کبھی سوچا ہوتا تو یوں نہ ہوتا
خدا خدا کرکے رات ایک بجے بجلی صاحبہ تشریف لائیں تو جان میں جان آئی یوں سحری تک چند گھنٹے سو بھی لیے۔
اسلام آباد سے واپسی پرکراچی کے ہوائی اڈے سے جونہی قدم باہر رکھا لگا کہ جنت تو خیر نہیں البتہ مری سے اچانک جہنم رسید کردیے گئے ہیں، گاڑی میں بیٹھ کرکچھ سکون ہوا مگر گھر پہنچے تو بجلی غائب، یا اﷲ بس میں ہوتا تو رمضان اسلام آباد میں گزارکر آتے، وہاں تو لوڈشیڈنگ کا مسئلہ تھا نہ ہی موسم اس قدر گرم چاہے باہر گھومیے یا گھر میں رہیے چین ہی چین، بہر حال کچھ دیر تو یوپی ایس نے ساتھ دیا مغرب وعشا کی نماز سکون سے ادا ہوگئی مگر بے چارا یو پی ایس بھی کب تک ساتھ دیتا آخر ٹیرس پر کرسیاں ڈال کر بیٹھے رہے اور قیام اسلام آباد کو یاد کرتے رہے۔
خدا خدا کرکے رات ایک بجے بجلی صاحبہ تشریف لائیں تو جان میں جان آئی یوں سحری تک چند گھنٹے سو بھی لیے۔ نماز فجر و تلاوت کلام پاک سے فارغ ہوکر اخبار اٹھایا تو ایک اخبار کی شہ سرخی 180 افراد اور دوسرا 124 افراد کی گرمی اور لوڈشیڈنگ کے باعث اموات کی افسوسناک خبر دے رہی تھیں جب کہ اس تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی تھا جوکہ آینددہ دو روز میں 1000 اموات سے تجاوز کر گئی۔
کراچی میں موت کا رقص جاری ہے اور ہماری حکومت اور ذمے داران ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے خود بری الذمہ ہوکر گویا اپنے فرائض سے عہدہ برآں ہوگئے ہیں کیوں کہ کراچی کے شہری ان کی نظر میں وہ ہیں جن کے سر پہ سینگ نہیں ہوتے۔ مسائل اس وقت حل ہوتے ہیں جب ان کو حل کرنے کے لیے درست سمت کا تعین کیا جائے جب صورت حال یہ ہو کہ ''پاس نہیں دانے اماں چلیں بھنانے'' یعنی ملکی اقتصادی و معاشی صورت قابو میں نہ ہو مگر اربوں خرچ کرکے میٹرو بس کا منصوبہ ضرور پائے تکمیل تک پہنچ جائے۔
شاید میٹرو بس کے تحائف دیے جب کہ ان کے روٹ ہم سے زیادہ طویل سہولیات زیادہ مگر لاگت ہم سے کم رہی جب کہ ہمارا منصوبہ ابتدائی تخمینے سے کہیں آگے نکل گیا بچوں کی طرح ہمیں دلاسہ دیا گیا کہ اس تخمینے میں اسٹیشنز کی تعمیر شامل نہ تھی چہ خوب کیوں نہ تھی کیا میٹرو بس سرپٹ دوڑتی ہی رہتی؟ کہیں رکنا اور مسافر بٹھانا یا اتارنا اس کے پروگرام میں شامل نہ تھا؟ ہم نے اپنے ایک کالم میں دانشوروں کی تعریف یہ بیان کی تھی کہ دانشور وہ ہوتا ہے جس میں علم و آگاہی حالات کا تجزیہ اور واقعات پر تبصرہ کرنے کی اہلیت ہو نہ ہو مگر وہ کئی ایکڑ اراضی کا مالک (جاگیردار یا کسی بڑی صنعت یا قومی ادارے کا ایم ڈی یا کم از کم وزیر مملکت تو ضرور ہو۔
آپ سمجھ گے ہوں گے کہ منصوبہ سازوں میں کم لاگت منصوبے کو مقررہ لاگت سے کم از کم ڈھائی تین گنا اضافے میں مکمل کرنے کی صلاحیت کا ہونا کتنا ضروری ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک کم اہمیت کا منصوبہ مکمل بھی ہوجاتا ہے اور حکمران بھی خوش رہتے ہیں کہ اتنی رقم کا منافع انھیں ذاتی طور پر ہوجاتا ہے۔ رہ گئے عوام تو ان کے لیے پیٹ میں روٹی، سر پر سایہ اور پینے کو پانی ہونا چاہیے مگر یہ کوئی مسئلہ تو نہیں وہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے امراء کی پھینکی ہوئی غذائی اشیا چن کر بھی پیٹ بھرسکتے ہیں، رہ گیا سر پر سائے کا مسئلہ تو اس کے لیے ''ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں'' پینے کے لیے پانی یہ کون سا مشکل کام ہے؟ کتنے ہی ندی نالے موجود ہیں ذرا چند میل چل کر یہ اپنے لیے پانی بھی نہیں لاسکتے؟ ایک غریب قوم کو ایسے نخرے زیب نہیں دیتے یوں بھی غربا کا ذکر کیا ملک تو اشراف و امراء سے ہی چلتا ہے ۔
قومی اسمبلی کے فلور پر ان میں ایک صاحب فرماتے ہیں کہ کراچی میں لوگ لوڈ شیڈنگ یا پانی نہ ہونے سے نہیں گرمی کی شدت سے مر رہے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ گرمی میں اضافہ کیوں ہوا، اب اگر سر پر پنکھا چل رہا ہوتا، نہانے کے لیے نہ ہی پینے کو پانی ہوتا تو گرمی کی شدت اور اثرات میں کمی تو ہوسکتی تھی اتنی شدید گرمی میں مسلسل گھنٹوں کے لیے بجلی کا نہ ہونا، پانی دستیاب نہ ہونا، نتیجتاً برف، مشروبات کی قیمتیں آسمان پر پہنچنا کیا روزے داروں کی موت کا سامان مہیا کرنا نہیں، اتنی اموات کی اطلاع سن کر سوچ رہے ہیں کہ کیا دنیا کے کچھ علاقوں میں اس سے بھی زیادہ گرمی نہیں ہوتی؟ کراچی میں قیامت خیز گرمی جس کو موسمیاتی تبدیلی کہا جارہاہے مگر کوئی بھی دیگر عوامل پر غور کرنے کی زحمت نہیں کر رہا۔
گزشتہ پندرہ بیس سال میں جس قدر بلند و بالا عمارات کثرت سے تعمیر ہوئیں، پورے پاکستان بالخصوص پنجاب اور کے پی کے سے جس قدر لوگ آکر یہاں آباد ہوئے، حد تو یہ ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق لاکھوں افغان پناہ گزین بھی یہاں مقیم ہیں ۔کراچی کے وسائل پر جو بے انتہا بوجھ پڑا اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے وسائل میں اضافہ نہ ہونے کے برابر یہاں کے ترقیاتی منصوبوں کا جو حال ہے جو حکمرانوں کا طرز حکمرانی ٹھہرا کہ ہر مسئلے کا حل محض کاغذی کارروائی تک رقم مختص ہوگئی مگر کہاں گئی، ہوتا تو کچھ نظر آتا نہیں، تو یہ بجلی یا پانی کا بحران ایک دن میں سامنے نہیں آگیا۔
یہ تو آہستہ آہستہ اس منزل پر پہنچا اگر وقت سے پہلے کچھ کرلیا جاتا تو صورتحال اس قدر افسوسناک ہرگز نہ ہوتی مگر کرتا کون؟ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے حکمران عوام کے جان و مال کا محافظ اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے ان کے بارے میں جوابدہ ہوتا ہے مگر ہمارے حکمران حضوری کے دن کو فراموش کرچکے ہیں، دنیا میں تو الزام تراشی سے بچ جائیںگے مگر اس دن نہیں۔
کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا جس کی شامیں خوشگوار اور راتیں سدا بیدار رہتی تھیں جہاں آبادی کے لحاظ سے، ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی موجود تھا، لاہور والوں کی کراچی آکر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی تھیں اور ان کو کراچی لندن و پیرس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ اور صاف ستھرا لگتا مگر حاسدوں کو کراچی کا امن و سکون ادبی فضا پسند نہ تھی، ایک خاص منصوبے کے تحت ملک بھر سے تلاش روزگار کے بہانے گاڑیاں بلکہ بسیں بھر بھر کر لوگوں کو کراچی بھیجا جائے گا۔
آڑی ترچھی کچی بستیاں خود رو پودوں کی طرح وجود میں آنے لگیں جن کی تنگ گلیوں میں بنے کچے پکے مکانوں میں بجلی، گیس، پانی، سب کچھ موجود رہا یہ تمام سہولیات یہاں کے پرانے باسیوں کے حصے سے ہی لی گئیں ۔ حکومتی اداروں کے ضمیر فروش چند روپوں کی خاطر یہ سب کچھ ممکن بناتے رہے، وسائل بڑھانے کے منصوبوں پر کروڑوں کی خورد برد کرکے ان کو سبوتاژ کرتے رہے۔ اس وقت کسی با ضمیر صاحب اقتدار نے آنے والے حالات کے متعلق سوچنے کی زحمت کی نہ فکر، اگر کچھ لکھاریوں نے اپنے اندیشے کا اظہار کیا تو دولت کی ریل پیل میں انھیں کون خاطر میں لاتا؟ جب ہر شاخ پر الو بیٹھا ہو تو انجام گلستاں یہی ہوتاہے جو آج میٹروپولیٹن سٹی کراچی کا ہوا ہے۔
گزشتہ تقریباً25 سال سے ٹارگٹ کلنگ، پولیس مقابلوں، دہشت گردی، ڈکیتی کے علاوہ تھانوں میں تشدد سے تو روز اوسطاً پندرہ بیس مرتے ہی تھے پھر لاپتہ افراد جو نہ زندوں میں نہ مردوں میں تو اب اگر گرمی کے ساتھ بجلی اور پانی نہ ہونے سے ہزار سے اوپر اموات ہوگئیں توکیا ہوا آخر بڑھتی ہوئی آبادی پر کسی صورت تو قابو پایا جائے یوں بھی عوام کے دو ہی مصرف ہیں مرنا اور بچ گئے تو ووٹ دینا، خواب تو آنکھوں ہی میں دفن ہونے کے لیے ہوتے ہیں۔
خدا خدا کرکے رات ایک بجے بجلی صاحبہ تشریف لائیں تو جان میں جان آئی یوں سحری تک چند گھنٹے سو بھی لیے۔ نماز فجر و تلاوت کلام پاک سے فارغ ہوکر اخبار اٹھایا تو ایک اخبار کی شہ سرخی 180 افراد اور دوسرا 124 افراد کی گرمی اور لوڈشیڈنگ کے باعث اموات کی افسوسناک خبر دے رہی تھیں جب کہ اس تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی تھا جوکہ آینددہ دو روز میں 1000 اموات سے تجاوز کر گئی۔
کراچی میں موت کا رقص جاری ہے اور ہماری حکومت اور ذمے داران ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے خود بری الذمہ ہوکر گویا اپنے فرائض سے عہدہ برآں ہوگئے ہیں کیوں کہ کراچی کے شہری ان کی نظر میں وہ ہیں جن کے سر پہ سینگ نہیں ہوتے۔ مسائل اس وقت حل ہوتے ہیں جب ان کو حل کرنے کے لیے درست سمت کا تعین کیا جائے جب صورت حال یہ ہو کہ ''پاس نہیں دانے اماں چلیں بھنانے'' یعنی ملکی اقتصادی و معاشی صورت قابو میں نہ ہو مگر اربوں خرچ کرکے میٹرو بس کا منصوبہ ضرور پائے تکمیل تک پہنچ جائے۔
شاید میٹرو بس کے تحائف دیے جب کہ ان کے روٹ ہم سے زیادہ طویل سہولیات زیادہ مگر لاگت ہم سے کم رہی جب کہ ہمارا منصوبہ ابتدائی تخمینے سے کہیں آگے نکل گیا بچوں کی طرح ہمیں دلاسہ دیا گیا کہ اس تخمینے میں اسٹیشنز کی تعمیر شامل نہ تھی چہ خوب کیوں نہ تھی کیا میٹرو بس سرپٹ دوڑتی ہی رہتی؟ کہیں رکنا اور مسافر بٹھانا یا اتارنا اس کے پروگرام میں شامل نہ تھا؟ ہم نے اپنے ایک کالم میں دانشوروں کی تعریف یہ بیان کی تھی کہ دانشور وہ ہوتا ہے جس میں علم و آگاہی حالات کا تجزیہ اور واقعات پر تبصرہ کرنے کی اہلیت ہو نہ ہو مگر وہ کئی ایکڑ اراضی کا مالک (جاگیردار یا کسی بڑی صنعت یا قومی ادارے کا ایم ڈی یا کم از کم وزیر مملکت تو ضرور ہو۔
آپ سمجھ گے ہوں گے کہ منصوبہ سازوں میں کم لاگت منصوبے کو مقررہ لاگت سے کم از کم ڈھائی تین گنا اضافے میں مکمل کرنے کی صلاحیت کا ہونا کتنا ضروری ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک کم اہمیت کا منصوبہ مکمل بھی ہوجاتا ہے اور حکمران بھی خوش رہتے ہیں کہ اتنی رقم کا منافع انھیں ذاتی طور پر ہوجاتا ہے۔ رہ گئے عوام تو ان کے لیے پیٹ میں روٹی، سر پر سایہ اور پینے کو پانی ہونا چاہیے مگر یہ کوئی مسئلہ تو نہیں وہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے امراء کی پھینکی ہوئی غذائی اشیا چن کر بھی پیٹ بھرسکتے ہیں، رہ گیا سر پر سائے کا مسئلہ تو اس کے لیے ''ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں'' پینے کے لیے پانی یہ کون سا مشکل کام ہے؟ کتنے ہی ندی نالے موجود ہیں ذرا چند میل چل کر یہ اپنے لیے پانی بھی نہیں لاسکتے؟ ایک غریب قوم کو ایسے نخرے زیب نہیں دیتے یوں بھی غربا کا ذکر کیا ملک تو اشراف و امراء سے ہی چلتا ہے ۔
قومی اسمبلی کے فلور پر ان میں ایک صاحب فرماتے ہیں کہ کراچی میں لوگ لوڈ شیڈنگ یا پانی نہ ہونے سے نہیں گرمی کی شدت سے مر رہے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ گرمی میں اضافہ کیوں ہوا، اب اگر سر پر پنکھا چل رہا ہوتا، نہانے کے لیے نہ ہی پینے کو پانی ہوتا تو گرمی کی شدت اور اثرات میں کمی تو ہوسکتی تھی اتنی شدید گرمی میں مسلسل گھنٹوں کے لیے بجلی کا نہ ہونا، پانی دستیاب نہ ہونا، نتیجتاً برف، مشروبات کی قیمتیں آسمان پر پہنچنا کیا روزے داروں کی موت کا سامان مہیا کرنا نہیں، اتنی اموات کی اطلاع سن کر سوچ رہے ہیں کہ کیا دنیا کے کچھ علاقوں میں اس سے بھی زیادہ گرمی نہیں ہوتی؟ کراچی میں قیامت خیز گرمی جس کو موسمیاتی تبدیلی کہا جارہاہے مگر کوئی بھی دیگر عوامل پر غور کرنے کی زحمت نہیں کر رہا۔
گزشتہ پندرہ بیس سال میں جس قدر بلند و بالا عمارات کثرت سے تعمیر ہوئیں، پورے پاکستان بالخصوص پنجاب اور کے پی کے سے جس قدر لوگ آکر یہاں آباد ہوئے، حد تو یہ ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق لاکھوں افغان پناہ گزین بھی یہاں مقیم ہیں ۔کراچی کے وسائل پر جو بے انتہا بوجھ پڑا اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے وسائل میں اضافہ نہ ہونے کے برابر یہاں کے ترقیاتی منصوبوں کا جو حال ہے جو حکمرانوں کا طرز حکمرانی ٹھہرا کہ ہر مسئلے کا حل محض کاغذی کارروائی تک رقم مختص ہوگئی مگر کہاں گئی، ہوتا تو کچھ نظر آتا نہیں، تو یہ بجلی یا پانی کا بحران ایک دن میں سامنے نہیں آگیا۔
یہ تو آہستہ آہستہ اس منزل پر پہنچا اگر وقت سے پہلے کچھ کرلیا جاتا تو صورتحال اس قدر افسوسناک ہرگز نہ ہوتی مگر کرتا کون؟ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے حکمران عوام کے جان و مال کا محافظ اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے ان کے بارے میں جوابدہ ہوتا ہے مگر ہمارے حکمران حضوری کے دن کو فراموش کرچکے ہیں، دنیا میں تو الزام تراشی سے بچ جائیںگے مگر اس دن نہیں۔
کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا جس کی شامیں خوشگوار اور راتیں سدا بیدار رہتی تھیں جہاں آبادی کے لحاظ سے، ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی موجود تھا، لاہور والوں کی کراچی آکر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی تھیں اور ان کو کراچی لندن و پیرس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ اور صاف ستھرا لگتا مگر حاسدوں کو کراچی کا امن و سکون ادبی فضا پسند نہ تھی، ایک خاص منصوبے کے تحت ملک بھر سے تلاش روزگار کے بہانے گاڑیاں بلکہ بسیں بھر بھر کر لوگوں کو کراچی بھیجا جائے گا۔
آڑی ترچھی کچی بستیاں خود رو پودوں کی طرح وجود میں آنے لگیں جن کی تنگ گلیوں میں بنے کچے پکے مکانوں میں بجلی، گیس، پانی، سب کچھ موجود رہا یہ تمام سہولیات یہاں کے پرانے باسیوں کے حصے سے ہی لی گئیں ۔ حکومتی اداروں کے ضمیر فروش چند روپوں کی خاطر یہ سب کچھ ممکن بناتے رہے، وسائل بڑھانے کے منصوبوں پر کروڑوں کی خورد برد کرکے ان کو سبوتاژ کرتے رہے۔ اس وقت کسی با ضمیر صاحب اقتدار نے آنے والے حالات کے متعلق سوچنے کی زحمت کی نہ فکر، اگر کچھ لکھاریوں نے اپنے اندیشے کا اظہار کیا تو دولت کی ریل پیل میں انھیں کون خاطر میں لاتا؟ جب ہر شاخ پر الو بیٹھا ہو تو انجام گلستاں یہی ہوتاہے جو آج میٹروپولیٹن سٹی کراچی کا ہوا ہے۔
گزشتہ تقریباً25 سال سے ٹارگٹ کلنگ، پولیس مقابلوں، دہشت گردی، ڈکیتی کے علاوہ تھانوں میں تشدد سے تو روز اوسطاً پندرہ بیس مرتے ہی تھے پھر لاپتہ افراد جو نہ زندوں میں نہ مردوں میں تو اب اگر گرمی کے ساتھ بجلی اور پانی نہ ہونے سے ہزار سے اوپر اموات ہوگئیں توکیا ہوا آخر بڑھتی ہوئی آبادی پر کسی صورت تو قابو پایا جائے یوں بھی عوام کے دو ہی مصرف ہیں مرنا اور بچ گئے تو ووٹ دینا، خواب تو آنکھوں ہی میں دفن ہونے کے لیے ہوتے ہیں۔