اسٹارہونا بوریت کے سوا کچھ نہیں گلیمررول مجھے متاثر نہیں کرتےنوازالدین صدیقی
نواز کی پہلی بولی وڈ فلم عامرخان کی سرفروش تھی، جو کہ 1999 میں ریلیز ہوئی تھی
14مئی 1974کو پیدا ہونے والے اداکار نواز الدین کا تعلق اترپردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے کسان گھرانے سے ہے۔ ان کے والد کھتی باڑی کرتے تھے اور ان کے نو بچے ہیں، جن میں سات بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔نواز ان میں پانچویں نمبر پر ہیں۔
نواز نے اپنے روایتی کام کے بجائے تعلیم کی طرف توجہ دی اور وہ اپنے گاؤں کے پہلے ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے کیمسٹری میں گریجویشن کی فرسٹ کلاس ڈگری حاصل کی۔ پر نواز نے اتر کھنڈ کی ایک پیٹروکیمیکل کی کمپنی میں ملازمت اختیار کی، لیکن بہت جلد وہ اپنی ملازمت سے بیزار ہوگئے۔بعدازاں وہ دہلی منتقل ہوگئے اور وہاں انہوں نے 1996 میں نیشنل اسکول آف ڈراما دہلی سے تھیٹر اکیڈمک میں گریجویشن کیا۔ 2004 میں انہوں نے ممبئی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ سال نواز کے لیے انتہائی مشکلات اور مسائل سے بھرپور تھا۔ ممبئی میں نہ ان کے پاس رہائش تھی اور نہ ہی کوئی ملازمت۔ ایک دوست کے ساتھ انہوں نے اس کا فلیٹ شیئر کیا۔ وہ دوست ہی ان کے لیے کھانا بھی لاتا تھا۔
نواز کی پہلی ب بالی ووڈ فلم عامرخان کی سرفروش تھی، جو کہ 1999 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ان کا رول بہت مختصر تھا۔ اس فلم کے بعد انہوں نے فلم اسٹوڈیوز اور ایسی جگہوں کے چکر کاٹنا شروع کردیے، جہاں کسی نہ کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہوتی تھی لیکن ان کی کہیں شنوائی نہ ہوسکی۔ کچھ فلموں میں وہ مخصوص روایتی اور چھوٹے کردار ادا کرتے رہے۔ ان کی ایک فلم منا بھائی ایم بی بی ایس بھی تھی جس میں انہوں نے ایک پاکٹ مار کا رول کیا تھا۔ یہ رول ان کا سنیل دت اور سنجے دت کے ساتھ تھا۔
ممبئی شفٹ ہونے کے بعد نواز نے ٹیلی ویژن پر بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، لیکن بار بار کی کوششوں کے باوجود انہیں کوئی کام یابی نہ مل سکی 1993میں انہوں نے ایک شارٹ فلم بائی پاس میں کام کیا، جس میں ان کے ساتھ اداکار عرفان خان بھی تھے۔ نواز الدین صدیقی کی زندگی میں 2002 سے 2005تک کا دور انتہائی مشکلات کا دور تھا، جب وہ پانچ لوگوں کے ساتھ کمرہ شیئر کرتے، دن میں ایک وقت کا کھانا کھاتے اور دن رات اسٹوڈیوز کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔
ان کی محنت رنگ لائی اور ڈائریکٹر انوراگ کیشپ کی فلم بلیک فرائیڈے میں انہیں ایک پاورفل رول کی آفر ہوئی۔ اس فلم میں ان کے کام کو پسند کیا گیا اور انہوں نے تھوڑی بہت توجہ بھی حاصل کی۔ ان کے پہلے مرکزی کردار کی فلم ڈائریکٹر پرشانے بھرگاوا کی پتنگ تھی، جس میں انہوں نے ایک سنگر کا رول کیا تھا۔ نواز کی یہ فلم برلن اور Tribecaفلم فیسٹول میں بھی دکھائی گئیں تھی، جہاں فلم میں ان کی پرفارمینس کو سب ہی نے سراہا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک فلم نیویارک میں کام کیا۔ 2010میں عامر خان پروڈکشن کی فلم پپلی لائیو میں نواز نے ایک صحافی کا کردار کیا تھا۔
اس فلم کے بعد ان کی بہ حثیت ایکٹر پہچان بن گئی، لیکن 2012 میں ریلیز ہونے والی فلم کہانی جس میں ودیا بالن مرکزی کردار میں تھیں، نے نواز کا نام گھر گھر پہنچا دیا۔ کہانی نے انہیں شہرت اور مقبولیت عطا کی۔ کہانی میں انہوں نے ایک بہت جلد غصہ میں آجانے والے انٹیلی جینس آفیسر کا رول کیا تھا۔ انوراگ کیشپ کی فلم گینگ آف واسع پور ان کی کیریر کی سب سے بڑی ہٹ فلم تھی، جس نے انہیں وہ شہرت دی جس کے بارے میں شاید نواز نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اس فلم کی کام یابی کو دیکھتے ہوئے ڈائریکٹر انوراگ نے فلم کا دوسرا حصہ بھی اسی نام سے یعنی گینگ آف واسع پور 2کے نام سے بنایا اور اس میں نواز نے مرکزی کردار ادا کیا۔
بعدازاں انہوں نے ایک فلم مس لولی میں کام کیا۔ یہ فلم کینز فلمی میلے میں بھی دکھائی گئی۔ اس کے بعد ان کی ریلیز ہونے والی فلموں میں ایک ہارر فلم آتما جس میں ان کے ساتھ بپاشا باسو نے کام کیا تھا، 2012میں عامر خان کی فلم تلاش کے کچھ عرصہ قبل ان کی فلم پتنگ کی امریکا اور کینڈا میں نمائش کی گئی تھی، جہاں نیویارک ٹائمز اور لاس اینجلس ٹائمز نے اس فلم میں نواز کی پرفارمینس پر تجزیے شائع کیے تھے ۔ نواز سلمان کی فلم کک میں بھی ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
ان کی دیگر فلموں میں شول، فیملی، آجا نچ لے، منورما سکس فیٹ انڈر، فراق ، دیو دی، دیکھ انڈین سرکس، پان سنگھ تو مار، چٹاگانگ، بمبئی ٹاکیز، مون سون شوٹ آؤٹ، لنچ باکس ، میاں کل آنا اور بدلہ پور شامل ہیں۔
ان کی چار فلموں کہانی، گینگ آف واسع پور پارٹ ون اور ٹو اور تلاش میں ان کی بہترین پرفامینس پر انہیں مختلف ایوارڈز بھی دیے گئے، جن میں نیشنل ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ان کی آنے والی فلموں میں سلمان خان کے ساتھ بجرنگی بھائی جان اور شاہ رخ خان کے ساتھ رئیس نمایاں ہیں۔ ایک انٹرویو میں نواز نے اپنے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ان کا یہ انٹرویو پیش ہے۔
٭آپ نے اب تک اپنی فلموں میں مشکل اور پیچیدہ کردار ہی کیے ہیں۔ ایک مشکل کردار آپ کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟
نوازصدیقی: یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ دراصل ایک کردار سے دوسرے کردار تک جانا ایک لمبا سفر ہے، جس کے لیے میں صبر سے کام لیتا ہوں، کیوں کہ جس قسم کے رول میں کرتا ہوں ایسے کردار روایتی نہیں کہے جاسکتے۔
اس لیے جب میرے پاس ایسے کسی رول کی آفر آتی ہے تو میں اپنا کردار بہ غور پڑھتا ہوں تب اسے او کے کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اب ایسے رول کی آفر آنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ میں فلموں ایک جیسے یا لگے بندھے کرداروں کے خلاف ہوں۔ میں اپنے اردگرد ایسے آرٹسٹس کو دیکھ کر رشک محسوس کرتا ہوں جو منفرد کردار کرنے میں ملکہ حاصل رکھتے ہیں۔
٭آپ کو اپنے کیریر کا بریک تھر و فلم کہانی کے ذریعے ملا۔ اس کے بعد آپ نے آتما اور تلاش جیسی فلموں میں کام کیا۔ آپ اس کے لیے فلم کہانی کے شکر گزار ہیں؟
نوازصدیقی: میرے خیال میں ایسا صرف فلم کہانی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اصل شناخت فلم گینگ آف واسع پور کے ذریعے ملی۔ اسی فلم نے مجھے گھر گھر شہرت دی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سپورٹنگ رول خواہ وہ کسی بھی فلم کا ہو لوگوں نے ہمیشہ مجھے سائڈ لائن ہی رکھا اور کبھی بھی مجھے یا میرے کرداروں کو اہمیت نہیں دی۔ البتہ گینگ آف واسع پور کے لیے میں انوراگ کیشپ کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے مجھ پر بھروسا کرتے ہوئے ایک ایسی فلم میں کام لیا جس کے لیے کئی بڑے نام کام کرنا چاہتے تھے۔
٭کیا آپ گلیمر رول کرنے کے خواہش مند ہیں؟
نوازصدیقی: نہ میں سلمان خان جیسی باڈی رکھتا ہوں اور نہ مجھے رتھک کی طرح ڈانس کرنا آتا ہے، لیکن اگر پھر بھی گلیمر کردار کرنے سے میرے کیریر میں کوئی منفرد تبدیل آسکتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اگر میں ایک چشمہ یا ایک مکمل ڈریس پانچ سو سے ہزار تک کا پہنتا ہوں لیکن اگر مجھے یوں لگے گا ساٹھ ہزار کا چشمہ اور ڈریس پہننے سے میرے کریر میں تبدیلی آسکتی ہے تو میں ضرور اسے خریدوں گا، لیکن ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ گلیمر رول مجھے کسی صورت متاثر نہیں کرتے۔
٭لیکن آپ ایک مکمل مسالے دار کمرشیل فلم تو کرنا ضرور چاہتے ہوں گے؟ کیوںکہ آپ نے اب تک روایتی انداز سے ہٹ کر فلمیں کی ہیں؟
نوازصدیقی: میں کمرشیل ایکٹر نہیں ہوں، اس لیے شاید لوگ بھی مجھے ایسے کرداروں میں پسند نہیں کریں گے۔ میں صرف ایسی فلموں میں کام کرتا ہوں جو اچھا بزنس کر لیتی ہیں۔ لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ میں کمرشیل فلمیں نہیں کر سکتا۔ میری فلمیں کمرشیل ہی ہوتی ہیں۔ البتہ میرے کردار کمرشیل نہیں ہوتے ۔ کمرشیل ازم کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ پروڈکٹ کو کس طرح بیچنا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری فلمیں بہت اچھی طرح بکتی ہیں۔
٭بولی وڈ میں کیا خانز، کپورز اور بچنز کا راج ہے؟
نوازصدیقی: میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ آج اگر رنبیر کپور اچھی اداکاری کرتا ہے تو میں اسے ایک اچھا اداکار کہوں گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا تعلق کس فلمی خاندان سے ہے۔
٭آپ نے فلموں میں مطلوبہ مقام پانے سے پہلے بحران میں وقت گزارا۔ اچانک قسمت کیسے چمکی اور آپ ایک دم سے ٹاپ کلاس اداکار بن گئے؟
نوازصدیقی: کچھ سالوں پہلے تک دوسروں کے ساتھ ساتھ میں بھی خود کو ایک مسترد ایکٹر سمجھتا تھا اور ایسا حقیقت میں بھی تھا، لیکن پھر انڈین سنیما میں تبدیلی آئی بہت سارے ینگ ڈائریکٹر مختلف تجربات کے ساتھ فلمیں بنانے لگے اور ان جیسے ڈائریکٹرز ہی نے مجھ جیسے کئی مسترد ایکٹرز کو اپنی فلموں میں کام کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ میں اپنی قسمت کی تبدیلی پر اب تک حیران تھا، لیکن اب میں اسے انجوائے کر رہا ہوں۔
٭آپ سلمان خان کے ساتھ بجرنگی بھائی جان میں اور شاہ رخ خان کے ساتھ فلم رئیس میں کام کررہے ہیں۔ ان فلموں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
نوازصدیقی: سلمان خان کے ساتھ میں پہلے بھی ایک فلم کلک میں کام کر چکا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں ایک بار پھر ان کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ میں بہت خوش ہوں کہ میں سلمان اور شاہ رخ جیسے انڈسٹری کے بڑے ناموں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ میں عامر خان کے ساتھ بھی پہلے کام کر چکا ہوں سب سے زیادہ خوشی مجھے اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ بڑے اسٹارز نئے یا جونیئر آرٹسٹ کا نہ صرف بے احترام کرتے ہیں بل کہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ان خانز کے ساتھ کام کے دوران اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں ہوا کہ میں بولی وڈ کے سپراسٹارز کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔
٭بجرنگی بھائی جان میں آپ کس قسم کا کردار کر رہے ہیں؟
نوازصدیقی: میرا اس فلم مین ایک پاکستانی صحافی کا رول ہے اور اس کردار کے لیے میں نے بہت محنت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آڈینس میرے کردار کو پسند کرے گی۔
٭اسٹارڈم کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
نوازصدیقی: اسٹار ہونا میرے نزدیک سوائے بوریت کے اور کچھ نہیں۔ آپ 35-40 فلموں میں تقریباً ایک جیسے روایتی کردار کم و بیش ایک جیسے ناموں جیسے جے یا راہول سے کرتے ہیں، ان میں انفرادیت یا چونکادینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایک اسٹار یہی کرتا ہے، کیوں کہ اس کے نام سے فلمیں بکتی ہیں اور لوگ بھی ایسی ہی فلموں اور اسٹارز کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی تمام فلمیں اور کردار ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور میں ایسا اسٹار ڈم نہیں چاہتا۔ اسی لیے دوسروں سے ہٹ کر کام کرتا ہوں۔
٭آپ نے ودیا بالن اور بپاشا کے ساتھ کام کیا۔ ان دونوں ہیروئنز کے ساتھ کا م کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
نوازصدیقی: دونوں ہی بے مثال ایکٹریسز ہیں، لیکن میں بپاشا کو زیادہ فیور دوں گا، کیوں کہ اس میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ وہ ایک انتہائی پروفیشنل اداکارہ ہے۔ مجھے اگر دوبارہ بپاشا کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو یہ میرے لیے اعزاز ہوگا۔
نواز نے اپنے روایتی کام کے بجائے تعلیم کی طرف توجہ دی اور وہ اپنے گاؤں کے پہلے ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے کیمسٹری میں گریجویشن کی فرسٹ کلاس ڈگری حاصل کی۔ پر نواز نے اتر کھنڈ کی ایک پیٹروکیمیکل کی کمپنی میں ملازمت اختیار کی، لیکن بہت جلد وہ اپنی ملازمت سے بیزار ہوگئے۔بعدازاں وہ دہلی منتقل ہوگئے اور وہاں انہوں نے 1996 میں نیشنل اسکول آف ڈراما دہلی سے تھیٹر اکیڈمک میں گریجویشن کیا۔ 2004 میں انہوں نے ممبئی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ سال نواز کے لیے انتہائی مشکلات اور مسائل سے بھرپور تھا۔ ممبئی میں نہ ان کے پاس رہائش تھی اور نہ ہی کوئی ملازمت۔ ایک دوست کے ساتھ انہوں نے اس کا فلیٹ شیئر کیا۔ وہ دوست ہی ان کے لیے کھانا بھی لاتا تھا۔
نواز کی پہلی ب بالی ووڈ فلم عامرخان کی سرفروش تھی، جو کہ 1999 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ان کا رول بہت مختصر تھا۔ اس فلم کے بعد انہوں نے فلم اسٹوڈیوز اور ایسی جگہوں کے چکر کاٹنا شروع کردیے، جہاں کسی نہ کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہوتی تھی لیکن ان کی کہیں شنوائی نہ ہوسکی۔ کچھ فلموں میں وہ مخصوص روایتی اور چھوٹے کردار ادا کرتے رہے۔ ان کی ایک فلم منا بھائی ایم بی بی ایس بھی تھی جس میں انہوں نے ایک پاکٹ مار کا رول کیا تھا۔ یہ رول ان کا سنیل دت اور سنجے دت کے ساتھ تھا۔
ممبئی شفٹ ہونے کے بعد نواز نے ٹیلی ویژن پر بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، لیکن بار بار کی کوششوں کے باوجود انہیں کوئی کام یابی نہ مل سکی 1993میں انہوں نے ایک شارٹ فلم بائی پاس میں کام کیا، جس میں ان کے ساتھ اداکار عرفان خان بھی تھے۔ نواز الدین صدیقی کی زندگی میں 2002 سے 2005تک کا دور انتہائی مشکلات کا دور تھا، جب وہ پانچ لوگوں کے ساتھ کمرہ شیئر کرتے، دن میں ایک وقت کا کھانا کھاتے اور دن رات اسٹوڈیوز کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔
ان کی محنت رنگ لائی اور ڈائریکٹر انوراگ کیشپ کی فلم بلیک فرائیڈے میں انہیں ایک پاورفل رول کی آفر ہوئی۔ اس فلم میں ان کے کام کو پسند کیا گیا اور انہوں نے تھوڑی بہت توجہ بھی حاصل کی۔ ان کے پہلے مرکزی کردار کی فلم ڈائریکٹر پرشانے بھرگاوا کی پتنگ تھی، جس میں انہوں نے ایک سنگر کا رول کیا تھا۔ نواز کی یہ فلم برلن اور Tribecaفلم فیسٹول میں بھی دکھائی گئیں تھی، جہاں فلم میں ان کی پرفارمینس کو سب ہی نے سراہا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک فلم نیویارک میں کام کیا۔ 2010میں عامر خان پروڈکشن کی فلم پپلی لائیو میں نواز نے ایک صحافی کا کردار کیا تھا۔
اس فلم کے بعد ان کی بہ حثیت ایکٹر پہچان بن گئی، لیکن 2012 میں ریلیز ہونے والی فلم کہانی جس میں ودیا بالن مرکزی کردار میں تھیں، نے نواز کا نام گھر گھر پہنچا دیا۔ کہانی نے انہیں شہرت اور مقبولیت عطا کی۔ کہانی میں انہوں نے ایک بہت جلد غصہ میں آجانے والے انٹیلی جینس آفیسر کا رول کیا تھا۔ انوراگ کیشپ کی فلم گینگ آف واسع پور ان کی کیریر کی سب سے بڑی ہٹ فلم تھی، جس نے انہیں وہ شہرت دی جس کے بارے میں شاید نواز نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اس فلم کی کام یابی کو دیکھتے ہوئے ڈائریکٹر انوراگ نے فلم کا دوسرا حصہ بھی اسی نام سے یعنی گینگ آف واسع پور 2کے نام سے بنایا اور اس میں نواز نے مرکزی کردار ادا کیا۔
بعدازاں انہوں نے ایک فلم مس لولی میں کام کیا۔ یہ فلم کینز فلمی میلے میں بھی دکھائی گئی۔ اس کے بعد ان کی ریلیز ہونے والی فلموں میں ایک ہارر فلم آتما جس میں ان کے ساتھ بپاشا باسو نے کام کیا تھا، 2012میں عامر خان کی فلم تلاش کے کچھ عرصہ قبل ان کی فلم پتنگ کی امریکا اور کینڈا میں نمائش کی گئی تھی، جہاں نیویارک ٹائمز اور لاس اینجلس ٹائمز نے اس فلم میں نواز کی پرفارمینس پر تجزیے شائع کیے تھے ۔ نواز سلمان کی فلم کک میں بھی ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
ان کی دیگر فلموں میں شول، فیملی، آجا نچ لے، منورما سکس فیٹ انڈر، فراق ، دیو دی، دیکھ انڈین سرکس، پان سنگھ تو مار، چٹاگانگ، بمبئی ٹاکیز، مون سون شوٹ آؤٹ، لنچ باکس ، میاں کل آنا اور بدلہ پور شامل ہیں۔
ان کی چار فلموں کہانی، گینگ آف واسع پور پارٹ ون اور ٹو اور تلاش میں ان کی بہترین پرفامینس پر انہیں مختلف ایوارڈز بھی دیے گئے، جن میں نیشنل ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ان کی آنے والی فلموں میں سلمان خان کے ساتھ بجرنگی بھائی جان اور شاہ رخ خان کے ساتھ رئیس نمایاں ہیں۔ ایک انٹرویو میں نواز نے اپنے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ان کا یہ انٹرویو پیش ہے۔
٭آپ نے اب تک اپنی فلموں میں مشکل اور پیچیدہ کردار ہی کیے ہیں۔ ایک مشکل کردار آپ کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟
نوازصدیقی: یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ دراصل ایک کردار سے دوسرے کردار تک جانا ایک لمبا سفر ہے، جس کے لیے میں صبر سے کام لیتا ہوں، کیوں کہ جس قسم کے رول میں کرتا ہوں ایسے کردار روایتی نہیں کہے جاسکتے۔
اس لیے جب میرے پاس ایسے کسی رول کی آفر آتی ہے تو میں اپنا کردار بہ غور پڑھتا ہوں تب اسے او کے کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اب ایسے رول کی آفر آنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ میں فلموں ایک جیسے یا لگے بندھے کرداروں کے خلاف ہوں۔ میں اپنے اردگرد ایسے آرٹسٹس کو دیکھ کر رشک محسوس کرتا ہوں جو منفرد کردار کرنے میں ملکہ حاصل رکھتے ہیں۔
٭آپ کو اپنے کیریر کا بریک تھر و فلم کہانی کے ذریعے ملا۔ اس کے بعد آپ نے آتما اور تلاش جیسی فلموں میں کام کیا۔ آپ اس کے لیے فلم کہانی کے شکر گزار ہیں؟
نوازصدیقی: میرے خیال میں ایسا صرف فلم کہانی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اصل شناخت فلم گینگ آف واسع پور کے ذریعے ملی۔ اسی فلم نے مجھے گھر گھر شہرت دی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سپورٹنگ رول خواہ وہ کسی بھی فلم کا ہو لوگوں نے ہمیشہ مجھے سائڈ لائن ہی رکھا اور کبھی بھی مجھے یا میرے کرداروں کو اہمیت نہیں دی۔ البتہ گینگ آف واسع پور کے لیے میں انوراگ کیشپ کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے مجھ پر بھروسا کرتے ہوئے ایک ایسی فلم میں کام لیا جس کے لیے کئی بڑے نام کام کرنا چاہتے تھے۔
٭کیا آپ گلیمر رول کرنے کے خواہش مند ہیں؟
نوازصدیقی: نہ میں سلمان خان جیسی باڈی رکھتا ہوں اور نہ مجھے رتھک کی طرح ڈانس کرنا آتا ہے، لیکن اگر پھر بھی گلیمر کردار کرنے سے میرے کیریر میں کوئی منفرد تبدیل آسکتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اگر میں ایک چشمہ یا ایک مکمل ڈریس پانچ سو سے ہزار تک کا پہنتا ہوں لیکن اگر مجھے یوں لگے گا ساٹھ ہزار کا چشمہ اور ڈریس پہننے سے میرے کریر میں تبدیلی آسکتی ہے تو میں ضرور اسے خریدوں گا، لیکن ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ گلیمر رول مجھے کسی صورت متاثر نہیں کرتے۔
٭لیکن آپ ایک مکمل مسالے دار کمرشیل فلم تو کرنا ضرور چاہتے ہوں گے؟ کیوںکہ آپ نے اب تک روایتی انداز سے ہٹ کر فلمیں کی ہیں؟
نوازصدیقی: میں کمرشیل ایکٹر نہیں ہوں، اس لیے شاید لوگ بھی مجھے ایسے کرداروں میں پسند نہیں کریں گے۔ میں صرف ایسی فلموں میں کام کرتا ہوں جو اچھا بزنس کر لیتی ہیں۔ لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ میں کمرشیل فلمیں نہیں کر سکتا۔ میری فلمیں کمرشیل ہی ہوتی ہیں۔ البتہ میرے کردار کمرشیل نہیں ہوتے ۔ کمرشیل ازم کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ پروڈکٹ کو کس طرح بیچنا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری فلمیں بہت اچھی طرح بکتی ہیں۔
٭بولی وڈ میں کیا خانز، کپورز اور بچنز کا راج ہے؟
نوازصدیقی: میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ آج اگر رنبیر کپور اچھی اداکاری کرتا ہے تو میں اسے ایک اچھا اداکار کہوں گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا تعلق کس فلمی خاندان سے ہے۔
٭آپ نے فلموں میں مطلوبہ مقام پانے سے پہلے بحران میں وقت گزارا۔ اچانک قسمت کیسے چمکی اور آپ ایک دم سے ٹاپ کلاس اداکار بن گئے؟
نوازصدیقی: کچھ سالوں پہلے تک دوسروں کے ساتھ ساتھ میں بھی خود کو ایک مسترد ایکٹر سمجھتا تھا اور ایسا حقیقت میں بھی تھا، لیکن پھر انڈین سنیما میں تبدیلی آئی بہت سارے ینگ ڈائریکٹر مختلف تجربات کے ساتھ فلمیں بنانے لگے اور ان جیسے ڈائریکٹرز ہی نے مجھ جیسے کئی مسترد ایکٹرز کو اپنی فلموں میں کام کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ میں اپنی قسمت کی تبدیلی پر اب تک حیران تھا، لیکن اب میں اسے انجوائے کر رہا ہوں۔
٭آپ سلمان خان کے ساتھ بجرنگی بھائی جان میں اور شاہ رخ خان کے ساتھ فلم رئیس میں کام کررہے ہیں۔ ان فلموں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
نوازصدیقی: سلمان خان کے ساتھ میں پہلے بھی ایک فلم کلک میں کام کر چکا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں ایک بار پھر ان کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ میں بہت خوش ہوں کہ میں سلمان اور شاہ رخ جیسے انڈسٹری کے بڑے ناموں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ میں عامر خان کے ساتھ بھی پہلے کام کر چکا ہوں سب سے زیادہ خوشی مجھے اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ بڑے اسٹارز نئے یا جونیئر آرٹسٹ کا نہ صرف بے احترام کرتے ہیں بل کہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ان خانز کے ساتھ کام کے دوران اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں ہوا کہ میں بولی وڈ کے سپراسٹارز کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔
٭بجرنگی بھائی جان میں آپ کس قسم کا کردار کر رہے ہیں؟
نوازصدیقی: میرا اس فلم مین ایک پاکستانی صحافی کا رول ہے اور اس کردار کے لیے میں نے بہت محنت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آڈینس میرے کردار کو پسند کرے گی۔
٭اسٹارڈم کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
نوازصدیقی: اسٹار ہونا میرے نزدیک سوائے بوریت کے اور کچھ نہیں۔ آپ 35-40 فلموں میں تقریباً ایک جیسے روایتی کردار کم و بیش ایک جیسے ناموں جیسے جے یا راہول سے کرتے ہیں، ان میں انفرادیت یا چونکادینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایک اسٹار یہی کرتا ہے، کیوں کہ اس کے نام سے فلمیں بکتی ہیں اور لوگ بھی ایسی ہی فلموں اور اسٹارز کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی تمام فلمیں اور کردار ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور میں ایسا اسٹار ڈم نہیں چاہتا۔ اسی لیے دوسروں سے ہٹ کر کام کرتا ہوں۔
٭آپ نے ودیا بالن اور بپاشا کے ساتھ کام کیا۔ ان دونوں ہیروئنز کے ساتھ کا م کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
نوازصدیقی: دونوں ہی بے مثال ایکٹریسز ہیں، لیکن میں بپاشا کو زیادہ فیور دوں گا، کیوں کہ اس میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ وہ ایک انتہائی پروفیشنل اداکارہ ہے۔ مجھے اگر دوبارہ بپاشا کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو یہ میرے لیے اعزاز ہوگا۔