نائجیریا میں اراکین پارلیمان کو کپڑے خریدنے کے لیے اربوں دیے جائیں گے
اراکین پارلیمان کے لیے ’ وارڈ روب الائونس‘ کی مد میں مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں
نائجیریا بہ لحاظ آبادی براعظم افریقا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں لگ بھگ اٹھارہ کروڑ عوام بستے ہیں۔ پاکستان سے اس کا رقبہ قریباً سوا لاکھ مربع کلومیٹر زیادہ ہے۔ دنیا کا ساتواں گنجان ترین ملک ہونے کے باوجود اس کا شمار سب سے غریب ممالک میں ہوتا ہے۔
یہاں اوسط فی کس سالانہ آمدنی 1080 ڈالر ہے۔ نائجیریا کی 33 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حالاں کہ اس ملک کی معیشت 7.4 فی صد کی شرح سے ترقی کررہی ہے۔ نائجیریا میں غربت کا سبب کرپشن اور بدعنوانی، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، اور سیاسی عدم استحکام ہے۔
پاکستان کی طرح نائجیریا میں بھی بالادست طبقہ عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ وہاں کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے پیش نظر بھی صرف اور صرف اپنا مفاد ہوتا ہے۔ نائجیریا میں اراکین پارلیمان کی تنخواہیں ایک لاکھ 89 ہزار 500 ڈالر سالانہ یعنی عام آدمی کی فی کس آمدنی سے 175 گنا زیادہ ہیں۔ یوں نائجیریا کے اراکین پارلیمان دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہیں پانے والے قانون سازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
افریقی ملک کے عوام اپنے حکمرانوں کی عیاشیوں سے پہلے ہی تنگ ہیں، ایسے میں اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ اراکین پارلیمان کے لیے ' وارڈ روب الائونس' کی مد میں مجموعی طور پر نو ارب نائرا ( ساڑھے چار کروڑ ڈالر ) مختص کردیے گئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی، اور لوگوں نے اس پر ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیا۔ عوام نے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر کا سہارا لیا۔ آن کی آن میں درجنوں ہیش ٹیگ بنالیے گئے جن پر اب تک لاکھوں ٹویٹس ہوچکی ہیں۔
لوگوں کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے نام نہاد عوامی نمائندے لوٹ مار اور کرپشن کے بل پر کھرب پتی بنے ہوئے ہیں۔ اور اب انھیں لباس کی خریداری کے لیے اربوں نائرا مزید دیے جارہے ہیں۔ ملک میں کئی کروڑ نفوس پرانے کپڑے خریدنے کے بھی قابل نہیں، اور یہاں پارلیمان کے ارکان کو اربوں کی رقم وارڈ روب الائونس کے نام پر دی جارہی ہے۔
عوام میں دوڑتی غصے کی لہر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے یہ وضاحت جاری کی کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں، نیز ہر رکن اسمبلی کو وارڈ روب الائونس کی مد میں ڈھائی ہزار ڈالر کے مساوی رقم دی جاتی ہے۔
اس وضاحت کو بھی عوام نے آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کاکہنا تھا کہ اراکین اسمبلی اتنے دولت مند ہیں کہ انھیں وارڈ روب الائونس تو کیا سرے سے تنخواہیں ہی نہیں دی جانی چاہییں۔ فیس بُک پر کی گئی ایک پوسٹ کے مطابق اوسط تنخواہ پانے والا ایک ملازم 1638 سال میں اتنی رقم حاصل کرپائے گا جتنی رقم ایک رکن اسمبلی کو سالانہ تنخواہ کی مد میں دی جاتی ہے۔
عوام میں، سیاست دانوں کو وارڈ روب الائونس کی مد میں دی جانے والی خطیر رقم کے حوالے سے ہنوز غصہ پایا جارہا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتیں میدان میں آگئی ہیں۔
یہاں اوسط فی کس سالانہ آمدنی 1080 ڈالر ہے۔ نائجیریا کی 33 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حالاں کہ اس ملک کی معیشت 7.4 فی صد کی شرح سے ترقی کررہی ہے۔ نائجیریا میں غربت کا سبب کرپشن اور بدعنوانی، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، اور سیاسی عدم استحکام ہے۔
پاکستان کی طرح نائجیریا میں بھی بالادست طبقہ عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ وہاں کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے پیش نظر بھی صرف اور صرف اپنا مفاد ہوتا ہے۔ نائجیریا میں اراکین پارلیمان کی تنخواہیں ایک لاکھ 89 ہزار 500 ڈالر سالانہ یعنی عام آدمی کی فی کس آمدنی سے 175 گنا زیادہ ہیں۔ یوں نائجیریا کے اراکین پارلیمان دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہیں پانے والے قانون سازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
افریقی ملک کے عوام اپنے حکمرانوں کی عیاشیوں سے پہلے ہی تنگ ہیں، ایسے میں اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ اراکین پارلیمان کے لیے ' وارڈ روب الائونس' کی مد میں مجموعی طور پر نو ارب نائرا ( ساڑھے چار کروڑ ڈالر ) مختص کردیے گئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی، اور لوگوں نے اس پر ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیا۔ عوام نے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر کا سہارا لیا۔ آن کی آن میں درجنوں ہیش ٹیگ بنالیے گئے جن پر اب تک لاکھوں ٹویٹس ہوچکی ہیں۔
لوگوں کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے نام نہاد عوامی نمائندے لوٹ مار اور کرپشن کے بل پر کھرب پتی بنے ہوئے ہیں۔ اور اب انھیں لباس کی خریداری کے لیے اربوں نائرا مزید دیے جارہے ہیں۔ ملک میں کئی کروڑ نفوس پرانے کپڑے خریدنے کے بھی قابل نہیں، اور یہاں پارلیمان کے ارکان کو اربوں کی رقم وارڈ روب الائونس کے نام پر دی جارہی ہے۔
عوام میں دوڑتی غصے کی لہر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے یہ وضاحت جاری کی کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں، نیز ہر رکن اسمبلی کو وارڈ روب الائونس کی مد میں ڈھائی ہزار ڈالر کے مساوی رقم دی جاتی ہے۔
اس وضاحت کو بھی عوام نے آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کاکہنا تھا کہ اراکین اسمبلی اتنے دولت مند ہیں کہ انھیں وارڈ روب الائونس تو کیا سرے سے تنخواہیں ہی نہیں دی جانی چاہییں۔ فیس بُک پر کی گئی ایک پوسٹ کے مطابق اوسط تنخواہ پانے والا ایک ملازم 1638 سال میں اتنی رقم حاصل کرپائے گا جتنی رقم ایک رکن اسمبلی کو سالانہ تنخواہ کی مد میں دی جاتی ہے۔
عوام میں، سیاست دانوں کو وارڈ روب الائونس کی مد میں دی جانے والی خطیر رقم کے حوالے سے ہنوز غصہ پایا جارہا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتیں میدان میں آگئی ہیں۔