بجٹ کا آسیب
سالانہ عالمی مسابقاتی رپورٹ (جی سی آر) مجریہ 2014-15ء جسے ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) نے مرتب کیا ہے
سالانہ عالمی مسابقاتی رپورٹ (جی سی آر) مجریہ 2014-15ء جسے ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) نے مرتب کیا ہے اس میں پاکستان کا درجہ 144 ممالک کی فہرست میں 129 واں ہے جب کہ گزشتہ سال 148 ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا نمبر 133 واں تھا۔ جی سی آر میں مسابقت کے 15 ستونوں کی بنیاد پر ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ جن میں (1) بنیادی ضروریات (2) ادارے (3) انفراسٹرکچر (4) میکرو اکنامک ماحول (5) صحت اور ابتدائی تعلیم (6) استعداد میں اضافہ (7) اعلیٰ تعلیم اور تربیت (8) اشیاء کی مارکیٹ (9) لیبر مارکیٹ کی استعداد (10) مالیاتی مارکیٹ کی صلاحیت (11) ٹیکنالوجیکل تیاری (12) اختراع اور جدت (13) مارکیٹ کا حجم (14) نفاست اور شائستگی (15) کاروباری نفاست اور اختراعات۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں ڈبلیو ای ایف نے بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان سارے ملکوں کا درجہ پاکستان سے بالاتر رکھا ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں لوڈشیڈنگ کے بعد کرپشن کے انسداد کا نعرہ سب سے بلند آہنگ اور کلیدی تھا۔ کرپشن کی طرف سے لاپرواہی ناقابل فہم ہے۔ 2014ء میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) میں پاکستان 174 ممالک کی فہرست میں 126 ویں درجے پر تھا جب کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بنگلہ دیش کا درجہ ہم سے نیچے تھا۔ ڈبلیو ای ایف کے پرٹیننگ اگینسٹ کرپشن انیشی ایٹو (پی اے سی آئی) جس کا میں خود بھی ایک ممبر ہوں، اس میں بھی پاکستان کی کوئی بہتر پوزیشن نہیں۔پیپلز پارٹی حکومت کے دور کی کرپشن کو پوری طرح دستاویز میں رکھا گیا ہے لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت میں ہونے والی کرپشن کے خلاف کسی کارروائی کرنے پر راغب نہیں۔ کیا یہ کسی احسان کا بدلہ ہے؟
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس اے ڈی پی آئی) نے 2013ء میں گھرانوں کا ایک سروے کیا جس میں پتہ چلا کہ ٹیکس دینے کے قابل افراد میں سے 71 فیصد لوگ صرف اس وجہ سے ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ انھیں اس بات کا بھروسہ نہیں کہ ان کا ٹیکس صحیح مقاصد کے لیے استعمال ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکس انتظامیہ بہت کمزور ہے۔ انھیں ٹیکس افسروں کو تحفے تحائف بھی دینا پڑتے ہیں تا کہ وہ مداخلت بے جا اور کسی کو ڈرانے یا خوفزدہ کرنے سے روکیں۔ پاکستان کی18 کروڑ سے زیادہ آبادی میں سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی کم ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں 2015-16ء کا جو بجٹ بہت جوش و خروش سے پیش کیا اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار ہوا ہے۔ ماہرین اقتصادیات نے اسے حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے تاہم دیگر افراد کو اس پر تشویش ہے کہ آیا حکومت آیندہ مالی سال کے اقتصادی اور مالیاتی اہداف کو پورا بھی کر پائے گی یا نہیں۔ بالخصوص اضافی محاصل اکٹھے کیے بغیر یہ نہ ہو سکے گا۔
مجوزہ اقدامات اور اصلاحات کیے بغیر ایسا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ ان مقاصد کو پورا کرنے کی خاطر معیشت میں بڑی تیزی سے نمو کی ضرورت ہے تا کہ برآمدات، صنعتی ترقی، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو سکے۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے تھوڑا قرض ملا ہے مگر وہ عالمی ادارہ اس بات پر قطعاً مطمئن نہیں ہے کیونکہ حکومت ان کی ہدایات پر حرف بہ حرف عمل نہیں کر رہی۔
ملک پر اتنی بھاری تعداد میں قرضہ چڑھ چکا ہے جس کی اقساط کی ادائیگی مزید قرض لیے بغیر ممکن نہیں۔ زرمبادلہ (ایف ای) کے محفوظ ذرایع میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے لیکن قرضوں کی ادائیگی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے حالانکہ اس مقصد کی خاطر اچھے مواقع Initiatives موجود تھے۔ تجارت کا توازن بھی دگرگوں ہو رہا ہے۔ بجٹ کا خسارہ بھی بہت زیادہ ہے جب کہ پاکستانی روپے کی قدر بھی رو بہ زوال ہے جس سے ملکی معیشت کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بجٹ میں جن بعض مراعات کا تذکرہ ہے ان کے نتیجے میں خدمات کے شعبے میں سرمایہ داری کے لیے کشش ہو سکتی ہے۔
ٹیکس ریفارم کمیشن (ٹی آر سی) کی تجاویز کو تین وسیع درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (ا) ٹیکس کی شرح، ضوابط اور طریق کار کی اصلاح، (ب) ڈھانچے کی اصلاح یعنی ایف بی آر کی تشکیل نو اور اس کے آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے انفراسٹرکچر کی بہتری اور (ج) اس کی ہئیت کے فریم ورک کی اصلاح جس میں ٹیکس دہندگان کے حقوق کا تحفظ اور انکم ٹیکس دوسرے شیڈول کے تحت جو استثنآت دی گئی ہیں انھیں ختم کیا جائے۔ ٹی آر سی کے چیئرمین مسعود نے اس بات پرزور دیا ہے کہ اصلاحات کے بارے میں صرف سوچ لینے سے اصلاحات کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ ٹیکس کی وصولیوں میں موجودہ شیئر ہولڈرز کے ذریعے اضافہ کیا جائے کیونکہ بالواسطہ ٹیکیشن کے نتائج معیشت کے لیے مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ نیز چیدہ چیدہ نجی شعبوں کو رعایتیں دینے سے ٹیکس کا نظام مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ زرعی مشینوں اور آلات کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس میں کمی سے مشینی زراعت میں اضافہ ہو گا۔ املاک اور تعمیراتی شعبے پر ٹیکس کم کرنے سے بلڈرز اور ڈویلپرز کو اس شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی جس کا معیشت پر مثبت اثر مرتب ہو گا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت پر اپنی ششماہی رپورٹ میں تجویز پیش کی ہے کہ برآمدات میں اضافہ کے لیے پرانی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہو گا اور درآمدات میں بھی ٹیکس کی رعایت دینا ہو گی تا کہ معیشت تیزی سے ترقی کر سکے۔ برآمد کنندگان نے بجٹ کی بعض تجاویز کو خوش آیند قرار دیا ہے جن سے برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔ اس مقصد کے لیے برآمدات کے ری فنانس ریٹ اور شرح سود میں طویل المدتی کمی سے برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ حکومت کا بینکوں سے بہت زیادہ مقدار میں قرض لینا اقتصادی نمو کے منصوبوں کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا کیونکہ نجی شعبے کے لیے رواں، اثاثوں کی قلت ہوتی ہے۔
سیاسی عدم استحکام کے باوجود ضرب عضب اور سی پی ای سی کے منصوبے نے ملکی اقتصادیات پر بہت دباؤ ڈالا ہے۔ فوج نے نہ صرف پہاڑی علاقوں میں بلکہ شہری علاقوں میں بھی امن قائم کرنے کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ جس سے چین کو اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ امن وا مان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باوجود، جو کہ بھارت کی مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اس منصوبے کو روبہ عمل لانے کے لیے تیار ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پر لازم ہے کہ بجٹ میں اس نے جو وعدے کیے ہیں ان پر انقلابی اصلاحات کے ذریعے عملدرآمد کرائے تا کہ معیشت کو استحکام حاصل ہو سکے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں ڈبلیو ای ایف نے بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان سارے ملکوں کا درجہ پاکستان سے بالاتر رکھا ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں لوڈشیڈنگ کے بعد کرپشن کے انسداد کا نعرہ سب سے بلند آہنگ اور کلیدی تھا۔ کرپشن کی طرف سے لاپرواہی ناقابل فہم ہے۔ 2014ء میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) میں پاکستان 174 ممالک کی فہرست میں 126 ویں درجے پر تھا جب کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بنگلہ دیش کا درجہ ہم سے نیچے تھا۔ ڈبلیو ای ایف کے پرٹیننگ اگینسٹ کرپشن انیشی ایٹو (پی اے سی آئی) جس کا میں خود بھی ایک ممبر ہوں، اس میں بھی پاکستان کی کوئی بہتر پوزیشن نہیں۔پیپلز پارٹی حکومت کے دور کی کرپشن کو پوری طرح دستاویز میں رکھا گیا ہے لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت میں ہونے والی کرپشن کے خلاف کسی کارروائی کرنے پر راغب نہیں۔ کیا یہ کسی احسان کا بدلہ ہے؟
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس اے ڈی پی آئی) نے 2013ء میں گھرانوں کا ایک سروے کیا جس میں پتہ چلا کہ ٹیکس دینے کے قابل افراد میں سے 71 فیصد لوگ صرف اس وجہ سے ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ انھیں اس بات کا بھروسہ نہیں کہ ان کا ٹیکس صحیح مقاصد کے لیے استعمال ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکس انتظامیہ بہت کمزور ہے۔ انھیں ٹیکس افسروں کو تحفے تحائف بھی دینا پڑتے ہیں تا کہ وہ مداخلت بے جا اور کسی کو ڈرانے یا خوفزدہ کرنے سے روکیں۔ پاکستان کی18 کروڑ سے زیادہ آبادی میں سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی کم ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں 2015-16ء کا جو بجٹ بہت جوش و خروش سے پیش کیا اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار ہوا ہے۔ ماہرین اقتصادیات نے اسے حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے تاہم دیگر افراد کو اس پر تشویش ہے کہ آیا حکومت آیندہ مالی سال کے اقتصادی اور مالیاتی اہداف کو پورا بھی کر پائے گی یا نہیں۔ بالخصوص اضافی محاصل اکٹھے کیے بغیر یہ نہ ہو سکے گا۔
مجوزہ اقدامات اور اصلاحات کیے بغیر ایسا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ ان مقاصد کو پورا کرنے کی خاطر معیشت میں بڑی تیزی سے نمو کی ضرورت ہے تا کہ برآمدات، صنعتی ترقی، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو سکے۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے تھوڑا قرض ملا ہے مگر وہ عالمی ادارہ اس بات پر قطعاً مطمئن نہیں ہے کیونکہ حکومت ان کی ہدایات پر حرف بہ حرف عمل نہیں کر رہی۔
ملک پر اتنی بھاری تعداد میں قرضہ چڑھ چکا ہے جس کی اقساط کی ادائیگی مزید قرض لیے بغیر ممکن نہیں۔ زرمبادلہ (ایف ای) کے محفوظ ذرایع میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے لیکن قرضوں کی ادائیگی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے حالانکہ اس مقصد کی خاطر اچھے مواقع Initiatives موجود تھے۔ تجارت کا توازن بھی دگرگوں ہو رہا ہے۔ بجٹ کا خسارہ بھی بہت زیادہ ہے جب کہ پاکستانی روپے کی قدر بھی رو بہ زوال ہے جس سے ملکی معیشت کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بجٹ میں جن بعض مراعات کا تذکرہ ہے ان کے نتیجے میں خدمات کے شعبے میں سرمایہ داری کے لیے کشش ہو سکتی ہے۔
ٹیکس ریفارم کمیشن (ٹی آر سی) کی تجاویز کو تین وسیع درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (ا) ٹیکس کی شرح، ضوابط اور طریق کار کی اصلاح، (ب) ڈھانچے کی اصلاح یعنی ایف بی آر کی تشکیل نو اور اس کے آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے انفراسٹرکچر کی بہتری اور (ج) اس کی ہئیت کے فریم ورک کی اصلاح جس میں ٹیکس دہندگان کے حقوق کا تحفظ اور انکم ٹیکس دوسرے شیڈول کے تحت جو استثنآت دی گئی ہیں انھیں ختم کیا جائے۔ ٹی آر سی کے چیئرمین مسعود نے اس بات پرزور دیا ہے کہ اصلاحات کے بارے میں صرف سوچ لینے سے اصلاحات کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ ٹیکس کی وصولیوں میں موجودہ شیئر ہولڈرز کے ذریعے اضافہ کیا جائے کیونکہ بالواسطہ ٹیکیشن کے نتائج معیشت کے لیے مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ نیز چیدہ چیدہ نجی شعبوں کو رعایتیں دینے سے ٹیکس کا نظام مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ زرعی مشینوں اور آلات کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس میں کمی سے مشینی زراعت میں اضافہ ہو گا۔ املاک اور تعمیراتی شعبے پر ٹیکس کم کرنے سے بلڈرز اور ڈویلپرز کو اس شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی جس کا معیشت پر مثبت اثر مرتب ہو گا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت پر اپنی ششماہی رپورٹ میں تجویز پیش کی ہے کہ برآمدات میں اضافہ کے لیے پرانی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہو گا اور درآمدات میں بھی ٹیکس کی رعایت دینا ہو گی تا کہ معیشت تیزی سے ترقی کر سکے۔ برآمد کنندگان نے بجٹ کی بعض تجاویز کو خوش آیند قرار دیا ہے جن سے برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔ اس مقصد کے لیے برآمدات کے ری فنانس ریٹ اور شرح سود میں طویل المدتی کمی سے برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ حکومت کا بینکوں سے بہت زیادہ مقدار میں قرض لینا اقتصادی نمو کے منصوبوں کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا کیونکہ نجی شعبے کے لیے رواں، اثاثوں کی قلت ہوتی ہے۔
سیاسی عدم استحکام کے باوجود ضرب عضب اور سی پی ای سی کے منصوبے نے ملکی اقتصادیات پر بہت دباؤ ڈالا ہے۔ فوج نے نہ صرف پہاڑی علاقوں میں بلکہ شہری علاقوں میں بھی امن قائم کرنے کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ جس سے چین کو اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ امن وا مان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باوجود، جو کہ بھارت کی مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اس منصوبے کو روبہ عمل لانے کے لیے تیار ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پر لازم ہے کہ بجٹ میں اس نے جو وعدے کیے ہیں ان پر انقلابی اصلاحات کے ذریعے عملدرآمد کرائے تا کہ معیشت کو استحکام حاصل ہو سکے۔