شمس و قمر اور ماہِ صیام

جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، جون، جولائی،اگست،ستمبر، اکتوبر، نومبر اور آخری مہینہ دسمبر یعنی یہ بات ثابت ہو چکی ہے

امت مسلمہ کے لیے ہجری، ہلالی اور قمری سال 1436 کا الحمدللہ آغاز کربلائی یا حسینی مہینہ (سبطِ رسولﷺ) محرم سے ہو چکا ہے، جو یقینا اسلامی تاریخ کے اعتبار سے غمناک ضرور ہے۔ یہ سال چاند کے مہینوں کے مطابق اور اعداد و شمار کے لحاظ سے 354 ایام پر مشتمل ہے۔ نمایاں مہینوں میں بالترتیب محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی (ربیع الآخر) جمادی الاول، جمادی الثانی (جمادی الآخر)، رجب المرجب (ماہِ معراج)، شعبان المعظم، رمضان المبارک (ماہِ صیام یا روزوں کا مہینہ)، شوال المکرم، ذیقعد اور ذی الحجہ (جس میں حج کی سعادت حاصل کی جاتی ہے)۔

اسی رشتے اور تعلق کے سبب مسلمانانِ عالم کا روحانی اور ابدی طرزِ حیات اسی قمری، ہجری اور ہلالی سال کے عین مطابق ہے۔ اسی لیے چاند کی زیارت کے لیے رویت ہلال کمیٹی کے قیام کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا گیا۔ ہجری، ہلالی اور قمری سال کے متوازی سال عیسوی ہے جس کو ہم شمسی سال کا نام بھی دیتے ہیں۔ عالمگیر سطح پر کائنات انسانی اپنی عملی زندگی کا شیڈول اسی شمسی سال سے طے کرتی ہے۔ عیسوی سال کو ہم شمسی سال اور دوسرے الفاظ میں سورج کا سال کہتے ہیں وہ اس لیے کہ اس کا شمار سورج کے گرد زمین کے ایک چکر مکمل کرنے سے ہے۔ یہ سال علم فلکیات کے اعداد و شمار کے حساب سے 365 ایام پر مشتمل ہے اور اس میں لیپ کے سال کا بھی شمار ہو جاتا ہے جو 366 ایام پر مشتمل ہے۔ شمسی سال کی عمر رفتہ، قمری سال کی طرح بارہ مہینے ہے جو بالترتیب یوں ہے۔

جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، جون، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر اور آخری مہینہ دسمبر یعنی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہماری زندگی شمس و قمر (سورج اور چاند) کے تابع ہے۔ درحقیقت عالم ِانسانیت سورج اور چاند کے گہرے رشتے سے جڑی ہوئی ہے اور پوری کائنات کی حقیقی اور دائمی حیات کا ہر لمحہ چاند اور سورج کی حرکات و سکنات پر ہے۔ سورج اور چاند کا انسانی زندگی سے تعلق لازم و ملزوم ہے۔ سورج اور چاند کو دوسری اصطلاح میں دن رات یا شب و روز کہیں گے۔ آپ نے شاید غور کیا ہو کہ ہمارے قومی سبز ہلالی پرچم کے وسطی حصے میں جو چاند ستارہ ہے وہ بھی اسی شمس و قمر کی ہی نشاندہی اور اس امر کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ جب تک سورج اور چاند رہے گا اے مملکتِ خداداد تیرا وجود بھی دنیا کے نقشے پر قائم رہے گا۔

ہجری، ہلالی اور قمری سال1436 کا نواں مہینہ رمضان المبارک (ماہِ صیام) کا آغاز الحمدللہ جمعے کے مبارک دن سے ہو چکا ہے اور اس مہینہ کے صدقے ''رحمت'' کا پہلا عشرہ کی برکات کی بارش کے علاوہ اس کے ثمرات سے مسلمانان عالم روحانی طور پر فیض یاب ہو رہے ہیں۔ حکم الٰہی ہے کہ رمضان کے چاند کی زیارت کرو تو دونوں ہاتھ اٹھا کر چاند کے رخ سورۃ محمد کی تلاو ت کرو یا اہل و عیال یا کسی بزرگ کا چہرہ دیکھو۔ اس ماہِ مقدس کی فوقیت و اہمیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں افضل ترین اسلامی صحیفہ ''قرآن مجید'' کا نزول ہوا۔ اس کے علاوہ الہامی کتب توریت، انجیل اور زبور بھی نازل ہوئیں۔ دو ہجری کے بدر کا غزوہ/ معرکہ میں شاندار فتح اسی مقدس مہینے میں نصیب ہوئی۔ شب قدر کی فضیلتیں اسی ماہِ صیام میں رونما ہوئیں۔ نفل نمازیں جنھیں تراویح کہا جاتا ہے اسی ماہ میں شروع ہوئیں (تراویح کے لفظی معنی راحت دینے کے ہیں) چونکہ اس نماز کی ہر چار رکعت کے بعد آرام کا وقفہ ہوتا ہے اس لیے اس نماز کو تراویح کا نام دیا گیا ہے۔


روزہ تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے استغفار کا اہم طریقہ اور جہنم سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا اور پرہیزگاری کو پروان چڑھانا ہے۔ یوں تو عبادتوں اور ریاضتوں کا آغاز ماہِ رجب المرجب اور شعبان المعظم سے ہی ہو جاتا ہے جن کو استقبال رمضان کا نام دیا جاتا ہے، ان ھی روحانیت سے بھرے خزانے سے اللہ رب العزت اور رب ذوالجلال کی بارگاہ سے جو بھی دعائیں اور دلی حاجات مانگی جائیں گی وہ ان شاء اللہ پوری ہوں گی۔

جہاں ہم حقوق اللہ کی باتیں کرتے نہیں تھکتے وہاں ہمیں حقوق العبادکی مکمل اور بروقت ادائیگی کو کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ دونوں کی بہ یک وقت ادائیگی عین صراطِ مستقیم اور دنیا و آخرت کے تصور کی بھرپور تسکین ہے مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اسلامی جوہر ی قلعہ میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بے دریغ اضافہ کسی ایٹم بم کے خوف ناک دھماکے سے کم نہیں۔ بالخصوص ایسے موقعے پر جب عبادتوں، ریاضتوں اور استغفار کے روحانی مہینے کا آغاز ہو چکا ہو۔ موسموں میں تغیرات سب کے سب قدرت کی طرف سے ہیں جس میں کسی قسم کا انسانی ہاتھ کارفرما ہو ہی نہیں سکتا لیکن با اختیار انسانی ہاتھوں کا معصوم انسانوں پر ظلم کس مذہب اور دین نے سکھایا ہے۔ غور طلب بات ہے۔ اسلام تو قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا۔ موسم گرما کیا آیا گویا دہکتے ہوئے آگ کے شعلوں نے خلق خدا پر قیامت صغرا برپا کر دی۔ آگ کے شعلوں نے فضا کو آلودہ، حبس، لُو سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے صرف کراچی میں ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔

گرمی کی انتہائی شدت اور پنکھوں سے نکلنے والی گرم ہوائوں نے جہاں انسانی بدن پگھلا کر رکھ دیا ہے وہاں پانی کے نلکوں سے کھولا ہوا گیزر نما پانی کی آمد نے گھر کی ہر شے کو بری طرح سے گرما کر رکھ دیا۔

کراچی کی تاریخ میں ایسا موقع پہلی بار آیا کہ اس قدر شدید گرمی کی شکل میں آگ برسی ہے۔ گرمی کی آگ اور دھوپ کی تپش سے پیدا ہونے والی گرم لُو سے بچائو کا واحد طریقہ بجلی اور پانی کی وافر مقدار میں بروقت فراہمی ہے۔ پنکھوں سے گرم مرطوب ہوا کے اخراج نے انسان کی چربی تک پگھلا دی ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالموں میں بارہا اس چیز کا عندیہ دیا اور ان ناگہانی خطرات سے وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہے ہیں کہ ملک میں بجلی کے نظام کو سنجیدگی سے لیا جائے، بالخصوص کراچی الیکٹرک کو وفاقی حکومت جلد از جلد ٹیک اوور کرے تا کہ صارفین کراچی الیکٹرک کی لوٹ مار اور ظلم و ستم سے محفوظ رہ سکیں۔
Load Next Story