اطلاعات تک رسائی… مگر کیسے

پاکستان ساؤتھ ایشیا میں پہلا ملک ہے جس نے 2002 میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا بل پاس کرکے اسے قانون کی شکل دے دی ہے

پاکستان ساؤتھ ایشیا میں پہلا ملک ہے جس نے 2002 میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا بل پاس کرکے اسے قانون کی شکل دے دی ہے کہ اب حکومت، اس کے تحت چلنے والے محکمے اور دوسرے ادارے پابند ہیں کہ وہ عام آدمی کو سوائے اہم رازوں کے باقی معلومات فراہم کریں۔ اس کی تقلید کرتے ہوئے سندھ، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان نے بھی یہ قانون 2005 اور 2006 میں پاس کیا ہے جو ایک خوش آیند بات ہے۔

مگر اس قانون میں بہت سارے Lacuna رکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ قانون کمزور رہ گیا ہے۔ خاص طور پر سندھ کے قانون میں بڑی گنجائش ہے کہ اسے مزید بہتر بنانے کے لیے اس میں ترمیم کرنے کے بجائے اسے نئے سرے سے بناکر پاس کیا جائے تاکہ عام آدمی کو اس سے فائدہ حاصل ہوسکے۔اس سلسلے میں ایک ورکشاپ کراچی میں کروائی گئی تھی تاکہ میڈیا، این جی اوز کے نمایندے اور پارلیمنٹیرین مل کر Recommendation بناکر سندھ حکومت کو پیش کی جائیں تاکہ نئے آنے والے قانون میں کوئی کمی اور غلطی کی گنجائش نہ رہے۔

معلومات کو عام آدمی تک فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے جسے خودبخود پہنچنا چاہیے تھا مگر افسوس یہ کہ قانون پاس ہونے کے بعد بھی کچھ فیوڈلز اور کچھ شہری سرمایہ دار جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی معلومات عام آدمی تک پہنچے جس سے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے غلط کرتوت سامنے آجاتے ہیں جس سے ان کی طرف سے کی ہوئی کرپشن اور غلط کاریاں سامنے آجاتی ہیں اور ان کے پول کھل جاتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں یہ قانون بن چکا ہے اور بڑی کامیابی سے چل رہا ہے خاص طور پر ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں لیکن وہاں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ اس قانون کا اطلاق جموں اور کشمیر میں نہیں ہوگا۔ ہمارے پاس یہ قانون اس لیے بھی کمزور نظر آتا ہے کہ قانون بناتے وقت سول سوسائٹی سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ بڑی مہارت سے اس میں کچھ ایسی شقیں رکھی گئی ہیں جو معلومات دینے کے بجائے انھیں روکا جا رہا ہے۔ پہلے ہم دیکھتے تھے کہ جو بھی ترقیاتی کام ہوتا تھا تو اس کے بارے میں ایک بورڈ پر لکھا جاتا تھا کہ یہ اسکیم کب شروع ہوئی اور وہ کب تک پوری ہوگی اور اس پر کتنی لاگت آئے گی اور اس کا کنٹریکٹر کون ہے۔ اب یہ سلسلہ تقریباً بند نظر آتا ہے۔

سندھ کے قانون میں یہ ہے کہ جو شخص کوئی معلومات چاہتا ہو تو وہ اسے 30 دن کے اندر دی جائے چاہے وہ معلومات ایک گھنٹے میں بھی دی جاسکتی ہوں۔ اگر یہ عرصہ گزر جائے تو آپ Ombudsman سے رابطہ کرسکتے ہیں جسے وہ مہینے کے اندر کیس کو Decide کرسکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ اس کیس کو گورنر سندھ کو بھیج دے گا اور اگر وہ بھی فیصلہ نہیں کرسکتا تو اسے شاید صدر پاکستان کو بھیجا جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی عمر ختم ہوجائے گی مگر وہ معلومات آپ کو نہیں مل سکیں گی۔ آئین میں 18 ویں ترمیم کی گئی ہے جس سے کئی ادارے اور حقوق صوبوں کو دیے گئے ہیں مگر اب تک کوئی بھی چیز clear نہیں ہو رہی ہے اور اگر آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو کہا جاتا ہے اب تک مرکز سے انھیں کچھ نہیں ملا۔

اس سلسلے میں ہماری سول سوسائٹی کا رول بھی خاموش تماشائی رہا ہے جس کے لیے انھیں حکومت پر پریشر ڈالنا پڑے گا کہ وہ اسی قانون میں تبدیلی کرے یا نیا قانون لائے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے جس کے لیے حکومتی نمایندوں اور بیوروکریٹس کو دلچسپی نہیں ہوگی ورنہ عوام خود اس کے لیے پریشر ڈالنا شروع کریں گے۔


عام آدمی کیا چاہتا ہے یہی کہ اسے بنیادی معلومات دی جائیں کہ حکومت جو پیسہ خرچ کر رہی ہے یا کسی بھی کام کی کوئی پالیسی بنائی جا رہی ہے اس کے بارے میں عام آدمی اگر کچھ پوچھنا چاہتا ہے تو اس سے کچھ بھی نہیں چھپایا جائے۔ اس سے یہ ہوگا کہ حکومتی اداروں اور عوام کے درمیان ایک اعتماد کا رشتہ پیدا ہوگا جو دونوں کے درمیان خلیج کو کم کردے گا۔ اس کے علاوہ غریب اور امیر کے درمیان جو فرق ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا اور عام آدمی بھی اپنا حق استعمال کرکے خوش ہوگا۔

ہماری سیاسی پارٹیوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام کے اس حق کو مستحکم بنانے کے لیے ایک ہوکر قانون پر پہلے خود عمل کریں کیونکہ عوام ہی وہ طاقت ہے جو انھیں ایوانوں میں لاتی ہے اس لیے ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے کیے جائیں جس میں اس قانون پر بھی عمل درآمد بھی ایک ہے۔ ورنہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت اور ادارے معلومات عام آدمی تک اس لیے نہیں پہنچاتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے حق سے باخبر نہ ہوجائیں اور وہ ان سے اور اداروں سے واقف ہوجائیں کہ جس سے ان کی کرپشن کا پول کھلنے کا اندیشہ ہے۔ انھیں تو چاہیے کہ اس قانون میں مزید یہ کیا جائے کہ ہر عام معلومات کو انٹرنیٹ پر خود ہی رکھا جائے اور جو بھی معلومات حاصل کرنا چاہے اسے آسانی کے ساتھ وہ معلومات مل جائیں۔

مجھے افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم جب پنجاب میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ کوئی علاقہ تو ایسا ہے جو ترقی یافتہ اور ہر لحاظ سے خوبصورت ہے جہاں کی سڑکیں، ہریالی اور شہروں کی خوبصورتی ہمیں attract کرتی ہے۔ وہاں پر لوگ محنتی ہیں جو اپنے صوبے کو خوشحال بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں جسے صوبائی حکومت سہولتیں مہیا کر رہی ہے۔

ہمارے سندھ میں تو جو بھی حکومت آتی ہے وہ لوگوں اور صوبے کے بجائے اپنے آپ کو بنانے پر لگا دیتی ہے۔ یہاں پر ایکٹ اور قانون تو بڑے بنائے گئے مگر ان پر عمل نظر نہیں آتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ قانون پر عمل ہی اس کی افادیت دے گا اور وہ شفاف بن جائے گا۔ جو لوگ اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئن سمجھتے ہیں انھیں اس قانون کو صحیح سمت میں پاس کرکے اپنا ثبوت دیں۔ اس نظام کو صحیح اور مضبوط بنانے کے لیے دانشوروں اور پڑھے لکھے ایماندار لوگوں کو آگے آنا ہوگا اور وہ جب ایوانوں میں آئیں گے تو خود بخود تبدیلی آجائے گی اور لوگوں کو اپنے حقوق ملیں گے ورنہ شہری اور رورل ایریا کے سرمایہ دار کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ وہ کوئی بھی معلومات عام آدمی کے ساتھ share کریں۔

رائٹ ٹو انفارمیشن کے لیے دنیا بھر کے عوام نے جدوجہد کی ہے اور اب ہماری باری ہے جس میں کوئی تاخیر یا پھر سستی برتنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جو اہم اور ملکی رازوں کی معلومات ہے ان کی اس عوام کو ضرورت نہیں ہے کہ سول سوسائٹی کی تھوڑی ہلچل سے حکومت سندھ اس بات پر آمادہ ہوگئی ہے کہ وہ اب ان سے اس قانون میں مزید بہتری لانے کے لیے Suggestion لے رہی ہو جو اچھی بات ہے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ گاؤں سے لے کر چھوٹے بڑے شہروں میں قانون کے بارے میں آگہی دینے کے لیے سول سوسائٹی کے لوگوں اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ جو افسر یا ادارہ کوئی معلومات نہیں دے رہا ہے تو اس کے خلاف شکایت درج کروائی جائے۔

اس کے لیے سیمینار، ورکشاپس اور دوسرے پروگرام منعقد کیے جائیں اور جو بل آرہا ہے تو اسے اخباروں میں چھاپا جائے تاکہ عام آدمی اسے پڑھ کر اپنی رائے دے سکے۔ اس رائے سے بل میں کمی کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ اس میں حکومت کو بھی Public Message چلانے ہوں گے۔ کئی Cases میں تو معلوم ہوا کہ خود افسران کو قانون کے بارے میں معلومات نہیں ہوتی جنھیں تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہماری نئی نسل کو قوانین اور تاریخ سے واقف کرنے کے لیے یونیورسٹیوں میں بھی تھوڑا تھوڑا قانون پڑھانا چاہیے تاکہ ان کی معلومات میں اضافہ ہو اور وہ جب سیاستدان بنیں یا بیوروکریٹ وہ قانون کا احترام کریں اور عوام تک معلومات خود ہی پہنچانے کو اپنا فرض سمجھیں۔ جب کوئی بل پیش ہو یا وہ پاس ہو کر قانون بن جائے اس کو ہر طبقے کے لوگوں تک مختلف ذرایع سے پہنچایا جائے اس کے بارے میں تربیت ہونی چاہیے اور ہر فرد اور ادارے کو اس کی معلومات کے لیے پابند کیا جائے جس کے لیے خاص طور پر حکومت کا اہم فرض بنتا ہے۔
Load Next Story