بھارت اقوام متحدہ کو سیاسی بنانے کی کوشش کر رہا ہے ضرب عضب سے طالبان بکھر گئے پاکستان

بھارت جموں و کشمیر کے تنازعے سمیت سلامتی کونسل کی مختلف قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی کررہا ہے، ہفتہ وار بریفنگ

بی بی سی کی بھارت کی جانب سے ایم کیو ایم کو مبینہ مالی معاونت پر رپورٹ کا نوٹس لیا ہے، قاضی خلیل اللہ، فوٹو:فائل

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹیوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہا ہے اور جموں و کشمیر کے تنازعے سمیت مختلف قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی کررہا ہے جب کہ دوسری جانب سیکریٹری خارجہ کا کہنا ہےکہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں تاہم پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جنگجو تنظیم کا خطرہ موجود ہے۔





اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف حالیہ شکایات کا پابندیوں سے متعلق کمیٹی کے باقاعدہ اجلاسوں میں سے ایک اجلاس میں فنی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا اور کمیٹی نے بھارتی الزامات پر کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاکر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹیوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہا ہے جب کہ پاکستان ایسے اقدامات اور کوششوں کو مسترد کرتا ہے جس سے سلامتی کونسل کے فیصلوں پر کوئی سوال اٹھے کیونکہ پاکستان سلامتی کونسل کے فیصلوں کی حمایت اور پاسداری کرتا ہے جب کہ بھارت اس کی جموں و کشمیر تنازعے سمیت مختلف قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی کررہا ہے۔



ترجمان کا کہنا تھا کہ جہاں تک بھارت کی وزارت خارجہ کی جانب سے چین کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی کمیٹی میں بھارتی کوششوں کو بلاک کرنے کے اقدام پر بیان کا تعلق ہے تو یہ ایک تیکنیکی معاملہ ہے ،بھارتی بیان اور اس حوالے سے میڈیا رپورٹس افسوسناک ہیں اور ان کا مقصد ایک تیکنیکی معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی کا مقصد القائدہ سے لاحق خطرے کا تدارک کرنا ہے اور پاکستان اس حوالے سے اپنے فرائض بخوبی نبھا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر اقوام متحدہ کمیٹی کی پابندیوں پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں، بھارت کا خود یہ حال ہے کہ اس نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔






ترجمان نے کہا کہ بی بی سی کی بھارت کی جانب سے ایم کیو ایم کو مبینہ مالی معاونت پر رپورٹ کا نوٹس لیا ہے، متعلقہ ادارے اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں، کسی بھی ملک کی جانب سے دوسرے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کے امن کا دارومدار خطے کے ممالک کے امن و سلامتی پر ہے، ہم اچھی ہمسائیگی کی پالیسی پر کاربند ہیں اور ہمیں امید ہے اس مشن میں بھارت ہمارا ساتھ دے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے افغانستان کے خفیہ ادارے کی جانب سے آئی ایس آئی پر افغان پارلیمنٹ پر ہونے والے حالیہ حملے کی منصوبہ بندی کے الزام کو مسترد کردیا۔





قاضی خلیل اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کا خیر خواہ ملک ہے دونوں ممالک اعلیٰ سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں، افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے، ہم اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف تخریبی کاروائی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد حملے پاکستان میں بھی ہوئے ہیں، پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے افغان مفاہمتی عمل کی کامیابی کے لیئے سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلی ملاقات کروانے میں کردار ادا کیا تاہم اب جو دوسری ملاقات ہوگی اس کی تفصیل وغیرہ خود افغان ہی طے کر رہے ہیں

بھارت کی جانب سے جموں کے علاقے میں لائن آف کنٹرول کے پیچھے دیوار کی تعمیر سے متعلق سوال پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس معاملے پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں ان قراددادوں کے تحت اس علاقے میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جا سکتا جس سے زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے جب کہ بھارت کی جانب سے جامع مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا کوئی عندیہ نہیں ملا۔





دوسری جانب قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ داعش کو پاکستان میں آنے سے روکنے کے لئے حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے، ملک میں اس وقت داعش کا کوئی وجود نہیں تاہم پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی خطے میں داعش کا خطرہ موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کی رپورٹس ہیں اور افغان حکومت سے کہا ہے کہ داعش کو اپنی سرزمین پر آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گردی میں کافی کمی آئی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، امریکا کو میزائل پروگرام کی نوعیت پر خدشات تھے تاہم ان کے خدشات کو دور کردیا گیا ہے۔
Load Next Story