حادثہ بے سبب نہیں ہوتا
عام طور پر ہونے والے خوفناک ترین حادثات کی اہم ترین وجہ ڈرائیور کا چند لمحوں کے لئے ہی سہی سو یا اونگھ جانا ہے.
KARACHI:
یہ اپریل مئی کا موسم تھا، ابھی ایڑی چوٹی سے بہا پسینہ والی گرمی شروع نہیں ہوئی تھی۔ گاڑی میں لگا ایئرکنڈیشنر اپنی استطاعت سے زیادہ خنکی پیدا کر رہا تھا اور ہم اپنے آبائی شہر ساھیوال جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ پروگرام چونکہ اچانک بنا تھا اِس لئے گذشتہ روز چھٹی کرکے گھر جاتے ہمارے ڈرائیور حیات کو بھی معلوم نہ تھا کہ اگلے روز علی الصبح اس کا بلاوہ آ سکتا ہے، اوپر سے وہ اتوار کا دن تھا جس روز حیات ڈرائیور کی ہفتہ وار تعطیل ہوتی ہے۔ حیات بھی اگلے دن چھٹی کی وجہ سے دیر سے سویا ہوگا صبح صبح میری کال پر اس کی سوئی سوئی سی آواز سنائی دی میں نے اسے فوراََ آنے کا کہا اور فون بند کردیا۔ آدھ گھنٹے بعد وہ پہنچ گیا۔
نہ میں نے توجہ دی اور نہ اس نے بتایا کہ رات وہ دیر سے سویا تھا اس لئے ابھی بھی اس پر نیند کا غلبہ تھا۔ چلنے سے پہلے البتہ ہماری بیگم نے اُسے ایک کڑک چائے ضرور پلا دی۔ علی الصبح چلنے کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ہائی وے پر ٹریفک کم ہوتی ہے۔ ہم گھر سے نکلے، ٹھوکر نیاز بیگ سے پیٹرول بھروایا اور پھر چل سو چل۔ حیات اچھا ڈرائیور ہے اوپر سے اتوار کی بنا پر ملتان روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اس لئے حیات نے بھی ایکسیلیٹر پر پاوں دبا رکھا تھا اور گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔ میں اگلی سیٹ پر حیات کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میری عادت ہے کہ سفر شروع ہوتے ہی کوئی نا کوئی کتاب کھول لیتا ہوں اور ساھیوال تک یا تو کتاب ختم ہوجاتی ہے اور اگر اس کا تھوڑا حصہ بچ جائے تو وہ واپسی کے سفر میں میرا زادِ راہ ہوتا ہے۔ سفر شروع ہوا تو میں نے ایم اے اشرف کی ''تاریخِ ساہیوال'' کھو لی، خیال تھا کہ ساھیوال پہنچ کر اس کتاب کے حوالے سے چند اہم افراد کے انٹرویو ریکارڈ کروں گا اور اپنے وڈیو کالم کے لئے، اسی سوچ کے پیشِ نظر کتاب کا خاص مطالعہ جاری تھا کہ اچانک زوردار بریک لگی اور میری ہنڈا سٹی ایک سو اسی کے زاویے پر گھوم گئی جھٹکا اتنا شدید تھا کہ میرا پورا وجود ہل کر رہ گیا، حواس تھوڑے ٹھکانے آئے تو باہر کی جانب نظر ڈالی بائیں جانب سڑک کے کنارے واپڈا کا ہائی ٹینشن لائن کا کھمبہ تھا، اس کے ساتھ کی زمین سڑک سے چار پانچ فٹ نیچی تھی، گاڑی کھمبے سے بال بال بچتی ہوئی گھوم گئی تھی، سامنے نظر ڈالی تو سڑک کے دوسرے کنارے پر ایک ایکسیڈنٹ شدہ پیک اپ کھڑی تھی جس کے پرزے سڑک پر بکھرے ہوئے تھے۔ پیچھے کی جانب دیکھا تو کافی دور ٹریفک آتی نظر آئی، شکر ادا کیا کی پیچھے آنے والی ٹریفک سر پر نہیں چڑھی ہوئی تھی ورنہ بچنا محال تھا۔ میرا پارا چڑھ گیا، اِس سے پہلے کہ میں ڈرائیور پر چڑھائی کرتا اُس کا موت کے خوف سے زرد چہرہ دیکھ کر خاموش رہا۔ میں نے اُسے بس اتنا کہا کہ گاڑی کا رخ ساھیوال کی طرف کرو اور اب فاسٹ لین کے بجائے ایک طرف ہو کر آہستہ آہستہ چلو، جونہی پتوکی آیا ایک ہوٹل پر روک کر اسے کہا کہ منہ ہاتھ دھو کر اپنے حواس درست کرو، چائے شائے پلائی اور پھر روانہ ہوئے۔
قومی شاہراہوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں بہت سی قیمتی جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنے معمولات پر غور نہیں کرتے اور نہ ہی سنجیدگی سے ان وجوہات کو تلاش کرتے ہیں جن کی بناء پر حادثات جنم لیتے ہیں کیونکہ کوئی بھی حادثہ بے سبب نہیں ہوتا۔ جو واقعہ میں نے اوپر تفصیل سے بیان کیا ہے اس کا میں چونکہ چشم دید ہوں اس لئے اس کا تجزیہ باخوبی کرسکتا ہوں۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ حیات ڈرائیور پر نیند کا غلبہ تھا، گاڑی کا ایئر کنڈیشنر زیادہ کولنگ کر رہا تھا،ح یات ڈرائیور اپنے کسی ذاتی مسئلے کی وجہ سے کسی سوچ میں تھا، اس لئے سڑک پر کھڑی ایکسیڈنٹ شدہ پیک اپ کو دور سے نہ دیکھ سکا اور جب اُس کے سر پر پہنچ گیا تو اچانک بریک لگائی۔ ٹریفک پولیس کی غفلت کہ حادثہ شدہ گاڑی کو لفٹر کے ذریعے اٹھا کر سڑک کے کنارے کچے میں کھڑا نہیں کیا جیسا کے مہذب دنیا میں ہوتا ہے۔
عام طور پر قومی شاہراہوں پر ہونے والے خوفناک ترین حادثات کی اہم ترین وجہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ڈرائیور کا چند لمحوں کے لئے ہی سہی سو یا اونگھ جانا ہے۔ ماہرِ نفسیات چند لمحوں کی اس نیند کو Dozing at the wheel یا Driver fatigus کہتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ دورانِ ڈرائیونگ کسی بھی چیز پر توجہ مرکوز نہ ہونا، تھکاوٹ محسوس ہونا، چند لمحوں کی اونگھ جسے مائیکرو سلیپ کہا جاتا ہے جس سے گاڑی بے قابو ہوجاتی ہے اور خوفناک حادثہ جنم لے سکتا ہے، ڈرائیور فٹیگ میں آتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق گاڑی اگر 100 کلو میٹر کی رفتار سے جا رہی ہو تو ڈرائیور کو صرف 4/5 سیکنڈ کی نیند کی جھپکی آنے سے گاڑی سڑک پر تقریباََ آدھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرچکی ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ تقریباََ دو سو گز تک گاڑی کسی بھی دوسری گاڑی سے ٹکرانے یا سڑک سے نیچے اتر کر کسی کھائی یا نہر میں گرنے کے لئے ڈرائیور کی گرفت سے آزاد ہو چکی ہوتی ہے۔ فیٹیگ یا تھکاوٹ جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، کوئی شخص مسلسل ڈرائیونگ کرے یا کوئی آدمی کسی پریشانی یا ٹینشن میں مبتلا ہو، دونوں صورتوں میں تھک جاتا ہے اور اس دوران قوتِ فیصلہ کم ہوجاتی ہے جمائیاں لینا، توجہ کا مرکوز نہ ہونا، بے آرامی کا شکار ہونا، بریت اور بددلی محسوس کرنا یا ردِعمل کا کمزور ہوجانا، دورانِ ڈرائیو لین اور لائن کے نظم و ضبط کو برقرار نہ رکھنا، حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو کر اپنی نیند یا تھکاوٹ کو نظرانداز کرکے سفر جاری رکھنا، سب ڈرائیور فٹیگ کی علامات کی عکاسی کرتی ہیں جس کا نتیجہ Dozing at the wheel ہے، دنیا بھر میں زیادہ تر حادثات کی اہم وجہ ڈرائیور کی اونگھ ہے۔
ہم نے جو واقعہ اوپر بیان کیا اُسے اگر ہم نیند سے ہونے والے حادثے کی نظر سے دیکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان میں ایسی شاہراہیں جہاں پر بہت زیادہ رش اور آبادی نہ ہو یا سڑک بہت آرام دہ ہو اور اوپر سے ایئر کنڈیشنر بھی ہیوی ہو تو انسانی فطرت کے مطابق آدمی سست پڑ جاتا ہے۔ حیات ڈرائیور بھی نیند پوری نہ ہونے کا ستایا ہوا تھا، اتوار اور علی الصبح ہونے کی وجہ سے سڑک بھی دور دور تک خالی تھی، اوپر سے ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے حیات کو نیند کا ایسا جھونکا دلایا کہ گاڑی ایک سو اسی کے زاویے پر گھوم گئی، ایسے میں وہ واپڈا کے ہائی ٹینشن پول سے ٹکرا بھی سکتی تھی، پیچھے سے آنے والی گاڑی بھی اس سے ٹکرا سکتی تھی، سامنے سڑک پر پڑی حادثہ شدہ پک اپ سے بھی ٹکراسکتی تھی، غرض کچھ بھی ہوسکتا تھا، ہماری زندگی اللہ نے ابھی کچھ اور لکھی تھی سو بچت ہو گئی۔
اس قسم کی صورتحال کے تدارک کے لئے عوامی سطح پر شعور اور ٹریفک ایجوکیشن کی ضرورت ہے، عوام میں اس احساس کو اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنے سے پہلے اپنی نیند پوری کرلی جائے، سفر بہت تسلی اور احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔دورانِ سفر اگر نیند کا غلبہ ہوجائے تو کہیں رک کر 15 سے20 منٹ کی نیپ (Nap) یعنی چھوٹی نیند لے لی جائے۔ ذرا سی دیر کی یہ دیری بہتر ہے اس سفر سے جو عازمِ عدم ہوتا ہے۔ احتیاط کیجئے زندگی بہت قیمتی ہے اور گھر پر آپ کا کوئی انتظار کر رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ اپریل مئی کا موسم تھا، ابھی ایڑی چوٹی سے بہا پسینہ والی گرمی شروع نہیں ہوئی تھی۔ گاڑی میں لگا ایئرکنڈیشنر اپنی استطاعت سے زیادہ خنکی پیدا کر رہا تھا اور ہم اپنے آبائی شہر ساھیوال جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ پروگرام چونکہ اچانک بنا تھا اِس لئے گذشتہ روز چھٹی کرکے گھر جاتے ہمارے ڈرائیور حیات کو بھی معلوم نہ تھا کہ اگلے روز علی الصبح اس کا بلاوہ آ سکتا ہے، اوپر سے وہ اتوار کا دن تھا جس روز حیات ڈرائیور کی ہفتہ وار تعطیل ہوتی ہے۔ حیات بھی اگلے دن چھٹی کی وجہ سے دیر سے سویا ہوگا صبح صبح میری کال پر اس کی سوئی سوئی سی آواز سنائی دی میں نے اسے فوراََ آنے کا کہا اور فون بند کردیا۔ آدھ گھنٹے بعد وہ پہنچ گیا۔
نہ میں نے توجہ دی اور نہ اس نے بتایا کہ رات وہ دیر سے سویا تھا اس لئے ابھی بھی اس پر نیند کا غلبہ تھا۔ چلنے سے پہلے البتہ ہماری بیگم نے اُسے ایک کڑک چائے ضرور پلا دی۔ علی الصبح چلنے کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ہائی وے پر ٹریفک کم ہوتی ہے۔ ہم گھر سے نکلے، ٹھوکر نیاز بیگ سے پیٹرول بھروایا اور پھر چل سو چل۔ حیات اچھا ڈرائیور ہے اوپر سے اتوار کی بنا پر ملتان روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اس لئے حیات نے بھی ایکسیلیٹر پر پاوں دبا رکھا تھا اور گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔ میں اگلی سیٹ پر حیات کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میری عادت ہے کہ سفر شروع ہوتے ہی کوئی نا کوئی کتاب کھول لیتا ہوں اور ساھیوال تک یا تو کتاب ختم ہوجاتی ہے اور اگر اس کا تھوڑا حصہ بچ جائے تو وہ واپسی کے سفر میں میرا زادِ راہ ہوتا ہے۔ سفر شروع ہوا تو میں نے ایم اے اشرف کی ''تاریخِ ساہیوال'' کھو لی، خیال تھا کہ ساھیوال پہنچ کر اس کتاب کے حوالے سے چند اہم افراد کے انٹرویو ریکارڈ کروں گا اور اپنے وڈیو کالم کے لئے، اسی سوچ کے پیشِ نظر کتاب کا خاص مطالعہ جاری تھا کہ اچانک زوردار بریک لگی اور میری ہنڈا سٹی ایک سو اسی کے زاویے پر گھوم گئی جھٹکا اتنا شدید تھا کہ میرا پورا وجود ہل کر رہ گیا، حواس تھوڑے ٹھکانے آئے تو باہر کی جانب نظر ڈالی بائیں جانب سڑک کے کنارے واپڈا کا ہائی ٹینشن لائن کا کھمبہ تھا، اس کے ساتھ کی زمین سڑک سے چار پانچ فٹ نیچی تھی، گاڑی کھمبے سے بال بال بچتی ہوئی گھوم گئی تھی، سامنے نظر ڈالی تو سڑک کے دوسرے کنارے پر ایک ایکسیڈنٹ شدہ پیک اپ کھڑی تھی جس کے پرزے سڑک پر بکھرے ہوئے تھے۔ پیچھے کی جانب دیکھا تو کافی دور ٹریفک آتی نظر آئی، شکر ادا کیا کی پیچھے آنے والی ٹریفک سر پر نہیں چڑھی ہوئی تھی ورنہ بچنا محال تھا۔ میرا پارا چڑھ گیا، اِس سے پہلے کہ میں ڈرائیور پر چڑھائی کرتا اُس کا موت کے خوف سے زرد چہرہ دیکھ کر خاموش رہا۔ میں نے اُسے بس اتنا کہا کہ گاڑی کا رخ ساھیوال کی طرف کرو اور اب فاسٹ لین کے بجائے ایک طرف ہو کر آہستہ آہستہ چلو، جونہی پتوکی آیا ایک ہوٹل پر روک کر اسے کہا کہ منہ ہاتھ دھو کر اپنے حواس درست کرو، چائے شائے پلائی اور پھر روانہ ہوئے۔
قومی شاہراہوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں بہت سی قیمتی جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنے معمولات پر غور نہیں کرتے اور نہ ہی سنجیدگی سے ان وجوہات کو تلاش کرتے ہیں جن کی بناء پر حادثات جنم لیتے ہیں کیونکہ کوئی بھی حادثہ بے سبب نہیں ہوتا۔ جو واقعہ میں نے اوپر تفصیل سے بیان کیا ہے اس کا میں چونکہ چشم دید ہوں اس لئے اس کا تجزیہ باخوبی کرسکتا ہوں۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ حیات ڈرائیور پر نیند کا غلبہ تھا، گاڑی کا ایئر کنڈیشنر زیادہ کولنگ کر رہا تھا،ح یات ڈرائیور اپنے کسی ذاتی مسئلے کی وجہ سے کسی سوچ میں تھا، اس لئے سڑک پر کھڑی ایکسیڈنٹ شدہ پیک اپ کو دور سے نہ دیکھ سکا اور جب اُس کے سر پر پہنچ گیا تو اچانک بریک لگائی۔ ٹریفک پولیس کی غفلت کہ حادثہ شدہ گاڑی کو لفٹر کے ذریعے اٹھا کر سڑک کے کنارے کچے میں کھڑا نہیں کیا جیسا کے مہذب دنیا میں ہوتا ہے۔
عام طور پر قومی شاہراہوں پر ہونے والے خوفناک ترین حادثات کی اہم ترین وجہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ڈرائیور کا چند لمحوں کے لئے ہی سہی سو یا اونگھ جانا ہے۔ ماہرِ نفسیات چند لمحوں کی اس نیند کو Dozing at the wheel یا Driver fatigus کہتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ دورانِ ڈرائیونگ کسی بھی چیز پر توجہ مرکوز نہ ہونا، تھکاوٹ محسوس ہونا، چند لمحوں کی اونگھ جسے مائیکرو سلیپ کہا جاتا ہے جس سے گاڑی بے قابو ہوجاتی ہے اور خوفناک حادثہ جنم لے سکتا ہے، ڈرائیور فٹیگ میں آتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق گاڑی اگر 100 کلو میٹر کی رفتار سے جا رہی ہو تو ڈرائیور کو صرف 4/5 سیکنڈ کی نیند کی جھپکی آنے سے گاڑی سڑک پر تقریباََ آدھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرچکی ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ تقریباََ دو سو گز تک گاڑی کسی بھی دوسری گاڑی سے ٹکرانے یا سڑک سے نیچے اتر کر کسی کھائی یا نہر میں گرنے کے لئے ڈرائیور کی گرفت سے آزاد ہو چکی ہوتی ہے۔ فیٹیگ یا تھکاوٹ جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، کوئی شخص مسلسل ڈرائیونگ کرے یا کوئی آدمی کسی پریشانی یا ٹینشن میں مبتلا ہو، دونوں صورتوں میں تھک جاتا ہے اور اس دوران قوتِ فیصلہ کم ہوجاتی ہے جمائیاں لینا، توجہ کا مرکوز نہ ہونا، بے آرامی کا شکار ہونا، بریت اور بددلی محسوس کرنا یا ردِعمل کا کمزور ہوجانا، دورانِ ڈرائیو لین اور لائن کے نظم و ضبط کو برقرار نہ رکھنا، حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو کر اپنی نیند یا تھکاوٹ کو نظرانداز کرکے سفر جاری رکھنا، سب ڈرائیور فٹیگ کی علامات کی عکاسی کرتی ہیں جس کا نتیجہ Dozing at the wheel ہے، دنیا بھر میں زیادہ تر حادثات کی اہم وجہ ڈرائیور کی اونگھ ہے۔
ہم نے جو واقعہ اوپر بیان کیا اُسے اگر ہم نیند سے ہونے والے حادثے کی نظر سے دیکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان میں ایسی شاہراہیں جہاں پر بہت زیادہ رش اور آبادی نہ ہو یا سڑک بہت آرام دہ ہو اور اوپر سے ایئر کنڈیشنر بھی ہیوی ہو تو انسانی فطرت کے مطابق آدمی سست پڑ جاتا ہے۔ حیات ڈرائیور بھی نیند پوری نہ ہونے کا ستایا ہوا تھا، اتوار اور علی الصبح ہونے کی وجہ سے سڑک بھی دور دور تک خالی تھی، اوپر سے ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے حیات کو نیند کا ایسا جھونکا دلایا کہ گاڑی ایک سو اسی کے زاویے پر گھوم گئی، ایسے میں وہ واپڈا کے ہائی ٹینشن پول سے ٹکرا بھی سکتی تھی، پیچھے سے آنے والی گاڑی بھی اس سے ٹکرا سکتی تھی، سامنے سڑک پر پڑی حادثہ شدہ پک اپ سے بھی ٹکراسکتی تھی، غرض کچھ بھی ہوسکتا تھا، ہماری زندگی اللہ نے ابھی کچھ اور لکھی تھی سو بچت ہو گئی۔
اس قسم کی صورتحال کے تدارک کے لئے عوامی سطح پر شعور اور ٹریفک ایجوکیشن کی ضرورت ہے، عوام میں اس احساس کو اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنے سے پہلے اپنی نیند پوری کرلی جائے، سفر بہت تسلی اور احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔دورانِ سفر اگر نیند کا غلبہ ہوجائے تو کہیں رک کر 15 سے20 منٹ کی نیپ (Nap) یعنی چھوٹی نیند لے لی جائے۔ ذرا سی دیر کی یہ دیری بہتر ہے اس سفر سے جو عازمِ عدم ہوتا ہے۔ احتیاط کیجئے زندگی بہت قیمتی ہے اور گھر پر آپ کا کوئی انتظار کر رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس