ملک کا سب سے بڑا شہر سرکاری ایمبولینس سروس سے محروم
مریضوں اور متوفیان کے لواحقین ایمبولینس اور میت گاڑیوں کیلیے مارے مارے پھرتے رہے
2 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر قائد سرکاری ایمبولینس سروس سے محروم ہے ،کراچی میں سرکاری سردخانے اور مردہ خانے بھی قائم نہیں کیے گئے ہیں، سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں 1122 ریسکیو ایمبولینس سروس متعارف کرائی تھی لیکن سروس کوغیر فعال کردیا گیااور گاڑیاں نامعلوم مقام پر پہنچا دی گئیں۔
کراچی کے عوام کے لیے 65سال گزرنے کے بعد بھی سرکاری سطح پرکوئی ایمبولینس سروس کی سہولت مہیا نہیں کی گئی، کراچی میں4دن سے شدیدگرمی میں ہیٹ اسٹروک اور ڈائریا سے ہونے والی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے، ہنگامی صورتحال میں حکومت مریضوں اور میتوں کو لانے اور لے جانے کیلیے کوئی بندوبست نہیں کرسکی۔
مریضوں اور متوفیان کے لواحقین ایمبولینس اور میت گاڑیوں کیلیے مارے مارے پھرتے رہے،فلاحی اداروں نے ہی مریضوں کوا سپتال پہنچایا جاں بحق ہونے والوں کے پیاروں نے ایمبولینس نہ ملنے کی صورت میں شہزور ٹرک اوردیگر گاڑیوں پر رکھ کر میتیں اپنے مقام پر پہنچائیں ، سندھ حکومت بے حسی کامظاہرہ ہی کرتی رہی،کراچی میں گزشتہ 4دن کے دوران ہیٹ اسٹروک اور ڈائریاکی وجہ سے ہزاروں افراد متاثرہ ہوئے اس دوران مریضوں کواسپتال لانے اور لے جانے کیلیے شہر میں موجود ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینسوں نے اپنی خدمات فراہم کیں لیکن اس دوران تجارتی بنیادوں پر چلائی جانے والی ایمبولینسوں نے متاثرہ مریضوں کومن مانی رقم کے عوض اسپتال پہنچارہے ہیں۔
گزشتہ 4دن کے دوران ہزاروں افراد ہیٹ اسٹروک اورڈائریا سے متاثرہوکر اسپتالوں میں پہنچے ہیں اس دوران شہر میں ایمبولینس کی شدید قلت پیدا ہوگئی، 4دن سے ہونے والی اموات نے سرکاری سطح پر سرد خانے ، مردہ خانے نہ ہونے کی وجہ سے لواحقین روزے میں نڈھال اور پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے رہے، کراچی میں ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن، الخدمت، امن فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروسزاپنا قومی فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔
فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں 24 گھنٹے مریضوں کو اسپتال پہنچانے اورلاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں، دوسری جانب اسپتالوں میں موجود ایمبولینس مبینہ طور پر اسپتال کے افسران کے استعمال ہیں،گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبادخاں نے ڈاؤ یونیورسٹی کوایمبولینس سروس شروع کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس اعلان پر کوئی عملدرآمدنہیں کیاجاسکا اس طرح کراچی میں عوام کیلیے آج تک سرکاری سطح پر ایمبولینس سروسز شروع ہی نہیں کی گئی جس کاخمیازہ عوام کو بگھتنا پڑرہا ہے۔
کراچی کے عوام کے لیے 65سال گزرنے کے بعد بھی سرکاری سطح پرکوئی ایمبولینس سروس کی سہولت مہیا نہیں کی گئی، کراچی میں4دن سے شدیدگرمی میں ہیٹ اسٹروک اور ڈائریا سے ہونے والی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے، ہنگامی صورتحال میں حکومت مریضوں اور میتوں کو لانے اور لے جانے کیلیے کوئی بندوبست نہیں کرسکی۔
مریضوں اور متوفیان کے لواحقین ایمبولینس اور میت گاڑیوں کیلیے مارے مارے پھرتے رہے،فلاحی اداروں نے ہی مریضوں کوا سپتال پہنچایا جاں بحق ہونے والوں کے پیاروں نے ایمبولینس نہ ملنے کی صورت میں شہزور ٹرک اوردیگر گاڑیوں پر رکھ کر میتیں اپنے مقام پر پہنچائیں ، سندھ حکومت بے حسی کامظاہرہ ہی کرتی رہی،کراچی میں گزشتہ 4دن کے دوران ہیٹ اسٹروک اور ڈائریاکی وجہ سے ہزاروں افراد متاثرہ ہوئے اس دوران مریضوں کواسپتال لانے اور لے جانے کیلیے شہر میں موجود ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینسوں نے اپنی خدمات فراہم کیں لیکن اس دوران تجارتی بنیادوں پر چلائی جانے والی ایمبولینسوں نے متاثرہ مریضوں کومن مانی رقم کے عوض اسپتال پہنچارہے ہیں۔
گزشتہ 4دن کے دوران ہزاروں افراد ہیٹ اسٹروک اورڈائریا سے متاثرہوکر اسپتالوں میں پہنچے ہیں اس دوران شہر میں ایمبولینس کی شدید قلت پیدا ہوگئی، 4دن سے ہونے والی اموات نے سرکاری سطح پر سرد خانے ، مردہ خانے نہ ہونے کی وجہ سے لواحقین روزے میں نڈھال اور پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے رہے، کراچی میں ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن، الخدمت، امن فاؤنڈیشن سمیت دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروسزاپنا قومی فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔
فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں 24 گھنٹے مریضوں کو اسپتال پہنچانے اورلاشیں اٹھانے میں مصروف ہیں، دوسری جانب اسپتالوں میں موجود ایمبولینس مبینہ طور پر اسپتال کے افسران کے استعمال ہیں،گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبادخاں نے ڈاؤ یونیورسٹی کوایمبولینس سروس شروع کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس اعلان پر کوئی عملدرآمدنہیں کیاجاسکا اس طرح کراچی میں عوام کیلیے آج تک سرکاری سطح پر ایمبولینس سروسز شروع ہی نہیں کی گئی جس کاخمیازہ عوام کو بگھتنا پڑرہا ہے۔