پڑوسیوں کے حقوق اپنی بستیوں کو امن کا گہوارہ کیسے بنائیں

’’وہ شخص مومن نہیں، جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو‘‘

ہم پڑوسیوں کے بارے میں اسلام کی روشن اور عظیم تعلیمات پر عمل کرکے معاشرے کو بھائی چارے اور امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہم اپنے پڑوس میں رہنے والوں سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ اس کے لیے عام طور پر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ زندگی کی مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہمیں اپنا ہوش نہیں تو پھر پڑوس کس گنتی میں ہے؟

بڑے مکانات میں تو لوگ اپنے گھروں سے سواریوں میں سوار ہوکر اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں، مگر اپارٹمنٹس اور فلیٹوں میں بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ پڑوسی سے منہ پھیر کر یا نظریں چرا کر نکل جاتے ہیں۔ غریب بستیوں میں صورت حال مختلف ہے، وہاں پڑوسیوں سے واقفیت اور ایک حد تک میل جول ہے۔ مگر وہاں پڑوسیوں سے لڑائی جھگڑے روز کا معمول ہیں۔

ہم نے اس بات پر کبھی غور ہی نہیں کیا کہ اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ کیوںکہ اسلام نے پڑوسیوں کو اتنا بلند مقام دیا ہے کہ اس سے پہلے کسی شریعت میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ قرآن حکیم کی سورہ نساء میں ارشاد ہوا: ترجمہ، '' اور تم سب اﷲ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور رشتے دار پڑوسی سے، اجنبی ہمسایے سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو''۔

اسی طرح متعدد احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشادِ عالی ہے کہ مجھے جبرائیل ؑ برابر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنے کی وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ میں یہ گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وراثت کا مستحق قرار دے دیں گے۔ (بخاری)

سرکار دوعالم ﷺ نے اپنے تاریخی خطبہ حجتہ الوداع میں پڑوسی کے بارے میں بھی وصیت فرمائی اور اس کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیا۔ حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ حجتہ الوداع میں رسول اﷲ ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس حالت میں میں نے آپؐ کو فرماتے سناکہ '' لوگو! میں تمہیں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں''۔ آپؐ نے یہ اتنی بار اور اتنا زور دے کر فرمایا کہ میں سمجھنے لگا کہ آپؐ پڑوسیوں کو وراثت میں حق دار قرار دے دیں گے۔ (ترمذی)

ایک اور موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ جو شخص اﷲ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ جو شخص اﷲ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ خیر کے کلمات زبان سے نکالے ، ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری)

پڑوسیوں کے دکھ درد کا خیال رکھنا اور اپنی طرف سے پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے کسی رویے سے کسی پڑوسی کو کسی قسم کا نقصان اور اذیت نہ پہنچے۔ کبھی کبھی پڑوسیوں میں کھانا بطور تحفہ بھیجنا، اگر کوئی بیمار پڑجائے تو اسے اسپتال پہنچانا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہیے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوذر! جب تم شوربے والی کوئی چیز پکاؤ تو اس میں شوربا زیادہ کردو، پھر اپنے پڑوس میں رہنے والوں کو دیکھو اور اس میں سے انہیں بھلائی کے ساتھ دو۔ (مسلم)


ایک اور موقع پر آقا ﷺ نے فرمایا کہ اپنے پڑوسی کو اپنی ہانڈی کی خوش بو سے تکلیف نہ پہنچاؤ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جو سیر ہوکر کھائے اور اس کی بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو اور اسے معلوم بھی ہو۔ (طبرانی)

آپؐ کا ارشاد ہے کہ اﷲ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، اﷲ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، اﷲ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، پوچھا گیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ کون شخص؟ فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔

اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے پڑوسیوں پر ایک دوسرے کی خواتین کی عزت آبرو کے تحفظ اور ان کے احترام کی تعلیم دی ہے۔ تاکہ خواتین اپنے محلوں میں محفوظ اور سکون سے رہ سکیں۔ ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ ؓ سے زنا سے متعلق سوال کیا۔ صحابہ ؓ نے عرض کی کہ حرام ہے کیوںکہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ آدمی دس عورتوں کے ساتھ زنا کرلے، یہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپؐ نے ان سے چوری کے بارے میں دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کی کہ یہ حرام ہے، اﷲ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ آدمی دس گھروں سے چوری کرلے، یہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرے۔ (مسند احمد)

ایک حدیث میں حضرت جابرؓ اور دیگر صحابہؓ سے مروی ہے کہ کسی نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ مجھ پر میرے پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، جب تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو اور جب کسی چیز کا ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرو، جب اسے کوئی خیر حاصل ہو تو اسے مبارک باد دو اور جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اس سے تعزیت کرو۔ بغیر اس کی اجازت کے اپنی عمارت اونچی نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے۔

اپنی ہانڈی کی خوش بو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ الا یہ کہ اس میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ اگر کبھی پھل خریدو تو اسے بھی ہدیہ کرو۔ اگر ایسا کرنے کی حالت نہیں ہو تو خاموشی سے گھر لے جاؤ اور احتیاط کرو کہ تمھارا بچہ اسے لے کر باہر نہ نکلے کہ اس کے بچے بھی اس کی ضد کرنے لگیں۔ (طبرانی)

یہ ہیں پڑوسیوں کے بارے میں اسلام کی روشن اور عظیم تعلیمات جن پر عمل کرکے کہ ہم اپنے محلّے، بستیوں اور شہروں کو محبت، بھائی چارے اور امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ کاش، ان تعلیماتِ عالیہ کو عقیدت سے پڑھنے کے بجائے ان پر عمل کرلیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
Load Next Story