بھارتی جارحیت روکنے کے لیے اقوام متحدہ عملی کردار ادا کرے
کشمیر کا مسئلہ تو ایک طرف رہا اب بھارتی حکومت پاکستان کے لیے پانی کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
NEW YORK:
دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے تاہم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات کریں گے' بھارت مذاکرات کی بحالی کے لیے اقدامات کرے' افواج پاکستان نے ضرب عضب آپریشن کے دوران شاندار کامیابیاں حاصل کیں' ایک سال مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں' داعش خطے کے لیے خطرہ ہے لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے نائب ترجمان نے نیویارک میں پریس بریفنگ میں کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون پاک بھارت وزرائے اعظم کے حالیہ رابطے کو خوش آیند قرار دیتے ہیں اور پرامید ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے رہنما مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے جاری رکھیں گے۔
گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فون پر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو رمضان المبارک کی مبارکباد دی تھی' اس رابطے کو خوش آیند قرار دیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت عملی طور پر پاکستان کے لیے مسائل در مسائل پیدا کر رہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ تو ایک طرف رہا اب بھارتی حکومت پاکستان کے لیے پانی کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
خبروں کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے دریائے چناب پر ایک اور پن بجلی منصوبے کی تعمیر شروع کر دی ہے' پانچ سو میگاواٹ کے ٹاٹا پن بجلی منصوبے کی تعمیر سے دریائے چناب کا دس لاکھ ایکڑ فٹ پانیرک جائے گا۔ گزشتہ دنوں بھی ایسی خبریں شایع ہوئیں کہ بھارت نے دہشت گرد پاکستان میں بھجوانے کے ساتھ ساتھ آبی جارحیت کا بھی زورشور سے آغاز کر دیا ہے۔
پاکستان کو ملنے والا 55 ہزار کیوسک پانی کو کم کر کے 10739 کیوسک تک محدود کر دیا گیا ہے جس سے پاکستان کی 405 نہریں اور 1125 آبی گزرگاہیں ڈیڈلیول تک پہنچ گئیں اور اس کے نتیجے میں ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ زرعی زمین شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال خریف کی فصل کے موقع پر دریائے سندھ میں 30فیصد اور دریائے جہلم میں 20 فیصد تک پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل کے لیے متعدد بار انڈس واٹر کمشنر مذاکرات ہو چکے ہیں ۔
جن میں پاکستان رتلے اور کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائنوں پر شدید تحفظات ظاہر کر چکا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی اعتراضات کو تسلیم نہیں کر رہا جس سے مستقبل میں پاکستان کے لیے پانی کے شدید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بانکی مون بیانات کی حد تک محدود رہنے کے بجائے عملی طور پر بھارت کو مذاکرات کے لیے مجبور کریں تاکہ خطے کے مسائل پرامن طریقے سے حل ہو سکیں جب تک اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں اپنا کردار ادا نہیں کریں گی بھارتی جارحیت کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے تاہم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات کریں گے' بھارت مذاکرات کی بحالی کے لیے اقدامات کرے' افواج پاکستان نے ضرب عضب آپریشن کے دوران شاندار کامیابیاں حاصل کیں' ایک سال مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں' داعش خطے کے لیے خطرہ ہے لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے نائب ترجمان نے نیویارک میں پریس بریفنگ میں کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون پاک بھارت وزرائے اعظم کے حالیہ رابطے کو خوش آیند قرار دیتے ہیں اور پرامید ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے رہنما مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے جاری رکھیں گے۔
گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فون پر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو رمضان المبارک کی مبارکباد دی تھی' اس رابطے کو خوش آیند قرار دیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت عملی طور پر پاکستان کے لیے مسائل در مسائل پیدا کر رہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ تو ایک طرف رہا اب بھارتی حکومت پاکستان کے لیے پانی کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
خبروں کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے دریائے چناب پر ایک اور پن بجلی منصوبے کی تعمیر شروع کر دی ہے' پانچ سو میگاواٹ کے ٹاٹا پن بجلی منصوبے کی تعمیر سے دریائے چناب کا دس لاکھ ایکڑ فٹ پانیرک جائے گا۔ گزشتہ دنوں بھی ایسی خبریں شایع ہوئیں کہ بھارت نے دہشت گرد پاکستان میں بھجوانے کے ساتھ ساتھ آبی جارحیت کا بھی زورشور سے آغاز کر دیا ہے۔
پاکستان کو ملنے والا 55 ہزار کیوسک پانی کو کم کر کے 10739 کیوسک تک محدود کر دیا گیا ہے جس سے پاکستان کی 405 نہریں اور 1125 آبی گزرگاہیں ڈیڈلیول تک پہنچ گئیں اور اس کے نتیجے میں ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ زرعی زمین شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال خریف کی فصل کے موقع پر دریائے سندھ میں 30فیصد اور دریائے جہلم میں 20 فیصد تک پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل کے لیے متعدد بار انڈس واٹر کمشنر مذاکرات ہو چکے ہیں ۔
جن میں پاکستان رتلے اور کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائنوں پر شدید تحفظات ظاہر کر چکا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی اعتراضات کو تسلیم نہیں کر رہا جس سے مستقبل میں پاکستان کے لیے پانی کے شدید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بانکی مون بیانات کی حد تک محدود رہنے کے بجائے عملی طور پر بھارت کو مذاکرات کے لیے مجبور کریں تاکہ خطے کے مسائل پرامن طریقے سے حل ہو سکیں جب تک اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں اپنا کردار ادا نہیں کریں گی بھارتی جارحیت کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔