زرداری کے افطارڈنرمیں آج سیاسی مددطلب کی جائے گی

نوازشریف نے بغیردیرکیے ’’پیغام ‘‘دیدیا آپکی غلطی افورڈ نہیں کر سکتے،تجزیہ

نوازشریف نے بغیردیرکیے ’’پیغام ‘‘دیدیا آپکی غلطی افورڈ نہیں کر سکتے،تجزیہ ۔ فوٹو : فائل

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے فوجی قیادت کوسوچ سمجھ کر للکارا ہو یا کراچی آپریشن میں رینجرزکے ہاتھوں ''اپنوں '' کے ٹارگٹ بننے کا خطرہ دیکھ کر بھڑکے ہوں بظاہر پیپلزپارٹی کو اس کا نقصان ہی ہوا ہے۔

دو روز قبل عسکری قیادت پر آصف زرداری کی غیر معمولی تنقید کے ساتھ پیپلز پارٹی کو ایسی سیاسی تنہائی کا سامنا کئی برسوں بعد ہوا ہے ۔شاید انھیں توقع ہوگی کہ کم ازکم وزیراعظم نواز شریف توکسی نہ کسی انداز میں ان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے کیونکہ دھرنوں سے لے کرکئی مواقع پر نواز شریف کی مشکل میں زرداری صاحب خوب کام آئے ہیں۔ مگر وزیراعظم نے اداروں کے ساتھ سابقہ معاملات سامنے رکھتے ہوئے اس بار فیصلے میں دیر نہیں لگائی اور آصف زرداری سے ملاقات نہ کرکے پیغام دے دیا کہ آپ نے توغلطی کی مگر ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔

اب کچھ آوازیں جوسازشی بھی ہوسکتی ہیں ایسی بھی آرہی ہیں کہ یہ مشترکہ اسکرپٹ ہے اور مقصدصوبے اوروفاق کی حکومتوں کے اختیارات ''ان'' سے واپس لینا ہے۔ آصف زرداری نے سینئر پارٹی رہنمائوں سے مشورہ کیا ہو یا نہ مگر ایسے اشارے ضرور سامنے آ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کواس بیان کے مضمرات سے پوری آگاہی ہے۔

شاید اسی لیے '' آئینی اداروں کو حدود میں رہنا چاہیے'' جیسے بیان تو سامنے آئے ہیں مگر وہ گولہ باری دوبارہ نہیں ہوئی جوزرداری نے تقریر میں کی تھی۔ زرداری ہائوس کے ذرائع بتاتے ہیں کہ آج افطار ڈنرکی تیاری ہو رہی ہے، لگتا ہے افطار ڈنرکے ذریعے دیگر سیاسی جماعتوں سے مشکل گھڑی میں سیاسی مدد طلب کی جائے گی کیونکہ ن لیگ نے توبے رخی دکھا ہی دی ہے، مولانا فضل الرحمن جیسے قریبی دوست بھی غائب ہیں۔


مگر اب رابطے شروع ہیں، الطاف حسین سے فون پربات بھی ہوگئی ہے۔ آصف علی زرداری کی مفاہمتی سیاست کو مزاحمتی سیاست میں بدلتا دیکھیں یا بلاول بھٹو زرداری کو سیاست کے اکھاڑے میں اتارنے کا فیصلہ، اس کے پیچھے پنہاں حکمت عملی فی الحال واضح نہیں۔سنتے آئے ہیںکہ بلاول بھٹو زرداری کو وقت آنے پر لانچ کیا جائیگا، لگتا ہے وہ وقت آ گیا ہے ، پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹوکمیٹی نے بلاول کو صرف سیاسی جلسوں میں ہی نہیں پارلیمانی سیاست کے ستون قومی اسمبلی کے ایوان میں لانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

بلاول لاڑکانہ کے حلقے سے آئیں یا نواب شاہ ، سکھر یا رحیم یارخان سے منتخب کرایا جائے، پارٹی ذرائع بتاتے ہیں قیادت کے ذہن میں یہ سوچ چھپی ہے کہ جب بلاول قومی اسمبلی کے ایوان میں آئیں گے تو پھر وزیراعظم بلاول بھٹوکے نعرے بھی لگیں گے اور یہی وہ نعرہ ہے جس کی پیپلز پارٹی کواشد ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ نوجوان پارٹی چیئرمین کی تربیت بھی ہو جائے گی ۔ویسے بھی عملی سیاست کے دائو پیچ سکھانے کیلیے پارلیمنٹ ہی بہتر جگہ ہے۔بلاول بھٹو زرداری بند ماحول سے باہر نکل کر پارٹی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ کے رابطے میں آ جائیں گے اور ان کی اپنی سیاسی ٹیم بھی بنے گی۔ جہاندیدہ یوسف رضا گیلانی نے صورتحال بھانپ کر شاید اسی لیے استعفیٰ پیش کیا کہ ہم چاہتے ہیںکہ بلاول اپنی ٹیم بنائیں ہم جگہ خالی کر دیتے ہیں۔ اگر زرداری صاحب کے جارحانہ رویے کو دیکھیں توکہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کی طرح پیپلز پارٹی کو بھی مڈ ٹرم الیکشن نظر آنے شروع ہوگئے ہوں، اسی لیے بلاول بھٹو زرداری کو ہنگامی بنیادوں پر لانچ کیا جا رہا ہے۔

یہ باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بلاول کو اس لیے جلد بازی میں لایا جا رہا ہے کہ کہیں موجودہ قیادت کسی ''گھمبیر '' چکر میں نہ پڑ جائے ۔اب ایسا ہوا بھی تو بلاول قیادت سنبھالنے کیلیے تیار ہوگا۔ بلاول قومی اسمبلی میں آئیں گے تو پھر پارٹی کی قیادت تو عملی طور پر ان کے پاس ہوگی۔ ایسے میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو سندھ کی وزارت اعلیٰ دینے کی تجویز بھی سامنے لائی گئی۔ اس تجویزکا سہرا اخونزادہ چٹان کے سر ہے مگر ایسی تجاویز ایسے ہی نہیں آ یا کرتیں۔اگر اس تجویز میں حقیقت ہے توشاید قائم علی شاہ کو تبدیل کرکے بردبارشخصیت کو لانے کا مقصد صوبے خاص کرکراچی میں فوج اور رینجرز کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش بھی ہوسکتا ہے۔

 
Load Next Story