گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے

میں نے کراچی میں اتنی گرمی کبھی نہیں دیکھی، جو پچھلے کچھ دنوں سے پڑ رہی ہے۔

میں نے کراچی میں اتنی گرمی کبھی نہیں دیکھی، جو پچھلے کچھ دنوں سے پڑ رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دس سال پہلے کراچی میں ایسی ہی گرمی پڑی تھی، اور درجہ حرارت 45 ڈگری ہوگیا تھا۔ مگر آج تک جو پندرہ سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ شہر تو گزشتہ تین عشروں سے مختلف عذابوں میں مبتلا رہا ہے۔ ان عذابوں کی تفصیل میں کیا جانا سارا ملک جانتا ہے کہ اس شہر کو کیسا کیسا برباد کیا گیا ہے۔ اور تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ لٹیرے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ Apex کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لوٹ مار کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔

لوٹ مار میں صوبائی حکومتی اداروں کے افسران باقاعدہ ملوث پائے گئے، بہت سوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ رینجرز اور دیگر سرکاری ایجنسیاں گرفتار ملزمان سے پوچھ گچھ کر رہی ہیں۔ صوبہ سندھ کے کچھ سیاستدانوں کے نام بھی لیے جا رہے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں مشاہد اللہ خان تک نے کہا ''لوگوں کے گھروں سے دو دو ارب روپے پکڑے گئے ہیں اور ابھی تک ان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کا خون کب تک نچوڑتے رہوگے، کیا محترمہ نے اس لیے شہادت قبول کی تھی کہ لانچیں بھر بھر کے ملکی سرمایہ دبئی منتقل کیا جائے۔'' یہ معاملات چل رہے تھے کہ زرداری صاحب نے تقریر کر ڈالی اور پورے ملک میں بھونچال آگیا۔ پھر وضاحتیں ہونے لگیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کراچی شہر کی سب سے نمایاں اور بڑی سیاسی جماعت ہے۔ یہ جماعت بھی الزامات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ سبین محمود اور صفورا گوٹھ کے لرزہ خیز واقعات سے شہر کی سنگین صورت میں مزید اضافہ ہوچکا تھا کہ Apex رپورٹ آگئی۔ رینجرز ہے کہ جہاں دہشت گردوں کا پتا چلتا ہے، مقابلے کے لیے پہنچ جاتی ہے، روزانہ ہی چار پانچ یا کبھی زیادہ دہشت گرد مارے جا رہے ہیں۔ یہ حالات ہی اس شہر کے بسنے والوں کے لیے کافی پریشان کن تھے کہ اللہ نے گرمی کا عذاب بھی اس شہر پر نازل کردیا۔ کثیرالآباد شہر ہزاروں چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں رہنے والے لاکھوں افراد اور بجلی غائب، پانی بھی نہیں۔ فلیٹ ایسے کہ جہاں ہوا کا گزر ہی نہیں۔ غریب متوسط طبقے کے لوگ ان غریبانہ فلیٹوں میں رہ رہے ہیں، لگژری فلیٹوں کا یہاں کوئی ذکر نہیں۔ ان فلیٹوں کو تو اپارٹمنٹ کہا جاتا ہے۔ ان انتہائی قیمتی اپارٹمنٹ کے اپنے بجلی گھر ہیں، بجلی آئے یا جائے۔ ان لگژری لوگوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔

خیر اللہ انھیں مزید خوش رکھے۔ ہم تو صوبائی حکومت کی لاپرواہی دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کی گرمی سے اب تک پندرہ سو اموات ہوچکی ہیں۔ شہر کے تمام اسپتال جناح اسپتال، سول اسپتال، عباسی شہید اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال، قطر اسپتال، انسانی لاشوں سے اٹ گئے ہیں، ایدھی سرد خانے میں لاشیں رکھنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ رینجرز نے اپنے تمام اسپتال عوام کے لیے کھول دیے ہیں، مگر حالات پھر بھی قابو میں نہیں آرہے۔ خواجہ اظہار الحسن قائد حزب اختلاف صوبائی اسمبلی سندھ نے اسپیکر سے کہا کہ کم ازکم ایک گھنٹے کے لیے اسمبلی کا ایئرکنڈیشنڈ بند کردیا جائے۔ مگر ان کی بات نہیں مانی گئی۔ کراچی میں اتنی شدید گرمی پڑ رہی ہے کہ لوگوں کے کپڑے اتر گئے ہیں۔ اور اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان کوٹ پینٹ ٹائی لگائے ''چِل'' ماحول میں آرام سے بیٹھے بجلی کے بارے میں صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔

کراچی والوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ قبرستانوں میں بھی دام بڑھ گئے ہیں، گورکن فی قبر دس ہزار سے پچاس ہزار تک مانگ رہا ہے اور مرنے والوں کے لواحقین میں اتنی سکت ہی نہیں کہ قبر کی قیمت ادا کرسکیں، کیونکہ شدید گرمی میں مرنے والوں کا تعلق غریب طبقے سے ہے۔ یہ غریب اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائے دربدر گھوم رہے ہیں۔ اسمبلی ہال خالی پڑا ہے۔ بہت سی لاشیں وہاں رکھی جاسکتی ہیں۔ اور بھی ''ٹھنڈی جگہیں'' ہیں مگر یہ سب میری جذباتی باتیں کہی جائیں گی۔ اے پاکستان کے غریبو! کراچی میں مردوں کو نہلانے کے لیے بھی پانی نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں جو مریض اسپتال لایا جا رہا ہے وہ غریب ہے۔ کوئی اسٹریچر پر تو کسی کو گود میں اٹھاکر لایا جا رہا ہے۔ نیلے پیلے کپڑے پہنے مرجھائے چہروں والے لواحقین مریض کو ہاتھ سے پنکھا جھل رہے ہیں اور ہمارے ووٹوں سے جیتنے والے اسمبلی کے ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھے ہیں جالب بھی شکوہ کناں ہے:

گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے
یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے

پتا نہیں کیوں نہیں جاتے! ''قابضین'' تو خوب مزے میں ہیں، ان کے ٹھنڈے محل، سرسبز و شاداب باغیچے قائم و دائم ہیں۔ ہیبت ناک گاڑیاں کھڑی ہیں، جدید ترین اسلحہ اٹھائے محافظ ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمیں اللہ نے دیا ہے، حالانکہ یہ اللہ کے بارے میں غلط کہتے ہیں یہ تو قابضین ہیں۔ جنھوں نے غریبوں کے حق پر قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ اپنے سکھ چین کا ایک لمحہ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ سیاست ان کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔

ان حالات میں بابا نجمی کی نظم کل ہی موصول ہوئی ہے۔ بابا نجمی پنجابی زبان کے عوامی لب و لہجے کے شاعر ہیں۔ جب کراچی میں تھے تو یہاں بھی رواں دواں اور مقبول تھے۔ اب لاہور میں ہیں تو وہاں بھی عوام ان سے پیار کرتے ہیں ان کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں۔

اکھاں بدھے ٹگے وانگوں گیڑاں میں تے کھو بابا
مالک جانے کھودا پانی جاوے کیہڑی جو بابا


یعنی آنکھیں بندھے بھیل کی طرح میں کنوئیں کا رہٹ چلا رہا ہوں۔ اب یہ اللہ جانے کہ پانی کہاں اور کس کو جارہا ہے۔ ایک اور شعر دیکھیے:

بے ہمتے نیں جیہڑے بہہ کے شکوہ کرن مقدراں دا
اگن والے اگ پیندے نیں سینہ پاڑ کے پتھراں دا

یعنی وہ لوگ بے ہمت جو مقدر کا شکوہ کرتے ہیں جب کہ جن پودوں کو اگنا ہوتا ہے وہ پتھروں کا سینہ پھاڑ کے بھی نکل آتے ہیں۔

جو نظم بابا نجمی نے بھیجی ہے، وہ حکومتی ٹیکس لگا کر غریبوں پر مزید بوجھ ڈالنے سے متعلق ہے۔ وہ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ساڈے حالے سانواں اُتّے ٹیکس نئیں لگیا شکر کرو
ربّی یار ہواواں اُتّے ٹیکس نئیں لگیا شکر کرو

متھے کیوں نئیں چمدے یارو، گوداں چڑھیاں بالاں دے
جمن والیاں ماواں اُتّے ٹیکس نئیں لگیا شکر کرو

ساڈے تھلے موجاں لٹّو' رکھاں ہوکا دتّا اے
ساڈیاں ٹھنڈیاں چھاواں اُتّے ٹیکس نئیں لگیا شکر کرو

مطلب یہ ہے کہ ''ہمارے سانس لینے پر ابھی ٹیکس نہیں لگا شکر کرو، ہواؤں کے اوپر ٹیکس نہیں شکر کرو، گود میں اٹھائے بچوں کے ماتھے چوموں کہ پیدا کرنے والی ماؤں پر ٹیکس نہیں لگا شکر کرو، درختوں کے سایہ دار پتوں اور شاخوں کے نیچے موج کرو، اور شکر کرو کہ ہماری ٹھنڈی چھاؤں پر ٹیکس نہیں لگا۔ بابا نجمی کی نو اشعار پر مشتمل نظم طنزیہ لہجے میں خوب ہے۔ بابا کا نظم بھیجنے پر شکریہ!
Load Next Story