خدا حافظ برصغیر

وہی بیتے دنوں کے سہانے خواب، کیونکہ ہم سب گولڈن برڈ Golden Bird سونے کی چڑیا کے باسی تھے

anisbaqar@hotmail.com

ISLAMABAD:
برصغیر پاک و ہند آزاد کو ہوئے اتنا عرصہ ابھی نہ ہوا جتنا دور غلامی میں گزرا، انگریز کی غلامی میں آزادی کے متوالوں کو توپوں سے اڑایا گیا' بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ ہندو مسلم دونوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا گو کہ انگریز نے مسلمانوں سے ملک لیا مگر تقسیم میں انصاف نہ کیا ہر جگہ گھاؤ لگائے۔ حالات ہی کچھ ایسے تھے جو ملا اس پر ہی اکتفا کیا۔ اور لیڈروں نے مستقبل کے سہانے خواب دکھانے شروع کر دیے۔

وہی بیتے دنوں کے سہانے خواب، کیونکہ ہم سب گولڈن برڈ Golden Bird سونے کی چڑیا کے باسی تھے 'ہزار سال کی حکمرانی کے خواب۔ آنجہانی جواہر لال نہرو جن کے نام میں ان کے پتا جی نے عربی کا لفظ جواہر کو پرویا۔ کیونکہ آزادی ہند کے لیڈروں میں رواداری تھی۔ چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان دونوں طرف یہ خواہش تھی، مثالی ملک بنائیں گے۔

19 ویں صدی آزادی اور انصاف کے لیڈروں کی صدی تھی لوٹ مار کرنے والے قیادت نہ کر سکتے تھے۔ بس لیڈروں اور کارکنوں کے دل میں یہی جذبہ تھا کہ پاک و بھارت ایسی ریاستیں ہوں گی جو رشک مغرب ہوں گی، بے مثل دوستی ہو گی جنگی اخراجات کم سے کم ہوں گے کیونکہ تقسیم کے بعد ہندو مسلم منافرت جاتی رہے گی۔ ایک گھر کی تقسیم تھی فوج اور پولیس کی تقسیم کارکنوں اور ملازموں کی تقسیم اثاثوں کی تقسیم اور اگر کہیں آج کی لیڈر شپ ہوتی تو ہر قدم پر فساد ہوتا اور برصغیر تقسیم نہ ہو پاتا۔ دونوں طرف کے لیڈر برد بار، ذی ہوش، قوم دوست زمین پر فدا ہونے والے تھے۔

اس لیے برصغیر کی تقسیم آسان ہو گئی اور اگر گاندھی، نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان جلد رخصت نہ ہوتے تو مسئلہ کشمیر کا دائمی حل ضرور نکل آتا جو خواب تقسیم کے دیکھے گئے تھے وہ سہانے تھے اپنا دیس اپنی حکومت، انصاف، ہر شخص کو مواقعے۔ نسل کشی اور نسل پرستی، دین دھرم کے نام پر قتل سب ختم ہو چکے ہوں گے، من میں موجیں، کھیت کھلیان میں رقص تھے، درسگاہوں میں ہر شخص کے سپوت تعلیم پا رہے ہوں گے، رہنے کو مکان ہوں گے، کھیلنے کو میدان ہوں گے دونوں ملکوں میں آنا جانا تو دور کی بات کراچی سے کٹھمنڈو براستہ بس، ٹرین، جہاز، بری یا بحری، کچھ راستہ بری کچھ راستہ بحری جس کی جیسی مرضی ہو گی۔

ٹریڈنگ، ٹور ازم دنیا کی بڑی گزرگاہ، خوبصورت نظارے مگر ایسا نہ ہوا۔ نئے لیڈر جو تھے ان کا اپنے ملک کے لیے کوئی کام نہ تھا نہ بھارتی اور نہ پاکستانی لیڈروں کو اپنا ووٹ بینک تیار کرنا تھا جس کے جی میں جو آیا اس نے اپنی پروڈکٹ بیچنے کی تیاری شروع کر دی۔ فتنہ ایک بڑی پر فریب پروڈکٹ ہے اس کے خریدار بہت ہیں کیونکہ راہ خدا میں یہ فساد کی آگ بھڑکاتا ہے اس میں اخراجات کم آتے ہیں اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے بہترین شے ہے، بھارت میں جن سنگھ، مہاسبھائی اور دیگر پارٹیاں اور مسلمانوں کی بعض پارٹیاں تقسیم ہند کے خلاف تھیں مگر جیسے ہی تقسیم ہوئی دونوں طرف کی ان پارٹیوں نے اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کی اور اپنا مشن جاری رکھا اتفاق سے کشمیر ان کے ہاتھ آ گیا اور پھر کیا تھا نفرت کی فیکٹری چل پڑی دونوں جانب کے انتہا پسند نظریات رکھنے والے چیمپئن بن گئے پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان رخصت ہوئے۔


بھارتی کانگریس انتہا پسند لیڈروں کے دباؤ میں تھی اور دونوں جانب جنگی جنون بڑھتا گیا وہ پیسہ جو لوگوں کی فلاح پر خرچ ہونا تھا وہ جنگوں کی نذر، بارڈر سیکیورٹی پر خرچ ہونے لگا۔ بالآخر یہ جنون ایسا بڑھا کہ بھارت نے ایک زبردست غلطی کا آغاز کیا اور پوکھران میں ایٹمی تجربہ کر دیا۔ بھارت کی کوکھ پر ایٹم پھاڑ دیا۔ گو کہ اسلحے کے انبار اور دیگر چیزوں پر اس کے وسائل زیادہ تھے۔ فوج کی تعداد بھی زیادہ۔ پھر بھی پاکستان کے خوف اور کشمیریوں کے رویے کی بنیاد پر برصغیر میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ شروع کر دی۔

پھر کیا تھا مجبوراً پاکستان کو بھی اپنا ایٹمی پروگرام شروع کرنا پڑا اب کیا تھا ایٹمی اسلحے کی بازگشت شروع ہو گئی۔ کشمیر دونوں جانب کے لیڈروں کا الیکشن اور لیڈری کا جنکشن بن گیا۔ حالیہ دنوں میں راہداری کے مسئلے پر بھارت کے اعتراض کے جہاں بہت سے پہلو تھے تو اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کے قرب و جوار سے اس راہداری پر اس کو زبردست اعتراض ہے گویا اب انتہا پسند لیڈر نریندر مودی کو اس بار ایک اور پروڈکٹ مل گئی وہ ہے پاک چین راہداری کا مسئلہ اس طرح اب فتنہ پروری کے دو اہم ایشوز ہیں، جس میں راہداری کو نمبر ایک اور کشمیر کو نمبر 2 قرار دیا گیا ہے۔ اب بن گئے ہیں ٹھوس ایشوز۔ جو جنگی صورت میں خدانخواستہ اس علاقے کا مقدر بن سکتا ہے۔

آئیے ذرا ہم ایٹمی جنگ کی تباہی پر ایک نظر ڈالیں گے۔ جنگ عظیم دوئم میں جو ایٹم بم امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے تھے اس کا اندازہ آپ یوں لگائیے کہ جس ہوا باز نے یہ ایٹم بم گرائے تھے اس نے پلک جھپکتے جس تباہی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ بھول نہ سکا، وہ مناظر حیات بھر اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اور وہ ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ مگر بھارتی انتہا پسند، راشٹریا سیوک سنگھ اور ان کے ہمنوا اور پاکستان کے بعض لیڈر بھی ایٹمی تابکاری کے پھیلنے کو یہ سمجھتے ہیں جیسے یہ پاک بھارت کبڈی کا میچ ہے۔

آئے دن ٹی وی ٹاک پر ایسی ہی گفتگو میں مصروف رہتے ہیں ایک تو بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کے لیڈروں کی جان بچی رہے گی کیونکہ یہ دور افتادہ مقام پر چلے جائیں گے۔ مگر بھارت اور پاکستان کی عام نسل انسانی خصوصاً بڑے شہروں کے ساکنان کہاں جائیں گے۔ لاکھوں اور کروڑوں اپاہج، کینسر میں مبتلا عوام نسل در نسل آنے والے فالج زدہ لوگ۔ ظاہر ہے جنگ کی ہولناکی کے یہ سوداگر کیا چاہتے ہیں اور اس جنگ کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے۔ دنیا کے لوگ پھر دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو سزا کے طور پر غلام بنا لیں گے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کی کارکردگی ختم ہو چکی ہو گی۔ کیونکہ یہ کوئی سمندری طوفان نہ ہو گا بلکہ یہ تو طوفان نوح کے منظر کا دوسرا رخ پیش کرے گا۔

جو بچے گود میں ہیں وہ وہیں ختم ہو جائیں گے جو پیٹ میں ہیں وہ پیٹ میں ہی دوزخ زدہ ہو جائیں، پھر فاتح کون اور مفتوح کون ہو گا، کئی بڑے ممالک بندر بانٹ کر لیں گے اور اگر پھر خاک پاک و ہند سے کہیں دور دراز لیڈر شپ اٹھی تو اس کے خیالات کیا ہوں گے کیونکہ جب لوگ مستی میں ہوتے ہیں تو ایک دوسرے پر بالا دستی کے لیے جنگ کرتے ہیں مگر جب سب خاکستر ہو چکے ہوں گے تو پھر نہ جنگ ہو گی اور نہ بچ جانے والے جنگ کے لیڈروں کو قبر تک پیچھا کریں گے پھر دوستی کی ایک تحریک اٹھے گی اور غیر ملکی حاکموں کو نکالنے کی پھر سو سالہ جدوجہد ہو۔ مسئلہ جنگ کا نہیں ہے بلکہ بعد از ایٹمی جنگ سیاست کا کیا رخ ہو گا۔ قوموں کی تشکیل کے لیے کہیں کوئی دوسرا نظریہ تو نہ وضع ہو گا پاک و ہند کے اس عظیم خطے میں لوگوں کے اذہان کیا فیصلہ کریں گے۔ لہٰذا دونوں ملکوں کے لیڈروں کا ایٹمی جنگ کے عفریت سے دور رہنا ہی اچھا ہے۔

کیونکہ یہ جنگ دونوں کی شکست ہو گی۔ نہ کوئی غالب اور نہ کوئی مغلوب ہو گا آخر میں اپنی ہی کتاب ''فکر و نظر'' سے ایک انشائیہ سے اقتباس رقم کر رہا ہوں۔ ''اچانک یہ کیا ہوا، بگولے اٹھنے لگے۔۔۔۔۔۔ پہاڑ لرزنے لگے۔۔۔۔۔ جا بجا آتش فشاں پھٹنے لگے ۔۔۔۔۔ حیات سمٹنے لگی۔۔۔۔۔ سیاہی پھیلنے لگی، غالباً یہ ہے زمین کے اسقاط حمل کی آواز۔۔۔۔۔ اے نادان تُو نے یہ کیا کیا میری نبض پر تابکاری مادہ کا ڈھیر رکھ کر میرے ہی دوست کے ایجاد کردہ کمپیوٹر کا بٹن دبا دیا اور خودکشی کر لی۔ موج در موج تابکاری پھیلنے لگی دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم کو خاموشی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔'' لہٰذا اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو پھر خدا حافظ برصغیر۔
Load Next Story