بلوچستان کو غلامی سے بچاؤ

ہمارے بلوچ نوجوان جنھیں ورغلا کر اپنے ہی سیکیورٹی اہلکاروں کے سامنے لا کھڑا کیا گیا تھا۔

usmandamohi@yahoo.com

ISLAMABAD:
یہ خبرکوئی کم ہمت افزا نہیں ہے کہ بلوچستان میں دشمن کا بچھایا ہوا دہشت گردی کا نیٹ ورک اب دم توڑتا جا رہا ہے، ہمارے بلوچ نوجوان جنھیں ورغلا کر اپنے ہی سیکیورٹی اہلکاروں کے سامنے لا کھڑا کیا گیا تھا۔ اب دہشت گردی کے جال سے باہر آ رہے ہیں اور صوبے کے حالات میں قابل قدر بہتری آتی جا رہی ہے۔

گزشتہ دنوں خضدار میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ اور لشکر بلوچستان کے کمانڈروں نے اپنے ستاون ساتھیوں سمیت صوبائی سینئر وزیر نواب ثنا اللہ زہری کے روبرو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں واپس آنے کا اعلان کیا ہے ۔اس موقعے پر ثنا اللہ زہری نے نہ صرف ان کمانڈروں اور ان کے ساتھیوں کو مبارک باد دی بلکہ بھٹکے ہوئے بچے کچھے نوجوانوں کو دہشت گردی چھوڑ کر قومی دھارے میں واپس آنے کی دعوت دی۔ ہتھیار ڈالنے والے ایک کمانڈر نے برملا کہا کہ ہم کسی کے بہکاوے میں آگئے تھے اب ہم آزادی کی جھوٹی جنگ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔

اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے بعض بلوچ سرداروں کے فرزند بھارتی چنگل میں پھنس کر اس کے ایجنٹوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک قوم پرست رہنما پاکستانی سیاست میں ایک عرصے تک سرگرم رہ چکے ہیں۔ وہ قومی خدمات کے صلے میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں گو کہ ان کی کافی قومی خدمات ہیں مگر بدنام زمانہ لندن پلان کے بعد ان کی طبیعت میں کافی تبدیلی آچکی ہے تاہم ان کے لائق فائق فرزند نے قومی خدمات کے سلسلے میں کافی نام کمایا ہے وہ اپنی صلاحیتوں اور قومی خدمات کے تحت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے اور صوبے کی ترقی اور امن و امان کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

ان ہی کی ترغیب پر چاغی کے پہاڑوں پر پاکستان کے تاریخی ایٹمی دھماکے کیے گئے تھے جس سے ملک ناقابل تسخیر بن چکا ہے، چنانچہ ملک کے دفاع کو مضبوط کرنے اور پڑوسی دشمن ملک کے فخر وغرور کو خاک میں ملانے کے لیے انھیں قومی سطح پر جو اعزاز حاصل ہو رہے ہیں وہ ان کی شخصیت کو ہمیشہ بلند و بالا رکھے گا ۔ بدقسمتی سے وہ آج کل مرکز سے نہیں بلکہ ملک سے بھی ناراض نظر آتے ہیں جوکہ ایک قومی المیہ ہے۔

بگٹی خاندان کے تشکیل پاکستان سے لے کر تعمیر پاکستان تک بے حد احسانات ہیں، شہید اکبر بگٹی پاکستان کی محبت سے آخر وقت تک سرشار رہے وہ حکمرانوں سے حقوق کے لیے ضرور لڑتے رہے اور حقوق کا حصول ہر شہری کا فرض ہے۔ وہ بھی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور گورنر رہے۔

صوبے کی ترقی کے لیے جدوجہد کرتے رہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان کی پسماندگی نہ ان کے دور میں ختم ہوسکی اور نہ ہی اختر مینگل کے دور میں۔ کیونکہ یہ صدیوں سے استعماری طاقتوں کی بخشی ہوئی لعنت ہے جسے ختم کرنے کے لیے پچاس ساٹھ سال کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ انگریز اپنے دور میں اس صوبے کا چند خوشامد پسند سرداروں کے ساتھ مل کر جس طرح استحصال کرتا رہا ہے۔


اس کی مثال پورے برصغیر میں نہیں ملتی۔ یہ سرزمین جس پر چاند اور سورج بھی فخر کرتے ہیں عام لوگوں کے لیے جہنم بنادی گئی تھی۔ عوام کا خون چوس کر محلوں میں رہنے والوں نے انھیں ننگا، بھوکا رکھ کر تعلیم تک رسائی سے محروم رکھا انھیں حقوق مانگنے پر کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا ان کے گھر جلا دیے جاتے اور پس ماندگان کو بھی نہ بخشا جاتا۔ جب پاکستان عالم وجود میں آیا اور آزادی کا سورج طلوع ہوا عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ استعماری طاقت اپنا بوریا بستر باندھ کر رخصت ہوگئی البتہ اس کے من پسند سردار یہیں رہ گئے مگر پھر ان کی عوام پر دسترس ڈھیلی پڑ گئی وہ انھیں آزادی کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے سے نہیں روک سکتے تھے۔

تعلیم پر بندش بھی نہیں لگا سکتے تھے۔خان آف قلات جیسی اعلیٰ ظرف شخصیت بلوچ سرزمین نے کم ہی دیکھی ہے۔ ان کا نہ صرف تخلیق پاکستان میں اہم کردار تھا بلکہ تعمیر پاکستان میں بھی وہ انتہائی سرگرم رہے۔ قیام پاکستان سے قبل انھیں کانگریسی لیڈروں نے ورغلانے کی لاکھ کوشش کی مگر وہ نہ لڑکھڑائے، بلکہ دبنگ ہوکر قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا محبوب رہبر تسلیم کرتے ہوئے سرزمین قلات کو بڑے فخر کے ساتھ پاکستان کے ساتھ نتھی کردیا۔ حالانکہ انھیں اختیار تھا کہ وہ چاہتے تو اپنی ریاست کو خود بھی چلاتے رہتے مگر اس مرد مجاہد نے کانگریسیوں کی تمام پیشکشوں کو ٹھکرا دیا اور پاکستانی سبز ہلالی پرچم کو ریاست پر لہرا دیا۔

خان آف قلات اور قائد اعظم کا رشتہ ایک باپ بیٹے جیسا تھا بدقسمتی سے اس وقت کچھ لوگ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ قائد اعظم نے محترم خان آف قلات سے زبردستی الحاق قلات کے مسودے پر دستخط کروائے تھے۔ یہ جھوٹی کہانی مرحوم کے سامنے کسی کو گھڑنے کی ہمت نہ ہوسکی اب جب کہ وہ دنیا میں نہیں ہیں تو اس جھوٹی کہانی کے ذریعے قلات کے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے کاش کہ ان کے صاحبزادے جو بھارتی شے پر ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں حقائق کا بغور جائزہ لیں تو وہ ضرور اصلیت تک پہنچ جائیں گے اور بھارتی چنگل سے آزاد ہوجائینگے۔

ملک سے باہر بیٹھے روٹھے ہوئے شہزادے جو بھارت کے ایجنٹ کا کردار ادا کرکے بھارت کے ذریعے بنگلہ دیش کی طرز پر بلوچستان کی آزادی کا خواب دیکھ رہے ہیں ،حقیقتاً احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں اور اپنا قیمتی وقت ضایع کر رہے ہیں۔ بلوچستان کو پاکستان سے جدا کرنے کی خواہش رکھنے والے تمام حضرات کان کھول کر سن لیں کہ ان کی یہ خواہش قیامت تک پوری نہیں ہوسکے گی۔

اس کی دراصل ٹھوس وجوہات ہیں۔ اول تو بلوچستان کوئی مشرقی پاکستان نہیں ہے کہ جو مغربی پاکستان سے 1500 میل کے فاصلے پر واقع تھا درمیان میں دشمن ملک حائل تھا جس کی وجہ سے پاک فوج اپنا پورا کردار ادا نہیں کرپائی تھی۔ دوسرا یہ کہ ثابت ہوچکا ہے کہ بلوچ عوام علیحدگی کی ہر تحریک سے دلی نفرت کرتے ہیں وہ پاکستان کو اپنا وطن تسلیم کرچکے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ بلوچستان بلوچوں اور پشتونوں دونوں کا مشترکہ صوبہ ہے پشتونوں میں سے کسی بھی لیڈر کو دشمن آج تک اپنا ہمنوا نہیں بنا پایا ہے۔

کیونکہ وہ پاکستان سے علیحدگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے چنانچہ پشتونوں کے ہوتے ہوئے کسی بھی صورت میں بلوچستان کو نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ حال ہی میں ایک بس میں سفر کرنے والے پشتونوں کو شناخت کرکے قتل کرنے کے واقعے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دشمن صوبے میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے میں ناکام ہونے کے بعد اب پشتونوں اور بلوچوں کو لڑانا چاہتا ہے۔

دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ بلوچ اور پشتون دونوں بلوچستان کی جان ہیں اور ان کے دلوں سے پاکستان کی محبت کو کسی طور پر بھی کبھی بھی نکالا نہیں جاسکتا۔ اس وقت بلوچ اور پشتون عوام مل کر اپنی صوبائی حکومت کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں اور مشکلات کے حل میں اس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں ساتھ ہی صوبے میں موجود دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے اس کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کے صوبے کا اصل مسئلہ امن و امان کا قیام، بھوک افلاس سے نجات اور تعلیم کا حصول ہے نام نہاد آزادی نہیں۔
Load Next Story