ایران کا ایٹمی پروگرام… مثبت پیش رفت کے اشارے
امریکا، یورپی طاقتیں اور ایرانی حکام خاصی سنجیدگی سے ایٹمی معاملات کو حل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی خاطر امریکی اور ایرانی حکام کی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ملاقات ہوگی جب کہ فرانس نے اس بات پر زو ردیا ہے کہ ایران پر تین ایسی کلیدی شرائط عائد کی جانی چاہئیں جن کی موجودگی میں وہ کسی صورت ایٹمی ہتھیار تیار نہ کر سکے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کی ملاقات ویانا میں طے ہے۔ اس ملاقات میں ایران کے ساتھ دو سال سے جاری ایٹمی مذاکرات کو حتمی نتیجے پر پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ جان کیری۔ جواد ظریف ملاقات کی ڈیڈلائن 30 جون مقرر ہے جب کہ کیری نے کہا ہے کہ انھوں نے اس ملاقات کے لیے بہت محنت سے تیاری کی ہے البتہ ابھی بعض بہت سخت رکاوٹیں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اب یہ سمجھوتہ ہو ہی جانا چاہیے لہٰذا ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اس حوالے سے یقینا مثبت پیش رفت عمل میں آئے گی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بھی تسلیم کیا کہ معاہدے پر دستخطوں تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کا بہت سخت عمل طے کرنا ہو گا۔ دریں اثناء حکام کا کہنا ہے کہ ڈیڈلائن کو ممکن ہے چند مزید دنوں کے لیے وسیع کرنا پڑے کیونکہ اب تک کی کامیابی کا جائزہ لیا جائے تو آیندہ صرف ایک دن میں سمجھوتے پر دستخط ہونے ممکن نظر نہیں آتے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ لارنٹ فیبئیس بھی حتمی مذاکرات میں شرکت کے لیے ویانا پہنچ گئے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ایران کی طرف سے بعض کلیدی ضمانتیں درکار ہیں جن میں سب سے اہم تو یہی ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ تیار کرنے کی ٹھوس یقین دہانی کرائے تا کہ اسے سویلین نیوکلیئر پروگرام کی اجازت دی جا سکے۔ نیز ایران کو یورینیم کی تیاری میں مزید کمی کرنے کی بھی یقین دہانی کرانا ہو گی اور اس کے لیے بھی ٹھوس ضمانت دینی ہوگی۔
امریکا، یورپی طاقتیں اور ایرانی حکام خاصی سنجیدگی سے ایٹمی معاملات کو حل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ماضی میں ایسی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ گو ابھی حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کی راہ میں خاصی رکاوٹیں موجود ہیں لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکا اور یورپی طاقتیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ ادھر ایرانی حکومت بھی قدامت پرستوں کے دباؤ کے باوجود اس معاملے کو طے کرنا چاہتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ویانا مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس سے مثبت پیش رفت کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بھی تسلیم کیا کہ معاہدے پر دستخطوں تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کا بہت سخت عمل طے کرنا ہو گا۔ دریں اثناء حکام کا کہنا ہے کہ ڈیڈلائن کو ممکن ہے چند مزید دنوں کے لیے وسیع کرنا پڑے کیونکہ اب تک کی کامیابی کا جائزہ لیا جائے تو آیندہ صرف ایک دن میں سمجھوتے پر دستخط ہونے ممکن نظر نہیں آتے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ لارنٹ فیبئیس بھی حتمی مذاکرات میں شرکت کے لیے ویانا پہنچ گئے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ایران کی طرف سے بعض کلیدی ضمانتیں درکار ہیں جن میں سب سے اہم تو یہی ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ تیار کرنے کی ٹھوس یقین دہانی کرائے تا کہ اسے سویلین نیوکلیئر پروگرام کی اجازت دی جا سکے۔ نیز ایران کو یورینیم کی تیاری میں مزید کمی کرنے کی بھی یقین دہانی کرانا ہو گی اور اس کے لیے بھی ٹھوس ضمانت دینی ہوگی۔
امریکا، یورپی طاقتیں اور ایرانی حکام خاصی سنجیدگی سے ایٹمی معاملات کو حل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ماضی میں ایسی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ گو ابھی حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کی راہ میں خاصی رکاوٹیں موجود ہیں لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکا اور یورپی طاقتیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ ادھر ایرانی حکومت بھی قدامت پرستوں کے دباؤ کے باوجود اس معاملے کو طے کرنا چاہتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ویانا مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس سے مثبت پیش رفت کی توقع کی جا سکتی ہے۔