گرمی اور ہم
1۔ سب سے پہلے اس ادارے کو دوبارہ حکومتی تحویل میں لینے کا زور دار مطالبہ کیا جائے۔
سندھ بھر اور خاص کر شہر کراچی میں گرمی کی شدت کے باعث ماہ رمضان شریف کے پہلے ہی ہفتے میں ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ ہمیشہ کی طرح کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہمارے اعمال یعنی دین سے دوری کا نتیجہ ہے، یہ بھی کہا کہ اس میں حکومت اور اداروں کی کوتاہی ہے۔
اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس میں تقریباً تمام ہی وجوہات پنہاں نظر آتی ہیں، دینی لحاظ سے جائزہ لیں تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری صورتحال کیا ہے، مثلاً عدالتوں میں قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی گواہی دی جاتی ہے، کاروباری معاملات میں ہماری دیانتداری کا جو عالم ہے وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں، مذہی جماعتوں کی کار کردگی یہ ہے کہ سودی نظام ابھی تک اس ملک میں چل رہا ہے، جس کے بارے میں متفقہ رائے ہے کہ یہ درحقیقت اللہ سے جنگ ہے، 1969 سے اس کے خاتمے کی کوششیں جاری ہیں مگر عملاً کچھ بھی نہیں ہوا، مزید یہ کہ صوبہ سندھ اور پنجاب کی اسمبلیوں میں یہ قانون بھی پاس ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مطابق اولاد جوان ہونے پر شادی نہیں کرنی بلکہ اٹھارہ سال تک کی عمر میں پہنچے کے بعد کرنی ہے اور اگر کسی نے خلاف ورزی کی تو قاضی سمیت حوالات میں ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ پر بھی ہماری مذہبی جماعتوں کے لب خاموش اور عوام کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ ایسا قانون بھی پاس ہوا ہے۔ اب اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کریں اور پھر بارشیں نہ ہونے پر حیرت بھی کریں؟
اب آئیے حکومت اور اس کے اداروں کی کارکردگی کی جانب، سوال یہ ہے کہ اتنے اہم ادارے کو فروخت کیوں کیا گیا؟ اس پر ہمارے ان نمایندوں اور جماعتوں نے اس کی نجکاری کے وقت احتجاج کیوں نہ کیا؟ اور اگر کسی نے کیا تھا تو وہ بھی انتہائی بے جان قسم کا، اگر یقین نہ آئے تو اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے، اب حکومت کے خلاف آوازیں کسنے کا کیا فائدہ؟
اب کرنے کا کام کیا ہے؟ آئیے غور کریں۔
1۔ سب سے پہلے اس ادارے کو دوبارہ حکومتی تحویل میں لینے کا زور دار مطالبہ کیا جائے۔
2۔ جو ادارے نجی طور پر بجلی پیدا کرکے فروخت کرنا چاہیں انھیں اس کا موقع فراہم کیا جائے، نیز انھیں بغیر ٹیکس کے فیول فراہم کیا جائے۔
3۔ کراچی شہر میں جہاں جہاں ہوا اور سمندری لہروں سے بجلی پیدا ہوسکتی ہے، اس پر ترجیحی طور پر کام کیا جائے۔
4۔ ایسی تمام عمارتوں پر پابندی عائد کی جائے جو بلند و بالا ہوں کہ جن میں دن کے وقت بھی انرجی کی ضرورت پڑتی ہو۔ ماضی میں ایسی سرکاری عمارتیں تعمیر ہوتی تھی کہ جن میں کام کرنے والے بغیر بجلی کے بھی اپنا کام کرلیتے تھے۔ آج کل سرکاری عماتوں کی تعمیر بھی ایسی کی جارہی ہیں جو فل ایئرکنڈیشڈ ہوتی ہیں۔
5۔ بلند و بالا فلیٹس کی تعمیرات بھی روک کر روایتی طرز کی رہائش گاہیں بنا کر عوام کو فراہم کرنا چاہئیں، حال ہی میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بجلی فیل ہونے کے بعد اس قسم کی رہائش گاہوں میں رہنے والوں خاص کر بزرگ اور مریضوں کو سخت گھٹن کا سامنا کرنا پڑا۔ فلیٹس کی نقالی میں چھوٹے سائز کے مکانات رکھنے والوں نے بھی اب کئی کئی منزلہ تعمیرات کی اور یہ اب شہر کا کلچر بن چکا ہے لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں کہ ان دڑبے نما گھروں میں رہنے والوں کا سخت گرمی کے موسم میں کیا حال ہوگا؟ کراچی شہر کے گلبہار اور نشتر بستی جیسے بے شمار علاقے ایسے ہیں کہ جہاں ساٹھ ساٹھ گز کے مکانات پر بھی چار منزلیں بنا کر زندگی گزاری جارہی ہے، جب کہ ان کی بل کھاتی گلیاں اس قدر تنگ ہیں کہ ایک وقت میں دو افراد بھی بمشکل ہی گزر سکتے ہیں۔ غور کیجیے ان حالات میں اگر بجلی بھی غریب عوام سے چھین لی جائے تو کیا یہ کچھ نہ ہوگا جو رمضان کے اس پہلے ہفتے میں ہوا؟
6۔ ایوانوں میں بیٹھے نمایندے عوام کی ہمدردی میں بڑے جوش سے تقریریں کر رہے ہیں، اگر یہ عوام کی ہمدردی میں صرف ایک اعلان کردیں کہ یہ سب اپنے گھروں میں جنریٹر استعمال نہیں کریں گے اور ان کے علاقوں میں بھی یومیہ اتنے ہی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جائے جتنی اس ملک کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے لیے ہوتی ہے، تو بھی اس ملک سے لوڈشیڈنگ جیسا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
آج کے اس جدید عہد میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں لوگ پانی، بجلی اور گیس کے حصول کے پریشان ہیں، کیوں؟ شاید اس لیے بھی کہ انھوں نے اپنا تیس، چالیس سال والا پرانا طرز رہائش ختم کرکے نیا اپنا لیا ہے، غور کیجیے پہلے اکثر گھروں میں تو بجلی ہوتی ہی نہیں تھی، گیس بھی نہیں، اس کے باوجود ہم بجلی گیس کے لیے پریشان نہیں ہوتے تھے اور پرسکون زندگی گزارتے تھے ، کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے گھر کھلے، ہوادار اور روشن ہوتے تھے، جہاں سردیوں میں دھوپ بھی خوب آتی تھی، نہ کسی کو وٹامن ڈی کی کمی ہوتی تھی نہ کسی کو ہڈیوں کی بیماری ہوتی تھی اور نہ ہی ہر کسی کے ذہن میں ٹینشن ہوتی تھی۔ یہ سب جدید دور کے تحفے ہیں۔
آئیے غور کریں، اگر حکومت اور ہمارے نمایندے ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے تو کم از کم ہم ہی اپنی زندگی کو آسان بنانے کی کو شش کریں اور اپنے اپنے طور پر اپنی رہائش گاہوں کو اس طرح ترتیب دیں اور تعمیر کریں کہ روشنی اور ہوا کا مسئلہ نہ ہو، نیز اگر ممکن ہو تو کوئی درخت یا پودا ضرور لگائیں کہ یہ گرمی کو بھی کم کرتا ہے اور ماحول کو بھی پرفضا بناتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری نانی اماں نے اپنے چھوٹے سے گھر میں ڈبوں میں مٹی ڈال کر ادرک، دھنیا، پودینہ اور ہری مرچیں وغیرہ لگائی ہوئی تھیں، جب کہ پڑوس کے گھر میں توری اور کریلے کی بیل لگی ہوتی تھی اور وہ اپنے پڑوسیوں کو تازہ توری اور کریلے تحفے میں بھجتے تھے۔ یہی طرز معاشرت دوبارہ اپنائی جاسکتی ہے۔ آئیے غور کریں!
اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس میں تقریباً تمام ہی وجوہات پنہاں نظر آتی ہیں، دینی لحاظ سے جائزہ لیں تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری صورتحال کیا ہے، مثلاً عدالتوں میں قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی گواہی دی جاتی ہے، کاروباری معاملات میں ہماری دیانتداری کا جو عالم ہے وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں، مذہی جماعتوں کی کار کردگی یہ ہے کہ سودی نظام ابھی تک اس ملک میں چل رہا ہے، جس کے بارے میں متفقہ رائے ہے کہ یہ درحقیقت اللہ سے جنگ ہے، 1969 سے اس کے خاتمے کی کوششیں جاری ہیں مگر عملاً کچھ بھی نہیں ہوا، مزید یہ کہ صوبہ سندھ اور پنجاب کی اسمبلیوں میں یہ قانون بھی پاس ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مطابق اولاد جوان ہونے پر شادی نہیں کرنی بلکہ اٹھارہ سال تک کی عمر میں پہنچے کے بعد کرنی ہے اور اگر کسی نے خلاف ورزی کی تو قاضی سمیت حوالات میں ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ پر بھی ہماری مذہبی جماعتوں کے لب خاموش اور عوام کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ ایسا قانون بھی پاس ہوا ہے۔ اب اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کریں اور پھر بارشیں نہ ہونے پر حیرت بھی کریں؟
اب آئیے حکومت اور اس کے اداروں کی کارکردگی کی جانب، سوال یہ ہے کہ اتنے اہم ادارے کو فروخت کیوں کیا گیا؟ اس پر ہمارے ان نمایندوں اور جماعتوں نے اس کی نجکاری کے وقت احتجاج کیوں نہ کیا؟ اور اگر کسی نے کیا تھا تو وہ بھی انتہائی بے جان قسم کا، اگر یقین نہ آئے تو اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے، اب حکومت کے خلاف آوازیں کسنے کا کیا فائدہ؟
اب کرنے کا کام کیا ہے؟ آئیے غور کریں۔
1۔ سب سے پہلے اس ادارے کو دوبارہ حکومتی تحویل میں لینے کا زور دار مطالبہ کیا جائے۔
2۔ جو ادارے نجی طور پر بجلی پیدا کرکے فروخت کرنا چاہیں انھیں اس کا موقع فراہم کیا جائے، نیز انھیں بغیر ٹیکس کے فیول فراہم کیا جائے۔
3۔ کراچی شہر میں جہاں جہاں ہوا اور سمندری لہروں سے بجلی پیدا ہوسکتی ہے، اس پر ترجیحی طور پر کام کیا جائے۔
4۔ ایسی تمام عمارتوں پر پابندی عائد کی جائے جو بلند و بالا ہوں کہ جن میں دن کے وقت بھی انرجی کی ضرورت پڑتی ہو۔ ماضی میں ایسی سرکاری عمارتیں تعمیر ہوتی تھی کہ جن میں کام کرنے والے بغیر بجلی کے بھی اپنا کام کرلیتے تھے۔ آج کل سرکاری عماتوں کی تعمیر بھی ایسی کی جارہی ہیں جو فل ایئرکنڈیشڈ ہوتی ہیں۔
5۔ بلند و بالا فلیٹس کی تعمیرات بھی روک کر روایتی طرز کی رہائش گاہیں بنا کر عوام کو فراہم کرنا چاہئیں، حال ہی میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بجلی فیل ہونے کے بعد اس قسم کی رہائش گاہوں میں رہنے والوں خاص کر بزرگ اور مریضوں کو سخت گھٹن کا سامنا کرنا پڑا۔ فلیٹس کی نقالی میں چھوٹے سائز کے مکانات رکھنے والوں نے بھی اب کئی کئی منزلہ تعمیرات کی اور یہ اب شہر کا کلچر بن چکا ہے لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں کہ ان دڑبے نما گھروں میں رہنے والوں کا سخت گرمی کے موسم میں کیا حال ہوگا؟ کراچی شہر کے گلبہار اور نشتر بستی جیسے بے شمار علاقے ایسے ہیں کہ جہاں ساٹھ ساٹھ گز کے مکانات پر بھی چار منزلیں بنا کر زندگی گزاری جارہی ہے، جب کہ ان کی بل کھاتی گلیاں اس قدر تنگ ہیں کہ ایک وقت میں دو افراد بھی بمشکل ہی گزر سکتے ہیں۔ غور کیجیے ان حالات میں اگر بجلی بھی غریب عوام سے چھین لی جائے تو کیا یہ کچھ نہ ہوگا جو رمضان کے اس پہلے ہفتے میں ہوا؟
6۔ ایوانوں میں بیٹھے نمایندے عوام کی ہمدردی میں بڑے جوش سے تقریریں کر رہے ہیں، اگر یہ عوام کی ہمدردی میں صرف ایک اعلان کردیں کہ یہ سب اپنے گھروں میں جنریٹر استعمال نہیں کریں گے اور ان کے علاقوں میں بھی یومیہ اتنے ہی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جائے جتنی اس ملک کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے لیے ہوتی ہے، تو بھی اس ملک سے لوڈشیڈنگ جیسا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
آج کے اس جدید عہد میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں لوگ پانی، بجلی اور گیس کے حصول کے پریشان ہیں، کیوں؟ شاید اس لیے بھی کہ انھوں نے اپنا تیس، چالیس سال والا پرانا طرز رہائش ختم کرکے نیا اپنا لیا ہے، غور کیجیے پہلے اکثر گھروں میں تو بجلی ہوتی ہی نہیں تھی، گیس بھی نہیں، اس کے باوجود ہم بجلی گیس کے لیے پریشان نہیں ہوتے تھے اور پرسکون زندگی گزارتے تھے ، کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے گھر کھلے، ہوادار اور روشن ہوتے تھے، جہاں سردیوں میں دھوپ بھی خوب آتی تھی، نہ کسی کو وٹامن ڈی کی کمی ہوتی تھی نہ کسی کو ہڈیوں کی بیماری ہوتی تھی اور نہ ہی ہر کسی کے ذہن میں ٹینشن ہوتی تھی۔ یہ سب جدید دور کے تحفے ہیں۔
آئیے غور کریں، اگر حکومت اور ہمارے نمایندے ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے تو کم از کم ہم ہی اپنی زندگی کو آسان بنانے کی کو شش کریں اور اپنے اپنے طور پر اپنی رہائش گاہوں کو اس طرح ترتیب دیں اور تعمیر کریں کہ روشنی اور ہوا کا مسئلہ نہ ہو، نیز اگر ممکن ہو تو کوئی درخت یا پودا ضرور لگائیں کہ یہ گرمی کو بھی کم کرتا ہے اور ماحول کو بھی پرفضا بناتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری نانی اماں نے اپنے چھوٹے سے گھر میں ڈبوں میں مٹی ڈال کر ادرک، دھنیا، پودینہ اور ہری مرچیں وغیرہ لگائی ہوئی تھیں، جب کہ پڑوس کے گھر میں توری اور کریلے کی بیل لگی ہوتی تھی اور وہ اپنے پڑوسیوں کو تازہ توری اور کریلے تحفے میں بھجتے تھے۔ یہی طرز معاشرت دوبارہ اپنائی جاسکتی ہے۔ آئیے غور کریں!