موسیقی کی چند ناقابل فراموش ہستیاں

آج 21 جون ہے اور پوری دنیا میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

fatimaqazi7@gmail.com

سُر اور تال کا سنگم ہو، دلکش آواز ہو اور معیاری شاعری، یہ تینوں ملکر جذبات و احساسات کو جو طمانیت اور سکون عطا کرتی ہیں، اس کا ادراک اب صرف جمالیاتی ذوق رکھنے والے اور انسانوں سے محبت کرنے والے ہی کر سکتے ہیں۔

آج 21 جون ہے اور پوری دنیا میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ کہیں کہیں دلکش آوازیں، یادوں کے سنگیت سے نکل کر آپ کی سماعت سے ٹکرانے لگتی ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں موسیقی کو وہ مقام آج تک نہ مل سکا جو بھارت اور بنگلہ دیش میں ہے۔ ہندو مائیتھالوجی میں بجھن، کیرتن، سب مذہبی عقیدت کے اظہار کے ذریعے ہیں لیکن ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے فراخدلی کے ساتھ ذرا یہ سوچیے کہ موسیقی تو اس کائنات میں ہر جگہ رچی بسی ہے، سر اور تال محض ہار مونیم، طبلہ، ڈھولک، ستار، مردنگ، وائلن، بربط یا گٹار کا نام نہیں ہے۔

مائیکل اینجلو سے کسی نے پوچھا تھا کہ وہ پتھروں کو تراش کر اتنے خوبصورت مجسمے کیسے بنا دیتا ہے۔ تب اس نے یہ لافانی جملہ کیا تھا کہ ''حسن تو ان ہی پتھروں میں پوشیدہ ہوتا ہے، بس میں ان شکلوں کو باہر نکال لیتا ہوں، جنھیں میرے اندر کی آنکھ دیکھ لیتی ہے'' اسی طرح جو لوگ موسیقی کے اسرار و رموز اور اس کی اثر انگیزی سے ناواقف ہیں انھیں لائوڈ اسپیکر اور گدھے کی آواز میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ موسیقی میں جب پاکیزگی شامل ہو تو وہ کیرتن، بجھن اور نعت کی صورت میں لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتی ہے سر اور لے تو ہر طرف بکھرے پڑے ہیں کیا اذان میں کوئی ردہم نہیں ہے؟ صوفیائے کرام کو سماع سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔

ویسے بھی غور کیجیے تو ہوا میں بھی موسیقی ہے، جب آندھی چلتی ہے تو اس کے سر اور تال اونچے ہو جاتے ہیں، دریائوں کی روانی دیکھیئے، سمندر کی پرشور اور فیملی آواز یں سنیے، صبح صبح چڑیوں کا چہچانا، پپیہے کا بولنا، کوئل کا کوکنا، یہ سب کیا ہے؟ موسیقی ہی تو ہے، حضرت امیر خسروؒ جنھوں نے مردنگ کے دونوں حصے لگ کر کے طبلے ایجاد کیے، ستار ایجاد کیا انھیں تو دُھنیے (روئی دُھننے والا) کی روئی دُھننے والے کے کام میں بھی موسیقی کی تانیں محسوس ہوتی تھیں۔ جس کی تفصیل کتابوں میں موجود ہے۔

اچھا ہی ہوا کہ موجودہ بد ترین معاشی، سماجی، سیاسی اور ملکی صورت حال میں موسیقی کا عالمی دن آ گیا اور ہماری یادوں میں بچپن کا وہ زمانہ گھوم گیا جب ریڈیو گرام پہ H.M.V کے سیاہ ریکارڈ سنے جاتے تھے۔ والد صاحب نے وہ گراموفون بھی سنبھال کے رکھا ہوا تھا جس میں چابی بھری جاتی تھی، بڑے بھائی کے علاوہ گھر کے ملازم اکبر کی بھی یہ ڈیوٹی تھی کہ جونہی گانے کی آواز میں فرق آئے وہ فوراً چابی بھرنا شروع کر دیں۔

پھر لانگ پلے آ گئے جس میں ایک ہی ریکارڈ میں کئی کئی گانے ہوتے تھے پھر آڈیو کیسٹ بھی آ گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موسیقی سننے کا جو مزہ ریکارڈ پلیئر پہ آتا تھا وہ کیسٹ میں مفقود تھا موسیقی کا پورا ردھم، آواز کی خوبی اور سازوں کی جھنکار سب یکجا ہو کر بھی الگ الگ لگتی تھیں، لیکن اس میں بھی آواز کا پلہ بھاری رہتا تھا آج کی طرح نہیں کہ بھونڈی سے بھونڈی آواز کو سازوں کے بے ہنگم شور میں دبا کر ایوارڈ سجا لیے گئے کیا خوبصورت اور موسیقی کے سات سروں سے سجا زمانہ تھا۔

جب گلوکار کی آواز ہی اصل سرمایہ ہوتی تھی۔ ساز بھی کون سے ایسے زیادہ۔ لے دے کے طبلہ سارنگی وائلن، مٹکا، ہارمونیم اور ستار، لیکن موسیقاروں نے ان ہی سازوں سے وہ لازوال گیت تخلیق کیے جن کا آج بھی ری مکس بن رہا ہے لیکن نقل تو پھر نقل ہی ہے چربہ سازی عروج پر ہونے کے باوجود لوگ پرانی فلموں اور پرانے گیتوں ہی کو یاد کرتے ہیں۔

موسیقی کی اس قندیل میں اتنے رنگ برنگے اور منفرد نام ہیں کہ سب کا تذکرہ کسی ایک کالم میں کرنا ممکن ہی نہیں تو چلیے سب سے پہلے انھیں یاد کرتے ہیں جو موسیقی کے شائقین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے کہ یہ لوگ کسی سفارش یا پیسے کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اپنی خداداد صلاحیت، کلا، محنت اور ریاض کی وجہ سے زندہ ہیں۔

سب سے پہلی آواز جو مجھے بہت متاثر کرتی ہے وہ ہے راج کماری کی منفرد آواز راج کماری کی اصل شہرت فلم ''محل'' تھی جو 1949 میں ریلیز ہوئی اس کی موسیقی کھیم چندر پرکاش نے دی تھی اس فلم میں لتا کے تین گیت شامل تھے جس میں سب سے مشہور و مقبول گیت ''آئے گا آنے والا'' تھا لیکن HMV کمپنی کے ریکارڈ پر گانے والی کا نام ''کامنی'' درج تھا جو در اصل فلم کی ہیروئن مدھو بالا کا نام تھا۔ جب کہ راج کماری جی نے اس فلم میں تین گیت Solo یعنی اکیلے ہی گائے تھے اور ریکارڈز پر خود ان کا نام تھا یہ تینوں گیت گائیکی اور تاثر کے لحاظ سے آج بھی لوگوں یاد ہیں۔

ان گیتوں کو وجے لکشمی نامی اداکارہ پر اس طرح فلمایا گیا تھا جیسے وہ خود گا رہی ہوں۔ یہ راج کماری ڈوبے کے فن کی معراج تھی۔ تینوں گانے ایک ایسی عورت کے دل کی آواز تھے، جو شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی بیوہ ہے کہ اس کا شوہر ایک دوسری عورت کی زلف کا اسیر ہے یہ گیت صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میری والدہ اور والد کو بھی بہت پسند تھے۔ ترتیب یوں ہے۔

(1)
گھبرا کے جو ہم سر کو ٹکرائیں تو اچھا ہو
اس جینے میں سو دکھ ہیں، مر جائیں تو اچھا ہو
(2)

میں وہ دلہن ہوں راس نہ آیا جسے سنگھار
ہوں وہ چمن کہ جس میں نہ آئی کبھی بہار
(3)
ایک تیر چلا، دل پہ لگا، ہائے میرا دل

لیکن چوتھا گیت جو مکمل طور پر کلاسیکل بندش میں تھا اسے راج کماری نے مشہور و معروف اور اپنے وقت کی منفرد گلوکارہ زہرہ بائی انبالے والی کے ساتھ مل کر گایا تھا یہ گیت کے بول یوں تھے۔
چھن چھن، گھنگھروا باجے، یہ رات پھر نہ آئے گی جوانی بیت جائے گی۔

زہرہ بائی انبالے والی اپنی نوعیت کی واحد گلوکارہ تھی جسے کوئی دوسرا کاپی نہ کر سکا، امیر بائی کو نوشاد علی جیسا میوزک ڈائریکٹر ملا۔ ان کے مشہور گانوں میں
ساون کے بادلو، ان سے یہ جا کہو
تقدیر میں یہی تھا ساجن ... مرنے کے بعد
آئی دیوالی آئی، گھر گھر خوشیوں کے دیپ جلے
...
رم جھم برسے بادروا، پیا گھر آ جا، آ جا پیا گھر آ جا
...
انکھیاں ملائے کے، جیا برمائے کے چلے نہیں جانا

کے علاوہ اور بھی بے شمار گیت لافانی ہیں۔ ان کا لافانی ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ان گیتوں کو ہماری دادی، والدہ، والد اور ہم بہن بھائیوں نے ہمیشہ پسند کیا بلکہ آج ہماری اولین پسند بھی یہی پرانے گیت سن کر اس خوبصورت ماحول میں گم ہو جانا ہے جب دلوں میں جگہ تھی، ایک دوسرے کو دیکھ کر لوگ جیتے تھے، خوش ہوتے تھے، ساتھ بیٹھ کر دستر خوان پہ کھانا کھاتے تھے۔ موسیقی سنتے تھے۔ یہ امر گیت گانے والے ان کے لکھنے والے کی موسیقی ترتیب دینے سبھی ایسے لوگ تھے جو ایک رزخیز ذہن کے مالک تھے۔

کس کس آواز کا ذکر کروں، کس کس موسیقار کو یاد کروں، اس کے لیے کئی کالم درکار ہوں گے بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ اس موضوع پر ایک علیحدہ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ کالم کی خوبی اس کا اختصار ہوتا ہے لیکن میں کیسے ایک عظیم گلوکارہ امیربائی کرناٹکی کو بھول سکتی ہوں، جن کی گائیکی کے مہاتما گاندھی بھی بہت بڑے پرستار تھے۔

انشاء اﷲ ان عظیم گلوکارائوں کے علاوہ بھی ان سب کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے جن کا اب تک میں کسی گزشتہ کالم میں بھی ذکر بوجہ علالت نہ کر پائی، لیکن آج موسیقی کے عالمی دن پہ بھلا خوبصورت اور خوش گلو اداکارہ اور سریلی آواز کی مالک ثریا کو کیونکر بھلایا جا سکتا ہے۔ گریگری پیک جس کے عشق میں دیوانہ ہو کر اسے بمبئی دیکھنے آیا تھا، بھلا کون ہو گا جسے ثریا کی غلافی آنکھیں اور معصوم چہرہ یاد نہ ہو گا ان کے مشہور گیتوں اور غزلوں کی تعداد بہت بڑی ہے لیکن بعض تو ناقابل فراموش ہیں۔

اسی طرح خورشید جس کا نام لبوں پہ آتے ہی یکدم یہ گیت لبوں پہ آ جاتا ہے۔ گھٹا گھنگھور، گھنگھور مور مچائے شور اور پنچھی باورا چاند سے پریت لگائے۔ ایک اور عظیم غزل اور کلاسیکل گیت گانے والی بیگم اختر کو تو پچھلے برس ہی بھارت نے بڑے پیمانے پہ یاد کیا اور جشن منایا تھا وہ پہلے اختری بائی فیض آبادی کہلاتی تھیں۔

وہ غزل، دادرا اور ٹھمری کی بے مثل گائیکہ تھیں نہایت مہذب اور نستعلیق، انھیں ملکۂ غزل کا خطاب بھی ملا تھا، جب تک زندہ رہیں بڑے بڑے امرا و روئوسا اور نوابین کی محبتوں میں بیٹھیں لیکن صرف اپنی گائیکی سے انھیں اپنا گرویدہ بنایا ان کی یہ غزل بھلا کس نے نہ سنی ہو گی ''اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا۔ جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا۔
Load Next Story