سو پھولوں کی مہم

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بھڑکنے کی آخر کیا وجہ تھی۔

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بھڑکنے کی آخر کیا وجہ تھی۔ پہلے تو کبھی انھوں نے اس طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کیا' یاد کیجیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے سندھ کے وزیر خزانہ مراد علی شاہ کو کیا تحریری نوٹ بھجوایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ ایپکس کمیٹی پٹڑی سے اترتی لگ رہی ہے کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے سندھ میں ہونے والی وسیع پیمانے کی کرپشن پر بڑی شدید تنقید کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کرپشن کا روپیہ دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔

اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے فوری طور پر جو سخت بیان دیا وہ انتہائی برموقع اور بر محل تھا جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان کی گاڑی پٹڑی پر استوار ہے نیز وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا بھر پور اثر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کرپشن اور منصوبہ بندی کے ذریعے کیے جانے والے جرائم اور دہشت گردی کے مابین باہمی ربط کو نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ دہشت گرد روپے پیسے اور لاجسٹک امداد کے بغیر کارروائیاں نہیں کر سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ منصوبہ بندی کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کے لیے منی لانڈرنگ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے اسلحہ اور گولہ بارود وغیرہ خریدے جاتے ہیں اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو بازار سے جا کر خریدی نہیں جا سکتیں علاوہ ازیں ان معاملات میں بہت سی خدمات یعنی سروسز کی بھی ضرورت ہوتی ہے مثلاً شناختی کاغذات کی تیاری' سفری دستاویزت کی تیاری' محفوظ ٹھکانے کا حصول' زخمی ہونے کی صورت میں طبی امداد' ذرایع رسل و رسائل اور مواصلات (موبائل' سمیں) مزید برآں ایسے حربے اختیار کیے جاتے ہیں جس سے مقامی پولیس کی توجہ کو بھٹکایا جا سکے۔

منظم جرائم کے لیے ان ساری چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فنڈز کی فراہمی بسا اوقات خیراتی اداروں کے ذریعے بھی کی جاتی ہے اور کبھی فنڈ اکٹھے کرنے کے لیے کوئی جعلسازی کی جاتی ہے شہریوں سے زبردستی رقوم وصول کی جاتی ہیں یہ کہہ کر کہ اس کے بدلے میں ان کی حفاظت کی جائے گی۔

رینجرز نے جس انداز سے کارروائی شروع کی تھی اس سے کرپٹ عناصر نے اپنے لیے خطرہ محسوس کیا۔ امیگریشن حکام کے پاس ایک سو سے زیادہ افراد کی فہرست تھی جن کو انھوں نے نظر میں رکھا ہوا تھا یہ وہ جرائم پیشہ افراد تھے جو کبھی ملک سے فرار ہو جاتے اور کبھی اعلیٰ عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا لیتے۔

بعض جرائم پیشہ عناصر احتساب سے بچنے کے لیے سیاسی جماعتوں کا سہارا لیتے لیکن جب آصف علی زرداری نے دھمکی دی اور جس انداز سے گفتگو کی وہ لہجہ درست نہیں تھا جس کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے ''اسپن ڈاکٹرز'' قمر الزمان کائرہ'' اور شیری رحمان نے رحمان ملک کی آواز میں آواز ملانی شروع کر دی حالانکہ رحمن ملک کی اپنی شخصی پوزیشن بھی اتنی صائب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان وضاحتوں کو ''ڈیمیج کنٹرول'' کا نام دیا گیا لیکن اس میں بھی انھیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی کسی کو ان کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔


یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ذوالفقار مرزا جو الزامات عائد کر رہے تھے آخر آصف علی زرداری کی طرف سے ان کی تردید کیوں نہیں آئی یا عذیر بلوچ' منظور کاکا' فیشن ماڈل ایان علی اور بے شمار دیگر خواتین و حضرات بھی انھی کی حمایت میں آنے والے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں سے کسی نے عذیر بلوچ کی یو اے ای سے حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا۔

جس کے خلاف وہاں قانونی چارہ جوئی جاری ہے آخر اسے پاکستان کیوں نہیں لایا جا رہا، بعض باوثوق ذرایع کے مطابق عذیر بلوچ نے خالد شہنشاہ سمیت بہت سے دیگر افراد کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔ آخر جو شخص لیاقت باغ میں محترمہ بینظیر بھٹو کی سیکیورٹی کا ذمے دار تھا جب کہ ان کو شہید کیا گیا تو اس سیکیورٹی والے کو جس نے قتل کیا اس کا پیپلز پارٹی سے کیا تعلق تھا؟

مبینہ کرپشن کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے قانونی کارروائی لازمی ہے اور ثبوت فراہم کرنے کی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے جو اپنے وسائل سے کہیں زیادہ ذرایع کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر وہ حلف اٹھانے کے بعد دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں تو پھر ان پر دہرا الزام عائد ہو جاتا ہے۔ ماضی میں زرداری کے خلاف جنہوں نے گواہی دی وہ بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہو گئے۔

آصف زرداری پاکستان کے صدر بن گئے یہ ملک کی تاریخ میں ایک نئی چیز تھی جس کے لیے آیندہ آنے والی نسلوں کو تاریخ کے مدوجزر سے حقیقت کو تلاش کرنا ہو گا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلمان فاروقی کا کیا بنا؟ اس پر کرپشن کے الزامات ہیں جس کو وفاقی محتسب بھی مقرر کر دیا گیا۔ زرداری صاحب کو علم ہے کہ اب سندھ کارڈ کی کامیابی پہلے جتنی یقینی نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جمہوریت کے نام پر ان سے سہارا چاہتے ہیں۔ تاہم نواز شریف کو مکمل اعتماد ہے کہ اب فوج جمہوری حکومت کا بستر گول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

ان کا بنیادی مقصد قومی سلامتی کا تحفظ ہے اور فوج جانتی ہے کہ فی الحال نواز شریف کا کوئی متبادل موجود نہیں گو کہ بعض لوگ ہر قیمت پر احتساب پر بضد ہیں خواہ اس کے لیے جمہوریت کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے اس حساب سے دیکھا جائے تو فوج کا اقتدار میں آنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے تاآنکہ نواز شریف آصف زرداری کے جھانسے میں نہ آ جائیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ نواز شریف خواجہ آصف اور پرویز رشید جیسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں جو کہ صورت حال بہتر بنانے کے بجائے الٹا اس کو خراب کر سکتے ہیں۔ زرداری نے جن کرپٹ فوجی افسروں کی طرف اشارہ کیا ہے اب یہ ضروری ہے کہ وہ ان کے ناموں کا اعلان کریں کیونکہ اس طرح وہ جنرل کیانی کو کئی سال تک بلیک میل کرتے رہے ہیں۔ آرمی کو اپنے راستے پر گامزن رہنا چاہیے کیونکہ وہ اگر چاہیں بھی تو مراجعت نہیں کر سکتے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنرل راحیل شریف کے چیف آف آرمی اسٹاف رہنے کی مدت میں صرف 18 مہینے باقی ہیں اور یہ کوئی تھوڑا وقت نہیں ہے۔

عوام کی اس بات پر حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی رائے کا برملا اظہار کر سکتے ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک سو پھول یک بارگی کھل اٹھیں۔ مائوزے تنگ نے 1956ء میں ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد مکمل آزادی کو فروغ دینا تھا لیکن جلد ہی یہ مہم منحرفین کو بے نقاب کرنے کا موجب بن گئی اور یوں تاریخ میں اس کا نام ایک سو پھولوں کی مہم بن گیا اب پاکستان کو بھی چاہیے کہ اپنے معاشرے میں سے کرپٹ لوگوں کو اسی قسم کی کسی تحریک کے ذریعے نکال باہر کرے۔
Load Next Story