افغانستان کو چینی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ موٹر سائیکلوں کی ایکسپورٹ بند

چین سے انجن اورپاکستان سے پارٹس درآمدکرکے افغانستان نے70 سی سی موٹرسائیکل تیارکرلی، بلوچستان میں اسمگل کیے جانے کاخدشہ

پاکستان میں44 ہزارقیمت کی موٹرسائیکل پر10ہزارکے ٹیکسزہیں جوکم نہ کیے گئے تومتعدد کمپنیاں کام بندکرنے پرمجبور ہوں گی، صابرشیخ فوٹو: فائل

پاکستان سے افغانستان کوچینی ٹیکنالوجی سے تیارکردہ موٹرسائیکلوںکی ایکسپورٹ بندہوگئی۔

ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹرسائیکل اسمبلرزکے چیف کوآرڈینیٹرمحمد صابرشیخ کے مطابق افغانستان نے چینی ٹیکنالوجی پر مشتمل 70سی سی موٹرسائیکل تیارکرلی ہے جس کے لیے انجن چین سے اور باڈی سمیت دیگر پرزہ جات پاکستان سے درآمد کیے جارہے ہیں۔ افغانستان میں بنائی گئی موٹرسائیکل پاکستان میں تیار کی جانے والی موٹرسائیکل کے مقابلے میں 8سے 10ہزار روپے کم ہے۔

پاکستان میں موٹرسائیکل پر ٹیکسز کی بھرمار ہے اور 44ہزار روپے میں فروخت کی جانے والی موٹرسائیکل پر مجموعی طور پر 10ہزار روپے کے ٹیکسز وصول کیے جارہے ہیں جن میں 5ہزار روپے سیلز ٹیکس، 3ہزار روپے انجن کے پرزہ جات کی درآمدی ڈیوٹی اور 2ہزار روپے تک متفرق ٹیکسز شامل ہیں۔ پاکستان سے چینی ٹیکنالوجی سے تیار کی جانے والی موٹرسائیکلیں افغانستان ایکسپورٹ کی جارہی تھیں تاہم لاگت میں اضافے کے باعث بھارت سے مسابقت ناممکن ہوچکی ہے۔


ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیاں ابھی تک ٹیکسز کے ریفنڈ کی منتظر ہیں اورریفنڈ کی مد میں ان کا سرمایہ ایف بی آر کے پاس پھنسا ہوا ہے۔ افغانستان کو ماہانہ 2ہزار چینی ٹیکنالوجی پر تیار موٹرسائیکلیں ایکسپورٹ کی جارہی تھیں جو اب بند کردی گئی ہیں۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ افغانستان میں تیار کی جانے والی موٹرسائیکلیں اسمگلنگ کے ذریعے پاکستانی مارکیٹ بالخصوص بلوچستان کے شہروں میں پھیل سکتی ہیں جس سے نہ صرف حکومت کو ریونیو کی مد میں نقصان کا سامنا ہوگابلکہ انڈسٹری کی مشکلات بڑھنے سے روزگار کے مواقع بھی کم ہوںگے۔

انھوں نے کہاکہ موٹرسائیکل انڈسٹری کے لیے نیو انٹرینٹ پالیسی کی منظوری میں تاخیر سے موٹرسائیکل انڈسٹری میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ سی بی یو اورپرزہ جات پر ڈیوٹی میں کمی کی اطلاعات پر انڈسٹری نے پیداوار کم کردی ہے اورکم سے کم انوینٹری رکھی جارہی ہے۔ ملک میں موٹرسائیکلیں بنانے والی 92کمپنیوں میں سے اس وقت 72 کمپنیاں پروڈکشن میں ہیں جن میں 2جاپانی کمپنیاں شامل ہیں۔ فوری طور پر ڈیوٹی ٹیکسز میںکمی نہ کی گئی تو مزید کمپنیاں کاروبار بندکرنے پر مجبورہوںگی۔

بڑی کمپنیوں کیلیے آئی او آرسی (ان پٹ آئوٹ پٹ ریشو سرٹیفکیٹ) کی سہولت اسمگلنگ کاآفیشل ذریعہ بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی کمپنیوں کیلیے کام کرنادشوارہوگیاہے۔انھوں نے بتایاکہ حکومت اورانڈسٹری میں سی بی یو 65 فیصد سے کم کرکے 50فیصد، لوکلائزڈ پرزہ جات پر ڈیوٹی 47.5 فیصد سے کم کرکے 30 فیصد اور نان لوکلائزڈ پرزہ جات 15فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کیے جانے پر کافی حد تک اتفاق ہوچکا ہے تاہم چینی ٹیکنالوجی پر موٹرسائیکل تیار کرنیو الی کمپنیاں سی بی یو 35 فیصد، لوکلائزد پرزہ جات 25فیصد اور نان لوکلائزڈ پرزہ جات کی ڈیوٹی 5فیصدکیے جانے کے حق میں ہیں۔
Load Next Story