ترقی کا زہر

‘ سب سے پہلے پہیہ ایجاد ہوا تو گویا انسان نے ترقی کے زینے پر پہلا قدم رکھ لیا۔

جس تیزی سے انسانی زندگی کو آرام طلبی کی طرف لے جایا جا رہا ہے، کچھ عرصے بعد انسان صرف دماغ استعمال کرنے کے قابل رہ جائے گا اس کے ہاتھ پاؤں انتہائی کمزور ہوجائیں گے۔

جب سے یہ زمین اللہ کے حکم سے آباد ہوئی ہے۔ یعنی جب اللہ نے زمین پر انسان کو بسایا ہے تو ساتھ بے شمار جانور اورکیڑے مکوڑے بھی زمین پر بسا دیے۔ انسان چونکہ مسلسل ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ کبھی ٹی وی پر کھانے پکانے کا پروگرام دیکھا تو پندرہ سے بیس تک مصالحے اور دوسری اشیا ایک سالن میں ڈالی جا رہی ہوتی ہوں اتنی پیچیدہ خوراک صحت کم اور مشکلات زیادہ لاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے گھروں میں ہماری نانیاں اور دادیاں بہت ہی سادہ سے سالن پکاتی تھیں لیکن وہ بہت خوش ذائقہ ہوتے تھے، پکایا بھی مٹی کے برتنوں میں جاتا تھا۔ مٹی اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے انسان چونکہ مٹی سے ہی پیدا کیا گیا ہے اس لیے مٹی کے برتن اس کے بہترین رفیق ہیں یہ انسان کو نقصان نہیں پہنچاتے۔

میں نے تو ابا کے گاؤں اپنے رشتے داروں کو مٹی کا توا استعمال کرتے دیکھا ہے وہ مکئی کی روٹی مٹی کے توے پر بناتی تھیں اور وہ بہت مزے دار ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ ہم نے مٹی کے برتنوں میں کھانا پکانا چھوڑ دیا پہلے ایلومینیم کے برتن آئے پھر اسٹیل کے پھر سلور کے اور اب پلاسٹک کے برتن۔ یعنی کیمیکل اس میں سے مسلسل شعاعیں نکل کر خوراک میں شامل ہوتی رہتی ہیں اور ہمیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتی رہتی ہیں لیکن ہم ہیں کہ مجبور ہیں بھلا واپس پچھلی صدی میں جاکر کیسے مٹی کے برتن استعمال کریں۔

برتنوں پر بات لکھتے ہوئے میری آنکھیں نم ہوگئیں کیونکہ 4 سال پہلے میرے بڑے بھائی کا کینسر سے انتقال ہوگیا تھا ڈاکٹر نے پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال بالکل منع کردیا تھا ۔ لیکن ہمارے عام لوگوں کو بالکل نہیں معلوم کہ کیا چیز ان کے لیے اچھی ہے اور کیا بری۔ اب ہم جس ترقی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں اس سے تو واپسی ممکن ہی نہیں ہم نے زمانے کے ساتھ آگے ہی بڑھنا ہے۔

''انسان تو زمانہ قدیم سے ہی ترقی کی طرف گامزن ہوچکا تھا'' سب سے پہلے پہیہ ایجاد ہوا تو گویا انسان نے ترقی کے زینے پر پہلا قدم رکھ لیا۔ لیکن جس ترقی یافتہ دور میں ہم پچھلے بیس تیس سالوں سے داخل ہوئے ہیں دراصل اس دور کو ''سلوپوائزن'' کا دورکہا جائے تو بہتر ہوگا۔


مستقبل میں ہمارا حال زیادہ بہتر نظر نہیں آتا جیسے ایک صاحب جو بزنس مین ہیں یا وہ کوئی بڑے افسر ہیں سارا دن اپنے دفتر میں بیٹھے فائلیں دیکھتے رہتے ہیں یا کاروباری ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ رات کو دیر سے اپنے دفتر سے اٹھتے ہیں اور دفتر کے آگے موجود گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ گاڑی سے اتر کر گھر میں داخل ہوتے ہیں کھانا کھاتے ہیں اور پھر کچھ دیر ٹی وی سے لطف اندوز ہونے کے بعد سونے کے لیے اپنے بیڈ روم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بچے اپنے کمپیوٹر پر کچھ موبائل فون پر لگے ہوتے ہیں۔ چلنے کا موقع کسی کو نہیں ملتا اسی طرح روز کا روٹین ورک ہے۔

پہلے کسان بہت محنت کرتے تھے صبح سویرے اٹھ کر اپنے بیل اور ہل لے کر زمینوں پر چلے جاتے تھے اور ہل چلاتے ہوئے وہ کئی کلومیٹر چل لیتے تھے لیکن اب مشینوں نے کسانوں کو بھی سست کردیا ہے اب وہ ٹریکٹر پر بیٹھ کر ہل چلاتے ہیں اگر اپنا ٹریکٹر موجود نہیں تو کسی دوسرے ٹریکٹر والے کو پیسے دے کر ہل چلوا لیتے ہیں یوں وہ گھروں میں ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح نئے دور کا میٹھا زہر ان کی رگوں میں بھی سرائیت کرتا جا رہا ہے۔ یہ تو آپ نے دیکھا ہے کہ گھر کے تمام آلات ریموٹ کنٹرول سے چلنے لگ گئے ہیں یعنی اے سی، پنکھے، ٹی وی بلکہ ہیٹر بھی ریموٹ والے مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ Micro Wave Oven، ایسی LED بھی آگئی ہیں جنھیں ریموٹ کنٹرول کی بھی ضرورت نہیں بلکہ انسانی آواز سے ہی وہ کنٹرول ہو رہی ہیں یعنی اب آپ کو اپنے ہاتھ بھی ہلانے کی ضرورت نہیں رہی۔ باہر کوئی آیا ہے Intercom سے پوچھا بٹن دبایا افراد اندر آجائیں گے۔

دراصل یہ بڑی کمپنیاں جو دنیا پر چھائی ہوئی ہیں ان کا سرمایہ ہمارے جیسے ملکوں کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے اور اسی سرمائے کو بڑھانے کے لیے وہ نت نئی ایجادات مارکیٹ میں لاتی ہیں اور لوگ اپنا معیار زندگی اونچا کرنے کے لیے وہ دھڑا دھڑ خریدنا شروع کردیتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جس تیزی سے انسانی زندگی کو آرام طلبی کی طرف لے جایا جا رہا ہے کچھ عرصے بعد انسان صرف دماغ استعمال کرنے کے قابل رہ جائے گا۔ اور اس کے ہاتھ اور پاؤں انتہائی کمزور ہوجائیں گے کیونکہ قدرت کا یہ اصول ہے کہ جسم کے جس حصے کو استعمال نہ کیا جائے وہ بے کار ہوجاتا ہے۔

اسی طرح انسان سیڑھیوں سے اچھا خاصا چڑھتا اترتا تھا کہ خودکار زینے یعنی Elevator لگا دیے گئے یعنی پیروں کا استعمال ختم جس سے ہمارے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ خواتین کے روٹی میکر آگئے ہیں جس سے بازو مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم shanerکے انڈے اور مرغیاں کھاتے ہیں ان کو ایسے ہارمون کے انجکشن لگائے جاتے ہیں جس سے وہ تیزی سے بڑی ہوجاتی ہیں ہم نے اپنے بچپن میں دیسی انڈے اور مرغیاں کھائیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے سب نقلی چیزوں پر پل رہے ہیں ۔پہلے ہم گائے بھینسوں کا دودھ پیا کرتے تھے بچوں میں طاقت اور توانائی آتی تھی۔

اب Tetra Pack کا زمانہ ہے جس سے ساری چکنائی نکال لی جاتی ہے اور Chemical کے ذریعے اس کو Preserve کیا جاتا ہے جس سے دودھ کی ساری توانائی ختم ہوجاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں شام کے وقت باہر نکل کر رسی کودتے تھے، لڑکے فٹبال اور کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اب آہستہ آہستہ وہ تمام چیزیں ختم ہو رہی ہیں بچوں کے پاس ایک سے ایک موبائل ہے اس پر بہت سے گیمز ہیں وہ ان سے زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے بجائے یہ کہ کھیل کود میں حصہ لے۔ اسی طرح پانچ ٹائم نماز اگر جماعت سے پڑھ لیں تو بہترین Exercise ہے۔

اسی طرح ہم مختلف اسپتالوں میں دیکھتے ہیں وہاں لکھا ہوتا ہے لفٹ صرف مریضوں کے لیے ہے مگر ہم دیکھتے ہیں تمام صحت مند افراد اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح میں نے حج کے موقعے پر دیکھا محتاج اورکمزور افراد کے لیے وہیل چیئر رکھی ہوئی ہیں لیکن ہٹے کٹے افراد بھی ان چیئرز پر بیٹھ کر سات چکر لگا رہے ہیں جب کہ کہتے ہیں حج تو مشکلات کا نام ہے۔بہرحال گرد و پیش نظر دوڑائیں زیادہ تر آرام دہ اور آسائش طلب ہوگئے ہیں۔ یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یاد رکھیں ''حرکت میں برکت ہے۔''
Load Next Story