امید سحر
سنتے آئے ہیں کہ لالچ کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔بس یہی لالچ بے انتہا شرمندگی کا باعث بنتا ہے ۔
HYDERABAD:
تمام اہل وطن کو رمضان شریف کی رحمتیں اور برکتیں مبارک! یوں تو رمضان المبارک پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے بہت ہی مبارک اور رحمتوں سے بھرا ہوا مہینہ اور ہمارے لیے یعنی پاکستانیوں کے لیے تو بہت ہی خاص الخاص کہ ہم دو مہینے پہلے سے رمضان المبارک کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور زبردست تیاریاں ہوتی ہیں ہماری، اور پتا ہے تیاریاں کیا؟ جی تیاری ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کس طرح اس مہینے میں کمایا جائے، ہم نے رمضان کو مکمل کمرشل کردیا ہے کہ گروسری سے لے کر دیگر ضروریات زندگی تک، انتہا سے زیادہ مہنگائی کردی جاتی ہے کبھی کوئی سبزی نایاب کبھی کوئی فروٹ سونے کے دام۔
مگر بھلا ہو اس کمرشل دور میں بھی ان مخلص لوگوں کا جو کما تو رہے ہیں مگر ان لوگوں پر بھی خرچ کرتے ہیں جو غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، مجبور اس لیے ہیں کہ اگر صحیح طریقے سے تمام ضروریات زندگی عام لوگوں کو پہنچانے کا بندوبست ہو تو میرا ایمان ہے کہ بے شمار لوگ خدمت خلق کرنا چاہتے ہیں، درد سے بھرا دل رکھتے ہیں صرف اپنی ہی پروا نہیں کرتے بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
اور اس کے کئی نمونے ہم نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھے ہیں کہ جب بھی وطن عزیز میں کوئی بھی ناگہانی آفت آئی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ ایک عام آدمی نے بہت کچھ کیا، بس یہ جو تھوڑے تھوڑے سے بدنیت لوگ ہیں اگر وہ بھی اپنا رخ اپنی سمت صحیح کر لیں تو ہم ترقی کی منزلیں بہت جلد طے کرلیں۔
سنتے آئے ہیں کہ لالچ کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔بس یہی لالچ بے انتہا شرمندگی کا باعث بنتا ہے ۔ جانا سب نے خالی ہاتھ ہی ہے، بس اپنی اپنی برائی اور لالچ کی کہانیاں چھوڑ جانا ہے جو یقینا ان کی اگلی نسلوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی۔ اقتدار اور طاقت ایسا نشہ ہے کہ بندے کو بندہ نہیں رہنے دیتا، تمام خونی رشتے بھی فائدہ، نقصان کی بنیاد پر پرکھے جاتے ہیں، اس کی تازہ مثال بلاول بھٹو زرداری ہے، خیر سے وطن سدھارے ہیں اور کہا یہی جا رہا ہے کہ اب ان کو کوئی بڑا عہدہ دے دیا جائے گا اور ان کی والدہ مرحومہ کی موروثی سیٹ لاڑکانہ سے ان کے حوالے کردی جائے گی، ماں زندہ ہو تو ماں ہوتی ہے اور مر جائے تو بھی ماں کی اہمیت کم نہیں ہوتی کیا شاندار رتبہ عطا کیا ہے اللہ عالی شان نے ماں کا۔
بے نظیر بھٹو اپنے بچوں کو مثالی دیکھنا چاہتی تھیں اور خاص طور پر بلاول بھٹو سے ان کو بہت امیدیں وابستہ تھیں، اپنے جوان بھائیوں کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو، بلاول کے لیے خاص جذبات رکھتی تھیں، اب شاید وہ وقت ہے کہ بلاول سمجھداری سے اپنی والدہ کے مشن کو آگے بڑھا سکیں۔
جہاں جہاں پل پل ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے مایوس کن جذبات سے کبھی مغلوب ہوجاتے ہیں اور دعاگو رہتے ہیں کہ اللہ کوئی فرشتہ ہی ہماری مدد کو بھیج دیں وہیں پل پل امید در امید کے چراغ بھی روشن ہوتے ہیں کہ ہر اندھیرے کے بعد روشنی ہے۔
جہاں چیف آف آرمی پرویز کیانی تھے وہیں آج چیف آف آرمی راحیل شریف ہیں کچھ اجالوں کی امیدیں کرنے کو سب کا دل کرتا ہے کہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں مگر حقیقتاً دیکھیں تو کبھی ان لوگوں کی جاگیر ہی لگتی ہے جنھوں نے اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ کئی کئی سالوں کی جلاوطنی، وطن واپسی کے لیے اجازت نامے کا نہ ملنا، اپنے لوگوں کے لیے ترسنا، مگر شاید یہ سب کچھ بھی کافی نہیں۔ بندے کا اللہ سے نہ ڈرنا، یہی سب اردگرد نظر آتا ہے، بہرکیف پھر ایک مبارک مہینہ ان تمام لوگوں کو میسر ہے جو زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اللہ ایک اور موقعہ فراہم کر رہا ہے اور بار بار فرماتا ہے کہ مجھ سے معافی مانگو ۔۔۔۔میں معاف کردوں گا۔ بے تحاشا فضل وکرم سے بھرا ہوا یہ مبارک مہینہ اللہ کرے کہ ہم سب پر بھی ہدایتوں اور فضل کی بارش والا بن جائے۔
شہر کراچی میں پانی کی قلت ابھی تک ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اور رمضان جیسے مہینے میں روزہ دار، اتنی شدید گرمی میں کس کس طرح اس قلت کو Manage کریں گے وہ بہتر جانتے ہیں، چاروں طرف سے کرپشن، دھوکا دہی، ملاوٹ، چور بازاری کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں اور ایک عام آدمی بھی اب سوچ رہا ہے کہ اس کے مسائل کا حل کرنے میں گورنمنٹ یا اس کے ادارے مخلص نہیں اور یہی منفی سوچ اس کو بھی منفی بنانے میں آگے آگے ہے۔
سبزی فروش سے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور تک اس رمضان شریف کو اپنی سال کی بہترین کمائی کا مہینہ تصور کرتے ہیں، رمضان سے پہلے ہی تمام شہروں میں ہوش ربا گرانی کا عالم ہے، پانی کی نایابی، بجلی کی عدم دستیابی، ایک روزہ دار کو کیا کیا سبق سکھاتی ہے یہ تو رمضان میں ہی پتہ چلے گا۔ لوگ چیختے رہیں گے اور کہیں سے کوئی خیرکی صدا نہیں آئے گی۔
حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں موجود کئی بڑی انٹرنیشنل کمپنیاں اپنے کاروبار کر رہی ہیں اور کروڑوں منافع کما رہی ہیں، مگر باہر ملکوں کی طرح یہ کیوں نہیں عام لوگوں تک فائدہ پہنچاتی ہیں، تمام عرب ممالک میں رمضان کے شروع ہوتے ہی خاص طور پر روز مرہ کی ضروریات پر بہت چھوٹ دی جاتی ہے۔
عام افراد بھی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، مگر پاکستان میں سب الٹا پلٹا، ملاوٹوں کا عروج ہوگا اور جیسے جیسے دن گزرتے جائیں گے ویسے ہوش ربا مہنگائی ہوتی جائے گی، یوٹیلیٹی اسٹورز پر جو اعلانات کیے جاتے ہیں ان اعلانات کے ساتھ تمام اشیا کی کوالٹی کو چیک رکھنا بہت ضروری ہے۔ خراب کوالٹی بے چارے لوگوں کو ڈاکٹرز کے خرچے کی طرف لے جائے گی کہ ادھر سے بچایا تو ادھر گنوایا، گٹروں کے پانی سے اگی ہوئی سبزیاں اور فروٹ صحت کی بجائے بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔ خاص طور پر گھی اور آئل پر بہت سخت چیک ہونا چاہیے۔ اور ان میں نقصان دہ اجزا کی ملاوٹ سے پاک کرنا چاہیے، مرغی کے گوشت میں اگر بیماریاں ہیں تو چھپانے کے بجائے عوام کو آگاہ کیا جائے اور ان کی قیمتیں سستی کی جائیں۔
بکرے اور گائے کے گوشت پر بھی گہری نظر رکھنا گورنمنٹ کے اداروں کا اہم کام ہے کہ سارا سال کمانے کے بعد کم ازکم ایک مہینہ تو عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ ہم کہہ لیتے ہیں اورکہتے رہیں گے کہ کبھی نہ کبھی تو عوام کو بہتر زندگی اور بہتر زندگی کی سہولیات میسر ہوں گی۔ ہر طرح کی نعمتوں اور معدنیات سے خودکفیل ہمارا یہ شاداب اور ہرا بھرا ملک صرف اس انتظار میں ہے کہ کچھ اچھے لوگ جو واقعی اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں آگے آئیں اور تمام لوگوں کے لیے زندگی آسان ہو۔ بہتر صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں ہوں۔
تمام شعبوں کی لوٹ مار نے تمام اداروں کی Respect ختم کردی ہے، عوام کو کسی پر بھی بھروسہ نہیں، بے روزگار نوجوان اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہو رہے ہیں، نوجوان لڑکیاں اچھی ملازمت کے لیے مختلف فریب کا شکار ہوتی ہیں، والدین اولاد کے سکھ کی بجائے ان کے دکھ میں مبتلا ہیں۔ معاشرے میں عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ مگر کب تک؟ کبھی نہ کبھی یہ سب کچھ اختتام کی طرف جائے گا کہ امید سحر کبھی ختم نہ ہوگی، میں اور آپ انتظار میں ہیں کہ کب یہ اندھیرے اجالوں میں بدلیں گے اور ہم سب کم ازکم کچھ نہ کچھ چین اپنی زندگیوں میں ضرور پائیں گے۔
تمام اہل وطن کو رمضان شریف کی رحمتیں اور برکتیں مبارک! یوں تو رمضان المبارک پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے بہت ہی مبارک اور رحمتوں سے بھرا ہوا مہینہ اور ہمارے لیے یعنی پاکستانیوں کے لیے تو بہت ہی خاص الخاص کہ ہم دو مہینے پہلے سے رمضان المبارک کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور زبردست تیاریاں ہوتی ہیں ہماری، اور پتا ہے تیاریاں کیا؟ جی تیاری ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کس طرح اس مہینے میں کمایا جائے، ہم نے رمضان کو مکمل کمرشل کردیا ہے کہ گروسری سے لے کر دیگر ضروریات زندگی تک، انتہا سے زیادہ مہنگائی کردی جاتی ہے کبھی کوئی سبزی نایاب کبھی کوئی فروٹ سونے کے دام۔
مگر بھلا ہو اس کمرشل دور میں بھی ان مخلص لوگوں کا جو کما تو رہے ہیں مگر ان لوگوں پر بھی خرچ کرتے ہیں جو غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، مجبور اس لیے ہیں کہ اگر صحیح طریقے سے تمام ضروریات زندگی عام لوگوں کو پہنچانے کا بندوبست ہو تو میرا ایمان ہے کہ بے شمار لوگ خدمت خلق کرنا چاہتے ہیں، درد سے بھرا دل رکھتے ہیں صرف اپنی ہی پروا نہیں کرتے بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
اور اس کے کئی نمونے ہم نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھے ہیں کہ جب بھی وطن عزیز میں کوئی بھی ناگہانی آفت آئی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ ایک عام آدمی نے بہت کچھ کیا، بس یہ جو تھوڑے تھوڑے سے بدنیت لوگ ہیں اگر وہ بھی اپنا رخ اپنی سمت صحیح کر لیں تو ہم ترقی کی منزلیں بہت جلد طے کرلیں۔
سنتے آئے ہیں کہ لالچ کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔بس یہی لالچ بے انتہا شرمندگی کا باعث بنتا ہے ۔ جانا سب نے خالی ہاتھ ہی ہے، بس اپنی اپنی برائی اور لالچ کی کہانیاں چھوڑ جانا ہے جو یقینا ان کی اگلی نسلوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی۔ اقتدار اور طاقت ایسا نشہ ہے کہ بندے کو بندہ نہیں رہنے دیتا، تمام خونی رشتے بھی فائدہ، نقصان کی بنیاد پر پرکھے جاتے ہیں، اس کی تازہ مثال بلاول بھٹو زرداری ہے، خیر سے وطن سدھارے ہیں اور کہا یہی جا رہا ہے کہ اب ان کو کوئی بڑا عہدہ دے دیا جائے گا اور ان کی والدہ مرحومہ کی موروثی سیٹ لاڑکانہ سے ان کے حوالے کردی جائے گی، ماں زندہ ہو تو ماں ہوتی ہے اور مر جائے تو بھی ماں کی اہمیت کم نہیں ہوتی کیا شاندار رتبہ عطا کیا ہے اللہ عالی شان نے ماں کا۔
بے نظیر بھٹو اپنے بچوں کو مثالی دیکھنا چاہتی تھیں اور خاص طور پر بلاول بھٹو سے ان کو بہت امیدیں وابستہ تھیں، اپنے جوان بھائیوں کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو، بلاول کے لیے خاص جذبات رکھتی تھیں، اب شاید وہ وقت ہے کہ بلاول سمجھداری سے اپنی والدہ کے مشن کو آگے بڑھا سکیں۔
جہاں جہاں پل پل ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے مایوس کن جذبات سے کبھی مغلوب ہوجاتے ہیں اور دعاگو رہتے ہیں کہ اللہ کوئی فرشتہ ہی ہماری مدد کو بھیج دیں وہیں پل پل امید در امید کے چراغ بھی روشن ہوتے ہیں کہ ہر اندھیرے کے بعد روشنی ہے۔
جہاں چیف آف آرمی پرویز کیانی تھے وہیں آج چیف آف آرمی راحیل شریف ہیں کچھ اجالوں کی امیدیں کرنے کو سب کا دل کرتا ہے کہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں مگر حقیقتاً دیکھیں تو کبھی ان لوگوں کی جاگیر ہی لگتی ہے جنھوں نے اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ کئی کئی سالوں کی جلاوطنی، وطن واپسی کے لیے اجازت نامے کا نہ ملنا، اپنے لوگوں کے لیے ترسنا، مگر شاید یہ سب کچھ بھی کافی نہیں۔ بندے کا اللہ سے نہ ڈرنا، یہی سب اردگرد نظر آتا ہے، بہرکیف پھر ایک مبارک مہینہ ان تمام لوگوں کو میسر ہے جو زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اللہ ایک اور موقعہ فراہم کر رہا ہے اور بار بار فرماتا ہے کہ مجھ سے معافی مانگو ۔۔۔۔میں معاف کردوں گا۔ بے تحاشا فضل وکرم سے بھرا ہوا یہ مبارک مہینہ اللہ کرے کہ ہم سب پر بھی ہدایتوں اور فضل کی بارش والا بن جائے۔
شہر کراچی میں پانی کی قلت ابھی تک ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اور رمضان جیسے مہینے میں روزہ دار، اتنی شدید گرمی میں کس کس طرح اس قلت کو Manage کریں گے وہ بہتر جانتے ہیں، چاروں طرف سے کرپشن، دھوکا دہی، ملاوٹ، چور بازاری کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں اور ایک عام آدمی بھی اب سوچ رہا ہے کہ اس کے مسائل کا حل کرنے میں گورنمنٹ یا اس کے ادارے مخلص نہیں اور یہی منفی سوچ اس کو بھی منفی بنانے میں آگے آگے ہے۔
سبزی فروش سے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور تک اس رمضان شریف کو اپنی سال کی بہترین کمائی کا مہینہ تصور کرتے ہیں، رمضان سے پہلے ہی تمام شہروں میں ہوش ربا گرانی کا عالم ہے، پانی کی نایابی، بجلی کی عدم دستیابی، ایک روزہ دار کو کیا کیا سبق سکھاتی ہے یہ تو رمضان میں ہی پتہ چلے گا۔ لوگ چیختے رہیں گے اور کہیں سے کوئی خیرکی صدا نہیں آئے گی۔
حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں موجود کئی بڑی انٹرنیشنل کمپنیاں اپنے کاروبار کر رہی ہیں اور کروڑوں منافع کما رہی ہیں، مگر باہر ملکوں کی طرح یہ کیوں نہیں عام لوگوں تک فائدہ پہنچاتی ہیں، تمام عرب ممالک میں رمضان کے شروع ہوتے ہی خاص طور پر روز مرہ کی ضروریات پر بہت چھوٹ دی جاتی ہے۔
عام افراد بھی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، مگر پاکستان میں سب الٹا پلٹا، ملاوٹوں کا عروج ہوگا اور جیسے جیسے دن گزرتے جائیں گے ویسے ہوش ربا مہنگائی ہوتی جائے گی، یوٹیلیٹی اسٹورز پر جو اعلانات کیے جاتے ہیں ان اعلانات کے ساتھ تمام اشیا کی کوالٹی کو چیک رکھنا بہت ضروری ہے۔ خراب کوالٹی بے چارے لوگوں کو ڈاکٹرز کے خرچے کی طرف لے جائے گی کہ ادھر سے بچایا تو ادھر گنوایا، گٹروں کے پانی سے اگی ہوئی سبزیاں اور فروٹ صحت کی بجائے بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔ خاص طور پر گھی اور آئل پر بہت سخت چیک ہونا چاہیے۔ اور ان میں نقصان دہ اجزا کی ملاوٹ سے پاک کرنا چاہیے، مرغی کے گوشت میں اگر بیماریاں ہیں تو چھپانے کے بجائے عوام کو آگاہ کیا جائے اور ان کی قیمتیں سستی کی جائیں۔
بکرے اور گائے کے گوشت پر بھی گہری نظر رکھنا گورنمنٹ کے اداروں کا اہم کام ہے کہ سارا سال کمانے کے بعد کم ازکم ایک مہینہ تو عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ ہم کہہ لیتے ہیں اورکہتے رہیں گے کہ کبھی نہ کبھی تو عوام کو بہتر زندگی اور بہتر زندگی کی سہولیات میسر ہوں گی۔ ہر طرح کی نعمتوں اور معدنیات سے خودکفیل ہمارا یہ شاداب اور ہرا بھرا ملک صرف اس انتظار میں ہے کہ کچھ اچھے لوگ جو واقعی اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں آگے آئیں اور تمام لوگوں کے لیے زندگی آسان ہو۔ بہتر صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں ہوں۔
تمام شعبوں کی لوٹ مار نے تمام اداروں کی Respect ختم کردی ہے، عوام کو کسی پر بھی بھروسہ نہیں، بے روزگار نوجوان اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہو رہے ہیں، نوجوان لڑکیاں اچھی ملازمت کے لیے مختلف فریب کا شکار ہوتی ہیں، والدین اولاد کے سکھ کی بجائے ان کے دکھ میں مبتلا ہیں۔ معاشرے میں عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ مگر کب تک؟ کبھی نہ کبھی یہ سب کچھ اختتام کی طرف جائے گا کہ امید سحر کبھی ختم نہ ہوگی، میں اور آپ انتظار میں ہیں کہ کب یہ اندھیرے اجالوں میں بدلیں گے اور ہم سب کم ازکم کچھ نہ کچھ چین اپنی زندگیوں میں ضرور پائیں گے۔