کویت اور تیونس میں دہشت گردی کی وارداتیں
مشرق وسطیٰ میں عراق، یمن اور شام انتہائی خلفشار کا شکار ہیں۔ یہیں داعش کا جنم ہوا ہے
خلیج عرب کی تیل کی دولت سے مالامال ریاست کویت میں ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خود کش دھماکے میں بیسیوں نمازی شہید اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہو گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق خودکش حملہ آور نے جب خود کو اڑایا تو اس وقت مسجد میں نمازیوں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی، خلیج عرب میں کویت کا شمار امیر ترین اور پرامن ممالک میں ہوتا ہے۔
کویت کی تاریخ میں پہلی بار کسی مسجد پر حملہ ہوا ہے۔ پچھلے دنوں سعودی عرب میں بھی دو مساجد پر یکے بعد دیگرے خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ سعودیہ عرب کی تاریخ میں بھی مساجد پر پہلی مرتبہ حملے ہوئے تھے۔ کویت میں جس مسجد پر خود کش حملہ ہوا اس کا نام امام الصادق مسجد بتایا گیا ہے۔ واقعات کے مطابق خودکش حملہ آور نے نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے دوران مسجد میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ داعش نے اس خودکش دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
پاکستان نے کویت میں مسجد پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام متاثرہ افراد کے لواحقین سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان دہشت گردی اور اس کے تمام مظاہر کی مذمت کرتا ہے اور اس کے خلاف ہے۔ ادھر مشرق وسطی کے ایک اور ملک تیونس میں تفریحی مقام سوسی میں دو ہوٹلوں پر دو دہشت گردوں کی فائرنگ سے 37 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد ٹھہری ہوئی تھی۔ مارے جانے والوں کا تعلق تیونس، برطانیہ، جرمنی اور بلغاریہ سے بتایا گیا ہے۔
تیونس کی وزارت داخلہ نے ستائیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ دہشت گردی کی کارروائی ہے۔ ایک دہشت گرد شخص ہلاک کر دیا گیا ہے۔ دوسرے حملہ آور کے بارے میں تاحال یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ ان سطور کے لکھے جانے تک ممکن ہے کہ اس دہشت گرد کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی کی ذمے داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔ امسال مارچ میں بھی تیونس کے دارالحکومت میں ایک عجائب گھر پر حملے میں 22 افراد مارے گئے تھے۔ عالمی لیڈروں نے بھی ان دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی ہے۔ امریکا، فرانس، اسپین، جرمنی، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مذمت کرنے والوں میں شامل ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں عراق، یمن اور شام انتہائی خلفشار کا شکار ہیں۔ یہیں داعش کا جنم ہوا ہے۔ داعش کن حالات میں پیدا ہوئی، اس سے قطع نظر موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تنظیم اب خوشحال اور پرامن عرب ممالک میں بھی کارروائیاں کر رہی ہے۔ داعش کی کارروائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں فرقہ واریت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ داعش کے ماسٹر مائنڈ اور نظریہ سازوں کا ٹارگٹ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جائے تاکہ پرامن اور خوشحال ممالک بھی خانہ جنگی اور بدنظمی کا شکار ہوں۔ مشرق وسطیٰ کا المیہ یہ ہے کہ ایک جانب یہ سارا خطہ عالمی سازشوں کا شکار ہے تو دوسری جانب یہاں کے مسلم ممالک کی قیادت اتنی دوراندیش اور زیرک ثابت نہیں ہوئی کہ وہ ان سازشوں کو ناکام بنا سکے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔
بشار الاسد کی حکومت بظاہر قائم ہے لیکن عملاً اس کا کنٹرول چند ایک علاقوں تک ہے جب کہ دیگر علاقوں میں داعش کا کنٹرول ہے۔ عراق کی بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ یہ ملک بھی عملاً مسلکی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے۔ اس ملک کے بڑے حصے پر بھی داعش کا کنٹرول ہے۔ اب یمن بھی ایسی ہی کشیدگی کا شکار ہو گیا ہے۔ یہاں بھی خانہ جنگی جاری ہے۔ ادھر مشرق وسطیٰ کی مستحکم ریاستوں کی قیادت کا یہ حال ہے کہ وہ ان تنازعات میں فریق بن کر لڑ رہی ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خطے کی مسلم قیادت شام، عراق اور یمن میں قیام امن کی کوئی راہ نکالتی، لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ اب داعش سعودی عرب اور کویت میں داخل ہو کر کارروائیاں کر رہی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ خلیج کی دیگر خوشحال ریاستوں میں بھی ایسی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر خلیج عرب کی خوشحال ریاستیں بھی شام اور عراق کے انجام سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
ایسی صورت میں پوری مسلم دنیا بری طرح متاثر ہو گی۔ ادھر تیونس میں جو حملہ ہوا ہے، اس میں بھی دہشت گردوں کے مقاصد واضح نظر آ رہے ہیں۔ اس حملے کے پس پردہ مقاصد کچھ یوں ہو سکتے ہیں کہ تیونس میں سیاحوں کی آمد کو بند کرایا جائے۔ تیونس بھی بحران کا شکار ہے تاہم وہاں کسی حد تک صورت حال قابو میں ہے، غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد اس ملک کا رخ کرتی ہے جس سے اس کی معیشت مستحکم ہے۔ دہشت گرد پورے عالم اسلام کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، انھیں ختم کرنے کے لیے مسلم ممالک کی قیادت کو متحد ہو کر دہشت گردی کی اس لہر کا مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ دہشت گرد تنظیمیں ایک کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو تباہی سے دوچار کر دیں گی۔
کویت کی تاریخ میں پہلی بار کسی مسجد پر حملہ ہوا ہے۔ پچھلے دنوں سعودی عرب میں بھی دو مساجد پر یکے بعد دیگرے خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ سعودیہ عرب کی تاریخ میں بھی مساجد پر پہلی مرتبہ حملے ہوئے تھے۔ کویت میں جس مسجد پر خود کش حملہ ہوا اس کا نام امام الصادق مسجد بتایا گیا ہے۔ واقعات کے مطابق خودکش حملہ آور نے نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے دوران مسجد میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ داعش نے اس خودکش دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
پاکستان نے کویت میں مسجد پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام متاثرہ افراد کے لواحقین سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان دہشت گردی اور اس کے تمام مظاہر کی مذمت کرتا ہے اور اس کے خلاف ہے۔ ادھر مشرق وسطی کے ایک اور ملک تیونس میں تفریحی مقام سوسی میں دو ہوٹلوں پر دو دہشت گردوں کی فائرنگ سے 37 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد ٹھہری ہوئی تھی۔ مارے جانے والوں کا تعلق تیونس، برطانیہ، جرمنی اور بلغاریہ سے بتایا گیا ہے۔
تیونس کی وزارت داخلہ نے ستائیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ دہشت گردی کی کارروائی ہے۔ ایک دہشت گرد شخص ہلاک کر دیا گیا ہے۔ دوسرے حملہ آور کے بارے میں تاحال یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ ان سطور کے لکھے جانے تک ممکن ہے کہ اس دہشت گرد کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی کی ذمے داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔ امسال مارچ میں بھی تیونس کے دارالحکومت میں ایک عجائب گھر پر حملے میں 22 افراد مارے گئے تھے۔ عالمی لیڈروں نے بھی ان دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی ہے۔ امریکا، فرانس، اسپین، جرمنی، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مذمت کرنے والوں میں شامل ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں عراق، یمن اور شام انتہائی خلفشار کا شکار ہیں۔ یہیں داعش کا جنم ہوا ہے۔ داعش کن حالات میں پیدا ہوئی، اس سے قطع نظر موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تنظیم اب خوشحال اور پرامن عرب ممالک میں بھی کارروائیاں کر رہی ہے۔ داعش کی کارروائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں فرقہ واریت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ داعش کے ماسٹر مائنڈ اور نظریہ سازوں کا ٹارگٹ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جائے تاکہ پرامن اور خوشحال ممالک بھی خانہ جنگی اور بدنظمی کا شکار ہوں۔ مشرق وسطیٰ کا المیہ یہ ہے کہ ایک جانب یہ سارا خطہ عالمی سازشوں کا شکار ہے تو دوسری جانب یہاں کے مسلم ممالک کی قیادت اتنی دوراندیش اور زیرک ثابت نہیں ہوئی کہ وہ ان سازشوں کو ناکام بنا سکے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔
بشار الاسد کی حکومت بظاہر قائم ہے لیکن عملاً اس کا کنٹرول چند ایک علاقوں تک ہے جب کہ دیگر علاقوں میں داعش کا کنٹرول ہے۔ عراق کی بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ یہ ملک بھی عملاً مسلکی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے۔ اس ملک کے بڑے حصے پر بھی داعش کا کنٹرول ہے۔ اب یمن بھی ایسی ہی کشیدگی کا شکار ہو گیا ہے۔ یہاں بھی خانہ جنگی جاری ہے۔ ادھر مشرق وسطیٰ کی مستحکم ریاستوں کی قیادت کا یہ حال ہے کہ وہ ان تنازعات میں فریق بن کر لڑ رہی ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خطے کی مسلم قیادت شام، عراق اور یمن میں قیام امن کی کوئی راہ نکالتی، لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ اب داعش سعودی عرب اور کویت میں داخل ہو کر کارروائیاں کر رہی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ خلیج کی دیگر خوشحال ریاستوں میں بھی ایسی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر خلیج عرب کی خوشحال ریاستیں بھی شام اور عراق کے انجام سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
ایسی صورت میں پوری مسلم دنیا بری طرح متاثر ہو گی۔ ادھر تیونس میں جو حملہ ہوا ہے، اس میں بھی دہشت گردوں کے مقاصد واضح نظر آ رہے ہیں۔ اس حملے کے پس پردہ مقاصد کچھ یوں ہو سکتے ہیں کہ تیونس میں سیاحوں کی آمد کو بند کرایا جائے۔ تیونس بھی بحران کا شکار ہے تاہم وہاں کسی حد تک صورت حال قابو میں ہے، غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد اس ملک کا رخ کرتی ہے جس سے اس کی معیشت مستحکم ہے۔ دہشت گرد پورے عالم اسلام کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، انھیں ختم کرنے کے لیے مسلم ممالک کی قیادت کو متحد ہو کر دہشت گردی کی اس لہر کا مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ دہشت گرد تنظیمیں ایک کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو تباہی سے دوچار کر دیں گی۔