فلم معاشرے میں تبدیلی کا محرک بن سکتی ہے
بالی وڈ کے ممتاز ڈائریکٹر اور اسکرین رائٹر شیام بینیگل سے مکالمہ
وہ اپنی فیلڈ میں کمال فن کے درجے پر ہیں۔ جیتے جی وہ لیجنڈ بن گئے۔ فلم ڈائریکشن میں منفرد کام سے بالی وڈ میں مڈل سینما کے نام سے نئی اصطلاح کے موجد ٹھہرے۔
ا ن کی فلم میں فن برائے فن،اور فن برائے زندگی دونوں کا امتزاج ملتاہے۔ان کے لیے رجحان ساز کا لفظ بے تامل برتا جا سکتا ہے۔ ڈائریکٹرکی حیثیت سے فلم ''انکور'' سے 1973ء میں انہوں نے کامیاب فلمی سفرکا آغاز کیا، اور پھر نشانت،منتھن اوربھومیکا کی آمد سے یہ رازآخر کھل گیا سارے زمانے پر،کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں جینئس آگیاہے۔معیار قائم کرنا اپنی جگہ اہم مگراسے برقرار رکھنا اصل جوکھم ہے، جو وہ چار عشروں سے اٹھارہے ہیں۔
مرحلہ شوق ابھی طے نہیں ہوا، نت نئے خیال سوجھتے رہتے ہیں اور 77 برس کی عمر میں بھی وہ جواں جذبوں سے سرگرم عمل ہیں۔تھکن اعصاب پرطاری دکھتی ہے نہ ہی کام پر۔فنی سفر میں اس بات پر یقین رہا کہ وہ اپنے کام سے معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے۔ معاشرتی برائیوں اور ذات پات میں جکڑے سماج کے سدھارکے لیے جس انداز سے کام انہوں نے کیا، اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ان کے فلمی نامہ اعمال میں، ایسا مال موجود ہے، جس سے معاشرے پر ان کی فلموں کے گہرے اثرات مرتب ہونے کی تائیدہوتی ہے۔ مثلاً، فلم ''منتھن'' نے بھارت میں سفید انقلاب بپا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔حال ہی میں اننقال کرجانے والے سفید انقلاب کے بانی، ڈاکٹر ورگھیس کورین کے ایما پر بننے والی یہ فلم گجرات ڈیری ایسوسی ایشن کے ممبران کے چندے سے بنائی گئی ، جس کو دیکھنے کے لیے کسان دیوانہ وار امڈے اور اسے کامیاب بنا دیا۔
اس فلم کو بھارت کی پہلی کواپریٹو فلم کہاجاتاہے۔ شیام بینیگل فلموں کے موضوعات عام زندگی سے اٹھاتے ہیں۔ زیادہ تر فلموں کی کہانی حقیقت پرمبنی ہے۔ان کی پہلی فلم اس سلسلے کی ابتدائی کڑی ہے،جس میں بیان کردہ کہانی، ان کے کانوں سنی نہیں، آنکھوں دیکھی تھی، جس کوزمانہ طالب علمی میں قلمبند کرکے رسالے میں چھپوادیا۔برسوں بعد جیسے تیسے کرکے پیسا جمع ہواتو اس خیال کو پردہ اسکرین پر پیش کردیا۔چار برس قبل بننے والی فلم، ''ویل کم ٹو سجن پور'' کا بھی یہی قصہ ہے۔دفتر میں موجود، خط لکھنے اور اسے پڑھنے سے قاصر نوجوان کو دیکھ کرہی تو انہیں اس فلم کا خیال سوجھا۔شیام بینیگل کی فنی زندگی کامیابیوں سے عبارت ہے۔ بہت سے اعزاز ان کے حصے میں آئے، جن میں پدما شری ، پدما بھوشن ، اورداداصاحب پھالکے جیسے بڑے ایوارڈزشامل ہیں۔ سات بار ان کی فلم بہترین فلم کا قومی ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ٹھہری۔وہ چھ سال راجیہ سبھا کے ممبررہے۔کمرشل سینما کا معاملہ تو اور ہے مگریہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ Parallel cinemaمیں ان کا مثیل کوئی اور ڈائریکٹر نہیں۔26 بہترین فلمیں ڈائریکٹ کرنے والے شیام بینیگل کے اس ناتمام سے تعارف کے بعد، اب ہم آپ کو اس عبقری سے ہونے والی ملاقات کی روداد سناتے ہیں۔
شیام بینیگل فیض فائونڈیشن کی دعوت پر گذشتہ دنوں لاہور آئے،،جہاں انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے آڈیٹوریم میں، ان کی چار فلموں، انکور،تریکال،ممو، اور ویل کم ٹو سجن پور کو دکھایا گیا۔یہ فلمیںلاکھوں نے دیکھی ہوں گی مگریہاںدیکھنے والوں جیسا اور کون ہوگا، کہ جن کے درمیان فلم بنانے والا نہ صرف موجود تھا بلکہ ، فلم سے پہلے اس کا تعارف کرا رہا ہے، اور ختم ہونے پر،دیکھنے والوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کاجواب دے رہا تھا۔وہ مداحوںکے نرغے میں تھے۔ ان کے ساتھ تصویربنوانے کے شوقین بھی بہتیرے تھے اور پیکج بنانے کے لیے سرگرداں الیکٹرانک میڈیاکے نمائندے بھی۔
صورتحال ایک انار سو بیمار والا نقشہ پیش کررہی تھی۔ ایسے میں شیام بینیگل کے میزبان، ہماری مدد کو آئے ، جنھوں نے ادھر ایک کمرے میں نشست کا انتظام کردیا اورسلسلہ تکلم شروع ہو گیا۔شیام بینیگل اردو سمجھ لیتے ہیں، اور تھوڑی بہت بول بھی لیتے ہیں مگر مافی الضمیر صحیح طور پر بیان کرنے کے واسطے وہ انگریزی میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کی مادری زبان کونکنی ہے۔بات وہ مختصر ،جچے تلے اوردل نشین پیرائے میں کرتے ہیں۔بات چیت آگے بڑھی تو ہم نے پوچھا کہ فلم معاشرے میں کس قدر تبدیلی کا موجب بن سکتی ہے ؟اس پر ان کا جواب تھا''فلم معاشرے کو پورے طورپرتبدیل نہیں کرسکتی مگروہ تبدیلی کا محرک ہوسکتی ہے۔فلم کے ذریعے سے instrumental change آنی چاہیے۔
ڈائریکٹر کے طور پر میرے لیے سب سے زیادہ اہم بات فلم بینوں کے ساتھ engagement ہے۔میرے خیال میں آرٹسٹ کو socially engagedہونا چاہیے۔''
اس بات کی تھوڑی وضاحت کریں گے؟ '' آپ دنیا میں دوسرے لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں۔ان سے کٹ کر نہیں رہا جاسکتا۔ان سے سماجی طور پر ربط ضبط ضروری ہے تبھی آپ فلم بنا پائیں گے۔آپ کی فلم کے مخاطب لوگ ہونا چاہئیں۔ان کی زندگی میں تبدیلی اور اسے پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔آپ کو کم ازکم پتا ہوکہ ہم کون ہیں؟ہماری تاریخ کیا ہے؟ کیونکہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں، جس میں معاشرتی اعتبار سے بہت زیادہ تنوع ہے۔بھارت میں کئی زبانیں ہیں، مذاہب ہیں، نسلی گروہ ہیں، ذات پات ہے اور بہت سے مسائل ہیں۔ان ساری باتوں سے جانکاری فلم بنانے کے لیے ضروری ہے۔فلم کا ابلاغ ضرور ہوناچاہیے۔بہتر معاشرے کے قیام کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔''
ہم نے ان سے جاننا چاہا کہ ''فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کا مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تخلیق سے دوسروں کو محظوظ کریں،مثلاً ادب میں کہانی کار جب لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں قاری کو محظوظ کرنے کا تصور نہیں ہوتا ۔فلم کے ساتھ جو اینٹرٹینمنٹ کی شرط ہے، یہ بطور ڈائریکٹر کس حد تک کام پر اثر انداز ہوتی ہے؟ ''فلم نظم کی طرح سے سولٹری (solitary)آرٹ نہیں۔فلم میں بہت سا پیساصرف ہوتا ہے، جس کو واپس لانا ہوتا ہے۔ لیکن جب ڈائریکٹرفلم بنارہا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں فلم ہوتی ہے اور وہ صرف تخلیقی اعتبار سے درپیش الجھنوں سے نمٹ رہا ہوتا ہے۔اس وقت، اس کے ذہن میں فلم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اگر آپ فلم کے کمرشل پہلو کو ذہن میں ڈال لیں تو تخلیقی آئیڈیانہیں رہے گا۔ ''
شیام بینیگل بتاتے ہیں کہ بالی وڈ کا پھیلائوبہت زیادہ ہوگیاہے اور ادھرہر قسم کی فلم بن رہی ہے۔ معاشرتی موضوعات پر وہ سمجھتے ہیں اب بھی بہت زیادہ کام ہورہا ہے، اور ہندی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی ایسی فلمیں سامنے آرہی ہیں۔اس معاملے میں مراٹھی فلمیں ان کے خیال میں سب سے آگے ہیں۔
شیام بینیگل نے بہت سے ایسے موضوعات پرفلم بنائی ہے، جس کی طرف اوروں کی توجہ کم گئی ہے۔ایسی ہی ایک فلم تریکال ہے،جس میں گوا میں پرتگیزی اقتداراور پھراس کے زوال کے پس منظر میں کہانی آگے بڑھتی ہے۔اس فلم کے بارے میں ایک فلمی نقاد کے منہ سے نکلا یہ جملہ انہیں ہمیشہ یاد رہا ''آپ نے ایک فارن فلم کیونکر بنائی؟'' اس بیان نے انہیں خاصا حیران کیا۔کہتے ہیں''گوا کی تاریخی حیثیت ہے۔ادھر پرتگیزی1961ء تک حکمران رہے۔لوگوں کو اس خطے کے بارے میں زیادہ پتانہیں تھا۔اس فلم کو معروف بھارتی کارٹونسٹ ،ماریو مرانڈاکے آبائی گھر میں فلمایا گیا۔یہ میری غیر معروف فلموں میں سے ہے۔''
تقسیم کے بارے میں ان کی فلم ''ممو''موضوع کے اعتبار سے بہترین فلم ہے۔اس فلم کے بارے میں تو ہم نے پوچھا مگر ساتھ میں، تقسیم کے وقت کی ان کی اپنی یادوں کو جاننا چاہا تو وہ بولے''تقسیم کے وقت میری عمر ساڑھے گیارہ برس تھی۔اس زمانے کی تمام باتیں میرے ذہن میں ہیں۔تقسیم کے وقت جو فسادات ہوئے، ان سے ہم گزرے نہیں، کیونکہ ہمارا علاقہ متاثر نہیں ہوا تھا، فسادات کی خبریں البتہ سننے کو ملتی تھیں۔ فسادات میںاور تبادلہ آبادی میں لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں مرنا خوفناک تجربہ ہے، جس نے مجھے ذہنی طور پربہت متاثر کیا۔ ''ممو''حقیقی واقعہ سے مستعار ہے، جس کو میرے دوست خالد محمد نے لکھا، جنھوں نے بعد میںفلم ''زبیدہ''کی کہانی بھی لکھی۔دونوں کہانیاں سچے واقعات سے ماخوذ ہیں۔''
''ممو''دیکھ کر لگتاہے، شیام بینیگل کو فیض کے کلام سے خاصاشغف ہے۔فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی فریدہ جلال فیض کے شعر پڑھتے دکھائی دیتی ہیں۔اور ایک مقام پر اقبال بانو کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ان کا بتانا تھا کہ فیض کی شاعری سے وہ پہلے سے واقف تھے مگر صحیح معنوں میں فیض سے وہ 1993ء میں لاہور میں اپنی پہلی آمد سے متعارف ہوتے ہیں۔فیض میلے میں اقبال بانو کا کلام فیض پڑھنا انہیں مسحور کرگیا۔فیض کو اب انہوں نے ڈوب کر پڑھا، جس کی جھلک ایک سال بعد ریلیز ہونے والی فلم ''ممو'' بھی نظرآئی۔شیام بینیگل کے بقول، انہیں اپنے کام میں آزادی حاصل رہی اور صرف فلم '' نشانت ''پر تین ماہ کی پابندی عائد کی گئی۔
شیام بینیگل فلموں میں اسکرین رائٹنگ کے معاملے میں بڑی مغز ماری کرتے ہیں۔وہ خود بھی بہت اچھے اسکرین رائٹر ہیں۔ اپنی فلموں کے سلسلے میں انہیں وجے ٹنڈولکر، گریش کرناڈ، شمع زیدی اور خالد محمد ایسے ناموروں کا قلمی تعاون حاصل رہا۔شیام بینیگل کا خیال ہے کہ مسائل حل کرنے سے قبل یہ ادراک ضروری ہے کہ وہ موجود ہیں، اسٹیٹ آف ڈینائل میں رہنے سے بات نہیں بنے گی۔شیام بینیگل ان بڑوں میں سے نہیں جن کی نگاہ نئی نسل کی خامیاں تلاش کرتی پھرتی ہے بلکہ وہ ان کی فراخ دلی سے تعریف کرتے ہیں۔کہتے ہیں، نئی نسل بہت زیادہ باصلاحیت ہے۔ان کے بقول ''نئے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا اور کبھی مشکلات کا سامنا نہیں رہا۔''
سنجیدہ فلموں سے اب وہ کامیڈی فلمیں بنانے کی طرف مائل ہوئے ہیں، جس کا بہترین اظہار'' ویل کم ٹو سجن پور'' میں ہوا ہے۔'' میں نے سوچا،میرے پاس جو کہانی ہے، اس کے لیے کامیڈی فلم زیادہ بہتر رہے گی ۔''دو سال قبل اپنی کاوش "Well Done Abba" کے لیے انہوں نے اسٹائر کا فارم استعمال کیا۔ شیام بینیگل اپنے کام سے بالی وڈ میں مڈل سینماکی اصطلاح متعارف کرانے کا موجب بنے،لیکن وہ اپنے کام کے حوالے سے مڈل سینما کے بجائے نیو سینما یا متبادل سینما کی اصطلاح کو زیادہ موزوں جانتے ہیں، جن سے ان کے خیال میں زیادہ بہتر طور پران کے کام کی تفہیم ہوتی ہے۔ شیام بینگل نے ادبی کہانیوں کو بھی فلم کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ممتاز افسانہ نگارغلام عباس کی مشہور کہانی آنندی سے ''منڈی''بنی ۔
مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں انہوں نے بتایا ''بھارتی آئین پردس بھاگ کا سیریز بنا رہا ہوں۔ ہر بھاگ ایک گھنٹے کا ہوگا۔اس میں بتایا جائے گا کہ بھارتی آئین کی تشکیل میں کن کن لوگوں کا کنٹری بیوشن رہا۔کس قسم کا کنٹری بیوشن ہے۔ہمارا آئین وقت کی کسوٹی پر پورا اترا۔اس میں کافی ترامیم آئی، لیکن اس کا کیریکٹر تبدیل نہیں ہوا۔چھ سال پارلیمنٹ میں رہا تو ادھر ہی یہ خیال آیا کہ اپنے آئین کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے اور میرے خیال میں ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے۔ مستقبل میں دوفلموں کو سامنے لانے کا خیال ہے، جن کے اسکرپٹ بھی تیار ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک کا موضوع زمین پرقبضے سے متعلق ہے، دوسری فلم کا موضوع سیاسی ہے ، جس کو کامیڈی کی صورت پیش کیا جائے گا۔ ''
14دسمبر 1934ء کو حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولنے والے شیام بینیگل سے ہم نے پوچھا ''فلم سے دلچسپی تو آپ کو شروع سے تھی، تو پھرایم اے اکنامکس کا فیصلہ کیونکر کیا؟یہ بات درست ہے کہ فلم میں دلچسپی شروع سے تھی، لیکن ساتھ میں دوسرے مضامین سے بھی دلچسپی تھی۔جس علاقے تلنگانہ میں تھا، ادھر 46ء سے 50ء تک بڑی زبردست تحریک چل رہی تھی،اس کا بھی اثر ہوگا، جس کی وجہ سے اکنامکس میں اسپیشلائز کیا۔نظام کالج پہلے مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا، فروری 47ء میں اسے عثمانیہ یونیورسٹی سے جوڑا گیا۔ حیدرآباد میں فلم سوسائٹی بھی میں نے بنائی۔''
دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی نورعنایت خان کے بارے میں فلم بنانے کا منصوبہ فی الحال انہوں نے تج دیا ہے۔ ان کے بقول: ''میں نے اس پر کافی تحقیق کی۔کام کیا۔ اسکرپٹ تیار ہے۔بہت مہنگاپراجیکٹ ہے۔فنڈنگ میں کافی تکلیف رہی ہے۔اس لیے نور عنایت خان پر فلم اب میں نہیں بنائوں گا۔ایک اور بھارتی فلم میکر ظفر حئی، اب نور عنایت خان پر فلم بنانے جارہے ہیں۔''
شبانہ اعظمی کی پہلی فلم کا قصہ
میں نے کالج کے زمانے میں ایک حقیقی واقعہ سے متاثر ہوکرکہانی لکھی تھی، میری پہلی فلم '' انکور'' اسی پر مبنی ہے۔اس فلم کا خیال میرے ذہن میں بارہ سال پکتارہا۔یہ فلم میں نے تبدیلی کے استعارے کے طور پربنائی۔اس فلم میں دکنی زبان کا استعمال زیادہ ہے۔ وہ علاقہ جس میں فلم چل رہی ہو، زبان بھی ادھر کی ہونی چاہیے۔یہ تجربہ اس زمانے میں عام نہیں تھا۔اس فلم میں اداکار ہی نہیں،ٹیکنیکل اسٹاف میں بھی زیادہ ترلوگ نئے تھے۔شبانہ اعظمی کی پہلی فلم تھی ۔فلم کا ہیرو اننت ناگ بھی اسٹار بنا۔
سنا ہے شبانہ اعظمی کو آپ نے دوسری اداکارائوں کے انکار کے بعد موقع دیا؟
میں یہ کردار وحیدہ رحمان سے کرانا چاہتا تھامگر انہوں نے انکار کردیا۔دواور اداکارائوں کے راضی نہ ہونے پر شبانہ اعظمی نے یہ کردار کیا۔شبانہ نے اس زمانے میں فلم اور ٹی وی سے متعلق نیا نیا کورس کیا تھا اور وہ کام کی تلاش میں تھی۔میرے اسسٹنٹ کے والد فلم کمپنیوںکے پرڈوکشن کنٹرولرتھے اور وہ کیفی اعظمی صاحب سے واقف تھے، اس توسط سے میرا وہ اسسٹنٹ شبانہ اعظمی کو جانتا تھا۔شبانہ کو ہم نے آفردی، جو اس نے قبول کی اور کردار کو بہت اچھی طرح نبھایا۔ستیہ جیت رے نے بھی شبانہ کی اداکاری کو سراہا۔
فلم کے بارے میں ان کی رائے کیا رہی؟
فلم کے بارے میں انہوں نے زیادہ کچھ نہیںکہا۔بس یہ کہا کہ "it's a nice film"
فلم کے بارے میں میرا تصور گرودت سے مختلف تھا
گرودت میرے کزن تھے۔چوبیس پچیس برس کی عمر میں انہوں نے فلم بنائی تو میں نے سوچا کہ وہ فلم بناسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔میں نے اپنے آپ سے کہا کہ پچیس سال کی عمر میں فلم نہ بنائوں توزندگی بیکار ہے۔اس عمر میں بندہ ایسے سوچتا ہے۔ گرودت نے میری حوصلہ افزائی کی، اور مجھے اپنی پروڈکشن کمپنی میں ملازمت کی پیشکش بھی کردی، جو میں نے اس لیے قبول نہیں کی کہ میں اپنے انداز سے کام کرنا چاہتا تھا۔فلم کے بارے میں میرا تصور ان سے مختلف تھا۔فلم میں میرے آئیڈیل ستیہ جیت رہے تھے لیکن میں نے ان کا اسٹائل بھی نہیں اپنایا اور اپنے انداز سے فلمیں بنانے کی کوشش کی۔ستیہ جیت رے سے میرا بہت اچھا تعلق تھا۔میں نے ان پر ڈاکومنٹری فلم بھی بنائی۔گرودت فلم کرافٹ مین کی حیثیت سے بہت اچھے تھے لیکن ستیہ جیت رے زیادہ بڑے کرافٹس مین تھے۔ماسٹر کرافٹس مین۔یقینی طور پر ہندوستان کی تاریخ کے وہ بہترین ڈائریکٹر تھے۔
آزادی کے لیے سبھاش چندر بوس کا کنٹری بیوشن لوگوں نے کم سمجھا
سبھاش چندر بوس پر میری فلم ساڑھے تین گھنٹے کی ہے۔یہ فلم بنانے کے لیے خاصی تحقیق کی۔لکشمی سہگل سے بھی فلم کے سلسلے میں رابطہ رہا۔فلم میں کافی دلچسپ باتیں ہیں۔ہندوستان کی آزادی کے لیے بوس کا کنٹری بیوشن لوگوں نے کم سمجھا ہے۔میں نے جو کہانی فلم میں بتائی ہے ، وہ ان کی زندگی کے آخری پانچ برسوں سے تعلق رکھتی ہے۔جب وہ مکمل طور پر لیڈر بن چکے تھے۔وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے عام رخ سے ہٹ کر سوچ رہے تھے۔ان کا خیال تھا کہ پینتیس کروڑ ہندوستانیوں کوایک لاکھ سے بھی کم لوگ کنٹرول کررہے ہیں۔ یہ حکمرانی فوج کی مدد سے ہورہی ہے اور فوج زیادہ تر ہندوستانیوں پر مشتمل ہے۔ان کا خیال تھا کہ اگریہ لوگ برطانیہ کے بجائے ہندوستان سے وفاداری کا حلف اٹھائیں تو صورت حال بدل جائے۔
گاندھی جی کے جنوبی افریقہ میں گزرے ماہ وسال پرفلم
''گاندھی جی پر میری فلم فاطمہ میرکی کتاب Apprenticeship of a Mahatmaپر مبنی ہے۔فاطمہ میرافریقن نیشنل کانگریس میں کافی سرگرم تھیں۔ان کے شوہر عثمان بھی بھی خاصے متحرک تھے۔وہ جیل گئے۔منڈیلا کے وکیل بھی رہے۔گاندھی کے ساتھ ان کے خاندانی روابط تھے۔گاندھی چوبیس برس کی عمر میںجنوبی افریقہ گئے اور 45سال کی عمر تک ادھر رہے۔یہ اکیس برس بنتے ہیں۔یہ دور حیات ہر کسی کے لیے بہت اہم حیثیت رکھتاہے۔عمر کا سب سے زیادہ تخلیقی اور بارآور دور ہوتا ہے۔یہ عرصہ وہ جنوبی افریقہ میں گزارتے ہیں۔
ادھر ہی انہوں نے ہندوستان سے آزادی کے لیے حکمت عملی بنائی اور حربے سوچے ، جن کو یہاں لاکر انہوں نے کانگریس کو عوامی جماعت بنا کر تحریک چلائی۔جنوبی افریقہ میں جو عرصہ انہوں نے گزارااس کے بارے میں ہندوستان کے لوگ بھی زیادہ نہیں جانتے۔ہندوستان میں بھی گاندھی جی کا جو امیج آتا ہے، وہ بزرگانہ ہے،دھوتی پہنے ہے، پائوں میں چپل ہے، یہ وہ امیج ہے ، جو سب کے ذہن میں ہے، اس فلم میں گاندھی کے جنوبی افریقہ میں گزرے برسوں کے بارے میں معلومات سامنے لائی گئی ہیں۔''
برصغیر کی سیاست میں اقبال اور ٹیگورکا کردار
رابندر ناتھ ٹیگورشاعراور فلسفی تھے۔ان کا آزادی کے لیے کردار مثبت تھا لیکن وہ سیاست دان نہیں تھے۔اقبال کا ایک خاص قسم کا وژن تھا۔ٹیگور کا بھی ایک وژن تھاجو اقبال سے مکمل طور پر مختلف تھا۔اقبال کا وژن کسی زمانے میں تو تھا کہ سارے جہاں سے اچھاہندوستان ہمارا لیکن وقت کے ساتھ وہ تبدیل ہوئے اور انہوں نے مسلم نیشن کی بات کی ، جس کو محمد علی جناح نے بنیاد بنایا اور الگ ملک حاصل کیا۔اقبال کو پاکستان میں روحانی لیڈر کے طور پر دیکھا گیا۔ٹیگور کو ہندوستانی سیاست میں اقبال جیسا مقام نہیں ملا کیونکہ ان کا سیاست میں کردار اس طرح سے نہیں تھا۔بھارت میں اقبال کو اردو کے بڑے شاعر کے طور پر مانا گیاہے۔
ا ن کی فلم میں فن برائے فن،اور فن برائے زندگی دونوں کا امتزاج ملتاہے۔ان کے لیے رجحان ساز کا لفظ بے تامل برتا جا سکتا ہے۔ ڈائریکٹرکی حیثیت سے فلم ''انکور'' سے 1973ء میں انہوں نے کامیاب فلمی سفرکا آغاز کیا، اور پھر نشانت،منتھن اوربھومیکا کی آمد سے یہ رازآخر کھل گیا سارے زمانے پر،کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں جینئس آگیاہے۔معیار قائم کرنا اپنی جگہ اہم مگراسے برقرار رکھنا اصل جوکھم ہے، جو وہ چار عشروں سے اٹھارہے ہیں۔
مرحلہ شوق ابھی طے نہیں ہوا، نت نئے خیال سوجھتے رہتے ہیں اور 77 برس کی عمر میں بھی وہ جواں جذبوں سے سرگرم عمل ہیں۔تھکن اعصاب پرطاری دکھتی ہے نہ ہی کام پر۔فنی سفر میں اس بات پر یقین رہا کہ وہ اپنے کام سے معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے۔ معاشرتی برائیوں اور ذات پات میں جکڑے سماج کے سدھارکے لیے جس انداز سے کام انہوں نے کیا، اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ان کے فلمی نامہ اعمال میں، ایسا مال موجود ہے، جس سے معاشرے پر ان کی فلموں کے گہرے اثرات مرتب ہونے کی تائیدہوتی ہے۔ مثلاً، فلم ''منتھن'' نے بھارت میں سفید انقلاب بپا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔حال ہی میں اننقال کرجانے والے سفید انقلاب کے بانی، ڈاکٹر ورگھیس کورین کے ایما پر بننے والی یہ فلم گجرات ڈیری ایسوسی ایشن کے ممبران کے چندے سے بنائی گئی ، جس کو دیکھنے کے لیے کسان دیوانہ وار امڈے اور اسے کامیاب بنا دیا۔
اس فلم کو بھارت کی پہلی کواپریٹو فلم کہاجاتاہے۔ شیام بینیگل فلموں کے موضوعات عام زندگی سے اٹھاتے ہیں۔ زیادہ تر فلموں کی کہانی حقیقت پرمبنی ہے۔ان کی پہلی فلم اس سلسلے کی ابتدائی کڑی ہے،جس میں بیان کردہ کہانی، ان کے کانوں سنی نہیں، آنکھوں دیکھی تھی، جس کوزمانہ طالب علمی میں قلمبند کرکے رسالے میں چھپوادیا۔برسوں بعد جیسے تیسے کرکے پیسا جمع ہواتو اس خیال کو پردہ اسکرین پر پیش کردیا۔چار برس قبل بننے والی فلم، ''ویل کم ٹو سجن پور'' کا بھی یہی قصہ ہے۔دفتر میں موجود، خط لکھنے اور اسے پڑھنے سے قاصر نوجوان کو دیکھ کرہی تو انہیں اس فلم کا خیال سوجھا۔شیام بینیگل کی فنی زندگی کامیابیوں سے عبارت ہے۔ بہت سے اعزاز ان کے حصے میں آئے، جن میں پدما شری ، پدما بھوشن ، اورداداصاحب پھالکے جیسے بڑے ایوارڈزشامل ہیں۔ سات بار ان کی فلم بہترین فلم کا قومی ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ٹھہری۔وہ چھ سال راجیہ سبھا کے ممبررہے۔کمرشل سینما کا معاملہ تو اور ہے مگریہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ Parallel cinemaمیں ان کا مثیل کوئی اور ڈائریکٹر نہیں۔26 بہترین فلمیں ڈائریکٹ کرنے والے شیام بینیگل کے اس ناتمام سے تعارف کے بعد، اب ہم آپ کو اس عبقری سے ہونے والی ملاقات کی روداد سناتے ہیں۔
شیام بینیگل فیض فائونڈیشن کی دعوت پر گذشتہ دنوں لاہور آئے،،جہاں انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے آڈیٹوریم میں، ان کی چار فلموں، انکور،تریکال،ممو، اور ویل کم ٹو سجن پور کو دکھایا گیا۔یہ فلمیںلاکھوں نے دیکھی ہوں گی مگریہاںدیکھنے والوں جیسا اور کون ہوگا، کہ جن کے درمیان فلم بنانے والا نہ صرف موجود تھا بلکہ ، فلم سے پہلے اس کا تعارف کرا رہا ہے، اور ختم ہونے پر،دیکھنے والوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کاجواب دے رہا تھا۔وہ مداحوںکے نرغے میں تھے۔ ان کے ساتھ تصویربنوانے کے شوقین بھی بہتیرے تھے اور پیکج بنانے کے لیے سرگرداں الیکٹرانک میڈیاکے نمائندے بھی۔
صورتحال ایک انار سو بیمار والا نقشہ پیش کررہی تھی۔ ایسے میں شیام بینیگل کے میزبان، ہماری مدد کو آئے ، جنھوں نے ادھر ایک کمرے میں نشست کا انتظام کردیا اورسلسلہ تکلم شروع ہو گیا۔شیام بینیگل اردو سمجھ لیتے ہیں، اور تھوڑی بہت بول بھی لیتے ہیں مگر مافی الضمیر صحیح طور پر بیان کرنے کے واسطے وہ انگریزی میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کی مادری زبان کونکنی ہے۔بات وہ مختصر ،جچے تلے اوردل نشین پیرائے میں کرتے ہیں۔بات چیت آگے بڑھی تو ہم نے پوچھا کہ فلم معاشرے میں کس قدر تبدیلی کا موجب بن سکتی ہے ؟اس پر ان کا جواب تھا''فلم معاشرے کو پورے طورپرتبدیل نہیں کرسکتی مگروہ تبدیلی کا محرک ہوسکتی ہے۔فلم کے ذریعے سے instrumental change آنی چاہیے۔
ڈائریکٹر کے طور پر میرے لیے سب سے زیادہ اہم بات فلم بینوں کے ساتھ engagement ہے۔میرے خیال میں آرٹسٹ کو socially engagedہونا چاہیے۔''
اس بات کی تھوڑی وضاحت کریں گے؟ '' آپ دنیا میں دوسرے لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں۔ان سے کٹ کر نہیں رہا جاسکتا۔ان سے سماجی طور پر ربط ضبط ضروری ہے تبھی آپ فلم بنا پائیں گے۔آپ کی فلم کے مخاطب لوگ ہونا چاہئیں۔ان کی زندگی میں تبدیلی اور اسے پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔آپ کو کم ازکم پتا ہوکہ ہم کون ہیں؟ہماری تاریخ کیا ہے؟ کیونکہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں، جس میں معاشرتی اعتبار سے بہت زیادہ تنوع ہے۔بھارت میں کئی زبانیں ہیں، مذاہب ہیں، نسلی گروہ ہیں، ذات پات ہے اور بہت سے مسائل ہیں۔ان ساری باتوں سے جانکاری فلم بنانے کے لیے ضروری ہے۔فلم کا ابلاغ ضرور ہوناچاہیے۔بہتر معاشرے کے قیام کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔''
ہم نے ان سے جاننا چاہا کہ ''فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کا مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تخلیق سے دوسروں کو محظوظ کریں،مثلاً ادب میں کہانی کار جب لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں قاری کو محظوظ کرنے کا تصور نہیں ہوتا ۔فلم کے ساتھ جو اینٹرٹینمنٹ کی شرط ہے، یہ بطور ڈائریکٹر کس حد تک کام پر اثر انداز ہوتی ہے؟ ''فلم نظم کی طرح سے سولٹری (solitary)آرٹ نہیں۔فلم میں بہت سا پیساصرف ہوتا ہے، جس کو واپس لانا ہوتا ہے۔ لیکن جب ڈائریکٹرفلم بنارہا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں فلم ہوتی ہے اور وہ صرف تخلیقی اعتبار سے درپیش الجھنوں سے نمٹ رہا ہوتا ہے۔اس وقت، اس کے ذہن میں فلم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اگر آپ فلم کے کمرشل پہلو کو ذہن میں ڈال لیں تو تخلیقی آئیڈیانہیں رہے گا۔ ''
شیام بینیگل بتاتے ہیں کہ بالی وڈ کا پھیلائوبہت زیادہ ہوگیاہے اور ادھرہر قسم کی فلم بن رہی ہے۔ معاشرتی موضوعات پر وہ سمجھتے ہیں اب بھی بہت زیادہ کام ہورہا ہے، اور ہندی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی ایسی فلمیں سامنے آرہی ہیں۔اس معاملے میں مراٹھی فلمیں ان کے خیال میں سب سے آگے ہیں۔
شیام بینیگل نے بہت سے ایسے موضوعات پرفلم بنائی ہے، جس کی طرف اوروں کی توجہ کم گئی ہے۔ایسی ہی ایک فلم تریکال ہے،جس میں گوا میں پرتگیزی اقتداراور پھراس کے زوال کے پس منظر میں کہانی آگے بڑھتی ہے۔اس فلم کے بارے میں ایک فلمی نقاد کے منہ سے نکلا یہ جملہ انہیں ہمیشہ یاد رہا ''آپ نے ایک فارن فلم کیونکر بنائی؟'' اس بیان نے انہیں خاصا حیران کیا۔کہتے ہیں''گوا کی تاریخی حیثیت ہے۔ادھر پرتگیزی1961ء تک حکمران رہے۔لوگوں کو اس خطے کے بارے میں زیادہ پتانہیں تھا۔اس فلم کو معروف بھارتی کارٹونسٹ ،ماریو مرانڈاکے آبائی گھر میں فلمایا گیا۔یہ میری غیر معروف فلموں میں سے ہے۔''
تقسیم کے بارے میں ان کی فلم ''ممو''موضوع کے اعتبار سے بہترین فلم ہے۔اس فلم کے بارے میں تو ہم نے پوچھا مگر ساتھ میں، تقسیم کے وقت کی ان کی اپنی یادوں کو جاننا چاہا تو وہ بولے''تقسیم کے وقت میری عمر ساڑھے گیارہ برس تھی۔اس زمانے کی تمام باتیں میرے ذہن میں ہیں۔تقسیم کے وقت جو فسادات ہوئے، ان سے ہم گزرے نہیں، کیونکہ ہمارا علاقہ متاثر نہیں ہوا تھا، فسادات کی خبریں البتہ سننے کو ملتی تھیں۔ فسادات میںاور تبادلہ آبادی میں لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں مرنا خوفناک تجربہ ہے، جس نے مجھے ذہنی طور پربہت متاثر کیا۔ ''ممو''حقیقی واقعہ سے مستعار ہے، جس کو میرے دوست خالد محمد نے لکھا، جنھوں نے بعد میںفلم ''زبیدہ''کی کہانی بھی لکھی۔دونوں کہانیاں سچے واقعات سے ماخوذ ہیں۔''
''ممو''دیکھ کر لگتاہے، شیام بینیگل کو فیض کے کلام سے خاصاشغف ہے۔فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی فریدہ جلال فیض کے شعر پڑھتے دکھائی دیتی ہیں۔اور ایک مقام پر اقبال بانو کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ان کا بتانا تھا کہ فیض کی شاعری سے وہ پہلے سے واقف تھے مگر صحیح معنوں میں فیض سے وہ 1993ء میں لاہور میں اپنی پہلی آمد سے متعارف ہوتے ہیں۔فیض میلے میں اقبال بانو کا کلام فیض پڑھنا انہیں مسحور کرگیا۔فیض کو اب انہوں نے ڈوب کر پڑھا، جس کی جھلک ایک سال بعد ریلیز ہونے والی فلم ''ممو'' بھی نظرآئی۔شیام بینیگل کے بقول، انہیں اپنے کام میں آزادی حاصل رہی اور صرف فلم '' نشانت ''پر تین ماہ کی پابندی عائد کی گئی۔
شیام بینیگل فلموں میں اسکرین رائٹنگ کے معاملے میں بڑی مغز ماری کرتے ہیں۔وہ خود بھی بہت اچھے اسکرین رائٹر ہیں۔ اپنی فلموں کے سلسلے میں انہیں وجے ٹنڈولکر، گریش کرناڈ، شمع زیدی اور خالد محمد ایسے ناموروں کا قلمی تعاون حاصل رہا۔شیام بینیگل کا خیال ہے کہ مسائل حل کرنے سے قبل یہ ادراک ضروری ہے کہ وہ موجود ہیں، اسٹیٹ آف ڈینائل میں رہنے سے بات نہیں بنے گی۔شیام بینیگل ان بڑوں میں سے نہیں جن کی نگاہ نئی نسل کی خامیاں تلاش کرتی پھرتی ہے بلکہ وہ ان کی فراخ دلی سے تعریف کرتے ہیں۔کہتے ہیں، نئی نسل بہت زیادہ باصلاحیت ہے۔ان کے بقول ''نئے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا اور کبھی مشکلات کا سامنا نہیں رہا۔''
سنجیدہ فلموں سے اب وہ کامیڈی فلمیں بنانے کی طرف مائل ہوئے ہیں، جس کا بہترین اظہار'' ویل کم ٹو سجن پور'' میں ہوا ہے۔'' میں نے سوچا،میرے پاس جو کہانی ہے، اس کے لیے کامیڈی فلم زیادہ بہتر رہے گی ۔''دو سال قبل اپنی کاوش "Well Done Abba" کے لیے انہوں نے اسٹائر کا فارم استعمال کیا۔ شیام بینیگل اپنے کام سے بالی وڈ میں مڈل سینماکی اصطلاح متعارف کرانے کا موجب بنے،لیکن وہ اپنے کام کے حوالے سے مڈل سینما کے بجائے نیو سینما یا متبادل سینما کی اصطلاح کو زیادہ موزوں جانتے ہیں، جن سے ان کے خیال میں زیادہ بہتر طور پران کے کام کی تفہیم ہوتی ہے۔ شیام بینگل نے ادبی کہانیوں کو بھی فلم کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ممتاز افسانہ نگارغلام عباس کی مشہور کہانی آنندی سے ''منڈی''بنی ۔
مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں انہوں نے بتایا ''بھارتی آئین پردس بھاگ کا سیریز بنا رہا ہوں۔ ہر بھاگ ایک گھنٹے کا ہوگا۔اس میں بتایا جائے گا کہ بھارتی آئین کی تشکیل میں کن کن لوگوں کا کنٹری بیوشن رہا۔کس قسم کا کنٹری بیوشن ہے۔ہمارا آئین وقت کی کسوٹی پر پورا اترا۔اس میں کافی ترامیم آئی، لیکن اس کا کیریکٹر تبدیل نہیں ہوا۔چھ سال پارلیمنٹ میں رہا تو ادھر ہی یہ خیال آیا کہ اپنے آئین کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے اور میرے خیال میں ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے۔ مستقبل میں دوفلموں کو سامنے لانے کا خیال ہے، جن کے اسکرپٹ بھی تیار ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک کا موضوع زمین پرقبضے سے متعلق ہے، دوسری فلم کا موضوع سیاسی ہے ، جس کو کامیڈی کی صورت پیش کیا جائے گا۔ ''
14دسمبر 1934ء کو حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولنے والے شیام بینیگل سے ہم نے پوچھا ''فلم سے دلچسپی تو آپ کو شروع سے تھی، تو پھرایم اے اکنامکس کا فیصلہ کیونکر کیا؟یہ بات درست ہے کہ فلم میں دلچسپی شروع سے تھی، لیکن ساتھ میں دوسرے مضامین سے بھی دلچسپی تھی۔جس علاقے تلنگانہ میں تھا، ادھر 46ء سے 50ء تک بڑی زبردست تحریک چل رہی تھی،اس کا بھی اثر ہوگا، جس کی وجہ سے اکنامکس میں اسپیشلائز کیا۔نظام کالج پہلے مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا، فروری 47ء میں اسے عثمانیہ یونیورسٹی سے جوڑا گیا۔ حیدرآباد میں فلم سوسائٹی بھی میں نے بنائی۔''
دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی نورعنایت خان کے بارے میں فلم بنانے کا منصوبہ فی الحال انہوں نے تج دیا ہے۔ ان کے بقول: ''میں نے اس پر کافی تحقیق کی۔کام کیا۔ اسکرپٹ تیار ہے۔بہت مہنگاپراجیکٹ ہے۔فنڈنگ میں کافی تکلیف رہی ہے۔اس لیے نور عنایت خان پر فلم اب میں نہیں بنائوں گا۔ایک اور بھارتی فلم میکر ظفر حئی، اب نور عنایت خان پر فلم بنانے جارہے ہیں۔''
شبانہ اعظمی کی پہلی فلم کا قصہ
میں نے کالج کے زمانے میں ایک حقیقی واقعہ سے متاثر ہوکرکہانی لکھی تھی، میری پہلی فلم '' انکور'' اسی پر مبنی ہے۔اس فلم کا خیال میرے ذہن میں بارہ سال پکتارہا۔یہ فلم میں نے تبدیلی کے استعارے کے طور پربنائی۔اس فلم میں دکنی زبان کا استعمال زیادہ ہے۔ وہ علاقہ جس میں فلم چل رہی ہو، زبان بھی ادھر کی ہونی چاہیے۔یہ تجربہ اس زمانے میں عام نہیں تھا۔اس فلم میں اداکار ہی نہیں،ٹیکنیکل اسٹاف میں بھی زیادہ ترلوگ نئے تھے۔شبانہ اعظمی کی پہلی فلم تھی ۔فلم کا ہیرو اننت ناگ بھی اسٹار بنا۔
سنا ہے شبانہ اعظمی کو آپ نے دوسری اداکارائوں کے انکار کے بعد موقع دیا؟
میں یہ کردار وحیدہ رحمان سے کرانا چاہتا تھامگر انہوں نے انکار کردیا۔دواور اداکارائوں کے راضی نہ ہونے پر شبانہ اعظمی نے یہ کردار کیا۔شبانہ نے اس زمانے میں فلم اور ٹی وی سے متعلق نیا نیا کورس کیا تھا اور وہ کام کی تلاش میں تھی۔میرے اسسٹنٹ کے والد فلم کمپنیوںکے پرڈوکشن کنٹرولرتھے اور وہ کیفی اعظمی صاحب سے واقف تھے، اس توسط سے میرا وہ اسسٹنٹ شبانہ اعظمی کو جانتا تھا۔شبانہ کو ہم نے آفردی، جو اس نے قبول کی اور کردار کو بہت اچھی طرح نبھایا۔ستیہ جیت رے نے بھی شبانہ کی اداکاری کو سراہا۔
فلم کے بارے میں ان کی رائے کیا رہی؟
فلم کے بارے میں انہوں نے زیادہ کچھ نہیںکہا۔بس یہ کہا کہ "it's a nice film"
فلم کے بارے میں میرا تصور گرودت سے مختلف تھا
گرودت میرے کزن تھے۔چوبیس پچیس برس کی عمر میں انہوں نے فلم بنائی تو میں نے سوچا کہ وہ فلم بناسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔میں نے اپنے آپ سے کہا کہ پچیس سال کی عمر میں فلم نہ بنائوں توزندگی بیکار ہے۔اس عمر میں بندہ ایسے سوچتا ہے۔ گرودت نے میری حوصلہ افزائی کی، اور مجھے اپنی پروڈکشن کمپنی میں ملازمت کی پیشکش بھی کردی، جو میں نے اس لیے قبول نہیں کی کہ میں اپنے انداز سے کام کرنا چاہتا تھا۔فلم کے بارے میں میرا تصور ان سے مختلف تھا۔فلم میں میرے آئیڈیل ستیہ جیت رہے تھے لیکن میں نے ان کا اسٹائل بھی نہیں اپنایا اور اپنے انداز سے فلمیں بنانے کی کوشش کی۔ستیہ جیت رے سے میرا بہت اچھا تعلق تھا۔میں نے ان پر ڈاکومنٹری فلم بھی بنائی۔گرودت فلم کرافٹ مین کی حیثیت سے بہت اچھے تھے لیکن ستیہ جیت رے زیادہ بڑے کرافٹس مین تھے۔ماسٹر کرافٹس مین۔یقینی طور پر ہندوستان کی تاریخ کے وہ بہترین ڈائریکٹر تھے۔
آزادی کے لیے سبھاش چندر بوس کا کنٹری بیوشن لوگوں نے کم سمجھا
سبھاش چندر بوس پر میری فلم ساڑھے تین گھنٹے کی ہے۔یہ فلم بنانے کے لیے خاصی تحقیق کی۔لکشمی سہگل سے بھی فلم کے سلسلے میں رابطہ رہا۔فلم میں کافی دلچسپ باتیں ہیں۔ہندوستان کی آزادی کے لیے بوس کا کنٹری بیوشن لوگوں نے کم سمجھا ہے۔میں نے جو کہانی فلم میں بتائی ہے ، وہ ان کی زندگی کے آخری پانچ برسوں سے تعلق رکھتی ہے۔جب وہ مکمل طور پر لیڈر بن چکے تھے۔وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے عام رخ سے ہٹ کر سوچ رہے تھے۔ان کا خیال تھا کہ پینتیس کروڑ ہندوستانیوں کوایک لاکھ سے بھی کم لوگ کنٹرول کررہے ہیں۔ یہ حکمرانی فوج کی مدد سے ہورہی ہے اور فوج زیادہ تر ہندوستانیوں پر مشتمل ہے۔ان کا خیال تھا کہ اگریہ لوگ برطانیہ کے بجائے ہندوستان سے وفاداری کا حلف اٹھائیں تو صورت حال بدل جائے۔
گاندھی جی کے جنوبی افریقہ میں گزرے ماہ وسال پرفلم
''گاندھی جی پر میری فلم فاطمہ میرکی کتاب Apprenticeship of a Mahatmaپر مبنی ہے۔فاطمہ میرافریقن نیشنل کانگریس میں کافی سرگرم تھیں۔ان کے شوہر عثمان بھی بھی خاصے متحرک تھے۔وہ جیل گئے۔منڈیلا کے وکیل بھی رہے۔گاندھی کے ساتھ ان کے خاندانی روابط تھے۔گاندھی چوبیس برس کی عمر میںجنوبی افریقہ گئے اور 45سال کی عمر تک ادھر رہے۔یہ اکیس برس بنتے ہیں۔یہ دور حیات ہر کسی کے لیے بہت اہم حیثیت رکھتاہے۔عمر کا سب سے زیادہ تخلیقی اور بارآور دور ہوتا ہے۔یہ عرصہ وہ جنوبی افریقہ میں گزارتے ہیں۔
ادھر ہی انہوں نے ہندوستان سے آزادی کے لیے حکمت عملی بنائی اور حربے سوچے ، جن کو یہاں لاکر انہوں نے کانگریس کو عوامی جماعت بنا کر تحریک چلائی۔جنوبی افریقہ میں جو عرصہ انہوں نے گزارااس کے بارے میں ہندوستان کے لوگ بھی زیادہ نہیں جانتے۔ہندوستان میں بھی گاندھی جی کا جو امیج آتا ہے، وہ بزرگانہ ہے،دھوتی پہنے ہے، پائوں میں چپل ہے، یہ وہ امیج ہے ، جو سب کے ذہن میں ہے، اس فلم میں گاندھی کے جنوبی افریقہ میں گزرے برسوں کے بارے میں معلومات سامنے لائی گئی ہیں۔''
برصغیر کی سیاست میں اقبال اور ٹیگورکا کردار
رابندر ناتھ ٹیگورشاعراور فلسفی تھے۔ان کا آزادی کے لیے کردار مثبت تھا لیکن وہ سیاست دان نہیں تھے۔اقبال کا ایک خاص قسم کا وژن تھا۔ٹیگور کا بھی ایک وژن تھاجو اقبال سے مکمل طور پر مختلف تھا۔اقبال کا وژن کسی زمانے میں تو تھا کہ سارے جہاں سے اچھاہندوستان ہمارا لیکن وقت کے ساتھ وہ تبدیل ہوئے اور انہوں نے مسلم نیشن کی بات کی ، جس کو محمد علی جناح نے بنیاد بنایا اور الگ ملک حاصل کیا۔اقبال کو پاکستان میں روحانی لیڈر کے طور پر دیکھا گیا۔ٹیگور کو ہندوستانی سیاست میں اقبال جیسا مقام نہیں ملا کیونکہ ان کا سیاست میں کردار اس طرح سے نہیں تھا۔بھارت میں اقبال کو اردو کے بڑے شاعر کے طور پر مانا گیاہے۔