آسائش بھری زندگی تج کرجہادی بننے والا کشمیر کا ’’موسٹ وانٹڈ‘‘مجاہد
بھارت کے حکمران طبقے کی ناک میں دم کر دینے والے کشمیری حریت پسند رہنما کا سبق آموز قصۂ حیات
KARACHI:
یہ اندرون سری نگر،مقبوضہ کشمیر کا زندار محلہ ہے جہاں کئی صدیوں سے کشمیری خاندان آباد ہیں۔ آج علاقے کے ایک دو منزلہ مکان میں بڑی رونق ہے۔ اجلے لباس میں ملبوس لوگ آ جا رہے ہیں۔ گھر کی نچلی بیٹھک میں مرد ٹولیوں کی صورت بیٹھے محو گفتگو ہیں۔ ان کے چہرے خوشی و مسّرت سے دمکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ کشمیری چائے کا دور بھی چل رہاہے۔
دراصل آج مسرت عالم ساڑھے چار برس جیل میں گزار کر گھر واپس آئے ہیں۔ اب وہ عزیز واقارب اور دوستوں کے درمیان دولہا بنے بیٹھے ہیں۔ جب بھی کوئی نیا مہمان آئے' وہ فوراً اٹھتے اور محبت و انکسار سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔مہمانوں میں ایک بھارتی اخبار کا ہندو رپورٹربھی شامل ہے۔ وہ مسرت عالم سے انٹرویولینے آیا جن کی مارچ 2015 ء میں رہائی نے بھارت میں ہنگامہ کھڑا کر رکھا تھا۔ دوران انٹرویو اس نے سوال کیا'': آپ کو یہ نہیں لگتا کہ اب ہڑتال کا ہتھیار بے اثر ہو چکا؟''
مسرت عالم کچھ خاموش سے ہو گئے۔ پھر اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا اور گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے بولے''ایک مظلوم قوم اس کے سوا کر بھی کیا سکتی ہے؟''
جواب سن کر کمرے میں ایسی خاموشی چھا گئی کہ سوئی بھی گرتی' تو آواز آتی۔ وہاں بیٹھے کشمیریوں کے چہرے غم و غصے کے جذبے سے چمکنے لگے۔ عالم پھر گویا ہوئے ''ہم جانتے ہیں کہ ہڑتال سے عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مگر منزل طشتری میں رکھی نہیں ملتی' اسے پانے کی خاطر کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ '' یہ کہہ کر وہ گنگانے لگے۔ تب ان کی آنکھوں سے پانی چھلک رہا تھا اور چہرے پر عزم وہمت کی تابانی تھی:
''جنون سے اور عشق سے... ملتی ہے آزادی
قربانی کی بانہوں میں... ملتی ہے آزادی''
لیڈروں کی نئی پود
مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمان دو سو برس ہوئے، آزادی کی بے مثال نعمت سے محروم ہیں۔ پہلے سکھ اور پھر ہندو ڈوگرا ان پر حکمرانی کرتے رہے۔ 1947ء سے ان پر بھارتی حکمران طبقے کے کٹھ پتلی حکمران حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔ پچھلے اڑسٹھ برس میں حکمران کشمیری طبقہ تو امیر کبیر ہوگیا مگر بیچارے عوام کی حالت نہیں بدل سکی۔ ان کا معیار زندگی ایسے حکمران ہی بدل سکتے ہیں جن کے پاس حقیقی طاقت و اختیار ہو... اور یہ کرشمہ آزادیِ کشمیر کی صورت ہی ظاہر ہوگا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہدِ آزادی کا علم ڈگمگانے نہیں پایا اور اب اسے لیڈروں کی نئی پود نے سنبھال لیا ہے۔ ان میں سے بعض رہنما مقبوضہ کشمیر کی مکمل آزادی چاہتے ہیں جبکہ بیشتر رہنمائوں کی خواہش ہے کہ علاقہ پاکستان کا حصہ بن جائے۔ ایسے جوان راہنمائوں میں مسرت عالم نمایاں مقام رکھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ ممتاز حریت پسند رہنما ،سید علی شاہ گیلانی کے حقیقی جانشین ہیں۔
عالم بنیادی طور پر عام کشمیریوں میں اس لیے مقبول ہوئے کہ انہوں نے آزادیِ کشمیر کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں۔ مثال کے طور پر جب نوجوان زندگی کی رنگینیوں و رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے میں محو ہوتے ہیں، عالم نے اپنی نوجوانی کا بیشتر عرصہ جیل میں گزار دیا۔ان کا تعلق کھاتے پیتے خاندان سے تھا۔ لیکن جب وہ تحریک آزادی میں حصہ لینے لگے، تو حکومت وقت نے حیلے بہانوں سے ان کے خاندان کا کاروبار تباہ کرڈالا۔
ان مصائب و مشکلات کے باوجود مسرت عالم نے ہمت نہیں ہاری اور علی الاعلان بھارتی حکومت سے نبردآزما رہے۔ وہی ہیں جنہوں نے 2010ء میں بھارتی حکمران طبقے کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کردیا۔ تبھی بھارتی حکومت نے مسرت عالم کے سر پر 10 لاکھ روپے انعام رکھ دیا اور وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکمران طبقے کے لیے مطلوب ترین یا ''موسٹ وانٹیڈ'' لیڈر بن گئے۔
لڑکپن کی کھلنڈری زندگی
حیرت انگیز بات یہ کہ عنفوان شباب میں مسرت عالم ایک بے پروا اور کھلنڈر ے نوجوان تھے۔ بھارتی حکمران طبقے سے ٹکر لینے کے بجائے انہیں قیمتی لباس زیب تن کرنا اور کھیل تماشوں میں حصہ لینا پسند تھا۔ ان کی داستان حیات یہ حقیقت اجاگر کرتی ہے کہ جب انسان کسی نیک امر کو مقصد زندگی بنالے، تو اس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔
مسرت عالم بھٹ جولائی 1971ء میں اندرون سری نگر پیدا ہوئے۔ ان کے دادا، والد اور چچا کپڑا فروخت کرنے والی بڑی دکانوں کے مالک تھے۔ ان کا شمار سری نگر کی ان چند دکانوں میں ہوتا جہاں مہنگا ولایتی کپڑا بھی مل جاتا ۔
مستقبل میں تحریک آزادی کے ممتاز رہنما کو بچپن ہی میں بھیانک صدمہ اٹھانا پڑا۔ وہ چھ سال کے تھے کہ والد داغ مفارقت دے گئے۔ خوش قسمتی سے اس مشترکہ خاندان میں سبھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے تھے۔ چنانچہ شفیق چچا اور مہربان دادی نے کم سن مسرت عالم کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ان کی پرورش بڑے نازو نعم سے ہوئی۔ گھر میں سبھی اس یتیم بچے کے لاڈ اٹھاتے اور عالم کی کوئی بات رد نہ کی جاتی۔ اس چلن نے انہیں بہت من موجی اور کھلنڈرا بنا دیا۔
جب انھوں نے ہوش سنبھالا ،تو اہل خانہ نے انہیں سری نگر کی مشہور درس گاہ، ٹائنڈیل بسکوئے سکول میں داخل کرایا۔ یہ ایک مشنری سکول تھا، چناں چہ نوجوان ہوتے عالم میں بعض مغربی روایات پرورش پانے لگیں۔ مثلاً مادہ پرستی سے قربت رکھنا۔انہی دنوں مسرت عالم مختلف طریقوں سے اپنی دولت کی نمائش کرنے لگے، خون جو جوان تھا۔
ایک بار وہ نئے نویلے سکوٹر میں سکول آئے۔ اب سبھی دوست اس پر سیر کرنے کے متمنی ہو گئے۔ میلا لگا دیکھ کر پرنسپل سکول نے سکوٹر اپنے قبضے میں لے لیا۔ گھر جاتے ہوئے عالم کو سکوٹر واپس ملا، مگر اس سے سارا پٹرول نکال لیا گیا تھا۔ چناں چہ انہیں اسے دھکا لگا کر پانچ میل دور پمپ تک لے جانا پڑا۔
نویں جماعت میں تعلیم پاتے کھیل تماشوں کے شوقین مسرت عالم کو کچھ شعور آیا۔ دراصل ان کے سکول میں اشفاق مجید وانی شہید بھی زیر تعلیم تھے، وہ کشمیری نوجوان جو جدید تحریک آزادی کشمیر کے بانیوں میں شامل ہیں۔بھارتی حکمران طبقہ اس وقت بھی کشمیریوں کو ماتحت رکھنے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کررہا تھا۔ لیکن آزادی کے بعض متوالے کشمیری نوجوان کسمپرسی کے باوجود اس خوفناک طاقت سے ٹکر لینے لگے۔ انہوں نے محدود وسائل رکھتے ہوئے بھی بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف محیرالعقول کارنامے انجام دیئے۔ چنانچہ سکول میں اکثر طلبہ حریت پسندوں کی دلیری کے واقعات ساتھیوں کو سناتے اور فخر کا احساس کرتے۔
انہی ساتھیوں سے بات چیت کے دوران مسرت عالم کو احساس ہوا کہ بھارتی حکمران طبقے نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کررکھا ہے اور وہ کشمیری مسلمانوں کو آزادی دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ سچائی پاکر نوجوان عالم غم و غصّے سے تڑپ اٹھا اور انہوں نے استبدادی طاقت سے پنجہ آزمائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
مزاحمت کا آغاز
اسکول میں بعض ہم خیال دوست انہیں تحریک آزادی کے ابھرتے رہنما، مشتاق الاسلام کے پاس لے گئے۔ ''گوگا صاحب'' کے عرف سے مشہور مشتاق الاسلام طویل عرصے سے بھارتی ظالموں کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے ایک جہادی تنظیم ''حزب اللہ'' بھی تشکیل دے رکھی تھی۔ مسرت عالم اس تنظیم کا حصہ بن گئے۔
اب انھوں نے آوارہ گردی چھوڑی، لڑکیوں کے کالجوں کے چکر لگانے ترک کیے اور تحریک آزادی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ کبھی وہ بھارتی فوج کے خلاف جلوسوں میں شریک ہوتے، تو کبھی راتوں کو جاگ کر بھارت کے خلاف پمفلٹ گھروں میں پھینکتے ۔ غرض دیکھتے ہی دیکھتے ان کے شب و روز بدل گئے۔
1989ء میں افغان جہاد کا خاتمہ ہو گیا۔تب عالم اسلام میں جہاد کے جدید سرخیل، اسامہ بن لادن نے مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتیوں کے خلاف حملے کا اعلان کردیا۔ اس خبر سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے نبردآزما کشمیری مجاہدین کو بہت تقویت پہنچی۔ اب زیادہ کشمیری نوجوان جہادی تنظیموں میں شریک ہونے لگے۔ حتیٰ کہ پاکستان سے بھی کشمیری و غیر کشمیری نوجوان جہادِ کشمیر میں شرکت کا اعزاز حاصل کرنے وادی پہنچنے لگے۔
مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی نے شدت پکڑی، تو آئے دن بھارتی حکمرانوں کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔ جواب میں بھارتی حکمران لاکھوں فوجی وادی میں لے آئے اور حریت پسندوں کو لرزہ خیز مظالم کا نشانہ بنایا جانے لگا۔
1990ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد مسرت عالم حزب اللہ کے سرگرم کارکن بن گئے۔ انہوں نے پھر ہتھیار چلانے کی تربیت پائی اور بھارتی فوج کے خلاف حملوں میں حصہ لینے لگے۔ تاہم مسلح سرگرمی کا یہ دور چند ماہ ہی چلا۔ ایک خفیہ میٹنگ کے دوران انہیں مشتاق الاسلام اور دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ یوں صرف انیس سال کی عمر میں وہ پہلی بار جیل خانے پہنچ گئے۔
بھارتی حکومت نے انہیں پندرہ ماہ تک قید رکھا۔ اس دوران مسرت عالم پر بے پناہ تشدد ہوا۔ مزید برآں بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے ایجنٹ ان پر زور دیتے رہے کہ وہ ڈبل ایجنٹ بن جائیں۔ مگر خوددار اور بہادر عالم نے را کی تمام منفعت بخش اور پُرکشش پیشکشیں ٹھکرادیں۔ان کا تعلق سری نگر کے معزز خاندان سے تھا، اسی لیے بھارتیوں کو ہمت نہ ہوئی کہ انہیں نقصان پہنچا سکیں ورنہ سری نگر میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ آخر نومبر 1991ء میں انہیں رہا کردیا گیا۔
دوران اسیری مسرت عالم مسلسل سوچ بچار میں محو رہے تھے۔ انہیں خیال آیا کہ بھارتی قبضے کے خلاف سیاسی سطح پر بھی تحریک چلانا ضروری ہے۔ یوں پُر امن جدوجہد آزادی سے بھارتی حکمران طبقے پر نفسیاتی دبائو بڑھ جاتا ۔ رہائی کے بعد انہوں نے اپنے قائد، شفیق الاسلام کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ایک سیاسی جماعت بھی تشکیل دی جائے۔ یہ جماعت عام کشمیریوں پر آزادی کے ثمرات اجاگر کرے اور انہیں بھارتی حکمرانوں کا اصل گھنائونا چہرہ دکھائے۔ شفیق الاسلام کو بھی یہ تجویز پسندآئی۔ چناں چہ جلد ہی ''جموں و کشمیر مسلم لیگ'' کا قیام عمل میں آگیا۔ مسرت عالم اس کے شریک صدر منتخب ہوئے۔
1993ء میں مقبوضہ کشمیر کو آزاد دیکھنے کی خواہش مند کشمیری جماعتوں نے متحد ہوکر ''آل پارٹیز حریت کانفرنس'' کی بنیاد رکھی۔ مسرت عالم کی مسلم لیگ بھی اس کا حصہ بن گئی۔ جدوجہد آزادی کے دوران سبھی کشمیریوں کا متحد ہونا مستحسن اقدام تھا، مگر افسوس، یہ اتحاد جلد کمزور ہوگیا۔
ہوا یہ کہ حریت کانفرنس کے نوجوان لیڈر، میر واعظ عمر فاروق مسلح جدوجہد سے زیادہ بات چیت پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ جہاں دیدہ حریت پسند رہنما، سید علی شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ محض مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکتا۔ بھارتی حکمران طبقے کو دبائو میں رکھنے کے لیے جہاد جاری رہنا چاہیے۔
اس نظریاتی تصادم میں مسرت عالم نے گیلانی صاحب کا ساتھ دیا۔ ان کا بھی خیال ہے کہ بھارتی حکومت امن کی زبان نہیں سمجھتی، اسے ڈنڈے پڑیں گے، تبھی اس کو عقل آئے گی۔ چناں چہ انہوں نے مسلح جدوجہد ترک کرنے والے حریت رہنمائوں کو ''غدار'' کا لقب دیا اور انہیں ناپسند کرنے لگے۔
حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتی ہے اور اس میں حصہ نہیں لیتی۔ لیکن 2002 ء کے ریاستی الیکشن میں حریت کانفرنس میں شامل جماعت، جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے لیڈر، سجاد غنی لون نے اپنے امیدوار کھڑے کردیئے۔ حریت کانفرنس کے بعض لیڈروں نے یہ اقدام جائز قرار دیا جن میں اس کے سربراہ مولوی عباس انصاری بھی شامل تھے۔ اس استدلال کے باعث فریقین میں اختلافات بڑھ گئے۔
آخر 2003ء میں حریت کانفرنس دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ نیا دھڑا سید علی گیلانی کی ہم نوا جماعتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے عبوری صدر مسرت عالم ہی منتخب ہوئے۔ یہ دھڑا اب ''تحریک حریت جموں و کشمیر'' کہلاتا ہے۔ گیلانی صاحب اس کے سربراہ ہیں اور مسرت عالم جنرل سیکرٹری!
2005ء میں مسرت عالم نے ایک شہید کی بہن سے شادی کرلی۔ تاہم انہیں اب تک ازدواجی مسرتیں حاصل نہیں ہوسکیں... کیونکہ پچھلے دس برس میں سے نو سال تو وہ جیلوں یا پولیس اسٹیشنوں میں مقید رہے۔ گویا آزادی ہی ان کی حقیقی دلہن بنی رہی۔
پتھر اور گولی کا مقابلہ
یہ 2007ء کی بات ہے، جب مقبوضہ کشمیر میں مسرت عالم کا نام نمایاں ہوا۔ تب میر واعظ عمر فاروق نے بھارتی حکومت سے مذاکرات کرنے چاہے ۔ ان مذاکرات کے خلاف گیلانی صاحب نے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ اسے کامیاب کرانے کی ذمہ داری مسرت عالم کو سونپی گئی۔
انہوں نے یہ ڈیوٹی اتنی مستعدی سے نبھائی کہ مخالفین بھی عش عش کر اٹھے۔ ہڑتال والے دن پورا سری نگر بند رہا۔ چند ہفتے بعد سری نگر ہی میں مسرت عالم کے زیر اہتمام ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس سے گیلانی صاحب و دیگر لیڈروں نے خطاب کیا۔ جلسے میں پاکستانی جہادی تنظیم، لشکر طیبہ کے جھنڈے بھی لہرائے گئے۔ اس ''جرم'' پر مسرت عالم کو گرفتار کرلیا گیا۔
اگلے سال وہ رہا ہوئے، تو امرناتھ یاترا بورڈ کو دی جانے والی زمین کا معاملہ دنیا بھر میں ہلچل مچا چکا تھا۔ کشمیری عوام یہ دیکھ کر غم و غصّے میں تھے کہ ان کی زمینیں ایک ہندو تنظیم کو دے دی گئیں۔مسرت عالم نے اپنی زبردست تنظیمی صلاحیتوں کی بدولت اس عوامی غم و غصے کو منظم احتجاج میں بدل ڈالا۔
بھارتی سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینکنا کشمیریوں کا دیرینہ ہتھیار ہے۔ مسرت عالم نے باقاعدہ پتھر بردار دستے تیار کیے تاکہ وہ دشمن کو زیادہ نقصان پہنچاسکیں۔ نیز انہوں نے نوجوانوں کو دیواروں پر بھارت مخالف نعرے لکھنے کا گُر بتایا۔ مسرت عالم پہلے کشمیری رہنما ہیں جنہوں نے دوران احتجاج سوشل میڈیا سے بھی مدد لی اور وہاں کشمیریوں کو بھارتی حکمرانوں کے خلاف متحرک کیا۔
مسرت عالم کی سعی کے باعث بھارت مخالف احتجاج پوری وادی کشمیر میں پھیل گیا۔ بھارتی نواز حکومت نے اس احتجاج کو سختی سے کچلا۔ چناں چہ 60 سے زائد کشمیری شہید ہوگئے جبکہ مسرت عالم کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔ 2008ء کے احتجاجی مظاہروں نے دنیا والوں کو بتا دیا کہ کشمیری مسلمان ہندوئوں کی حکمرانی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
اس بار دو سال بعد جولائی 2010ء میں مسرت عالم کو رہائی ملی۔ چند ہی دن بعد سری نگر میں سکیورٹی فورسز نے ایک معصوم لڑکے، طفیل احمد کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اس بہیمانہ کارروائی نے سبھی کشمیریوں کو مشتعل کرڈالا اور وہ بھارت نواز کشمیری حکومت اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف زبردست احتجاج کرنے لگے۔
احتجاج کے آغاز ہی میں سید علی گیلانی گرفتار کرلیے گئے۔ تاہم مسرت عالم زیر زمین جانے میں کامیاب رہے۔ گیلانی صاحب نے دوبارہ احتجاجی تحریک کی قیادت ان کے سپرد کردی۔ مسرت عالم نے یہ ذمے داری عمدگی سے نبھائی۔انھوں نے بکھرے مظاہرین کو منظم کیا اور وہ نظام الاوقات کے تحت جلسے کرنے اور جلوس نکالنے لگے۔ حکمرانوں نے حسب روایت احتجاجیوں پر ظلم و ستم ڈھایا اور سیکڑوں کشمیری نوجوان شہید کر ڈالے۔ مگر انہوں نے اپنا لہو دے کر جدوجہد آزادی میں نیا جوش و ولولہ بھر دیا۔
بعض کشمیری لیڈر احتجاجی جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''احتجاجی تحریکیں اس طرح نہیں چلائی جاتیں۔ 2010ء میں 120 سے زائد نوجوان شہید ہوگئے، مگر حاصل کیا ہوا؟ اب بہت خون بہہ چکا۔ ہمیں آزادی حاصل کرنے کے ایسے طریقے دریافت کرنے چاہئیں کہ خون کم سے کم بہے۔ مگر وہ (مسرت عالم) سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر بھارت کو کشمیر سے نکال دے گا۔''
مسرت عالم کا کہنا ہے ''ہمارا احتجاج پُر امن ہوتا ہے، اسے متشدد بھارتی سکیورٹی فورسز بناتی ہیں۔ وہ ہمارے نوجوانوں پر بے دریغ گولیاں برساتی اور انہیں شہید کرتی ہیں۔آپ پھر یہ دیکھیے کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق گردن سے اتارتے ہوئے ہندوستانیوں کو 190 برس لگ گئے۔ اب ہم بھارتی حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن منزل تک پہنچنا آسان نہیں، یہ بہت کٹھن راستہ ہے۔ بس کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ہمت بلند رکھیں، انشاء اللہ ایک دن ہمیں آزادی کی نعمت ضرور حاصل ہوگی۔''
2012ء کے زبردست مظاہروں نے بھارتی حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا ۔ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے ایجنٹ بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسرت عالم کو تلاش کرنے لگے۔ آخر ان کی رہائش گاہ کا پتا چلتے ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اب ''قانون سے خالی قانون'' (Law less Law)،پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مسرت عالم پھر جیل خانوں کے مکین بنا دیئے گئے۔
پانچ برس بعد مارچ 2015ء میں مقبوضہ کشمیر کی نئی کٹھ پتلی حکومت نے انھیں رہا کردیا۔ یہ قدم اٹھا کر نئے وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر، مفتی محمد سعید عوام میں مقبول ہونا چاہتے تھے۔ مگر مسرت عالم کی رہائی پر بھارتی حکمران طبقہ چیخ اٹھا۔
وسط اپریل میں سید علی گیلانی نئی دہلی میں تین ماہ علاج کراکر واپس سری نگر پہنچے۔ مسرت عالم نے ان کے استقبالیہ جلوس کا اہتمام کیا۔ اس شاندار جلوس میں ہزارہا کشمیری شریک ہوئے۔ یہی وہ جلوس ہے جس میں کشمیری نوجوانوں نے خوشی و مسّرت کے عالم میں پاکستان کے جھنڈے لہرائے۔ نیز ''پاکستان زندہ باد'' کے جوشیلے نعرے بلند کیے۔
مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی مقبولیت دیکھ کر بھارتی حکومت کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ چناںچہ اس کے حکم پر مسرت عالم دوبارہ حوالہِ زنداں کردیئے گئے۔ اب جیل میں ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ وجہ یہ کہ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے اعلان کردیا ہے، جس ہندو نے مسرت عالم کو شہید کیا، اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔
مسرت عالم کی شخصیت میں شاید بشری کمزوریاں بھی ہوں، مگر وہ اتنی نمایاں نہیں کہ حاوی آجائیں۔ علاقائی سپرپاور سے ٹکرلینے کے باوجود وہ سنجیدہ مزاج شخص نہیں بلکہ ہنستے مسکراتے مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جیل میں ہوں، تو ساتھی قیدیوں کو اپنے چٹکلوں سے محظوظ کرتے اور ماحول خوشگوار رکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی تمنا خطہ ِکشمیر کو آزادی دلوانا ہے... وہ آزادی جو کسی بھی حساس اور باشعور انسان کی روح کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔
مظلوم کشمیریوں کی داستان الم
کرئہ ارض پر واقع مثل جنت خطہ کشمیر پچھلے تقریباً دو سو برس سے غیر مسلموں کے قبضے میں ہے ۔حالانکہ جموں کے چند اضلاع چھوڑ کر اس علاقے کی بیشتر آبادی مسلما ن ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں پہ پہلی آفت 1819ء میں ٹوٹی جب رنجیت سنگھ نے اس پر قبضہ کیا اور علاقے کو اپنی سکھ پنجاب سلطنت میں شامل کر لیا۔
اب رنجیت سنگھ کے مقرر کردہ سکھ والی (گورنر) کشمیر پر حکومت کرنے لگے۔ انہوں نے امن پسندکشمیری مسلمانوں کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ گائے کی قربانی پر پابندی لگا دی۔ سری نگر میں جامع مسجد کو اصطبل بنا لیا۔ حتیٰ کہ مساجد سے اذان دینا بھی رکوا دیا۔
سکھوں نے کشمیری مسلمانوں پر ایک بڑا ظلم یہ ڈھایا کہ ان پر ٹیکسوں کی بھر مار کر دی۔ مسلمان کسان یا پیشہ ور جو کماتا' اس کا بیشتر حصہ سکھ انتظامیہ ڈکار جاتی۔ سکھوں کے مظالم کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں کی بڑی تعداد کشمیر چھوڑ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں میں جا بسی۔ غرض سکھوں نے طاقت کے زور پر کشمیری مسلمانوںکو ایسا دبایا کہ وہ خوفزدہ ہو کر ہر ظلم خاموشی سے سہنے لگے۔
1845ء میں انگریزوں نے دس لاکھ روپے کے عوض خطہ ِکشمیر ہندو راجپوت سردار' گلاب سنگھ کو فروخت کر دیا۔ یوں اب ہندو کشمیری مسلمانوں پر حکومت کرنے لگے۔ انہوںنے وہ طور طریقے جاری رکھے جن کی مد د سے سکھ مظلوم مسلمانوں پر ظلم توڑتے تھے اور اپنا مطیع بنائے رکھتے۔
ڈوگرا ریاست میں جموں اور لداخ کے علاقوں میں آباد ہندوؤں اور سکھوں کو تمام حقوق اور سہولیات حاصل تھیں۔ جبکہ کشمیر اور گلگت وبلتستان میں آباد مسلمان ظلم کی چکی میں پسنے پر مجبور کر دیئے گئے۔ پوری انتظامیہ سکھ یا ہندو افسر وں اور ملازمین پر مشتمل تھی جنہوں نے مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لیا۔
غلامی کا یہ طوق تعلیم کے ہتھیار نے توڑا۔ ہوا یہ کہ بیسویں صدی کے اوائل میں خصوصاً علی گڑھ کالج سے کئی کشمیری نوجوان پڑھ لکھ گئے۔ باشعور ہونے کے بعد وہ نہ صرف بطور شہری اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوئے بلکہ انہوں نے جانا کہ کشمیر میں ان کے بھائی بند بدترین آمریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
ان کشمیری تعلیم یافتہ نوجوانوں نے لاہور کو اپنا مرکز بنا لیا ۔انھوں نے پھر مختلف سماجی و سیاسی تنظیمیں قائم کیں تاکہ کشمیری عوام کو بیدار کیا جا سکے۔ ان نوجوانوں میں چودھری غلام عباس' شیخ عبداللہ اور میر واعظ محمد یوسف شاہ نمایاں تھے۔ ان سبھی نوجوانوں کی منزل یہ تھی کہ مقہور و بے بس کشمیری و گلگتی مسلمانوں کو ڈوگرا شاہی سے نجات دلائی جائے۔
نوجوانوں کی سعی جاری تھی کہ اسی دوران مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کر کے آمروں نے انہیں شعلہ جوالہ بنا دیا۔ ہوا یہ کہ 19 اپریل 1931ء کو جموں شہر میں ڈی آئی جی پولیس ' رام چند نے مرکزی عید گاہ میں منشی محمد اسحاق کو خطبہ دینے سے روک دیا۔ بعدازاں ڈوگرا فوجیوں نے قرآن پاک بھی شہید کر ڈالے۔
قرآن پاک کی بے حرمتی نے سبھی کشمیری مسلمانوں کو مشتعل کر دیا اور حکمرانوں کے خلاف دبی نفرت کا لاوا پھوٹ نکلا۔وادی کشمیر میں جگہ جگہ ہری سنگھ حکومت کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔21 جون کوسرینگر میں حکومت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ ہوا ۔جب مختلف کشمیری رہنما تقاریر کر چکے تو اچانک عبدالقدیر نامی نوجوان ڈائس پر نمودار ہوا ۔وہ ڈوگرا شاہی کے مظالم سے عاجز آیا عام کشمیری نوجوان تھا۔ وہ ہم وطنوں سے مخاطب ہو کر بولا:
''بھائیو! جہاد کا وقت آ پہنچا ۔ درخواستوں اور اپیلوں سے ڈوگرا راج سیدھا نہیں ہو گا۔ اب کمر کس لو اور حکمرانوں کے خلاف لڑنے میدان عمل میں آ جاؤ۔'' اس نے پھر راج محل کی طرف اشارہ کیا اور کہا''اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔''
جلسہ گاہ میں موجود ہندو سپاہیوں نے ڈوگرا حکومت کے خلاف آتشیں تقریر کرنے پہ عبدالقادر کو گرفتار کر لیا ۔ مگر اس خطاب نے عام کشمیریوں میں جدوجہد آزادی کا ولولہ پیدا کر ڈالا۔ یہ حقیت ہے کہ کشمیری تحریک آزادی نے عوام کے درمیان جنم لیا... اسی لیے لاکھوں فوجی لا کر بھی بھارتی حکومت اس کا خاتمہ نہیں کر سکی۔
اب عبدالقدیر پر بغاوت کا مقدمہ چلنے لگا۔ 13 جولائی 1931ء کو ہزار ہا کشمیری وسطی جیل ' سری نگر پہنچ گئے تاکہ مقدمے کی کارروائی سن سکیں۔ نماز ظہر کے وقت ایک کشمیری نوجوان اٹھا اور اذان دینے لگا۔ چونکہ ریاست میں اعلانیہ اذان دینے پر پابندی تھی' لہٰذا ہندوسپاہیوں نے اسے روکنا چاہا ۔جب نوجوان نے اذان دینا جاری رکھا' سپاہیوں نے اسے شہید کر دیا۔ یوں غیور و باغیرت مسلمان نے اپناسر کٹوا ڈالا ' آمر کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔
اچانک ایک اور کشمیری نوجوان ایستادہ ہوا۔ وہ وہیں سے اذان دینے لگا جہاں شہید ہوتے نوجوان کے لبوں نے اسے چھوڑا تھا۔ ظالم سپاہیوں نے اسے بھی شہید کرڈالا۔ یوں یکے بعد دیگرے 21 کشمیری نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا مگر انہوں نے اذان کو ختم کرکے ہی دم لیا۔ یہ یقیناً تاریخ اسلام کا ایمان افروز اور ولولہ انگیز واقعہ ہے۔
اس واقعے نے ریاست کے تمام مسلمانوں میں غم و غصّے کی لہر دوڑا دی۔ اب انہیں احساس ہوا کہ ڈوگرا شاہی کے خلاف جدوجہد کرنے کا وقت آپہنچا۔ یوں 21 شہدا کا خون رائیگاں نہیں گیا اور انہوں نے اپنے لہو سے ریاست میں آزادی کی شمع روشن کردی۔
بدقسمتی سے کشمیریوں کا اہم رہنماء شیخ عبداللہ حبِ جاہ میں مبتلا گیا۔ ریاست میں مقبول ہوکر وہ خود کو بادشاہ تصّور کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے، 1947ء میں آزادی کا وقت قریب آیا،تو اس کی پوری کوشش رہی، جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بنے بلکہ وہ آزاد و خودمختار ریاست بن جائے تاکہ وہاں ٹھاٹھ سے حکومت کر سکے۔ چونکہ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے اسے ریاست کا بلاشرکت غیرے حکمران بنا ڈالا، لہٰذا شیخ عبداللہ بھارت کی جھولی میں جا بیٹھا۔
آج تک بھارتی برہمن طبقے کے چنگل میں پھنسے کشمیری مسلمان شیخ عبداللہ کی ہوسِ جاہ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور انہیں آزادی نصیب نہیں ہوسکی۔بھارتی حکومت نے خوفناک قوانین اور فوج کی مدد سے کشمیری مسلمانوں کو ایک طرح سے اپنا غلام بنا رکھا ہے اور ریاستی وسائل پہ قبضہ کیے بیٹھی ہے۔
یہ اندرون سری نگر،مقبوضہ کشمیر کا زندار محلہ ہے جہاں کئی صدیوں سے کشمیری خاندان آباد ہیں۔ آج علاقے کے ایک دو منزلہ مکان میں بڑی رونق ہے۔ اجلے لباس میں ملبوس لوگ آ جا رہے ہیں۔ گھر کی نچلی بیٹھک میں مرد ٹولیوں کی صورت بیٹھے محو گفتگو ہیں۔ ان کے چہرے خوشی و مسّرت سے دمکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ کشمیری چائے کا دور بھی چل رہاہے۔
دراصل آج مسرت عالم ساڑھے چار برس جیل میں گزار کر گھر واپس آئے ہیں۔ اب وہ عزیز واقارب اور دوستوں کے درمیان دولہا بنے بیٹھے ہیں۔ جب بھی کوئی نیا مہمان آئے' وہ فوراً اٹھتے اور محبت و انکسار سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔مہمانوں میں ایک بھارتی اخبار کا ہندو رپورٹربھی شامل ہے۔ وہ مسرت عالم سے انٹرویولینے آیا جن کی مارچ 2015 ء میں رہائی نے بھارت میں ہنگامہ کھڑا کر رکھا تھا۔ دوران انٹرویو اس نے سوال کیا'': آپ کو یہ نہیں لگتا کہ اب ہڑتال کا ہتھیار بے اثر ہو چکا؟''
مسرت عالم کچھ خاموش سے ہو گئے۔ پھر اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا اور گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے بولے''ایک مظلوم قوم اس کے سوا کر بھی کیا سکتی ہے؟''
جواب سن کر کمرے میں ایسی خاموشی چھا گئی کہ سوئی بھی گرتی' تو آواز آتی۔ وہاں بیٹھے کشمیریوں کے چہرے غم و غصے کے جذبے سے چمکنے لگے۔ عالم پھر گویا ہوئے ''ہم جانتے ہیں کہ ہڑتال سے عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مگر منزل طشتری میں رکھی نہیں ملتی' اسے پانے کی خاطر کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ '' یہ کہہ کر وہ گنگانے لگے۔ تب ان کی آنکھوں سے پانی چھلک رہا تھا اور چہرے پر عزم وہمت کی تابانی تھی:
''جنون سے اور عشق سے... ملتی ہے آزادی
قربانی کی بانہوں میں... ملتی ہے آزادی''
لیڈروں کی نئی پود
مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمان دو سو برس ہوئے، آزادی کی بے مثال نعمت سے محروم ہیں۔ پہلے سکھ اور پھر ہندو ڈوگرا ان پر حکمرانی کرتے رہے۔ 1947ء سے ان پر بھارتی حکمران طبقے کے کٹھ پتلی حکمران حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔ پچھلے اڑسٹھ برس میں حکمران کشمیری طبقہ تو امیر کبیر ہوگیا مگر بیچارے عوام کی حالت نہیں بدل سکی۔ ان کا معیار زندگی ایسے حکمران ہی بدل سکتے ہیں جن کے پاس حقیقی طاقت و اختیار ہو... اور یہ کرشمہ آزادیِ کشمیر کی صورت ہی ظاہر ہوگا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہدِ آزادی کا علم ڈگمگانے نہیں پایا اور اب اسے لیڈروں کی نئی پود نے سنبھال لیا ہے۔ ان میں سے بعض رہنما مقبوضہ کشمیر کی مکمل آزادی چاہتے ہیں جبکہ بیشتر رہنمائوں کی خواہش ہے کہ علاقہ پاکستان کا حصہ بن جائے۔ ایسے جوان راہنمائوں میں مسرت عالم نمایاں مقام رکھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ ممتاز حریت پسند رہنما ،سید علی شاہ گیلانی کے حقیقی جانشین ہیں۔
عالم بنیادی طور پر عام کشمیریوں میں اس لیے مقبول ہوئے کہ انہوں نے آزادیِ کشمیر کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں۔ مثال کے طور پر جب نوجوان زندگی کی رنگینیوں و رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے میں محو ہوتے ہیں، عالم نے اپنی نوجوانی کا بیشتر عرصہ جیل میں گزار دیا۔ان کا تعلق کھاتے پیتے خاندان سے تھا۔ لیکن جب وہ تحریک آزادی میں حصہ لینے لگے، تو حکومت وقت نے حیلے بہانوں سے ان کے خاندان کا کاروبار تباہ کرڈالا۔
ان مصائب و مشکلات کے باوجود مسرت عالم نے ہمت نہیں ہاری اور علی الاعلان بھارتی حکومت سے نبردآزما رہے۔ وہی ہیں جنہوں نے 2010ء میں بھارتی حکمران طبقے کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کردیا۔ تبھی بھارتی حکومت نے مسرت عالم کے سر پر 10 لاکھ روپے انعام رکھ دیا اور وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکمران طبقے کے لیے مطلوب ترین یا ''موسٹ وانٹیڈ'' لیڈر بن گئے۔
لڑکپن کی کھلنڈری زندگی
حیرت انگیز بات یہ کہ عنفوان شباب میں مسرت عالم ایک بے پروا اور کھلنڈر ے نوجوان تھے۔ بھارتی حکمران طبقے سے ٹکر لینے کے بجائے انہیں قیمتی لباس زیب تن کرنا اور کھیل تماشوں میں حصہ لینا پسند تھا۔ ان کی داستان حیات یہ حقیقت اجاگر کرتی ہے کہ جب انسان کسی نیک امر کو مقصد زندگی بنالے، تو اس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔
مسرت عالم بھٹ جولائی 1971ء میں اندرون سری نگر پیدا ہوئے۔ ان کے دادا، والد اور چچا کپڑا فروخت کرنے والی بڑی دکانوں کے مالک تھے۔ ان کا شمار سری نگر کی ان چند دکانوں میں ہوتا جہاں مہنگا ولایتی کپڑا بھی مل جاتا ۔
مستقبل میں تحریک آزادی کے ممتاز رہنما کو بچپن ہی میں بھیانک صدمہ اٹھانا پڑا۔ وہ چھ سال کے تھے کہ والد داغ مفارقت دے گئے۔ خوش قسمتی سے اس مشترکہ خاندان میں سبھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے تھے۔ چنانچہ شفیق چچا اور مہربان دادی نے کم سن مسرت عالم کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ان کی پرورش بڑے نازو نعم سے ہوئی۔ گھر میں سبھی اس یتیم بچے کے لاڈ اٹھاتے اور عالم کی کوئی بات رد نہ کی جاتی۔ اس چلن نے انہیں بہت من موجی اور کھلنڈرا بنا دیا۔
جب انھوں نے ہوش سنبھالا ،تو اہل خانہ نے انہیں سری نگر کی مشہور درس گاہ، ٹائنڈیل بسکوئے سکول میں داخل کرایا۔ یہ ایک مشنری سکول تھا، چناں چہ نوجوان ہوتے عالم میں بعض مغربی روایات پرورش پانے لگیں۔ مثلاً مادہ پرستی سے قربت رکھنا۔انہی دنوں مسرت عالم مختلف طریقوں سے اپنی دولت کی نمائش کرنے لگے، خون جو جوان تھا۔
ایک بار وہ نئے نویلے سکوٹر میں سکول آئے۔ اب سبھی دوست اس پر سیر کرنے کے متمنی ہو گئے۔ میلا لگا دیکھ کر پرنسپل سکول نے سکوٹر اپنے قبضے میں لے لیا۔ گھر جاتے ہوئے عالم کو سکوٹر واپس ملا، مگر اس سے سارا پٹرول نکال لیا گیا تھا۔ چناں چہ انہیں اسے دھکا لگا کر پانچ میل دور پمپ تک لے جانا پڑا۔
نویں جماعت میں تعلیم پاتے کھیل تماشوں کے شوقین مسرت عالم کو کچھ شعور آیا۔ دراصل ان کے سکول میں اشفاق مجید وانی شہید بھی زیر تعلیم تھے، وہ کشمیری نوجوان جو جدید تحریک آزادی کشمیر کے بانیوں میں شامل ہیں۔بھارتی حکمران طبقہ اس وقت بھی کشمیریوں کو ماتحت رکھنے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کررہا تھا۔ لیکن آزادی کے بعض متوالے کشمیری نوجوان کسمپرسی کے باوجود اس خوفناک طاقت سے ٹکر لینے لگے۔ انہوں نے محدود وسائل رکھتے ہوئے بھی بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف محیرالعقول کارنامے انجام دیئے۔ چنانچہ سکول میں اکثر طلبہ حریت پسندوں کی دلیری کے واقعات ساتھیوں کو سناتے اور فخر کا احساس کرتے۔
انہی ساتھیوں سے بات چیت کے دوران مسرت عالم کو احساس ہوا کہ بھارتی حکمران طبقے نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کررکھا ہے اور وہ کشمیری مسلمانوں کو آزادی دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ سچائی پاکر نوجوان عالم غم و غصّے سے تڑپ اٹھا اور انہوں نے استبدادی طاقت سے پنجہ آزمائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
مزاحمت کا آغاز
اسکول میں بعض ہم خیال دوست انہیں تحریک آزادی کے ابھرتے رہنما، مشتاق الاسلام کے پاس لے گئے۔ ''گوگا صاحب'' کے عرف سے مشہور مشتاق الاسلام طویل عرصے سے بھارتی ظالموں کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے ایک جہادی تنظیم ''حزب اللہ'' بھی تشکیل دے رکھی تھی۔ مسرت عالم اس تنظیم کا حصہ بن گئے۔
اب انھوں نے آوارہ گردی چھوڑی، لڑکیوں کے کالجوں کے چکر لگانے ترک کیے اور تحریک آزادی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ کبھی وہ بھارتی فوج کے خلاف جلوسوں میں شریک ہوتے، تو کبھی راتوں کو جاگ کر بھارت کے خلاف پمفلٹ گھروں میں پھینکتے ۔ غرض دیکھتے ہی دیکھتے ان کے شب و روز بدل گئے۔
1989ء میں افغان جہاد کا خاتمہ ہو گیا۔تب عالم اسلام میں جہاد کے جدید سرخیل، اسامہ بن لادن نے مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتیوں کے خلاف حملے کا اعلان کردیا۔ اس خبر سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے نبردآزما کشمیری مجاہدین کو بہت تقویت پہنچی۔ اب زیادہ کشمیری نوجوان جہادی تنظیموں میں شریک ہونے لگے۔ حتیٰ کہ پاکستان سے بھی کشمیری و غیر کشمیری نوجوان جہادِ کشمیر میں شرکت کا اعزاز حاصل کرنے وادی پہنچنے لگے۔
مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی نے شدت پکڑی، تو آئے دن بھارتی حکمرانوں کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔ جواب میں بھارتی حکمران لاکھوں فوجی وادی میں لے آئے اور حریت پسندوں کو لرزہ خیز مظالم کا نشانہ بنایا جانے لگا۔
1990ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد مسرت عالم حزب اللہ کے سرگرم کارکن بن گئے۔ انہوں نے پھر ہتھیار چلانے کی تربیت پائی اور بھارتی فوج کے خلاف حملوں میں حصہ لینے لگے۔ تاہم مسلح سرگرمی کا یہ دور چند ماہ ہی چلا۔ ایک خفیہ میٹنگ کے دوران انہیں مشتاق الاسلام اور دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ یوں صرف انیس سال کی عمر میں وہ پہلی بار جیل خانے پہنچ گئے۔
بھارتی حکومت نے انہیں پندرہ ماہ تک قید رکھا۔ اس دوران مسرت عالم پر بے پناہ تشدد ہوا۔ مزید برآں بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے ایجنٹ ان پر زور دیتے رہے کہ وہ ڈبل ایجنٹ بن جائیں۔ مگر خوددار اور بہادر عالم نے را کی تمام منفعت بخش اور پُرکشش پیشکشیں ٹھکرادیں۔ان کا تعلق سری نگر کے معزز خاندان سے تھا، اسی لیے بھارتیوں کو ہمت نہ ہوئی کہ انہیں نقصان پہنچا سکیں ورنہ سری نگر میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ آخر نومبر 1991ء میں انہیں رہا کردیا گیا۔
دوران اسیری مسرت عالم مسلسل سوچ بچار میں محو رہے تھے۔ انہیں خیال آیا کہ بھارتی قبضے کے خلاف سیاسی سطح پر بھی تحریک چلانا ضروری ہے۔ یوں پُر امن جدوجہد آزادی سے بھارتی حکمران طبقے پر نفسیاتی دبائو بڑھ جاتا ۔ رہائی کے بعد انہوں نے اپنے قائد، شفیق الاسلام کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ایک سیاسی جماعت بھی تشکیل دی جائے۔ یہ جماعت عام کشمیریوں پر آزادی کے ثمرات اجاگر کرے اور انہیں بھارتی حکمرانوں کا اصل گھنائونا چہرہ دکھائے۔ شفیق الاسلام کو بھی یہ تجویز پسندآئی۔ چناں چہ جلد ہی ''جموں و کشمیر مسلم لیگ'' کا قیام عمل میں آگیا۔ مسرت عالم اس کے شریک صدر منتخب ہوئے۔
1993ء میں مقبوضہ کشمیر کو آزاد دیکھنے کی خواہش مند کشمیری جماعتوں نے متحد ہوکر ''آل پارٹیز حریت کانفرنس'' کی بنیاد رکھی۔ مسرت عالم کی مسلم لیگ بھی اس کا حصہ بن گئی۔ جدوجہد آزادی کے دوران سبھی کشمیریوں کا متحد ہونا مستحسن اقدام تھا، مگر افسوس، یہ اتحاد جلد کمزور ہوگیا۔
ہوا یہ کہ حریت کانفرنس کے نوجوان لیڈر، میر واعظ عمر فاروق مسلح جدوجہد سے زیادہ بات چیت پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ جہاں دیدہ حریت پسند رہنما، سید علی شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ محض مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکتا۔ بھارتی حکمران طبقے کو دبائو میں رکھنے کے لیے جہاد جاری رہنا چاہیے۔
اس نظریاتی تصادم میں مسرت عالم نے گیلانی صاحب کا ساتھ دیا۔ ان کا بھی خیال ہے کہ بھارتی حکومت امن کی زبان نہیں سمجھتی، اسے ڈنڈے پڑیں گے، تبھی اس کو عقل آئے گی۔ چناں چہ انہوں نے مسلح جدوجہد ترک کرنے والے حریت رہنمائوں کو ''غدار'' کا لقب دیا اور انہیں ناپسند کرنے لگے۔
حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتی ہے اور اس میں حصہ نہیں لیتی۔ لیکن 2002 ء کے ریاستی الیکشن میں حریت کانفرنس میں شامل جماعت، جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے لیڈر، سجاد غنی لون نے اپنے امیدوار کھڑے کردیئے۔ حریت کانفرنس کے بعض لیڈروں نے یہ اقدام جائز قرار دیا جن میں اس کے سربراہ مولوی عباس انصاری بھی شامل تھے۔ اس استدلال کے باعث فریقین میں اختلافات بڑھ گئے۔
آخر 2003ء میں حریت کانفرنس دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ نیا دھڑا سید علی گیلانی کی ہم نوا جماعتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے عبوری صدر مسرت عالم ہی منتخب ہوئے۔ یہ دھڑا اب ''تحریک حریت جموں و کشمیر'' کہلاتا ہے۔ گیلانی صاحب اس کے سربراہ ہیں اور مسرت عالم جنرل سیکرٹری!
2005ء میں مسرت عالم نے ایک شہید کی بہن سے شادی کرلی۔ تاہم انہیں اب تک ازدواجی مسرتیں حاصل نہیں ہوسکیں... کیونکہ پچھلے دس برس میں سے نو سال تو وہ جیلوں یا پولیس اسٹیشنوں میں مقید رہے۔ گویا آزادی ہی ان کی حقیقی دلہن بنی رہی۔
پتھر اور گولی کا مقابلہ
یہ 2007ء کی بات ہے، جب مقبوضہ کشمیر میں مسرت عالم کا نام نمایاں ہوا۔ تب میر واعظ عمر فاروق نے بھارتی حکومت سے مذاکرات کرنے چاہے ۔ ان مذاکرات کے خلاف گیلانی صاحب نے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ اسے کامیاب کرانے کی ذمہ داری مسرت عالم کو سونپی گئی۔
انہوں نے یہ ڈیوٹی اتنی مستعدی سے نبھائی کہ مخالفین بھی عش عش کر اٹھے۔ ہڑتال والے دن پورا سری نگر بند رہا۔ چند ہفتے بعد سری نگر ہی میں مسرت عالم کے زیر اہتمام ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس سے گیلانی صاحب و دیگر لیڈروں نے خطاب کیا۔ جلسے میں پاکستانی جہادی تنظیم، لشکر طیبہ کے جھنڈے بھی لہرائے گئے۔ اس ''جرم'' پر مسرت عالم کو گرفتار کرلیا گیا۔
اگلے سال وہ رہا ہوئے، تو امرناتھ یاترا بورڈ کو دی جانے والی زمین کا معاملہ دنیا بھر میں ہلچل مچا چکا تھا۔ کشمیری عوام یہ دیکھ کر غم و غصّے میں تھے کہ ان کی زمینیں ایک ہندو تنظیم کو دے دی گئیں۔مسرت عالم نے اپنی زبردست تنظیمی صلاحیتوں کی بدولت اس عوامی غم و غصے کو منظم احتجاج میں بدل ڈالا۔
بھارتی سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینکنا کشمیریوں کا دیرینہ ہتھیار ہے۔ مسرت عالم نے باقاعدہ پتھر بردار دستے تیار کیے تاکہ وہ دشمن کو زیادہ نقصان پہنچاسکیں۔ نیز انہوں نے نوجوانوں کو دیواروں پر بھارت مخالف نعرے لکھنے کا گُر بتایا۔ مسرت عالم پہلے کشمیری رہنما ہیں جنہوں نے دوران احتجاج سوشل میڈیا سے بھی مدد لی اور وہاں کشمیریوں کو بھارتی حکمرانوں کے خلاف متحرک کیا۔
مسرت عالم کی سعی کے باعث بھارت مخالف احتجاج پوری وادی کشمیر میں پھیل گیا۔ بھارتی نواز حکومت نے اس احتجاج کو سختی سے کچلا۔ چناں چہ 60 سے زائد کشمیری شہید ہوگئے جبکہ مسرت عالم کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔ 2008ء کے احتجاجی مظاہروں نے دنیا والوں کو بتا دیا کہ کشمیری مسلمان ہندوئوں کی حکمرانی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔
اس بار دو سال بعد جولائی 2010ء میں مسرت عالم کو رہائی ملی۔ چند ہی دن بعد سری نگر میں سکیورٹی فورسز نے ایک معصوم لڑکے، طفیل احمد کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اس بہیمانہ کارروائی نے سبھی کشمیریوں کو مشتعل کرڈالا اور وہ بھارت نواز کشمیری حکومت اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف زبردست احتجاج کرنے لگے۔
احتجاج کے آغاز ہی میں سید علی گیلانی گرفتار کرلیے گئے۔ تاہم مسرت عالم زیر زمین جانے میں کامیاب رہے۔ گیلانی صاحب نے دوبارہ احتجاجی تحریک کی قیادت ان کے سپرد کردی۔ مسرت عالم نے یہ ذمے داری عمدگی سے نبھائی۔انھوں نے بکھرے مظاہرین کو منظم کیا اور وہ نظام الاوقات کے تحت جلسے کرنے اور جلوس نکالنے لگے۔ حکمرانوں نے حسب روایت احتجاجیوں پر ظلم و ستم ڈھایا اور سیکڑوں کشمیری نوجوان شہید کر ڈالے۔ مگر انہوں نے اپنا لہو دے کر جدوجہد آزادی میں نیا جوش و ولولہ بھر دیا۔
بعض کشمیری لیڈر احتجاجی جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''احتجاجی تحریکیں اس طرح نہیں چلائی جاتیں۔ 2010ء میں 120 سے زائد نوجوان شہید ہوگئے، مگر حاصل کیا ہوا؟ اب بہت خون بہہ چکا۔ ہمیں آزادی حاصل کرنے کے ایسے طریقے دریافت کرنے چاہئیں کہ خون کم سے کم بہے۔ مگر وہ (مسرت عالم) سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر بھارت کو کشمیر سے نکال دے گا۔''
مسرت عالم کا کہنا ہے ''ہمارا احتجاج پُر امن ہوتا ہے، اسے متشدد بھارتی سکیورٹی فورسز بناتی ہیں۔ وہ ہمارے نوجوانوں پر بے دریغ گولیاں برساتی اور انہیں شہید کرتی ہیں۔آپ پھر یہ دیکھیے کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق گردن سے اتارتے ہوئے ہندوستانیوں کو 190 برس لگ گئے۔ اب ہم بھارتی حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن منزل تک پہنچنا آسان نہیں، یہ بہت کٹھن راستہ ہے۔ بس کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ہمت بلند رکھیں، انشاء اللہ ایک دن ہمیں آزادی کی نعمت ضرور حاصل ہوگی۔''
2012ء کے زبردست مظاہروں نے بھارتی حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا ۔ بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے ایجنٹ بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسرت عالم کو تلاش کرنے لگے۔ آخر ان کی رہائش گاہ کا پتا چلتے ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اب ''قانون سے خالی قانون'' (Law less Law)،پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مسرت عالم پھر جیل خانوں کے مکین بنا دیئے گئے۔
پانچ برس بعد مارچ 2015ء میں مقبوضہ کشمیر کی نئی کٹھ پتلی حکومت نے انھیں رہا کردیا۔ یہ قدم اٹھا کر نئے وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر، مفتی محمد سعید عوام میں مقبول ہونا چاہتے تھے۔ مگر مسرت عالم کی رہائی پر بھارتی حکمران طبقہ چیخ اٹھا۔
وسط اپریل میں سید علی گیلانی نئی دہلی میں تین ماہ علاج کراکر واپس سری نگر پہنچے۔ مسرت عالم نے ان کے استقبالیہ جلوس کا اہتمام کیا۔ اس شاندار جلوس میں ہزارہا کشمیری شریک ہوئے۔ یہی وہ جلوس ہے جس میں کشمیری نوجوانوں نے خوشی و مسّرت کے عالم میں پاکستان کے جھنڈے لہرائے۔ نیز ''پاکستان زندہ باد'' کے جوشیلے نعرے بلند کیے۔
مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی مقبولیت دیکھ کر بھارتی حکومت کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ چناںچہ اس کے حکم پر مسرت عالم دوبارہ حوالہِ زنداں کردیئے گئے۔ اب جیل میں ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ وجہ یہ کہ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے اعلان کردیا ہے، جس ہندو نے مسرت عالم کو شہید کیا، اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔
مسرت عالم کی شخصیت میں شاید بشری کمزوریاں بھی ہوں، مگر وہ اتنی نمایاں نہیں کہ حاوی آجائیں۔ علاقائی سپرپاور سے ٹکرلینے کے باوجود وہ سنجیدہ مزاج شخص نہیں بلکہ ہنستے مسکراتے مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جیل میں ہوں، تو ساتھی قیدیوں کو اپنے چٹکلوں سے محظوظ کرتے اور ماحول خوشگوار رکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی تمنا خطہ ِکشمیر کو آزادی دلوانا ہے... وہ آزادی جو کسی بھی حساس اور باشعور انسان کی روح کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔
مظلوم کشمیریوں کی داستان الم
کرئہ ارض پر واقع مثل جنت خطہ کشمیر پچھلے تقریباً دو سو برس سے غیر مسلموں کے قبضے میں ہے ۔حالانکہ جموں کے چند اضلاع چھوڑ کر اس علاقے کی بیشتر آبادی مسلما ن ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں پہ پہلی آفت 1819ء میں ٹوٹی جب رنجیت سنگھ نے اس پر قبضہ کیا اور علاقے کو اپنی سکھ پنجاب سلطنت میں شامل کر لیا۔
اب رنجیت سنگھ کے مقرر کردہ سکھ والی (گورنر) کشمیر پر حکومت کرنے لگے۔ انہوں نے امن پسندکشمیری مسلمانوں کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ گائے کی قربانی پر پابندی لگا دی۔ سری نگر میں جامع مسجد کو اصطبل بنا لیا۔ حتیٰ کہ مساجد سے اذان دینا بھی رکوا دیا۔
سکھوں نے کشمیری مسلمانوں پر ایک بڑا ظلم یہ ڈھایا کہ ان پر ٹیکسوں کی بھر مار کر دی۔ مسلمان کسان یا پیشہ ور جو کماتا' اس کا بیشتر حصہ سکھ انتظامیہ ڈکار جاتی۔ سکھوں کے مظالم کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں کی بڑی تعداد کشمیر چھوڑ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں میں جا بسی۔ غرض سکھوں نے طاقت کے زور پر کشمیری مسلمانوںکو ایسا دبایا کہ وہ خوفزدہ ہو کر ہر ظلم خاموشی سے سہنے لگے۔
1845ء میں انگریزوں نے دس لاکھ روپے کے عوض خطہ ِکشمیر ہندو راجپوت سردار' گلاب سنگھ کو فروخت کر دیا۔ یوں اب ہندو کشمیری مسلمانوں پر حکومت کرنے لگے۔ انہوںنے وہ طور طریقے جاری رکھے جن کی مد د سے سکھ مظلوم مسلمانوں پر ظلم توڑتے تھے اور اپنا مطیع بنائے رکھتے۔
ڈوگرا ریاست میں جموں اور لداخ کے علاقوں میں آباد ہندوؤں اور سکھوں کو تمام حقوق اور سہولیات حاصل تھیں۔ جبکہ کشمیر اور گلگت وبلتستان میں آباد مسلمان ظلم کی چکی میں پسنے پر مجبور کر دیئے گئے۔ پوری انتظامیہ سکھ یا ہندو افسر وں اور ملازمین پر مشتمل تھی جنہوں نے مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لیا۔
غلامی کا یہ طوق تعلیم کے ہتھیار نے توڑا۔ ہوا یہ کہ بیسویں صدی کے اوائل میں خصوصاً علی گڑھ کالج سے کئی کشمیری نوجوان پڑھ لکھ گئے۔ باشعور ہونے کے بعد وہ نہ صرف بطور شہری اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوئے بلکہ انہوں نے جانا کہ کشمیر میں ان کے بھائی بند بدترین آمریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
ان کشمیری تعلیم یافتہ نوجوانوں نے لاہور کو اپنا مرکز بنا لیا ۔انھوں نے پھر مختلف سماجی و سیاسی تنظیمیں قائم کیں تاکہ کشمیری عوام کو بیدار کیا جا سکے۔ ان نوجوانوں میں چودھری غلام عباس' شیخ عبداللہ اور میر واعظ محمد یوسف شاہ نمایاں تھے۔ ان سبھی نوجوانوں کی منزل یہ تھی کہ مقہور و بے بس کشمیری و گلگتی مسلمانوں کو ڈوگرا شاہی سے نجات دلائی جائے۔
نوجوانوں کی سعی جاری تھی کہ اسی دوران مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کر کے آمروں نے انہیں شعلہ جوالہ بنا دیا۔ ہوا یہ کہ 19 اپریل 1931ء کو جموں شہر میں ڈی آئی جی پولیس ' رام چند نے مرکزی عید گاہ میں منشی محمد اسحاق کو خطبہ دینے سے روک دیا۔ بعدازاں ڈوگرا فوجیوں نے قرآن پاک بھی شہید کر ڈالے۔
قرآن پاک کی بے حرمتی نے سبھی کشمیری مسلمانوں کو مشتعل کر دیا اور حکمرانوں کے خلاف دبی نفرت کا لاوا پھوٹ نکلا۔وادی کشمیر میں جگہ جگہ ہری سنگھ حکومت کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔21 جون کوسرینگر میں حکومت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ ہوا ۔جب مختلف کشمیری رہنما تقاریر کر چکے تو اچانک عبدالقدیر نامی نوجوان ڈائس پر نمودار ہوا ۔وہ ڈوگرا شاہی کے مظالم سے عاجز آیا عام کشمیری نوجوان تھا۔ وہ ہم وطنوں سے مخاطب ہو کر بولا:
''بھائیو! جہاد کا وقت آ پہنچا ۔ درخواستوں اور اپیلوں سے ڈوگرا راج سیدھا نہیں ہو گا۔ اب کمر کس لو اور حکمرانوں کے خلاف لڑنے میدان عمل میں آ جاؤ۔'' اس نے پھر راج محل کی طرف اشارہ کیا اور کہا''اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔''
جلسہ گاہ میں موجود ہندو سپاہیوں نے ڈوگرا حکومت کے خلاف آتشیں تقریر کرنے پہ عبدالقادر کو گرفتار کر لیا ۔ مگر اس خطاب نے عام کشمیریوں میں جدوجہد آزادی کا ولولہ پیدا کر ڈالا۔ یہ حقیت ہے کہ کشمیری تحریک آزادی نے عوام کے درمیان جنم لیا... اسی لیے لاکھوں فوجی لا کر بھی بھارتی حکومت اس کا خاتمہ نہیں کر سکی۔
اب عبدالقدیر پر بغاوت کا مقدمہ چلنے لگا۔ 13 جولائی 1931ء کو ہزار ہا کشمیری وسطی جیل ' سری نگر پہنچ گئے تاکہ مقدمے کی کارروائی سن سکیں۔ نماز ظہر کے وقت ایک کشمیری نوجوان اٹھا اور اذان دینے لگا۔ چونکہ ریاست میں اعلانیہ اذان دینے پر پابندی تھی' لہٰذا ہندوسپاہیوں نے اسے روکنا چاہا ۔جب نوجوان نے اذان دینا جاری رکھا' سپاہیوں نے اسے شہید کر دیا۔ یوں غیور و باغیرت مسلمان نے اپناسر کٹوا ڈالا ' آمر کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔
اچانک ایک اور کشمیری نوجوان ایستادہ ہوا۔ وہ وہیں سے اذان دینے لگا جہاں شہید ہوتے نوجوان کے لبوں نے اسے چھوڑا تھا۔ ظالم سپاہیوں نے اسے بھی شہید کرڈالا۔ یوں یکے بعد دیگرے 21 کشمیری نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا مگر انہوں نے اذان کو ختم کرکے ہی دم لیا۔ یہ یقیناً تاریخ اسلام کا ایمان افروز اور ولولہ انگیز واقعہ ہے۔
اس واقعے نے ریاست کے تمام مسلمانوں میں غم و غصّے کی لہر دوڑا دی۔ اب انہیں احساس ہوا کہ ڈوگرا شاہی کے خلاف جدوجہد کرنے کا وقت آپہنچا۔ یوں 21 شہدا کا خون رائیگاں نہیں گیا اور انہوں نے اپنے لہو سے ریاست میں آزادی کی شمع روشن کردی۔
بدقسمتی سے کشمیریوں کا اہم رہنماء شیخ عبداللہ حبِ جاہ میں مبتلا گیا۔ ریاست میں مقبول ہوکر وہ خود کو بادشاہ تصّور کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے، 1947ء میں آزادی کا وقت قریب آیا،تو اس کی پوری کوشش رہی، جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بنے بلکہ وہ آزاد و خودمختار ریاست بن جائے تاکہ وہاں ٹھاٹھ سے حکومت کر سکے۔ چونکہ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے اسے ریاست کا بلاشرکت غیرے حکمران بنا ڈالا، لہٰذا شیخ عبداللہ بھارت کی جھولی میں جا بیٹھا۔
آج تک بھارتی برہمن طبقے کے چنگل میں پھنسے کشمیری مسلمان شیخ عبداللہ کی ہوسِ جاہ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور انہیں آزادی نصیب نہیں ہوسکی۔بھارتی حکومت نے خوفناک قوانین اور فوج کی مدد سے کشمیری مسلمانوں کو ایک طرح سے اپنا غلام بنا رکھا ہے اور ریاستی وسائل پہ قبضہ کیے بیٹھی ہے۔