پہلا پاکستانی

کہا جاتا ہے کہ خبر یہ نہیں کہ کتے نے انسان کو کاٹ لیا۔ خبر کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ کوئی انسان کتے کو کاٹ لے۔

03332257239@hotmail.com

KARACHI:
کہا جاتا ہے کہ خبر یہ نہیں کہ کتے نے انسان کو کاٹ لیا۔ خبر کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ کوئی انسان کتے کو کاٹ لے۔ بریکنگ نیوز کے زمانے میں اخبار پڑھنے والوں کو یہ بات سمجھنا بالکل آسان ہے، میڈیا کے نوجوان طلبہ و طالبات کو بتایا جاتا ہے کہ اگر دو کسان مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوں تو یہ کوئی خبر نہیں، دلچسپی وہاں پیدا ہوتی ہے جب ایک کا جانور دوسرے کے کھیت میں گھس کر فصل خراب کردے تو پہلا اس جانور کو زخمی کردے۔ یہ دیکھ کر ایک کسان جانور کو زخمی کرنے والے کو گولی ماردے۔ کوئی اسپتال میں داخل ہو تو کوئی جیل میں قید ہو یہ عام سی بات ترقی پسند دوستوں کو سمجھنی چاہیے۔

قتیل شفائی نے کہا تھا کہ ''پاکستان سے پہلے بھی میں پاکستان کا شہری تھا'' بظاہر شاعر کی اس بات میں تضاد نظر آتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ جب پاکستان نہیں بنا تھا تو ضلع ہری پور میں کس طرح وہ اسلامی جمہوریہ کے شہری تھے۔ شاعر کا دعویٰ ہے کہ وہ ان علاقوں میں پیدا ہوئے جنھیں پاکستان میں شامل ہونا تھا، ان کی مراد تھی کہ وہ مسلم اکثریتی علاقے کے صدیوں سے باسی ہیں، یہ ان کی شاعرانہ ضد تھی تو چلیں ہم اس کا جائزہ ماہ و سال کے حوالوں سے لیتے ہیں۔ پاکستان سینتالیس میں بنا اور اگر ان کی عمر پاکستان کی عمر سے زیادہ ثابت ہورہی ہو تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ قتیل شفائی پاکستان کے قیام سے قبل پاکستانی تھے۔ ہم انھیں پاکستانی تو مان رہے ہیں لیکن پہلا نہیں۔ وہ کون ہے؟ یہی ہمارے آج کے کالم کا دلچسپ سوال ہے۔

اعتزاز احسن اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ پاکستان تو صدیوں سے قائم تھا، یہ علاقہ تو پورے ہندوستان سے الگ تھا، سندھ اور پنجاب صدیوں سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، پختونوں اور بلوچوں کی سرزمین ہزاروں برسوں سے ہزاروں کلومیٹر کی یکجائی ایسے ظاہر کرتی جیسی دو بہنیں۔ دانشور اپنی کتاب The Indus Sagaمیں قتیل کی طرح پاکستان سے پہلے پاکستانی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کرتے لیکن تقسیم سے دو سال پہلے پیدا ہونے والے اعتزاز یہ ضرور کہتے ہیں۔ مغربی پاکستان تو بنا بنایا تھا۔ قائداعظم نے اسے ہندوستان سے الگ کرکے چوہدری رحمت علی کے دیے گئے نام پر دنیا کے نقشے پر وجود میں لے آئے، تہذیب سے جوڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک رائے ہے۔

جب رمضان المبارک کا پہلا عشرہ ختم ہورہا ہوتا ہے تو محمد بن قاسم کا نام گونجنا شروع ہوجاتا ہے۔ سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ سترہ سالہ سپہ سالار نے راجہ داہر کو شکست دے کر وادی مہران میں اسلام کی بنیاد رکھ دی۔ مذہبی پارٹیاں اس دن کو بڑے اہتمام سے مناتی ہیں۔ آٹھویں صدی ہجری میں بنو امیہ کے درمیان سندھ تک رسائی کو ایک نام دیا جاتا ہے محمد بن قاسم کو پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے۔ قائداعظم کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان تو اس دن قائم ہوگیا تھا جب پہلا ہندو اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہوا تھا۔ حوالہ دیاجاتا ہے کہ 1953 میں جب ''پاکستان کے پانچ سال'' نامی کتاب منظر عام پر آئی تو اس میں سندھ کو جنوبی ایشیا کا پہلا اسلامی صوبہ قرار دیا گیا تھا، حالیہ دنوں میں کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر منان احمد آصف نے محمد بن قاسم کو پہلا پاکستانی قرار دیا ہے۔


خبر کی تعریف اور کتے کے کاٹنے کے حوالے کے بعد ہم نے کسانوں کے حوالے سے خبر کو بریکنگ نیوز بننے کی بات کی تھی۔ ترقی پسندوں اور اسلام پسندوں کی سوچ کا فرق کہاں ہے؟ سیکولر لوگ کہتے ہیں کہ بچوں کو تاریخ پڑھائی جائے کہ ہماری تہذیب پانچ ہزار سال پرانی ہے، وہ ٹیکسلا، ہڑپہ اور موئن جو دڑو سے شروع ہوتی ہے، ان کی رائے ہے کہ ضیا الحق کے دور سے بچوں کو نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ ہماری تاریخ محمد بن قاسم کے سندھ میں آنے سے ہوتی ہے۔

ہمارے لبرل اور ترقی پسند دوستوں کو یہ پسند نہیں کہ شبلی نعمانی نے کیوںکر الفاروق اور المامون لکھ کر مسلمانوں کی عظمت کو بیان کیا۔ وہ حالی کی مسدس کے انداز میں ''مدوجزر اسلام'' کو دل پر پتھر رکھ کر اور ناگواری سے برداشت کرتے ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کی فتوحات کا جو تذکرہ کیا ہے وہ تو ان کے اپنے فرزند کو عجیب لگتا ہے، بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے اور مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ کر والی شاعری سیکولر طبقے کو گراں گزرتی ہے۔ ایسے میں کشمکش کا مقام آتا ہے کہ اسکول کے طلبہ و طالبات کو تاریخ کے حوالے سے کیا پڑھایا جائے؟

قارئین! آپ ذرا ٹین ایجر بن جائیں اور تصور کریں کہ تاریخ کا مضمون ہو اور اسکول کا زمانہ آپ کو ٹیکسلا، ہڑپہ اور موئن جو دڑو پڑھنا کیا لگے گا؟ نوجوان یقیناً بادشاہوں کی تاریخ سے بیزار ہوتے ہیں ان کے لیے دلچسپی کا عنصر ایک ہی ہوتا ہے جس کا ہم نے کالم کی ابتدا میں ذکر کیا تھا۔ وہ معاملہ جس میں کشمکش ہو۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ دو مقابل طاقتوں کے درمیان زور آزمائی میں تماشائی بننا ہے، وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون فاتح رہا ، کانٹے کے کرکٹ میچز اور زور دار انتخابی معرکہ آرائی کو ذہن میں رکھیے اسی انسانی نفسیات کو دیکھتے ہوئے جب تاریخ مرتب کی جاتی ہے تو ترقی پسند لوگ کہتے ہیں کہ یہ آٹھویں صدی عیسوی سے اسلامی فتوحات اور عرب فوجوں کی ہندوستان آمد سے کیوں شروع ہوتی ہے؟

محمد بن قاسم کے مقابل جب راجہ داہر ہو تو لوگوں کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے، صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ آمنے سامنے ہوں تو دیکھا جاتا ہے کہ کون فاتح رہا؟ طارق بن زیاد جب اسپین کے ساحل پر کشتیاں جلا دیتا ہے تو طالب علموں کو اس میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے، جب ٹیپو سلطان شکست دیکھتے ہوئے بھی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے والی بات کرتا ہے تو نوجوانوں میں بہادری پیدا ہوتی ہے، جب محمود غزنوی کے منہ سے بت فروشی اور بت شکنی کے الفاظ ادا ہوتے ہیں تو طالب علم دلچسپی لیتے ہیں، جب بابر اور ابراہیم لودھی میں جنگ ہوتی ہے، یہ معرکہ آرائی کچھ دلچسپی پیدا کرتی ہے، جب شیر شاہ سوری کامیاب ہوتا ہے کہ نیچے سے اٹھ کر اوپر آنے کے خواہش مند نوجوان اسے اپنا ہیرو سمجھتے ہیں، جب ہمایوں اپنی سلطنت واپس لے لیتا ہے تو یہ گرکر اٹھنے اور مایوس نہ ہونے کا سبق دیتا ہے، اسی طرح اکبر و شہزادہ سلیم کی انارکلی کی خاطر کشمکش وہ سماں باندھتی ہے کہ برصغیر میں نصف درجن فلمیں بن جاتی ہیں، جب جناح اور گاندھی آمنے سامنے ہوکر دونوں اپنے اپنے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں تو تاریخ مسکراتی ہے۔تاریخ لکھی جاتی ہے بچوں کی نفسیات کو دیکھ کر، ہڑپہ اور موئن جو دڑو ضرور پڑھنا چاہیے لیکن بیس سال کی عمر میں اس کی آڑ میں محمد بن قاسم کی فتوحات اور سندھ کو باب الاسلام قرار دیے جانے پر گھبرانا نہیں چاہیے، ساٹھ اور ستر کے عشرے میں کالجز میں ایشیا کو سبز اور سرخ قرار دلوانے والے آج اخبارات کے صفحات پر کشمکش سے دوچار ہیں۔ ترقی پسند نہیں سمجھ پا رہے کہ پندرہ سترہ سال کے نوجوان طالب علموں کے لیے وار ہیروز ہی اصل ہیروز قرار پاتے ہیں، ہم پسند کریں یا نہ کریں کہ وہ کھلونوں میں بھی ہتھیاروں کو پسند کرتے ہیں۔ کالج کے طالب علموں کو ضرور پانچ ہزار سالہ تاریخ پڑھائیں لیکن میرے لبرل دوستو! آؤ اور اعلیٰ ظرفی سے مان لو کہ برصغیر میں اسلام کو متعارف کرانے والا محمد بن قاسم تھا جو قرار پایا تھا ''پہلاپاکستانی''۔
Load Next Story