نعت کی بات

نعت غالباً واحد صنعف سخن ہے کہ جس کے آغاز کا زمانہ بہت آسانی وثوق اور وضاحت کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے۔

Amjadislam@gmail.com

نعت غالباً واحد صنعف سخن ہے کہ جس کے آغاز کا زمانہ بہت آسانی وثوق اور وضاحت کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بے شمار فضیلتوں میں سے ایک اہم فضیلت یہ بھی ہے کہ آج تک کی محفوظ انسانی تاریخ میں کسی بھی شکل میں بلکہ اظہار کے سب ذرائع کو ملا کر بھی کسی فرد واحد کی مدح میں اس انداز اور مقدار میں نہیں لکھا گیا جتنا ہمارے رسول کریم محمدؐ عربی کی شان میں لکھا گیا ہے کہ ان کی ثنا دنیا کی تقریباً ہر اس زبان میں کی گئی ہے جس کے بولنے والوں میں مسلمان شامل ہیں اور اس صنف کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ بہت سے غیر مسلم شاعروں نے بھی نعت کی شکل میں آپؐ سے عقیدت اور محبت کا والہانہ اظہار کیا ہے اور کنور مہندر سنگھ بیدی نے تو بڑے دلچسپ اور دلکش انداز میں یہاں تک کہہ دیا کہ

عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارا تو نہیں

عقیدت اور محبت کے اعتبار سے تو ان گنتی سے باہر نعت گو شعرأ کی درجہ بندی اس لیے مناسب نہیں کہ یہ دلوں کا معاملہ ہے جس کا فیصلہ دماغ یا اعداد و شمار یا کسی اور پیمانے سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ البتہ پیرایۂ اظہار، مضمون آفرینی، جذبات کی شدت اور فنی استطاعت ایسے شعبے ہیں جن کی بنیاد پر زبان اور ہر دور میں کچھ مدّاحانِ رسولؐ ایک خاص پہچان کے مالک بن گئے یہ اور بات ہے کہ ان منتخب خوش نصیبوں کی قطار بہت لمبی ہے۔ اردو جیسی کم عمر زبان کے بے شمار شاعروں میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو۔

جس کے کلام میں نعتیہ اشعار موجود نہ ہوں۔ اس صنف کو مسلسل اور باقاعدہ طور پر ذریعۂ اظہار بنانے والے نامور مرحوم شاعروں میں خواجہ میر درد، مولانا حالی، امیر مینائی، محسن کاکوروی، علامہ اقبال، حفیظ جالندھری، مولانا ظفر علی خان، ماہر القادری، امام رضا خان بریلوی، بیدم وارثی، احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی، پیر نصیر الدین، خالد احمد، منیر سیفی، حافظ لدھیانوی، وحید الرحمن ہاشمی اور نعیم صدیقی کے اسمائے گرامی شامل ہیں جب کہ دور حاضر کے باقاعدہ نعتیہ مجموعوں کے حامل شعراء میں خورشید رضوی، اعجاز رحمانی، افتخار عارف، ریاض مجید، سلیم کوثر اور راقم الحروف سمیت کچھ اور شاعروں کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔

البتہ جہاں تک عمدہ اور روح پرور نعتیں لکھنے والوں کی فہرست کا تعلق ہے تو ان کا تعین کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے، کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی ایسی نعت نظر سے نہ گزرتی ہو جو روح کو سرشار نہ کر دے۔ جدید دور کے بیشتر خوش کلام شاعر اپنے اظہار عقیدت کے لیے بعض اوقات ایسے سیدھے دل میں اتر جانے والے اور تازگی سے معمور پیرائے اختیار اور ایجاد کرتے ہیں کے بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ امریکا میں مقیم برادرم عارف امام کی ایسی ہی ایک بہت شگفتہ اور دل آویز نعت گزشتہ دنوں پڑھنے کا موقع ملا ہے جس چاہتا ہے کہ اپنے محترم قارئین کو بھی اس روحانی انبساط میں شامل کروں۔

ہم تو آواز میں آواز ملاتے ہیں میاں
نعت کے شعر کہیں اور سے آتے ہیں میاں
رنگ مضموں تو ہے منت کش جبریل کہ ہم
سادے کاغذ پہ لکریں سی بناتے ہیں میاں
تم جو چاہو اسے معراج کہو تو کہہ لو
میرے آقا تو وہاں سیر کو جاتے ہیں میاں
ہم کو پاپوش مقدس کی زیارت ہے بہت
ان کے نعلین تو افلاک اٹھاتے ہیں میاں
در پہ آقا کے ہوں رضوان! مجھے اور نہ چھیڑ
ان کی چوکھٹ بھی کہیں چھوڑ کے جاتے میں میاں؟
سب کو مل جاتی ہے خیرات بقدر توفیق
اس گلی میں تو صدا سب ہی لگاتے ہیں میاں
خواب میں کاش بلال آ کے کسی روز کہیں

جلد اٹھو تمہیں سرکار بلاتے ہیں میاں

اس نعت کے مضامین تو کسی حد تک مانوس سے ہو سکتے ہیں کہ چودہ صدیوں سے اہل دل اس چمنستان کی سیاحی کرتے آ رہے ہیں مگر اصل دیکھنے والی چیز اس کے الفاظ کا انتخاب طرز استعمال اور وہ مکالمے اور خود کلامی کی ملی جلی کیفیت ہے جس میں حضوری کی لذت عجب طرح سے گھل مل گئی ہے۔

اس میں نہ آپؐ کے سراپے کی باتیں ہیں نہ احادیث کا ذکر نہ مناجات کا سوز، نہ میرے مولا بلا لو مدینے مجھے کا آہنگ ہے اور نہ قوالی کا ردھم اور معجزات کا تذکرہ مگر اس کے باوجود آپ عقیدت کی اس شدت اور اظہار کی اس بے ساختگی کو ایک ایک مصرعے میں دھمال ڈالتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جو شاعر کے ساتھ ساتھ قارئین کو بھی اپنے دل کی آواز محسوس ہونے لگتی ہے۔ ابھی ابھی میرے اصرار پر عزیز سعود عثمانی نے اپنی وہ نعت مجھے whats app پر بھجوائی ہے جو مجھے انھوں نے ایک عمرے کے دوران سنائی تھی۔ اس کی خاص خوبی یہ ہے کہ یہ اس نواح کی مخصوص ذہنی اور روحانی کیفیت سے جغرافیائی دوری کے باوجود فاصلوں کو ختم کر دیتی ہے۔ چند شعر دیکھیے۔

ہے ایک سیل ندامت اس آبگینے میں
عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں
ہے بند آنکھ میں بھی عکس مسجد نبوی
جڑا ہوا ہے یہی خواب اس نگینے میں
کسی نے اسم محمدؐ پڑھا تو ایسا لگا
کہ جیسے کوئی پرندہ اڑا ہو سینے میں
میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی
سلگتے دشت سے آیا ہوا مدینے میں
سعودؔ یوں بھی تو ممکن ہے حاضری لگ جائے
میں اپنے شہر میں ہوں اور دل مدینے میں

اس موضوع پر انشاء اللہ میں رمضان بھر میں مسلسل لکھتا رہوں گا۔ فی الوقت غالبؔ کے ایک نعتیہ مطالعے اور اقبال کے رب کریم کی گواہی کے ترجمان ایک لافانی شعر پر اس کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ ان دو بڑوں کے بعد بات کرنا ویسے بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔

منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
قسمت کھلی تیرے قد و رخ سے ظہور کی
(غالبؔ)
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(اقبالؔ)
Load Next Story