہم اس کاشت کو اپنے ہاتھوں سے کھاد اور پانی دے رہے ہیں۔
بھارت کی جرات کیسے ہوئی ہمیں دھمکی دینے کی۔ ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ بنیے کی ایسی کی تیسی۔ ہم اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔ کیا عیار دشمن 65ء کی مار بھول گیا ہے؟ (بے شک 71ء میں وہ بدلہ لے چکا ہے)۔ مودی کی تو ۔۔۔۔۔۔
یہ اور اِس طرح کے کئی بیانات پچھلے کچھ دنوں سے تواتر کے ساتھ سننے کو مل رہے ہیں۔ جسے دیکھو کانوں سے دھواں نکل رہا ہے۔ اور چہرہ تپ کر ایسے سرخ ہو رہا ہے جیسے تپتا ہوا تندور، جس میں سے روٹی صرف چند سیکنڈ میں پک کر تیار ہو جائے اور کانوں کی لوویں تو ایسی انگارہ بنی ہوئی ہیں کہ رگوں میں خون جماتی سردی میں بھی ماتھے پر پسینہ نمودار ہوجائے۔
بالکل اسٹار پلس کے ڈراموں کی طرح فشوں ڈشوں کے صوتی اثرات اُس کے علاوہ محسوس ہوتے ہیں۔ یار کمال کی فلم ہے ''ہماری ادھوری کہانی'' کیا انت کی اداکاری ہے اس میں ۔۔۔ کہاں لگی ہے یار ۔۔۔ یار یہ اپنے راولپنڈی میں فلاں فلاں فلاں سینما میں ۔۔۔ چل یار! آج ہی دوستوں کے ساتھ پلان بناتا ہوں دیکھنے کا ۔۔۔ مزید سنو فلاں سینما میں جانا 3D ہے ۔۔۔ مزہ دوبالا ہوجائے گا ۔۔۔
ارے یار رات کو تم نے اسٹار ایوارڈز دیکھے؟ ہاں یار دیکھے تھے ۔۔۔ کیا کمال کا ہیر اسٹائل تھا کنگ خان کا اور سلو میاں کی باڈی توغضب ہے ۔۔۔ دھت تیرے کی یار۔۔۔ اس دفعہ پھر ودیا بالن کو ایوارڈ نہیں دیا ظالموں نے میں نے تو اس کی ہر فلم دیکھی ہے ۔۔۔ اس طرح کی بات چیت معمول کا حصہ ہے وطن عزیز میں۔۔۔
باجی یہ دیکھیں!!! خالص دھاگے کا کام ہے ۔۔۔ بہاولپور کی خاص چیز ہے ۔۔۔ اور ذرا یہ بھی دیکھیں! کتنا نفیس کام ہے تلے کا ۔۔۔ جھنگ سے خاص طور پر منگوایا ہے، اور یہ تو آپ نے دیکھا ہی نہیں ۔۔۔ یہ لان کا پرنٹ تو دیکھیں فیصل آباد کی مشہور سوغات ہے خواتین میں ۔۔۔۔ اور دام بھی نہایت مناسب ہیں۔ ارے بھئی!!! یہ کیا اوٹ پٹانگ چیزیں دکھا رہے ہو۔ یہ بہاولپور کی سوغات، یہ جھنگ کا نمونہ۔
'اف بھیا! کتنا عجیب کنٹراسٹ ہے اور فضول سے رنگ ہیں ۔۔۔ دکھانا ہی ہے تو کوئی انڈین ساڑھی دکھاو ۔۔۔ میری گڑیا کی تو ضد ہے کہ انڈین ساڑھی ہی پہننی ہے۔ کوئی ویسا لباس دکھاو جیسا کُم کُم نے پہنا تھا ۔۔۔ نہیں باجی ہم صرف پاکستانی مصنوعات اور پاکستانی ملبوسات اور ڈیزائن ہی رکھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ تو پھر فائدہ ارے بھئی کیا خاک رکھا ہے تم نے۔ چلو بھئی کسی دوسری دکان پر چلیں۔
یہ روز مرہ کے معمولات ہیں۔ مودی کو برا بھلا کہنے کے ریکارڈ توڑ ڈالے، انڈیا کے تمام شہروں کو میزائیلوں کے نشانے پہ رکھ لیا۔ بنیے کی عیاری کے چرچے ہرسو عام کر دیے۔ سرحدوں کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا عہد کر لیا۔ لیکن ایسا کب ہوگا؟ جب بھارت کھلی جنگ کرے گا۔
جی ہاں۔ جب بھارت کھلی جنگ کرے گا۔ جنگ کا مقصد کیا ہوتا؟ اپنے مقاصد کا حصول؟ تو پاکستانی قوم کے شاہینوں جب بھارت تمہارے دلوں پر قبضہ کیے بیٹھا ہے تو پھر اسے کھلی جنگ کی ضرورت کیا ہے؟ جب صبح آنکھ کھلتے بھارتی ناری کترینہ تھرکتی نظر آتی ہے تو پھر انڈیا کو کیا ضرورت ہے کھلی جنگ کی؟ انڈیا تو ہمارے کچن، ہمارے کمروں، ہمارے دماغوں، ہمارے دلوں تک پر راج کر رہا ہے تو بھلا اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ کھلی جنگ کرے۔
بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ کبھی ان سے معلوم کیجیے گا کہ انہیں کیسے رام کتھا ازبر ہے۔ کیوںکہ ہمارے دلوں پر انڈین ڈراموں اور فلموں کا راج ہے اور اُن کا کوئی ڈرامہ اور فلم ہی شاید ایسی ہوگی جو رام، سیتا، گیتا سے شروع نہ ہو اور اگر شروع نہ بھی ہو تو ہر مرحلے پر رام کے درشن لازمی کروائے جاتے ہیں۔ ان کے مذہبی گیت، اُن کے مذہبی عقائد، ہماری نئی نسل انجانے طریقے سے اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اب تو سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ چھوٹی سی پیاری گڑیا جیسی بچیوں کے انڈین انداز کے ڈانس سے بڑے بزرگ قہقے لگا کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور اُسے بچپن کی شرارتوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن یہی بچپن ایک پوری نسل کا امین بن جاتا ہے۔
بھارت ہماری نسل کے دماغوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ وہ ہمارے دلوں میں اپنی ثقافت کو بو رہا ہے اور ہم اس کاشت کو اپنے ہاتھوں سے کھاد اور پانی دے رہے ہیں۔ انڈیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بجائے اگر صرف انڈین ثقافت کا ہی بائیکاٹ کردیا جائے تو دشمن ''ٹھس'' ہوجائے گا۔ ذرا اگر اپنی گڑیا کو اس بات پر قائل کرلیں کہ بیٹا انڈین ساڑھی سے زیادہ خوبصورت تو کراچی کی ساڑھی ہے۔ تو شاید ہمیں دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد کروانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ تھوڑی سی توجہ اگر پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں بھارت کی نقالی کے بجائے اپنی ثقافت اجاگر کرنے پر دے دی جائے تو شاید بھارتی چینلز کو بند کرنے کے لیے کیبل آپریٹر کو کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے وہ خود ہی اپنی موت مر جائیں۔
لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمیں رام لیلا کے ترانوں کے بجائے ملی نغموں کو ترجیح دینی ہوگی۔ کترینہ، سوناکشی کے بجائے مائرہ خان پر ہی گزارہ کرنا ہوگا۔ جنگی منظر پیش کرتے ڈراموں کے بجائے کوئی نیا جانگلوس بنانا ہوگا یا اندھیرا اجالا کا نیا سیزن شروع کرنا ہوگا۔ اپنے ادب کو ذریعہ بنائیں۔ ہمارے لکھنے والے ناول، کتابیں، کہانیاں، کالمز، آرٹیکلز ردی کی زینت بنانے کے لیے نہیں لکھ رہے، وہ اسی لیے لکھ رہے ہیں کہ شاید کسی سر پھرے کی نظر پڑجائے جو غیر ملکی ثقافتی پروپیگنڈا کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو اور ملکی ادب کوڈراموں و فلموں کا موضوع بنانے کی ٹھان لے۔ کیونکہ بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے لیکن اگر ساڑھی انڈین ہی استعمال کرنی ہے تو پھر بڑھکیں بند کردیں۔ سلطان راہی کی روح کو تکلیف ہوگی۔
[poll id="490"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ اور اِس طرح کے کئی بیانات پچھلے کچھ دنوں سے تواتر کے ساتھ سننے کو مل رہے ہیں۔ جسے دیکھو کانوں سے دھواں نکل رہا ہے۔ اور چہرہ تپ کر ایسے سرخ ہو رہا ہے جیسے تپتا ہوا تندور، جس میں سے روٹی صرف چند سیکنڈ میں پک کر تیار ہو جائے اور کانوں کی لوویں تو ایسی انگارہ بنی ہوئی ہیں کہ رگوں میں خون جماتی سردی میں بھی ماتھے پر پسینہ نمودار ہوجائے۔
بالکل اسٹار پلس کے ڈراموں کی طرح فشوں ڈشوں کے صوتی اثرات اُس کے علاوہ محسوس ہوتے ہیں۔ یار کمال کی فلم ہے ''ہماری ادھوری کہانی'' کیا انت کی اداکاری ہے اس میں ۔۔۔ کہاں لگی ہے یار ۔۔۔ یار یہ اپنے راولپنڈی میں فلاں فلاں فلاں سینما میں ۔۔۔ چل یار! آج ہی دوستوں کے ساتھ پلان بناتا ہوں دیکھنے کا ۔۔۔ مزید سنو فلاں سینما میں جانا 3D ہے ۔۔۔ مزہ دوبالا ہوجائے گا ۔۔۔
ارے یار رات کو تم نے اسٹار ایوارڈز دیکھے؟ ہاں یار دیکھے تھے ۔۔۔ کیا کمال کا ہیر اسٹائل تھا کنگ خان کا اور سلو میاں کی باڈی توغضب ہے ۔۔۔ دھت تیرے کی یار۔۔۔ اس دفعہ پھر ودیا بالن کو ایوارڈ نہیں دیا ظالموں نے میں نے تو اس کی ہر فلم دیکھی ہے ۔۔۔ اس طرح کی بات چیت معمول کا حصہ ہے وطن عزیز میں۔۔۔
باجی یہ دیکھیں!!! خالص دھاگے کا کام ہے ۔۔۔ بہاولپور کی خاص چیز ہے ۔۔۔ اور ذرا یہ بھی دیکھیں! کتنا نفیس کام ہے تلے کا ۔۔۔ جھنگ سے خاص طور پر منگوایا ہے، اور یہ تو آپ نے دیکھا ہی نہیں ۔۔۔ یہ لان کا پرنٹ تو دیکھیں فیصل آباد کی مشہور سوغات ہے خواتین میں ۔۔۔۔ اور دام بھی نہایت مناسب ہیں۔ ارے بھئی!!! یہ کیا اوٹ پٹانگ چیزیں دکھا رہے ہو۔ یہ بہاولپور کی سوغات، یہ جھنگ کا نمونہ۔
'اف بھیا! کتنا عجیب کنٹراسٹ ہے اور فضول سے رنگ ہیں ۔۔۔ دکھانا ہی ہے تو کوئی انڈین ساڑھی دکھاو ۔۔۔ میری گڑیا کی تو ضد ہے کہ انڈین ساڑھی ہی پہننی ہے۔ کوئی ویسا لباس دکھاو جیسا کُم کُم نے پہنا تھا ۔۔۔ نہیں باجی ہم صرف پاکستانی مصنوعات اور پاکستانی ملبوسات اور ڈیزائن ہی رکھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ تو پھر فائدہ ارے بھئی کیا خاک رکھا ہے تم نے۔ چلو بھئی کسی دوسری دکان پر چلیں۔
یہ روز مرہ کے معمولات ہیں۔ مودی کو برا بھلا کہنے کے ریکارڈ توڑ ڈالے، انڈیا کے تمام شہروں کو میزائیلوں کے نشانے پہ رکھ لیا۔ بنیے کی عیاری کے چرچے ہرسو عام کر دیے۔ سرحدوں کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا عہد کر لیا۔ لیکن ایسا کب ہوگا؟ جب بھارت کھلی جنگ کرے گا۔
جی ہاں۔ جب بھارت کھلی جنگ کرے گا۔ جنگ کا مقصد کیا ہوتا؟ اپنے مقاصد کا حصول؟ تو پاکستانی قوم کے شاہینوں جب بھارت تمہارے دلوں پر قبضہ کیے بیٹھا ہے تو پھر اسے کھلی جنگ کی ضرورت کیا ہے؟ جب صبح آنکھ کھلتے بھارتی ناری کترینہ تھرکتی نظر آتی ہے تو پھر انڈیا کو کیا ضرورت ہے کھلی جنگ کی؟ انڈیا تو ہمارے کچن، ہمارے کمروں، ہمارے دماغوں، ہمارے دلوں تک پر راج کر رہا ہے تو بھلا اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ کھلی جنگ کرے۔
بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ کبھی ان سے معلوم کیجیے گا کہ انہیں کیسے رام کتھا ازبر ہے۔ کیوںکہ ہمارے دلوں پر انڈین ڈراموں اور فلموں کا راج ہے اور اُن کا کوئی ڈرامہ اور فلم ہی شاید ایسی ہوگی جو رام، سیتا، گیتا سے شروع نہ ہو اور اگر شروع نہ بھی ہو تو ہر مرحلے پر رام کے درشن لازمی کروائے جاتے ہیں۔ ان کے مذہبی گیت، اُن کے مذہبی عقائد، ہماری نئی نسل انجانے طریقے سے اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اب تو سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ چھوٹی سی پیاری گڑیا جیسی بچیوں کے انڈین انداز کے ڈانس سے بڑے بزرگ قہقے لگا کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور اُسے بچپن کی شرارتوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن یہی بچپن ایک پوری نسل کا امین بن جاتا ہے۔
بھارت ہماری نسل کے دماغوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ وہ ہمارے دلوں میں اپنی ثقافت کو بو رہا ہے اور ہم اس کاشت کو اپنے ہاتھوں سے کھاد اور پانی دے رہے ہیں۔ انڈیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بجائے اگر صرف انڈین ثقافت کا ہی بائیکاٹ کردیا جائے تو دشمن ''ٹھس'' ہوجائے گا۔ ذرا اگر اپنی گڑیا کو اس بات پر قائل کرلیں کہ بیٹا انڈین ساڑھی سے زیادہ خوبصورت تو کراچی کی ساڑھی ہے۔ تو شاید ہمیں دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد کروانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ تھوڑی سی توجہ اگر پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں بھارت کی نقالی کے بجائے اپنی ثقافت اجاگر کرنے پر دے دی جائے تو شاید بھارتی چینلز کو بند کرنے کے لیے کیبل آپریٹر کو کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے وہ خود ہی اپنی موت مر جائیں۔
لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمیں رام لیلا کے ترانوں کے بجائے ملی نغموں کو ترجیح دینی ہوگی۔ کترینہ، سوناکشی کے بجائے مائرہ خان پر ہی گزارہ کرنا ہوگا۔ جنگی منظر پیش کرتے ڈراموں کے بجائے کوئی نیا جانگلوس بنانا ہوگا یا اندھیرا اجالا کا نیا سیزن شروع کرنا ہوگا۔ اپنے ادب کو ذریعہ بنائیں۔ ہمارے لکھنے والے ناول، کتابیں، کہانیاں، کالمز، آرٹیکلز ردی کی زینت بنانے کے لیے نہیں لکھ رہے، وہ اسی لیے لکھ رہے ہیں کہ شاید کسی سر پھرے کی نظر پڑجائے جو غیر ملکی ثقافتی پروپیگنڈا کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو اور ملکی ادب کوڈراموں و فلموں کا موضوع بنانے کی ٹھان لے۔ کیونکہ بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے لیکن اگر ساڑھی انڈین ہی استعمال کرنی ہے تو پھر بڑھکیں بند کردیں۔ سلطان راہی کی روح کو تکلیف ہوگی۔
[poll id="490"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس