مشرقی پاکستان میں بھارتی کردار
پاکستان توڑنے سے متعلق بھارتی کردارکا اقرار کرنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پٹڑی پر آگئے۔
پاکستان توڑنے سے متعلق بھارتی کردارکا اقرار کرنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پٹڑی پر آگئے۔ بھارتی وزیراعظم نے نئی دہلی قیادت کو پاکستان مخالف بیانات دینے سے روک دیا۔ 7 جون 2015 کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کے دورے پر ڈھاکہ یونیورسٹی کے بنگلہ بندھو انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے قیام میں بھارتی فوجیوں کا خون شامل ہے، جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے لیے مکتی باہنی والے اپنا خون بہارہے تھے تو بھارتی بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر جد وجہد کررہے تھے، اس طرح انھوں نے بنگلہ دیش کا خواب پورا کرنے میں مدد کی۔
1971 میں جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے لیے دہلی میں ستیہ گرہ تحریک چلی تھی تو ایک نوجوان رضاکار کے طور پر میں بھی اس میں شامل ہونے آیا تھا، اس تقریب کے دوران سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو پاکستان توڑنے اور تعلقات مضبوط بنانے پر ''بنگلہ دیش لبریشن وار آنر'' دیا گیا۔ نریندر مودی نے واجپائی کے لیے یہ اعزاز بنگلہ دیشی صدر عبدالحمید کے ہاتھوں وصول کیا۔
بنگلہ دیش کی بھارت نواز وزیراعظم حسینہ واجد بھی اس موقعے پر موجود تھیں جو خود بھی پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہتی ہیں۔ ''فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ'' دے کر حسینہ واجد حکومت نے سقوط ڈھاکا میں بھارت کے گھنائونے کردار کی گویا تائید کردی ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غدار شیخ مجیب کی بیٹی نے اپنے باپ کی پارٹی عوامی لیگ کے عسکری ونگ مکتی باہنی کے کسی کمانڈوکو اس ایوارڈ سے نہیں نوازا کیوں؟ جن کے ذریعے بے گناہ اردو بولنے والوں کا بے دردی سے قتل عام کرایاگیا تھا، مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو عوامی لیگ کی سیاسی قیادت نے کیوں نظر اندازکیا؟
ان سوالات کا جواب مکتی باہنی کے ہی ایک سابق کمانڈو سعید احمد دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''سقوط ڈھاکہ کے وقت میری عمر 20،21 برس تھی میں کھلنا میں مکتی باہنی کا کمانڈو تھا، میرے ہاتھ اگرچہ درجنوں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لیکن اب میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں، مجھے اور مجھ جیسے دیگر بنگالی نوجوانوں کو شیخ مجیب کی پارٹی نے اپنے گھنائونے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور مطلب نکل جانے کے بعد بوسیدہ ٹشو پیپرز کی طرح پھینک دیا۔
میں 1969-70 میں کھلنا کی ایک مسجد میں پیش امام تھا، ایک روز شیخ مجیب کی پارٹی کے ایک مقامی عہدیدار نے ان سے رابطہ کرکے کہاکہ اب ملک کی آزادی کا وقت آگیا ہے، لہٰذا مسجد میں نماز پڑھانے سے زیادہ اس وقت انھیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں اس طرح میں نے ''ملک کی آزادی'' کی خاطر پیش امامی چھوڑکر بندوق اٹھالی۔
سقوط ڈھاکہ اگرچہ 1971 میں ہوا تاہم بھارتی ایجنٹ اس سے کئی برس پہلے ہی بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے گلی کوچوں میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ ابتدا میں مکتی باہنی کو جوٹاسک ملا وہ یہ تھا کہ ملک کے مختلف شہروں میں چھوٹی چھوٹی میٹنگز کرکے پاکستان کے خلاف جس قدر نفرت پھیلاسکتے ہو وہ پھیلائی جائے، مجھے بھی اسی طرح کی ذمے داری دی گئی تھی اس سلسلے میں ، میں اپنے پانچ چھ ساتھیوں کی ٹیم کے ساتھ ڈھاکہ چاٹگام، میر پور، چٹا گانگ اور بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے مختلف شہروں میں جاتا، وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں، دفاتر اور دیگر مقامات پر لوگوں کی چھوٹی چھوٹی میٹنگز بلاتا اور ہماری ٹیم انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتی کہ مغربی پاکستان کا سامراجی ٹولہ ہمارے حقوق پر ڈاکا ڈال رہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے حقوق کی خاطر ایک الگ ملک بنائیں۔
یہ غالباً 1969 کا برس تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ ہمیں اس طرح کی میٹنگز بلانے کے لیے لوگ نہیں ملا کرتے تھے اور بڑی مشکل سے اگرچہ لوگوں کو ہم اکٹھا کر بھی لیتے تو انھیں قائل کرنا مشکل ہوجاتا تھا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت علیحدگی نہیں چاہتی تھی۔ میری ٹیم اور اس طرح کے مشن پر کام کرنے والے دیگر لوگوں نے بھی اپنے اس مشکل سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو آگاہ کیا، اگرچہ مکتی باہنی کو شیخ مجیب کی طرف سے احکامات ملاکرتے تھے لیکن اس نے یہ احکامات پہنچانے کے لیے اپنی پارٹی کے مقامی عہدیداروں کو ذمے داریاں دے رکھی تھیں ۔
انھی کے ذریعے ہم اپنی مشکلات یا دیگر پیغامات شیخ مجیب تک پہنچایا کرتے تھے جب ہم نے اپنی اس مشکل سے پارٹی قیادت کو آگاہ کیا کہ ہمیں میٹنگز کے لیے لوگ نہیں مل رہے تو جوابی پیغام آیا کہ کامیابی ملے یا نہ ملے ہر صورت یہ کام جاری رکھا جائے کیوں کہ جلد ہی اس مشن کا حتمی اور فیصلہ کن مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔
ابتدا میں مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے مشرقی پاکستان کے مقامی بنگالیوں کو ٹریننگ کے لیے بھارتی سرحد کے قریب واقع کیمپوں میں بھیجا جاتا تھا، تاہم جب ایک اکثریت یہ تربیت لے کر وہاں سے آگئی تو پھر مشرقی پاکستان کے اندر ہی مختلف مقامات پر اس نوعیت کے کیمپ کھول دیے گئے تھے جہاں بھارتی فوج مکتی باہنی کے ارکان کو مختلف اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دیا کرتے تھے میں بھی انھی ارکان میں شامل تھا جنھوں نے کھلنا کے ایک مقام پر واقع کیمپ میں ٹریننگ لی۔
1970 میں مجھ سے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق میٹنگز کی ذمے داری واپس لے کر عسکری کارروائیوں کی ذمے داری سونپ دی گئی اور مجھے باقاعدہ کمانڈرکا عہدہ دیاگیا میرے نیچے قریباً ڈیڑھ سے دوسو تربیت یافتہ ارکان ہوا کرتے تھے۔ شیخ مجیب کی جانب سے یہ دو ٹوک احکامات تھے کہ اردو بولنے والوں اور ایسے بنگالیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے جو اپنے دل میں مغربی پاکستان کے لیے ذرا برابر بھی ہمدردی رکھتے ہوں یہ حقیقت ہے کہ مکتی باہنی میں مقامی بنگالیوں کی تعداد محض 20 فی صد تھی جب کہ اس عسکری ونگ کے 80 فی صد ارکان کا تعلق بھارت سے تھا، جنھیں مغربی بنگال سے بلایاگیا تھا چوں کہ شکل و صورت اور رہن سہن میں یہ مقامی بنگالیوں سے زیادہ مختلف نہیں تھے، اس لیے یہاں کے معاشرے میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ان کی شناخت کرنا مشکل تھی۔
جب 1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آگیا تو مکتی باہنی کے لیے عوامی لیگ کی قیادت اور اس کی پینڈلر بھارتی فوج کی سوچ میں بھی تبدیلی آگئی۔ سقوط ڈھاکہ کے چند ماہ بعد بھارت سے آئے ہوئے مکتی باہنی کے ارکان اور کمانڈروں کی بڑی تعداد واپس چلی گئی جب کہ مجھ سمیت مکتی باہنی کے مقامی کمانڈر اور ارکان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب آگے ہماری ذمے داریاں کیا ہوں گی کیوں کہ ''مشن '' پورا ہوچکا تھا۔
ایک روز ہمیں اطلاع ملی کہ عوامی لیگ کی حکومت نے ایک خفیہ سرکلر جاری کیا ہے کہ مکتی باہنی کے تربیت یافتہ ارکان مستقبل میں خود بنگلہ دیش کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں لہٰذا ان سے چھٹکارا پایا جانا ضروری ہے ہمارے بارے میں کچھ اس طرح کی سوچ بھارتی فورسز کے ان مہروں کی بھی تھی جنھوں نے مکتی باہنی بنانے میں عملی طور پر حصہ لیا ۔
اس خفیہ سرکلر کی سن گن ملنے کے بعد مکتی باہنی کے مقامی ارکان میں خوف پھیل گیا اور انھیں اپنی زندگیاں خطرے میں محسوس ہونے لگیں وہ سمجھ گئے کہ جو کام ان سے لیا جانا تھا وہ لیا جاچکا ہے، لہٰذا اب ان کی حیثیت ایک استعمال شدہ ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں۔ مجھ سمیت مکتی باہنی کے ایسے بے شمار ارکان جو ملک چھوڑنے کی استطاعت رکھتے تھے وہ پہلی فرصت میں دنیا کے مختلف ممالک میں چلے گئے اور وہاں جاکر پناہ لے لی، نچلے درجے کے وہ ارکان جو اتنی حیثیت نہیں رکھتے تھے کہ جو بیرون ملک جاسکیں انھوں نے خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑدیا۔
بیلجیم آنے کے بعد مجھے اطلاعات ملتی رہیں کہ ان میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا جب کہ ایک تعداد چھپ کر گمنامی کی زندگی بسر کررہی ہے۔ میں پہلے تنہا ہی بیلجیم کے دارالحکومت برسلز آیا تھا کچھ عرصے بعد اپنی فیملی کو بھی بلالیا کئی کاروبارکیے ۔ میں ماضی کو یاد کرکے آج بھی خون کے آنسو روتا ہوں کہ کس طرح ایک دشمن ملک نے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کیے اور اس کے لیے ہمارے جیسے ہی بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں کو استعمال کیا جب کہ مطلب نکل جانے پر لات ماردی۔
ایک معاصر اخبارکی رپورٹ کے مطابق مکتی باہنی کا سابق کمانڈر 70سال کا سعید احمد آج بھی یہ باتیں دہراتا ہے تو اس کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور وہ کہتا ہے کہ جو قتل و غارت اس نے کی اس کا کفارہ وہ کیسے ادا کرے گا۔ بیلجیم میں مقیم بوڑھے سعید احمد کی پاکستان اور بالخصوص کراچی کی سیاست پر بھی گہری نظر ہے۔ سعید احمد کے بقول کراچی کے حالات دیکھ کر اسے ماضی یاد آجاتا ہے اور وہ زیر لب بڑابڑاتا ہے ... ''پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔''
1971 میں جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے لیے دہلی میں ستیہ گرہ تحریک چلی تھی تو ایک نوجوان رضاکار کے طور پر میں بھی اس میں شامل ہونے آیا تھا، اس تقریب کے دوران سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو پاکستان توڑنے اور تعلقات مضبوط بنانے پر ''بنگلہ دیش لبریشن وار آنر'' دیا گیا۔ نریندر مودی نے واجپائی کے لیے یہ اعزاز بنگلہ دیشی صدر عبدالحمید کے ہاتھوں وصول کیا۔
بنگلہ دیش کی بھارت نواز وزیراعظم حسینہ واجد بھی اس موقعے پر موجود تھیں جو خود بھی پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہتی ہیں۔ ''فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ'' دے کر حسینہ واجد حکومت نے سقوط ڈھاکا میں بھارت کے گھنائونے کردار کی گویا تائید کردی ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غدار شیخ مجیب کی بیٹی نے اپنے باپ کی پارٹی عوامی لیگ کے عسکری ونگ مکتی باہنی کے کسی کمانڈوکو اس ایوارڈ سے نہیں نوازا کیوں؟ جن کے ذریعے بے گناہ اردو بولنے والوں کا بے دردی سے قتل عام کرایاگیا تھا، مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو عوامی لیگ کی سیاسی قیادت نے کیوں نظر اندازکیا؟
ان سوالات کا جواب مکتی باہنی کے ہی ایک سابق کمانڈو سعید احمد دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''سقوط ڈھاکہ کے وقت میری عمر 20،21 برس تھی میں کھلنا میں مکتی باہنی کا کمانڈو تھا، میرے ہاتھ اگرچہ درجنوں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لیکن اب میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں، مجھے اور مجھ جیسے دیگر بنگالی نوجوانوں کو شیخ مجیب کی پارٹی نے اپنے گھنائونے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور مطلب نکل جانے کے بعد بوسیدہ ٹشو پیپرز کی طرح پھینک دیا۔
میں 1969-70 میں کھلنا کی ایک مسجد میں پیش امام تھا، ایک روز شیخ مجیب کی پارٹی کے ایک مقامی عہدیدار نے ان سے رابطہ کرکے کہاکہ اب ملک کی آزادی کا وقت آگیا ہے، لہٰذا مسجد میں نماز پڑھانے سے زیادہ اس وقت انھیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں اس طرح میں نے ''ملک کی آزادی'' کی خاطر پیش امامی چھوڑکر بندوق اٹھالی۔
سقوط ڈھاکہ اگرچہ 1971 میں ہوا تاہم بھارتی ایجنٹ اس سے کئی برس پہلے ہی بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے گلی کوچوں میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ ابتدا میں مکتی باہنی کو جوٹاسک ملا وہ یہ تھا کہ ملک کے مختلف شہروں میں چھوٹی چھوٹی میٹنگز کرکے پاکستان کے خلاف جس قدر نفرت پھیلاسکتے ہو وہ پھیلائی جائے، مجھے بھی اسی طرح کی ذمے داری دی گئی تھی اس سلسلے میں ، میں اپنے پانچ چھ ساتھیوں کی ٹیم کے ساتھ ڈھاکہ چاٹگام، میر پور، چٹا گانگ اور بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے مختلف شہروں میں جاتا، وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں، دفاتر اور دیگر مقامات پر لوگوں کی چھوٹی چھوٹی میٹنگز بلاتا اور ہماری ٹیم انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتی کہ مغربی پاکستان کا سامراجی ٹولہ ہمارے حقوق پر ڈاکا ڈال رہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے حقوق کی خاطر ایک الگ ملک بنائیں۔
یہ غالباً 1969 کا برس تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ ہمیں اس طرح کی میٹنگز بلانے کے لیے لوگ نہیں ملا کرتے تھے اور بڑی مشکل سے اگرچہ لوگوں کو ہم اکٹھا کر بھی لیتے تو انھیں قائل کرنا مشکل ہوجاتا تھا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت علیحدگی نہیں چاہتی تھی۔ میری ٹیم اور اس طرح کے مشن پر کام کرنے والے دیگر لوگوں نے بھی اپنے اس مشکل سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو آگاہ کیا، اگرچہ مکتی باہنی کو شیخ مجیب کی طرف سے احکامات ملاکرتے تھے لیکن اس نے یہ احکامات پہنچانے کے لیے اپنی پارٹی کے مقامی عہدیداروں کو ذمے داریاں دے رکھی تھیں ۔
انھی کے ذریعے ہم اپنی مشکلات یا دیگر پیغامات شیخ مجیب تک پہنچایا کرتے تھے جب ہم نے اپنی اس مشکل سے پارٹی قیادت کو آگاہ کیا کہ ہمیں میٹنگز کے لیے لوگ نہیں مل رہے تو جوابی پیغام آیا کہ کامیابی ملے یا نہ ملے ہر صورت یہ کام جاری رکھا جائے کیوں کہ جلد ہی اس مشن کا حتمی اور فیصلہ کن مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔
ابتدا میں مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے مشرقی پاکستان کے مقامی بنگالیوں کو ٹریننگ کے لیے بھارتی سرحد کے قریب واقع کیمپوں میں بھیجا جاتا تھا، تاہم جب ایک اکثریت یہ تربیت لے کر وہاں سے آگئی تو پھر مشرقی پاکستان کے اندر ہی مختلف مقامات پر اس نوعیت کے کیمپ کھول دیے گئے تھے جہاں بھارتی فوج مکتی باہنی کے ارکان کو مختلف اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دیا کرتے تھے میں بھی انھی ارکان میں شامل تھا جنھوں نے کھلنا کے ایک مقام پر واقع کیمپ میں ٹریننگ لی۔
1970 میں مجھ سے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق میٹنگز کی ذمے داری واپس لے کر عسکری کارروائیوں کی ذمے داری سونپ دی گئی اور مجھے باقاعدہ کمانڈرکا عہدہ دیاگیا میرے نیچے قریباً ڈیڑھ سے دوسو تربیت یافتہ ارکان ہوا کرتے تھے۔ شیخ مجیب کی جانب سے یہ دو ٹوک احکامات تھے کہ اردو بولنے والوں اور ایسے بنگالیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے جو اپنے دل میں مغربی پاکستان کے لیے ذرا برابر بھی ہمدردی رکھتے ہوں یہ حقیقت ہے کہ مکتی باہنی میں مقامی بنگالیوں کی تعداد محض 20 فی صد تھی جب کہ اس عسکری ونگ کے 80 فی صد ارکان کا تعلق بھارت سے تھا، جنھیں مغربی بنگال سے بلایاگیا تھا چوں کہ شکل و صورت اور رہن سہن میں یہ مقامی بنگالیوں سے زیادہ مختلف نہیں تھے، اس لیے یہاں کے معاشرے میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ان کی شناخت کرنا مشکل تھی۔
جب 1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آگیا تو مکتی باہنی کے لیے عوامی لیگ کی قیادت اور اس کی پینڈلر بھارتی فوج کی سوچ میں بھی تبدیلی آگئی۔ سقوط ڈھاکہ کے چند ماہ بعد بھارت سے آئے ہوئے مکتی باہنی کے ارکان اور کمانڈروں کی بڑی تعداد واپس چلی گئی جب کہ مجھ سمیت مکتی باہنی کے مقامی کمانڈر اور ارکان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب آگے ہماری ذمے داریاں کیا ہوں گی کیوں کہ ''مشن '' پورا ہوچکا تھا۔
ایک روز ہمیں اطلاع ملی کہ عوامی لیگ کی حکومت نے ایک خفیہ سرکلر جاری کیا ہے کہ مکتی باہنی کے تربیت یافتہ ارکان مستقبل میں خود بنگلہ دیش کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں لہٰذا ان سے چھٹکارا پایا جانا ضروری ہے ہمارے بارے میں کچھ اس طرح کی سوچ بھارتی فورسز کے ان مہروں کی بھی تھی جنھوں نے مکتی باہنی بنانے میں عملی طور پر حصہ لیا ۔
اس خفیہ سرکلر کی سن گن ملنے کے بعد مکتی باہنی کے مقامی ارکان میں خوف پھیل گیا اور انھیں اپنی زندگیاں خطرے میں محسوس ہونے لگیں وہ سمجھ گئے کہ جو کام ان سے لیا جانا تھا وہ لیا جاچکا ہے، لہٰذا اب ان کی حیثیت ایک استعمال شدہ ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں۔ مجھ سمیت مکتی باہنی کے ایسے بے شمار ارکان جو ملک چھوڑنے کی استطاعت رکھتے تھے وہ پہلی فرصت میں دنیا کے مختلف ممالک میں چلے گئے اور وہاں جاکر پناہ لے لی، نچلے درجے کے وہ ارکان جو اتنی حیثیت نہیں رکھتے تھے کہ جو بیرون ملک جاسکیں انھوں نے خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑدیا۔
بیلجیم آنے کے بعد مجھے اطلاعات ملتی رہیں کہ ان میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا جب کہ ایک تعداد چھپ کر گمنامی کی زندگی بسر کررہی ہے۔ میں پہلے تنہا ہی بیلجیم کے دارالحکومت برسلز آیا تھا کچھ عرصے بعد اپنی فیملی کو بھی بلالیا کئی کاروبارکیے ۔ میں ماضی کو یاد کرکے آج بھی خون کے آنسو روتا ہوں کہ کس طرح ایک دشمن ملک نے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کیے اور اس کے لیے ہمارے جیسے ہی بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں کو استعمال کیا جب کہ مطلب نکل جانے پر لات ماردی۔
ایک معاصر اخبارکی رپورٹ کے مطابق مکتی باہنی کا سابق کمانڈر 70سال کا سعید احمد آج بھی یہ باتیں دہراتا ہے تو اس کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور وہ کہتا ہے کہ جو قتل و غارت اس نے کی اس کا کفارہ وہ کیسے ادا کرے گا۔ بیلجیم میں مقیم بوڑھے سعید احمد کی پاکستان اور بالخصوص کراچی کی سیاست پر بھی گہری نظر ہے۔ سعید احمد کے بقول کراچی کے حالات دیکھ کر اسے ماضی یاد آجاتا ہے اور وہ زیر لب بڑابڑاتا ہے ... ''پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔''