Doggy Bag…
’’ ہم نے بہت کھایا مگر تکلف آپ نے کیا کہ ہر قسم کی ڈش جو کہ اس ریستوران میں تیار ہوتی ہے
میز پر اتنی مقدار میں کھانا سجا تھا کہ دیکھ کر بھوک واقعی فنا ہو گئی، دو ہم مہمان تھے اور دو ہی میزبان، میز پر رکھا کھانا ہم جیسے غالباً دس بارہ لوگوں کے لیے کافی تھا، اگر زیادہ کھانے والے لوگ ہوتے تو بھی آٹھ لوگ پیٹ بھر کر کھا سکتے تھے، بصد کوشش بھی کچھ ڈشیں بن چھوئے پڑی رہ گئیں۔
'' آپ نے بہت تکلف کیا ، کچھ کھایا ہی نہیں '' ہماری میزبان نے شکوہ کیا۔
'' ہم نے بہت کھایا مگر تکلف آپ نے کیا کہ ہر قسم کی ڈش جو کہ اس ریستوران میں تیار ہوتی ہے وہ آپ نے اس میز پر منگوا رکھی تھی، کتنا کچھ کھایا جا سکتا ہے بھلا '' میں نے جواب دیا۔ بیرے کو بل لانے کو کہہ دیا گیا تھا، '' یہ ساراکھانا آپ پیک کروا لیں !!!'' میں نے ان سے کہا، درخواست یا مشورہ...
'' آپ کامطلب ہے doggy bag ؟ '' ہنس کر ہمارے میزبان نے کہا، '' رہنے دیں بہن جی، یوں بھی ہمارے گھر میں کوئی کتا تو ہے نہیں !!''
'' کتا نہ سہی، آپ کے گھر میں اتنے انسان تو ہیں '' میں نے فورا کہا۔
'' چھوڑیں جی... اب کیا یہاں سے کھانا پیک کروا کر لے جاتے ہوئے ہم اچھے لگیں گے، بندہ شوہدا سا لگتا ہے، جتنا کھایا گیا سو کھایا گیا، ایسے کمینوں کی طرح کھانے کے پیکٹ اٹھا کر باہر لے جاتے ہوئے کوئی واقف ہی مل جائے تو بندے کو شرم ہی آتی ہے نا!!'' ان کی بیگم نے نخوت سے کہا۔
'' اس کھانے کو آپ نے منگوایا، کم از کم اس کھانے کا آپ دس ہزار کے قریب بل دے رہے ہوں گے، اس میں سے بہت سی چیزیں ان چھوئی واپس جا رہی ہیں، ریستوران والے آپ سے بھی ان کی لاگت وصول کر رہے ہیں ٹیکس سمیت اور اسی ڈش کو وہ ایک بار دوبارہ بیچ سکتے ہیں، اگر نہیں بیچیں گے تو یہ کھانا کوڑے دانوں میں چلا جائے گا، یہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے!!!'' میں باز کہاں آ سکتی تھی بھلا۔
'' کوڑے میں کیوں جائے گا، اتنے ویٹر جو ہیں، یہی لوگ کھا لیں گے... ''
'' ان ویٹروں کے لیے آپ کیوں کھانا اپنے پیسوں سے خرید کر چھوڑ کر جائیں اور پھر آپ کو کیا معلوم کہ یہ کھانا ان کو بھی کھانے کو ملے گا کہ نہیں!! آپ کیا اپنے گھر میں اور گھر سے باہر، آپ سمیت کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کھانے کے حقیقی حق دار ہیں '' میری ساری تقریر ندارد گئی اور انھوں نے کھانا پیک کروا کر لے جانے سے انکار کر دیا، ان کے بقول doggy bag ان کے اسٹیٹس سے میل نہ کھاتا تھا، جانے مغرب سے ہمارے ہاں ایسے الفاظ کیوں در کر آتے ہیں جن کا ہمارے مذہب، معاشرت اور تمدن سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔
خود مغرب میں اس اصطلاح کی بنیاد گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں کی گئی ، نیویارک میں گرین وچ اسٹریٹ پر ڈان اسٹیمپلرز سٹیک ہاؤس نامی ریستوران میں سب سے پہلے یہ رسم متعارف کروائی گئی، کھانے کے اختتام پر، ہوٹل کی طرف سے گاہکوں کو ایک سادہ لفافہ دیا جاتا تھا جو کہ چکنائی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو اگر اپنے کتے کے لیے لے کر جانا چاہیں تو... اس کے بعد لفافے بنانے کی کمپنی کے مالک کی بیوی نے ایک نظم لکھی، اس نظم کو ان لفافوں پر چھاپا جانے لگا، اس نظم کے ساتھ اس لفافے پر چند کتوں کی تصاویر بھی تھیں، ایک کے بعد سبھی ریستورانوں میں یہ لفافے متعارف کروائے گئے اور یوں یہ اصطلاح چل پڑی۔ لوگ جو پہلے بچا ہوا کھانا لینے میں شرمندگی محسوس کرتے تھے، اب انھیں کوئی مسئلہ نہ تھا، کھانے کے بعد انھیں لفافے دے دیے جاتے تھے اور وہ اپنا کھانا پیک کر کے لے جاتے، اب ان کی مرضی ہے کہ وہ خود کھائیں یا کتوں کو کھلائیں یا اس کا جو چاہے مصرف کریں ۔
ہمارے ہاں جوں جوں گھر سے باہر کھانے کا رواج چلا ہے ہم نے مغرب سے ہر قسم کے کھانوں کی چین اپنے ملک میں منگوا لی ہے اور گھر میں کھانا کھانے کی نسبت باہر کھانا کھانے کو اسٹیٹس کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے مگر ہم نے مغرب سے اچھی چیزیں نہیں سیکھیں ۔ ہم وہ کوے ہیں جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گئے ہیں۔
ہمیں اپنے بچے ہوئے کھانے کو گھرتک لانے میں شرم محسوس ہوتی ہے، ہمیں تب شرم محسوس نہیں ہوتی جب ہم اپنی نظروں کے سامنے حسرت بھری ان آنکھوں کو دیکھتے ہیں جو ہمیں پانچ ستاروں والے ہوٹلوں کی پارکنگ میں نظر آتی ہیں ، جو ہمیں اس لیے گھور گھور کر دیکھتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں جو ان ہوٹلوں کے اندر جا کر کھانا کھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہمارے پاس اگر پھینکنے کو اتنا کچھ ہے کہ ہمیں اپنے ادا کیے گئے اتنے بڑے بل کے ضایع جانے کا بھی دکھ نہیں ہوتا تو ہم اسے کسی غریب کو کھلانے میں کس حد تک خرچ کرتے ہیں؟ ہمیں اپنا کھانا پیک کروا کے اٹھانا برا لگتا ہے مگر جب ہم اپنی نظروں کے سامنے اسی جیسا کھانا ، اگلے روز، کوڑے کے ڈھیروں پر سے چن چن کر کھاتے ہوئے ، معصوم بچوں کو دیکھتے ہیں تو تب ہمیں شرم نہیں آتی، ہمیں اس وقت شرم نہیں آتی جب سگنل پر گاڑی رکتی ہے اور ہمارے پاس مدقوق چہروں والے، ہمارے ہی جیسے اللہ کے بنائے ہوئے بندے، ہاتھ پھیلا کر کہتے ہیں کہ وہ دو دن سے بھوکے ہیں اور کھانے کو کچھ نہیں۔
ہمیں اس وقت انسانیت کو بچانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جب ناکافی سہولیات ، مہنگائی اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے انسان روزے کی حالت میں رتبہ شہادت پا جاتے ہیں، مگر ہم اس کے بعد بھی نہیں سنبھلتے، ہم مرنے والوں کے لواحقین کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کے '' انعام '' کا اعلان تو کر دیتے ہیں مگر جو ابھی زندہ ہیں اور موت سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے لیے کوئی مراعات نہیں ، ان کے لیے مراعات تبھی ہوں گی جب وہ مریں گے، سو ان کے لواحقین اس وقت کا انتظار کریں کیا؟
جہاں مجبوروں کو مجبوری کی انتہا تک پہنچا دیا جائے، تین چار سو روپے میں بکنے والا برف کا بلاک پندرہ سو میں بک رہا ہو، اخبارات اور ٹیلی وژن چاہے مبالغے کی مشینیں ہی کہلاتے ہوں مگر کوئی رائی ہو گی تو پربت بن رہے ہوں گے۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں کہ ایک طرف موت گلیوں میں رقص کر رہی ہے، رمضان کا مقدس مہینہ ہے۔
روزہ دار مجبوری کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں اور ناجائز منافع خوروں کی چاندی ہو رہی ہے۔ مرنے والوں کے وارثوں سے اہم وہ ہیں جن کے سانسوں کی ڈور ابھی تک بحال ہے، ہر کام کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا اور خواہ مخواہ کی توقعات وابستہ کر لینے سے محرومی اور مایوسی کے سوا کچھ ملنے والا نہیں۔
ملکی خزانے میں عوام کو ریلیف دینے کی سکت نہیں مگر یہیں کچھ کاروباری ایسے بھی ہیں جو ہر موقع پر ان مراعات کا اعلان کرتے ہیں جن کی توقع حکومت سے کی جانی چاہیے، اگر ذاتی جیبوں سے ہی ان غریبوں کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں تو ہمارے کئی صاحبان اقتدار اس کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کی ذاتی جیبیں کیوں ڈھیلی نہیں ہوتیں؟ ہمارے اپنے دستر خوانوں پر سے ہر روز جانے کتنا ہی رزق کوڑے دانوں میں چلا جاتا ہے۔
ہمیں جواب دہی کا خوف نہیں رہا کیا؟؟ یقین کریں کہ ہمارا بچا ہوا جو کھانا ہم کوڑے دانوں میں پھینک دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اگلے روز کون کھائے گا، کچھ نیا بن جائے گا، فرج بھی ہیں مگر ہم اس کھانے کو محفوظ کر کے نہیں رکھتے کہ اگلے روز کسی جاندار کے منہ میں چلا جائے۔ کوئی انسان ہمیںمستحق نظر نہ آئے تو کسی کتے یا بلی کو ہی ڈال دیں ، نیا دن طلوع ہوتا ہے تو باہر نکل کر دیکھیں، گلی کا چوکیدار، دودھ یا اخبار والا، ڈاکیہ، گلی کی صفائی کرنے والا، آپ کے گھر میں برتن اور کپڑے دھونے کے لیے آنے والی مائی... اور اس جیسے ڈھیروں لوگ!!!
اپنا کھانا ہوٹل سے پیک کروانے میں شرم محسوس نہ کریں، اپنے گھر کا ایک دن کا بچا ہوا کھانا کسی مستحق کو دینے میں قباحت نہ سمجھیں، اپنے گھر کا فالتو راشن بھی کسی کو دینے میں برائی نہ سمجھیں، شرم تب محسوس کریں کہ جب آپ رزق ضایع کریں جس کے لیے آپ اللہ تعالی کو جواب دہ ہیں ۔ اس وقت شرمندہ ہوں جب آپ کے گھر میں رزق سنبھالا نہ جا رہا ہو اور کوئی آپ کی نظروں کے سامنے، آپ کی ناک کے نیچے ایک وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھا رہا ہو۔ اللہ تو وہ ہے جو ہماری رائی برابر نیکی کا بھی اجر دیتا ہے، ماہ رمضان میں بالخصوص اس بات کا اہتمام کریں ، اس میں اللہ کی خوشنودی بھی ہے مگر آپ کے اپنے دل کو سکون بھی ملے گا!!!
'' آپ نے بہت تکلف کیا ، کچھ کھایا ہی نہیں '' ہماری میزبان نے شکوہ کیا۔
'' ہم نے بہت کھایا مگر تکلف آپ نے کیا کہ ہر قسم کی ڈش جو کہ اس ریستوران میں تیار ہوتی ہے وہ آپ نے اس میز پر منگوا رکھی تھی، کتنا کچھ کھایا جا سکتا ہے بھلا '' میں نے جواب دیا۔ بیرے کو بل لانے کو کہہ دیا گیا تھا، '' یہ ساراکھانا آپ پیک کروا لیں !!!'' میں نے ان سے کہا، درخواست یا مشورہ...
'' آپ کامطلب ہے doggy bag ؟ '' ہنس کر ہمارے میزبان نے کہا، '' رہنے دیں بہن جی، یوں بھی ہمارے گھر میں کوئی کتا تو ہے نہیں !!''
'' کتا نہ سہی، آپ کے گھر میں اتنے انسان تو ہیں '' میں نے فورا کہا۔
'' چھوڑیں جی... اب کیا یہاں سے کھانا پیک کروا کر لے جاتے ہوئے ہم اچھے لگیں گے، بندہ شوہدا سا لگتا ہے، جتنا کھایا گیا سو کھایا گیا، ایسے کمینوں کی طرح کھانے کے پیکٹ اٹھا کر باہر لے جاتے ہوئے کوئی واقف ہی مل جائے تو بندے کو شرم ہی آتی ہے نا!!'' ان کی بیگم نے نخوت سے کہا۔
'' اس کھانے کو آپ نے منگوایا، کم از کم اس کھانے کا آپ دس ہزار کے قریب بل دے رہے ہوں گے، اس میں سے بہت سی چیزیں ان چھوئی واپس جا رہی ہیں، ریستوران والے آپ سے بھی ان کی لاگت وصول کر رہے ہیں ٹیکس سمیت اور اسی ڈش کو وہ ایک بار دوبارہ بیچ سکتے ہیں، اگر نہیں بیچیں گے تو یہ کھانا کوڑے دانوں میں چلا جائے گا، یہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے!!!'' میں باز کہاں آ سکتی تھی بھلا۔
'' کوڑے میں کیوں جائے گا، اتنے ویٹر جو ہیں، یہی لوگ کھا لیں گے... ''
'' ان ویٹروں کے لیے آپ کیوں کھانا اپنے پیسوں سے خرید کر چھوڑ کر جائیں اور پھر آپ کو کیا معلوم کہ یہ کھانا ان کو بھی کھانے کو ملے گا کہ نہیں!! آپ کیا اپنے گھر میں اور گھر سے باہر، آپ سمیت کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کھانے کے حقیقی حق دار ہیں '' میری ساری تقریر ندارد گئی اور انھوں نے کھانا پیک کروا کر لے جانے سے انکار کر دیا، ان کے بقول doggy bag ان کے اسٹیٹس سے میل نہ کھاتا تھا، جانے مغرب سے ہمارے ہاں ایسے الفاظ کیوں در کر آتے ہیں جن کا ہمارے مذہب، معاشرت اور تمدن سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔
خود مغرب میں اس اصطلاح کی بنیاد گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں کی گئی ، نیویارک میں گرین وچ اسٹریٹ پر ڈان اسٹیمپلرز سٹیک ہاؤس نامی ریستوران میں سب سے پہلے یہ رسم متعارف کروائی گئی، کھانے کے اختتام پر، ہوٹل کی طرف سے گاہکوں کو ایک سادہ لفافہ دیا جاتا تھا جو کہ چکنائی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو اگر اپنے کتے کے لیے لے کر جانا چاہیں تو... اس کے بعد لفافے بنانے کی کمپنی کے مالک کی بیوی نے ایک نظم لکھی، اس نظم کو ان لفافوں پر چھاپا جانے لگا، اس نظم کے ساتھ اس لفافے پر چند کتوں کی تصاویر بھی تھیں، ایک کے بعد سبھی ریستورانوں میں یہ لفافے متعارف کروائے گئے اور یوں یہ اصطلاح چل پڑی۔ لوگ جو پہلے بچا ہوا کھانا لینے میں شرمندگی محسوس کرتے تھے، اب انھیں کوئی مسئلہ نہ تھا، کھانے کے بعد انھیں لفافے دے دیے جاتے تھے اور وہ اپنا کھانا پیک کر کے لے جاتے، اب ان کی مرضی ہے کہ وہ خود کھائیں یا کتوں کو کھلائیں یا اس کا جو چاہے مصرف کریں ۔
ہمارے ہاں جوں جوں گھر سے باہر کھانے کا رواج چلا ہے ہم نے مغرب سے ہر قسم کے کھانوں کی چین اپنے ملک میں منگوا لی ہے اور گھر میں کھانا کھانے کی نسبت باہر کھانا کھانے کو اسٹیٹس کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے مگر ہم نے مغرب سے اچھی چیزیں نہیں سیکھیں ۔ ہم وہ کوے ہیں جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گئے ہیں۔
ہمیں اپنے بچے ہوئے کھانے کو گھرتک لانے میں شرم محسوس ہوتی ہے، ہمیں تب شرم محسوس نہیں ہوتی جب ہم اپنی نظروں کے سامنے حسرت بھری ان آنکھوں کو دیکھتے ہیں جو ہمیں پانچ ستاروں والے ہوٹلوں کی پارکنگ میں نظر آتی ہیں ، جو ہمیں اس لیے گھور گھور کر دیکھتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں جو ان ہوٹلوں کے اندر جا کر کھانا کھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہمارے پاس اگر پھینکنے کو اتنا کچھ ہے کہ ہمیں اپنے ادا کیے گئے اتنے بڑے بل کے ضایع جانے کا بھی دکھ نہیں ہوتا تو ہم اسے کسی غریب کو کھلانے میں کس حد تک خرچ کرتے ہیں؟ ہمیں اپنا کھانا پیک کروا کے اٹھانا برا لگتا ہے مگر جب ہم اپنی نظروں کے سامنے اسی جیسا کھانا ، اگلے روز، کوڑے کے ڈھیروں پر سے چن چن کر کھاتے ہوئے ، معصوم بچوں کو دیکھتے ہیں تو تب ہمیں شرم نہیں آتی، ہمیں اس وقت شرم نہیں آتی جب سگنل پر گاڑی رکتی ہے اور ہمارے پاس مدقوق چہروں والے، ہمارے ہی جیسے اللہ کے بنائے ہوئے بندے، ہاتھ پھیلا کر کہتے ہیں کہ وہ دو دن سے بھوکے ہیں اور کھانے کو کچھ نہیں۔
ہمیں اس وقت انسانیت کو بچانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جب ناکافی سہولیات ، مہنگائی اور غربت کی چکی میں پستے ہوئے انسان روزے کی حالت میں رتبہ شہادت پا جاتے ہیں، مگر ہم اس کے بعد بھی نہیں سنبھلتے، ہم مرنے والوں کے لواحقین کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کے '' انعام '' کا اعلان تو کر دیتے ہیں مگر جو ابھی زندہ ہیں اور موت سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے لیے کوئی مراعات نہیں ، ان کے لیے مراعات تبھی ہوں گی جب وہ مریں گے، سو ان کے لواحقین اس وقت کا انتظار کریں کیا؟
جہاں مجبوروں کو مجبوری کی انتہا تک پہنچا دیا جائے، تین چار سو روپے میں بکنے والا برف کا بلاک پندرہ سو میں بک رہا ہو، اخبارات اور ٹیلی وژن چاہے مبالغے کی مشینیں ہی کہلاتے ہوں مگر کوئی رائی ہو گی تو پربت بن رہے ہوں گے۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں کہ ایک طرف موت گلیوں میں رقص کر رہی ہے، رمضان کا مقدس مہینہ ہے۔
روزہ دار مجبوری کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں اور ناجائز منافع خوروں کی چاندی ہو رہی ہے۔ مرنے والوں کے وارثوں سے اہم وہ ہیں جن کے سانسوں کی ڈور ابھی تک بحال ہے، ہر کام کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا اور خواہ مخواہ کی توقعات وابستہ کر لینے سے محرومی اور مایوسی کے سوا کچھ ملنے والا نہیں۔
ملکی خزانے میں عوام کو ریلیف دینے کی سکت نہیں مگر یہیں کچھ کاروباری ایسے بھی ہیں جو ہر موقع پر ان مراعات کا اعلان کرتے ہیں جن کی توقع حکومت سے کی جانی چاہیے، اگر ذاتی جیبوں سے ہی ان غریبوں کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں تو ہمارے کئی صاحبان اقتدار اس کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کی ذاتی جیبیں کیوں ڈھیلی نہیں ہوتیں؟ ہمارے اپنے دستر خوانوں پر سے ہر روز جانے کتنا ہی رزق کوڑے دانوں میں چلا جاتا ہے۔
ہمیں جواب دہی کا خوف نہیں رہا کیا؟؟ یقین کریں کہ ہمارا بچا ہوا جو کھانا ہم کوڑے دانوں میں پھینک دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اگلے روز کون کھائے گا، کچھ نیا بن جائے گا، فرج بھی ہیں مگر ہم اس کھانے کو محفوظ کر کے نہیں رکھتے کہ اگلے روز کسی جاندار کے منہ میں چلا جائے۔ کوئی انسان ہمیںمستحق نظر نہ آئے تو کسی کتے یا بلی کو ہی ڈال دیں ، نیا دن طلوع ہوتا ہے تو باہر نکل کر دیکھیں، گلی کا چوکیدار، دودھ یا اخبار والا، ڈاکیہ، گلی کی صفائی کرنے والا، آپ کے گھر میں برتن اور کپڑے دھونے کے لیے آنے والی مائی... اور اس جیسے ڈھیروں لوگ!!!
اپنا کھانا ہوٹل سے پیک کروانے میں شرم محسوس نہ کریں، اپنے گھر کا ایک دن کا بچا ہوا کھانا کسی مستحق کو دینے میں قباحت نہ سمجھیں، اپنے گھر کا فالتو راشن بھی کسی کو دینے میں برائی نہ سمجھیں، شرم تب محسوس کریں کہ جب آپ رزق ضایع کریں جس کے لیے آپ اللہ تعالی کو جواب دہ ہیں ۔ اس وقت شرمندہ ہوں جب آپ کے گھر میں رزق سنبھالا نہ جا رہا ہو اور کوئی آپ کی نظروں کے سامنے، آپ کی ناک کے نیچے ایک وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھا رہا ہو۔ اللہ تو وہ ہے جو ہماری رائی برابر نیکی کا بھی اجر دیتا ہے، ماہ رمضان میں بالخصوص اس بات کا اہتمام کریں ، اس میں اللہ کی خوشنودی بھی ہے مگر آپ کے اپنے دل کو سکون بھی ملے گا!!!