فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
کچھ اسی طرح کے واقعات چند دنوں قبل پاکستان میں رونما ہوئے اور ایسا اکثر ہوتا آرہا ہے۔
زمین نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
کچھ اسی طرح کے واقعات چند دنوں قبل پاکستان میں رونما ہوئے اور ایسا اکثر ہوتا آرہا ہے۔ بدین ضلع کے گولارچی کے گاؤں نور محمد گنیر میں 6 بچوں کی 36 سالہ ماں بخو کوہلی اور 40 سالہ باپ کیول کوہلی نے غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ دوسرا واقعہ بھی 8 جون 2015 کو تھانہ چک جھمرہ کے علاقے چک نمبر 113 ج۔ب پھلائی میں غربت سے تنگ باپ نے اپنی ہی پھول جیسی 3 معصوم بچیوں کو گلہ دبا کر قتل کردیا۔ بچیوں کا باپ ارشاد عرف شادہ ایک نجی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ جسے دو ماہ قبل فیکٹری سے نکال دیا گیا تھا۔
جس کے باعث وہ غربت کے ہاتھوں تنگ تھا۔ ایک روز اس کی بیوی ایک بیٹی اور بیٹے کو لے کر شادی میں گئی ہوئی تھی اور گھر میں 7 سالہ جڑواں بہنیں امان، پشمان اور 5 سالہ فضا موجود تھی جو کپڑے نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے شادی میں نہ جاسکی۔
غربت سے تنگ باپ نے تینوں بچیوں کا گلا دبا کر قتل کردیا۔ اسی روز اسی اخبار میں یہ خبر چھپی کہ پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے کے تمام سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے پی ٹی سی کے تحت 10 ارب روپے کی خطیر رقم جاری کی گئی مگر مناسب طریقہ کار نہ ہونے کے باعث یہ رقم بندربانٹ کی نذر ہوگئی۔ اس بارے میں ایک ماہ تک محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران نے تفصیلات فراہم کرنے سے مکمل طور پر انکار کردیا۔
اسکول میں قائم پیرنٹ ٹیچر کونسلر (پی ٹی سی) جوکہ آڈٹ سے مستثنیٰ اکاؤنٹ ہیڈ ہے، میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم تمام اضلاع کے بوائز اینڈ گرلز ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران کو جاری کیے۔
جس کے ذریعے ہر ضلع کو اسکولوں کے حساب سے 40 سے 45 کروڑ روپے حصے میں ملے۔ ضلعی افسران نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بندربانٹ کا سلسلہ جاری رکھا۔ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران نے بھی اس خطیر رقم کو جاری کرکے پلٹ کر پوچھنا تک گوارا نہیں کیا جب کہ ضلعی افسران نے آڈٹ سے مستثنیٰ ہیڈ میں اتنی بڑی رقم پر بریک تک نہیں لگائی اور دوسری جانب بھوک سے تنگ آکر اکتا کر مرجانے والوں کو کوئی پلٹ کے نہیں پوچھتا کہ یہ کیوں مرے؟ کیا 10 ارب روپے کی بندربانٹ کرنے والے ان ہی کے قاتل تھے؟ جی ہاں! آج سے 150 برس قبل کارل مارکس نے ''سرمایہ'' کی جلد اول میں کہا تھا کہ جوں جوں سرمایہ ایک جانب مرکوز ہوگا تو دوسری جانب افلاس زدہ عوام کی فوج۔'' یہ تو رہا ایک واقعہ جس سے دل دہل جاتا ہے۔
مگر ایسے واقعات تو روز ہی کہیں نہ کہیں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایک شخص زمین پر پاؤں نہ رکھتا ہو، سارا دن ایئرکنڈیشن روم میں ہی گزر جائے جب کہ دوسری جانب تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں صرف چند دنوں کی گرمیوں میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان اور ملوں میں مزدوری کرتے ہوئے 2200 محنت کش لقمہ اجل بن جائیں۔ پاکستان میں شہر کراچی کلفٹن میں بالوں میں رنگ کرانے کا 15000 روپے، بال کٹوانے کا 1500 اور شیو بنوانے کا 500 روپے اور دلہن بنوانے کا ڈیڑھ لاکھ روپے تک دیے جاتے ہوں اور دوسری جانب معمولی اچھے کپڑے نہ ہونے کے سبب بچیاں شادی میں شریک نہ ہوپاتی ہوں اور باپ ان کی اس سادی سی سہولت فراہم نہ کرپانے پر اپنے پر ملامت آتا ہو اور بچیوں کا گلا دبا کر قتل کردیتا ہو۔
ایک جانب پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کا سالانہ اخراجات 84 کروڑ 20 لاکھ روپے اور اگر غیر ملکی دوروں کو جوڑ لیا جائے تو ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں تو دوسری جانب صرف تھرپارکر، فیصل آباد اور سرگودھا میں 2014 میں تقریباً سات ہزار بچے عدم علاج اور غذائی قلت کی وجہ سے جان سے جاتے رہے۔ واہ رے! پاکستان!
وطن عزیز کی سلامتی، نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی خدمت ۔ اس کا چرچا ہے۔ اب تو ایسی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس لیے بھی کہ بجٹ آنے سے قبل ہی آئی ایم ایف نے حکومت سے کہہ دیا تھا کہ عوام پر ٹیکس لگا کر قرضے اور سود ادا کرنا ہے ورنہ آینددہ قرضے نہیں ملیں گے۔ جب کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جرنیلوں، علمائے سو، سول نوکر شاہی، ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگانا ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد جب اس کے خلاف عوام کا شدید ردعمل آیا تو جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ ہم نے دال، آٹا، چینی، بجلی، دودھ اور گوشت پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا ہے اور نہ ان کی قیمتیں بڑھائی ہیں۔ جھوٹ ایسا ہو کہ جو سر چڑھ کر بولے۔
دالیں اس وقت 150 روپے کلو سے 200 روپے تک، آٹا چکی کا 46 روپے کلو، چینی 55 روپے کلو تھی اب 60 روپے کلو، بجلی چوری کرنے پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور اس پر کروڑوں روپے کے اشتہار بھی دیے جاتے ہیں۔ لیکن غریبوں کے لیے بجلی سستی نہیں ہوتی۔ جب کہ کے الیکٹرک نے جتنے پیسوں میں کے الیکٹرک کو خریدا تھا وہ پیسے تو سال اول میں ہی وصول کر لیے۔ لوڈ شیڈنگ اس وقت کے ای ایس سی نہیں کرتی تھی جب سرکاری ملکیت میں تھی۔ اب 12 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور بلنگ 24 گھنٹے کی ہوتی ہے۔ کے الیکٹرک اثاثوں کے عوض عالمی اداروں سے اربوں ڈالر امداد اور قرض لے چکی ہے۔کے الیکٹرک کی ہزاروں ایکڑ زمینیں عمارتوں اور آلات کو مارگیج رکھ کر قرضے لیے گئے۔
اور عوام سے بوگس بلنگ کے ذریعے رقم گھسیٹی جاتی ہے۔ کے الیکٹرک سے ہزاروں محنت کشوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ نجی ملکیت میں دینے سے قبل جہاں 500 روپے بل آتے تھے وہاں اب دو سے ڈھائی ہزار روپے بل آتے ہیں۔ دودھ اس وقت 84 روپے کلو (وہ بھی 50 فیصد پانی والا) مرغی کا گوشت 280 روپے اور گائے کا 400روپے کلو بازار میں فروخت ہو رہا ہے۔ وزراء خود تو سودا خریدتے نہیں، اس لیے انھیں نہیں پتہ کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے۔
پاکستان میں خودکشیاں ہر سال ہزاروں میں ہوتی ہیں۔ جن میں بیشتر خودکشیاں بے روزگاری، معاشی تنگی، فاقہ کشی، نیم فاقہ کشی اور بھوک سے ہوتی ہیں۔ دوسری جانب سڑکوں پہ دوڑتی ہوئی کروڑوں روپے کی گاڑیاں، کروڑوں کے مکانات، لاکھوں روپے کے کپڑے اور جوتے اور لاکھوں روپے کتے بلیوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس لوٹ کے طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے لیے ایسی عالمی انقلابی تحریک کو ابھارنا ہے جو آگے چل کر ملکیت، سرحدیں، اسلحے، جنگیں، عقیدے، کاروکاری، اور ملکوں کے تصور کو ختم کر دے گا۔ دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔ سب مل کر کام کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ کوئی کھرب پتی ہوگا، خودکشی کرے گا اور نہ اپنے ہی بچوں کو قتل کرے گا۔
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
کچھ اسی طرح کے واقعات چند دنوں قبل پاکستان میں رونما ہوئے اور ایسا اکثر ہوتا آرہا ہے۔ بدین ضلع کے گولارچی کے گاؤں نور محمد گنیر میں 6 بچوں کی 36 سالہ ماں بخو کوہلی اور 40 سالہ باپ کیول کوہلی نے غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ دوسرا واقعہ بھی 8 جون 2015 کو تھانہ چک جھمرہ کے علاقے چک نمبر 113 ج۔ب پھلائی میں غربت سے تنگ باپ نے اپنی ہی پھول جیسی 3 معصوم بچیوں کو گلہ دبا کر قتل کردیا۔ بچیوں کا باپ ارشاد عرف شادہ ایک نجی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ جسے دو ماہ قبل فیکٹری سے نکال دیا گیا تھا۔
جس کے باعث وہ غربت کے ہاتھوں تنگ تھا۔ ایک روز اس کی بیوی ایک بیٹی اور بیٹے کو لے کر شادی میں گئی ہوئی تھی اور گھر میں 7 سالہ جڑواں بہنیں امان، پشمان اور 5 سالہ فضا موجود تھی جو کپڑے نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے شادی میں نہ جاسکی۔
غربت سے تنگ باپ نے تینوں بچیوں کا گلا دبا کر قتل کردیا۔ اسی روز اسی اخبار میں یہ خبر چھپی کہ پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے کے تمام سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے پی ٹی سی کے تحت 10 ارب روپے کی خطیر رقم جاری کی گئی مگر مناسب طریقہ کار نہ ہونے کے باعث یہ رقم بندربانٹ کی نذر ہوگئی۔ اس بارے میں ایک ماہ تک محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران نے تفصیلات فراہم کرنے سے مکمل طور پر انکار کردیا۔
اسکول میں قائم پیرنٹ ٹیچر کونسلر (پی ٹی سی) جوکہ آڈٹ سے مستثنیٰ اکاؤنٹ ہیڈ ہے، میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم تمام اضلاع کے بوائز اینڈ گرلز ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران کو جاری کیے۔
جس کے ذریعے ہر ضلع کو اسکولوں کے حساب سے 40 سے 45 کروڑ روپے حصے میں ملے۔ ضلعی افسران نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بندربانٹ کا سلسلہ جاری رکھا۔ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران نے بھی اس خطیر رقم کو جاری کرکے پلٹ کر پوچھنا تک گوارا نہیں کیا جب کہ ضلعی افسران نے آڈٹ سے مستثنیٰ ہیڈ میں اتنی بڑی رقم پر بریک تک نہیں لگائی اور دوسری جانب بھوک سے تنگ آکر اکتا کر مرجانے والوں کو کوئی پلٹ کے نہیں پوچھتا کہ یہ کیوں مرے؟ کیا 10 ارب روپے کی بندربانٹ کرنے والے ان ہی کے قاتل تھے؟ جی ہاں! آج سے 150 برس قبل کارل مارکس نے ''سرمایہ'' کی جلد اول میں کہا تھا کہ جوں جوں سرمایہ ایک جانب مرکوز ہوگا تو دوسری جانب افلاس زدہ عوام کی فوج۔'' یہ تو رہا ایک واقعہ جس سے دل دہل جاتا ہے۔
مگر ایسے واقعات تو روز ہی کہیں نہ کہیں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایک شخص زمین پر پاؤں نہ رکھتا ہو، سارا دن ایئرکنڈیشن روم میں ہی گزر جائے جب کہ دوسری جانب تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں صرف چند دنوں کی گرمیوں میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان اور ملوں میں مزدوری کرتے ہوئے 2200 محنت کش لقمہ اجل بن جائیں۔ پاکستان میں شہر کراچی کلفٹن میں بالوں میں رنگ کرانے کا 15000 روپے، بال کٹوانے کا 1500 اور شیو بنوانے کا 500 روپے اور دلہن بنوانے کا ڈیڑھ لاکھ روپے تک دیے جاتے ہوں اور دوسری جانب معمولی اچھے کپڑے نہ ہونے کے سبب بچیاں شادی میں شریک نہ ہوپاتی ہوں اور باپ ان کی اس سادی سی سہولت فراہم نہ کرپانے پر اپنے پر ملامت آتا ہو اور بچیوں کا گلا دبا کر قتل کردیتا ہو۔
ایک جانب پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کا سالانہ اخراجات 84 کروڑ 20 لاکھ روپے اور اگر غیر ملکی دوروں کو جوڑ لیا جائے تو ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں تو دوسری جانب صرف تھرپارکر، فیصل آباد اور سرگودھا میں 2014 میں تقریباً سات ہزار بچے عدم علاج اور غذائی قلت کی وجہ سے جان سے جاتے رہے۔ واہ رے! پاکستان!
وطن عزیز کی سلامتی، نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی خدمت ۔ اس کا چرچا ہے۔ اب تو ایسی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس لیے بھی کہ بجٹ آنے سے قبل ہی آئی ایم ایف نے حکومت سے کہہ دیا تھا کہ عوام پر ٹیکس لگا کر قرضے اور سود ادا کرنا ہے ورنہ آینددہ قرضے نہیں ملیں گے۔ جب کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جرنیلوں، علمائے سو، سول نوکر شاہی، ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگانا ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد جب اس کے خلاف عوام کا شدید ردعمل آیا تو جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ ہم نے دال، آٹا، چینی، بجلی، دودھ اور گوشت پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا ہے اور نہ ان کی قیمتیں بڑھائی ہیں۔ جھوٹ ایسا ہو کہ جو سر چڑھ کر بولے۔
دالیں اس وقت 150 روپے کلو سے 200 روپے تک، آٹا چکی کا 46 روپے کلو، چینی 55 روپے کلو تھی اب 60 روپے کلو، بجلی چوری کرنے پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور اس پر کروڑوں روپے کے اشتہار بھی دیے جاتے ہیں۔ لیکن غریبوں کے لیے بجلی سستی نہیں ہوتی۔ جب کہ کے الیکٹرک نے جتنے پیسوں میں کے الیکٹرک کو خریدا تھا وہ پیسے تو سال اول میں ہی وصول کر لیے۔ لوڈ شیڈنگ اس وقت کے ای ایس سی نہیں کرتی تھی جب سرکاری ملکیت میں تھی۔ اب 12 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور بلنگ 24 گھنٹے کی ہوتی ہے۔ کے الیکٹرک اثاثوں کے عوض عالمی اداروں سے اربوں ڈالر امداد اور قرض لے چکی ہے۔کے الیکٹرک کی ہزاروں ایکڑ زمینیں عمارتوں اور آلات کو مارگیج رکھ کر قرضے لیے گئے۔
اور عوام سے بوگس بلنگ کے ذریعے رقم گھسیٹی جاتی ہے۔ کے الیکٹرک سے ہزاروں محنت کشوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ نجی ملکیت میں دینے سے قبل جہاں 500 روپے بل آتے تھے وہاں اب دو سے ڈھائی ہزار روپے بل آتے ہیں۔ دودھ اس وقت 84 روپے کلو (وہ بھی 50 فیصد پانی والا) مرغی کا گوشت 280 روپے اور گائے کا 400روپے کلو بازار میں فروخت ہو رہا ہے۔ وزراء خود تو سودا خریدتے نہیں، اس لیے انھیں نہیں پتہ کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے۔
پاکستان میں خودکشیاں ہر سال ہزاروں میں ہوتی ہیں۔ جن میں بیشتر خودکشیاں بے روزگاری، معاشی تنگی، فاقہ کشی، نیم فاقہ کشی اور بھوک سے ہوتی ہیں۔ دوسری جانب سڑکوں پہ دوڑتی ہوئی کروڑوں روپے کی گاڑیاں، کروڑوں کے مکانات، لاکھوں روپے کے کپڑے اور جوتے اور لاکھوں روپے کتے بلیوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس لوٹ کے طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے لیے ایسی عالمی انقلابی تحریک کو ابھارنا ہے جو آگے چل کر ملکیت، سرحدیں، اسلحے، جنگیں، عقیدے، کاروکاری، اور ملکوں کے تصور کو ختم کر دے گا۔ دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔ سب مل کر کام کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ کوئی کھرب پتی ہوگا، خودکشی کرے گا اور نہ اپنے ہی بچوں کو قتل کرے گا۔