ڈرون ریسنگآسٹریلیا میں تیزی سے مقبول ہوتا کھیل

ڈرون ریسنگ نے حال ہی میں آسٹریلیا میں جنم لیا ہے اوریہ کھیل تیزی سے مقبول ہورہا ہے

ان قوانین کے مطابق ڈرونز کو پُرہجوم مقامات پر، 400 فٹ سے کم کی بلندی پر نہیں اڑایا جاسکتا:فوٹو : فائل

ایک زمانے میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بغیر پائلٹ کے اڑنے والے جنگی اور جاسوس طیاروں تک محدود تھا۔ پھر یہ ٹیکنالوجی عسکری حدود سے نکل کر عوامی حدود میں داخل ہوگئی۔ اس کا استعمال عام ہوتا چلا گیا۔ اب ڈرون طیاروں سے مختلف کام لیے جارہے ہیں۔ اور تو اور اب ' ڈرون ریسنگ' بھی شروع ہوگئی ہے۔ نام سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس سے ہماری مراد ڈرونز کے درمیان تیز رفتار اڑان کا مقابلہ ہے۔

ڈرون ریسنگ نے حال ہی میں آسٹریلیا میں جنم لیا ہے اور یہ کھیل تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ ڈرون ریسنگ کا باقاعدہ انعقاد ہونے لگا ہے جس میں حصہ لینے والوں کی تعداد ہر بار پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان مقابلوں کے لیے باقاعدہ کوئی جگہ مختص نہیں ہوتی۔ ڈرون ریسنگ کے متوالے اپنے طیاروں کے ساتھ متروک گوداموں، زرعی فارموں اور مضافاتی علاقوں میں موجود کھنڈرات کا رخ کرتے ہیں۔ ان کی آمد جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیتی ہے۔

آسٹریلیا میں اس کھیل کو FPV ( فرسٹ پرسن ریسنگ) کہا جارہا ہے۔ ڈرون ریسنگ کے شرکاء اپنے طیاروں یا چار پنکھوں کے ذریعے اڑنے والے ہیلی کوپٹر ( quadcopter) کو مقابلے کے لیے تیار کرنے پر گھنٹوں صرف کرتے ہیں۔ ان پر کیمرے کی تنصیب کے علاوہ ایل ای ڈی لائٹس بھی لگاتے ہیں۔ مقابلے کے آغاز پر کھلاڑی خصوصی عینک پہنتے ہیں۔ یہ عینک لاسلکی طور پر ڈرون پر نصب کیمرے سے منسلک ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک تار کے ذریعے اس کا رابطہ ریموٹ کنٹرول سے بھی ہوتا ہے۔

عینک کے اندر لگی دو چھوٹی چھوٹی اسکرینوں پر کیمرے کی آنکھ کی قید میں آنے والا منظر دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اس طرح ہر کھلاڑی کیمرے اور خصوصی عینک کے ذریعے اپنے ڈرون کو مقررہ راستے پر اڑا سکتا ہے۔ یوں ایک لحاظ سے ڈرون ریسنگ، ویڈیو گیم کی طرح ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اس میں کھلاڑی ورچوئل طیارے کے بجائے اصل ڈرون کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کھیل میں لوگوں، بالخصوص نوجوانوں کی دل چسپی بڑھتی جارہی ہے۔




ڈرون ریسنگ کا آغاز عموماً صبح دس بجے ہوتا ہے۔ مقابلے میں لگ بھگ تیس کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ مقابلے کے باقاعدہ آغاز سے پہلے کھلاڑی پانچ گھنٹے تک مقررہ راستے پر ڈرون اڑانے کی مشق کرتے ہیں۔ پھر مقابلہ شروع ہوتا ہے جو ایک گھنٹے تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران ایک ساتھ چار کھلاڑی اپنے اپنے ڈرون کو تیزی سے اڑاتے ہوئے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں ڈرونز آپس میں ٹکرا بھی جاتے ہیں۔ ماہر کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ چھوٹے ڈرونز کے لیے تیز رفتاری سے اڑنا آسان ہوتا ہے، اور یہ سستے بھی ہوتے ہیں۔ ریس کے دوران، آپس میں ٹکرانے سے طیاروں کو نقصان بھی پہنچتا ہے، مگر یہ سب کھیل کا حصہ ہے۔

آسٹریلیا میں ڈرون ریسنگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر کچھ کھلاڑیوں نے ایک تنظیم بھی بنا ڈالی ہے جو ملک بھر میں ان مقابلوں کا انعقاد کرتی ہے۔ اس تنظیم کو Quadcopter Aerial Race, Organisation & Promotion ( QAROP ) کا نام دیا گیا ہے۔ QAROP کے ڈائریکٹر کرس بیلارڈ کے مطابق ڈرون ریسنگ توقع سے بڑھ کر مقبول ہورہی ہے مگر اس کی راہ میں ہوابازی کے فرسودہ قوانین رکاوٹ بن رہے ہیں۔

ان قوانین کے مطابق ڈرونز کو پُرہجوم مقامات پر، 400 فٹ سے کم کی بلندی پر نہیں اڑایا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ان قوانین کی رُو سے ڈرون اڑانے کے لیے ضروری ہے کہ آس پاس موجود لوگ کم از کم 30 میٹر کے فاصلے پر ہوں۔ ہوائی جہازوں کے لیے وضع کیے گئے یہ قوانین ایف پی وی ڈرونز کے لیے موزوں نہیں ٹھہرتے۔

بیلارڈ کے مطابق آسٹریلوی قوانین یہ پابندی بھی عائد کرتے ہیں کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار افراد ایک ساتھ ڈرون اڑا سکتے ہیں، جب کہ موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے کم از کم آٹھ افراد ایک ساتھ ڈرون طیاروں کی تیز رفتاری کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

ڈرون ریسنگ کوئی سستا شوق نہیں ہے۔ مارکیٹ میں ڈرون یا کواڈکوپٹر 300 ڈالر میں دستیاب ہیں مگر یہ ریسنگ کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ شوقین حضرات ان میں تبدیلیاں کرکے اضافی چیزیں نصب کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی مجموعی لاگت 1000 سے 2000 ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔
Load Next Story